Monday 13 February 2012

SIYASI CRICKET by Dohra hai



     سیاسی کرکٹ  



کرکٹ ہمارا قومی کھیل نہیں ہے مگر اس کھیل میں  ۱۸ کروڑ کے ہجوم کو ایک قوم کی شکل دینے کی سحر انگیز شکتی ضرور موجود ہے۔ہماری تریسٹھ سالہ تاریخ کےچند ایک  واقعات کو چھوڑ کراگر دیکھا جاءے جتنی خوشیاں ہمیں اس گیند بلے کے کھیل سے ملی ہیں شائد ہی کہیں اور سے نصیب ہوئی ہوں۔اِک آخری گیند کے چھکے سے ہم پورے بھارت کو فتح کر بیٹھے۔ اُنیس سو بانوے، بہار کا موسم، رمضان کی اک بابرکت شام کہ جِس نے اِس بہار کو ہر پاکستانی کے لئے سدابہار کر دیا۔ اُس شام ہر پاکِستانی بعد از نمازِمغرب فتح ِ عالم کا تاج سر پر سجاءے بازاروں اور گلیوں میں ناچتا گاتا پایا گیا۔
کرکٹ کا کھیل ہمارے دِلوں کی دھڑکن ہے توسیاست ہمارے خون میں شیطان کی رفتار سے شایدایک دو قدم تیز دوڑتی پھرتی ہے۔ ۔سیاست اور کرکٹ کاآپس میں دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہے مگر دونوں کی کچھ قدروں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے ۔کرکٹ میں میچ فکس ہوتا ہے تو سیاست میں باریاں۔ ۔شائقین کرکٹ کے میدان کا رُخ چھکے چوکے دکھنے کیلئے کرتے ہیں تو سیاست کے ایوانوں میں بھی گالیوں کی دُکیوں،الزامات کے چوکوں اور نعروں کے  چھکوں سے عوام الناس کا دل لُبھایا جاتا ہے ۔اِک دور تھا کہ کرکٹ کو جنٹلمین کے کھیل کے طور پر جانا جاتا تھا مگر اب سپاٹ فکسنگ اس کی وجہ شہرت بنتی ہے۔ ماضی میں سیا ست میں بھی نیک نام شخصیات کی  بہت زیادہ کمی نہ تھی مگر اب فقط سوداگر۔۔۔
ہماری سیاست میں کرکٹ کا شوق و ذوق رکھنےوالی بہت سی  شخصیات موجود ہیں۔ جن میں سے ایک میاں صاحب ہیں۔ نواز شریف صاحب ایک بالغ نظر سیاست دان ہیں۔قوم کے احساسات، جزبات و خواہشا ت  کو بخوبی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے سیاسی اُفق پر قدم جماتے ہوءے ستارے عمران خان کو دس دس اوورز کے کرکٹ  میچ کا چیلنج دیا۔جسے عمران نے ایک بھونڈے نفسیاتی حملے کے ساتھ قبول کیا۔ "میاں صاحب میچ میں جلدی کریں یہ نہ ہو کہ میچ کے لئےآپکو ٹیم ہی نہ ملے " یہ تو میاں صاحب کا بڑا پن ہے کہ اُنہوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجاءے خاموشی اختیار کی۔ گیارہ سیاسی کرکٹرز کی ٹیم تو میاں صاحب اپنے گھر سے  ہی پوری کرسکتے ہیں۔کوئی ایک آدھ کی کمی رہ جاءے تو اُن کا کوءِی تنخواہ دار سیاسی کھلاڑی  پوری کر دےگا۔حقیقت میںتو عمران کو میچ کی جلدی کرنی چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ وہ پیڈ پہنے اپنی باری کا انتظار کرتا رہے اور میاں صاحب باری مار جاِئیں اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اگلے پنج سالہ مُقابلے تک میاں صاحب اپنے گھر کی دومضبوط ٹیمِیں میدان میں اُتاریں گے مردوں کی الگ خواتین کی الگ،بس خُدا کسی مُشرف کی نظرِبد سے محفوظ رکھے۔
دونوں ٹیمیں بظاہر برابر کی چوٹ محسوس ہوتی ہیں۔اِک ٹیم میں عابد شیر علی جیسا تیز باوءلرہے۔ جو جتنی تیز بال کراتا ہے اُتنی ہی زور دار اپیل بھی کرتا ہے۔اس ٹیم میں خواجہ آصف جیسا لیگ بریک گُگلی باِولراور انتہائ نپی تُلی باولنگ کروانے والا  آف سپنر پرویز رشید کی صورت میں موجودہیں۔جہاں احسن اقبال جیسا چاک و چوبند فیلڈر، چوہدری نثار جیسا آفریدی نُما آل راونڈر، اسحاق ڈار جیسا با صلاحیت بیٹسمین اور پھر میاں برادران کا تجربہ ہو اور جسکا بارہواں کھلاڑی خواجہ سعد رفیق جیسا محنتی کھلاڑی ہو وہ  ٹیم بھلا کیسے کمزور ہو سکتی ہے۔دوسری ٹیم بھی طاقتِ پرواز کچھ کم نہیں رکھتی اسمیںمحمود  قُریشی جیسا زیرک ،عقابی نظرسے گیند کی لاین سمجھنے والا اوپنر ہے اور پھر مرد بحران وکٹ کیپر بیٹسمین جاوید ہاشمی ،جو کِسی بھی وقت کھیل کا پانسہ بدل سکتے ہیں۔ اس ٹیم کی بیٹنگ بہت مضبوط ہے، البتہ باولنگ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ فی الحال صرف عمران خاں ہی اِک مُستند باوِءلر نظر آتے ہیں، باقی سب پارٹ ٹائم گیند باز ہیں۔ اگر دونوں کپتانوں کا موازنہ کیا جاءے تو دونوں ہم پلہ محسوس ہوتے ہیں دونوں کا ریِکاڈ بھی مِلتا جُلتا ہے۔ دونوں ہی خود کو شیر سے تشبیھ دینا پسند کرتے ہیں۔ اِک نے کرکٹ کے میدان میں اپنا لوہا پوری دُنیا میں منوایا تو دوسرے نے صنعتی میدان میں لوہا لگا کر سیاست میں بہت نام کمایا۔        
 دس اوورز کا یہ مُجوزہ معرکہ شدید گھُٹن کے ماحول میں اس قوم کے لئے اِک خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا۔ ذرا تصور کیجئے کہ اِک رنگوں بھری خوشگوارسہپہر اس معرکے کا انعقاد ہو جیسے پوری قوم اِک شاندار ہایئ ٹی سے لُطف اندوز ہو رہی ہو کہ جسمیں یہ میچ اِک چاءے کا کپ اور دستر خواں پردِل کی بھوک مِٹانے کے لئےحامد میر کے چٹ پٹےتیز مِرچی دہی بھلے ، جاوید چوہدری کی ڈرامائی چاٹ افسانے کی میٹھی چٹنی کے ساتھ، ڈاکڑ شاہد مسعود کے اِملی کے کھٹے پانی میں ڈُبکیاں لگاتے ہوءے فلسفیانہ گول گپے۔ کامران خان  کے تجزیوں میں تلے ہوئے سموسے، عزیزی کے چٹکلوں سے تیار کردہ لزیذ کھیر اور چند اینکرز کی شاطرانہ اور نابلغانہ انداز سے تیار کی ہوِیئ پیسٹریاں ۔ کیسا تاریخی دن  ہوگا وہ دن ، یہ قوم کہ  جسکے پچاس فی صد سے ذیادہ لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے جی رہے ہوں۔ جنکے گھروں میں گیس نہ آتی ہو، بجلی کی طویل بندش لوگوں کا روزگار چھین رہی ہو٫وہ اٹھارہ کروڑ عوام  اسقدرعظیم شُغل کا نظارہ کریں۔غالبا ہم اپنی زندگی میں شاید ایسے ہی  انقلاب کے خواہاں ہیں۔
میرا اِن سیاسی کرکٹرز کو مشورہ ہے کہ وہ کرکٹ ضرور کھیلیں کرکٹ کا کھیل اُن کے لئے اِک سیاسی اکیڈمی کا کردار ادا  کر سکتا ہے۔مگر دس دس یا بیس بیس اوورز کی گیم  یا ایک دِن کا میچ نہیں بلکہ پانچ روزہ کرکٹ پر اپنی تمام تر  توجہ مرکوز کریں۔ جسمیں طویل اور صبر آزما اِنگز کھیلنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ جسکے لیئے ثابت قدمی پلیننگ اور حوصلے  کی انتہائ ضرورت پڑتی ہے۔ کِسی بھی باہر جاتی ہوئ گیند کو بِلاوجہ نہِیں چھیڑا جاتا ۔ اپنی بیسک ٹیکنیک کو درست کیا جاتا ہے۔ صرف اپنی باری ہی کا مزہ نہیںملتا  بلکہ سخت دھوپ میں تمام دِن فیلڈنگ اور باولنگ کروانا پڑتی ہے۔حالات کے مُطابق درست فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔دفاع اور اٹیک دونوں کا  درست استعال کرنا پڑتا ہے،محض چوکے چھکوں کے سہارے پر ٹیسٹ کبھی نہیں جیتا جاسکتا ۔۔ٹیسٹ میچ وُہی یادگار ہوتا جو پورے پانچ دن چلے اور ٹیم وہی جیتتی ہے تو پورے وقت میچ میں سو فیصدی پرفارمنس دے ،  ۔ نمبر ون ٹیم کا تاج اُسی کے سر سجتا ہے  جسکا ریکارڈ ہر قسم کی پچ اور حالات میں  بہترین ہو۔ ہماری سیاسی ٹیموں کو بھی ہر طرح کے حالات اور پچز پر بہترسے بہتر ریزلٹ دینے کی عادت ڈالنی ہو گی اپنی پُرانی روش "ذرانم ہو یہ پچ تو بہت مال ہے ساقی " کو ترک کرنا ہوگا اِدھر اُدھر سے نمی یا امپائروں کی ہہمدردی تلاش کرنے کی بجاءے اپنی کمیوں کوتاہیوں کی بہتری پر توجہ دینی ہوگی،فقط یہی 


طریقہ ہے میچ جیتنے کا اور عوام کے دل جیتنے کا بھی۔

ایک بات خود سے بھی کرنے کو دِل چاہتا ہے کرکٹ میں کھلاڑیوں کے ریکارڈز کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔ ہم کرکٹ کے متو الے کرکٹرز کے ریکارڈز پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ جانے کب ہم سیاسی افراد کے چُناو کے دوران سابقہ ریکارڈز کی چھلنی کا استعمال کرنا سیکھیں گے۔ ہم بھی کمال لوگ ہیں کرکٹ دیکھتے ہیں اور سیاست کھیلتے ہیں۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کرکٹ کھیلنے کے لئیے گراونڈز کی کمی ہے اور سیاست سیکھنے اور کرنے کے لیئے مضبوط سیاسی اداروں کی ۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو  جمہوریت کی اہمیت کا احساس  ہوتا  چلا جا رہا ہے۔ مگر اب بھی ہماری جماعتیں چند ناموں ہی کی ملکیت ہیں۔ اس کُھلے تضاد کو فقط " توہین جمہوریت کا ارتکاب" ہی کا نام  دیا جا سکتا ہے کہ جسکا مُرتکب ہمارا پورا سیاسی نظام ہو رہا ہے۔
 کرکٹ سے ہم ایک بہت اہم سبق بھی لے سکتے ہیں۔ اگر موروثی گدی نشینی کوئ اعلی معیارہوتا۔  توآج شائد ٹنڈُلکر نہیں بلکہ  ڈان بریڈ مین کاکوئ پوتا یا نواسہ سو سنچریوں کے  سنگِ میل کو چھو رہا ہوتا۔ محلوں کی گلیوں میں پھس ُپھسی گیند سے اپنی کرکٹ شروع کرنے والے انضمام اور یوسف پاکستان کے لئے ریکارڈز نہ بناتے بلکہ رنزوں کے انبار لگانے والے تما م بلےلِٹل ماسڑ حنیف محمد کے گھرکی الماریوں میں پڑے ہوتے۔
Learn Test Cricket and Poltcs as well
                              

2 comments:

  1. wa ji wah kia tanzia chakka lagaya hay janab nay......

    ReplyDelete
  2. Nice article.. keep it up.. Nastaliq font would have been better..

    ReplyDelete