Saturday 2 April 2016

جانے کہاں گئے وہ دن


"میں ڈرتا ورتا کِسی سے نہیں " ۔کپتان میری پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے بولا اپنی  لینتھ بنا کے رکھ   اور اس درندے سے  ہر گز ڈرنا نہیں۔کلائی کے زور پر دائیں سے بائیں ہاتھ میں گیند گھماتے ہوئے میرا جواب اسی  تاریخی جُملے میں  تھا ۔ چوتھی گیند گگلی  تھی  جو بیلز چھیڑ تی  گُزری ۔ پہلی تین گیندیں باؤنڈری پار نہ کر گئی ہوتیں  تو  آج ہم  جذباتی  حرارت  سے چلتے پنکھوں  سے لُطف اُٹھا رہےہوتے۔کیا کیجئےاس تقدیر کا جِس  نے ہمارے لئے بے نامی کی خاک اور ہمارے ٹریڈ مارک جُملے کو  مُلکوں مُلکوں پھِرتی  شہرت لکھ ڈالی ۔

کھلنڈرے تو ہم  ،شائد پُشتوں سے چلے آرہے ہیں ۔ دادا آل انڈیا  گولڈ میڈلسٹ اُن کےچھوٹےبھائی پنجاب گولڈ میڈلسٹ ایتھلیٹ۔ نمایاں کامیابیوں کا یہ سلسلہ تایا، ابا اور چاچا سے ہوتا  ہوا ہم تک  تھپکیوں اور دلاسوں کی صورت ہی بچ   رہا۔دوش ہمارا بھی نہیں اِس موئی کرکٹ نے نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے  کام کے۔

کرکٹ ہمارا خاندانی کھیل ہرگِزنہ تھا مگرجذبات کے اظہار  کو نئی جہت دینے کا ذریعہ ضرور بنا۔  یہ وہ دور تھا جب دادا ابا کے ریڈیوپررواں تبصرہ سُنا جایا کرتا تھا۔ ہرکوئی آتے جاتےسکور پوچھتا جاتا اورلا ل پیلا ہوکراخلاقی حدود کےخم دیتےہوئے نت  نئے جملے سے ٹیم کو نوازتا اور چل پڑتا۔  ہم  نے کرکٹ  اور  "گولم  گول گلوچ "کی آنکھ مچولی    میں ہی آنکھ کھولی ۔ وہ جُمعہ بھی یاد ہے،جب  قبضےکےڈرسے غسل خانے میں سب سے پہلے جا گھُسا تھا میں۔یک دم سے صحن میں روائتی صلواتیں ایک کورس کی صورت نازل ہوتی محسوس ہوئیں ۔ گھبرا کر میں نے کھونٹی سے بندھی ڈوری کھینچ کر دروازہ معمولی سا سرکایا ، ایک آنکھ باہر نکال کر پوچھا "ارے کیا ہواااااا" تایا زاد نے جواب دیا "تیرے فیورٹ میانداد نے کیچ چھوڑ دیا۔ بس یہی ہوا۔" میں نے پھِر سے رسی کھینچ کر کھونٹی پر چڑہائی ہاتھ میں پکڑا ڈول واپس بالٹی میں اُنڈیلا اور دونوں ہاتھ اُٹھا کر رب سے مدد چاہی ۔ معصوم بچے کی پُکار بِنا واسطے کے سیدھی عرش  پر پہنچی ۔یاد رہے یہ وہی میچ تھا جِسکا اختتام لاسٹ بال کمنگ اپ فور رنز ریکوائرڈ پر ہوا تھا۔بس پھِر کیا تھا روٹھی ہوئی فتح ایسی مانی کہ ہم لوگ ہرزہ سرائی کرنا ہی بھول گئے۔ 


ہماری  مماں کو چھپکلی سے ایسی کراہت آتی  کہ نظر پڑتے ہی چیخ مارتیں اور  کرکٹ  سے ایسی الرجی  کہ نام  سُنتے ہی   ہمیں مارتی تھیں۔ ٹی وی پر میچ دیکھنے کی اجازت  پر سو درخواستوں میں سےایک کا جواب ملتا تھا وہ بھی انکارمیں ۔خوش نصیبی تھی ہماری،1987 کے مارچ میں ہم لاہور نانکے گھرچھٹیاں منا رہے تھے انہی دنوں پاک بھارت سیریزبھی جاری تھی ۔ مکمل آزادی اورسکون سے وہ میچز ہم نے نانا ابا کے ساتھ بیٹھ کرٹی وی پردیکھے۔ مذہبی  اینڈ سے خیرو برکت کا سپیل کرواتے رہنے  کی ذمہ داری ہم نے نانی اماں کو سونپ رکھی تھی ۔ وہ بتائے گئے کھلاڑی کا نام لے کر آئت الکرسی  پڑ ھ پڑھ پھونکتی  جاتیں اورکھیلنے والے   کا بلا رنز اُگلتا جاتا ۔ آخری   ٹیسٹ تک   پہنچتے    پہنچتے تو ہماری نانی بھی اس کھیل میں دلچسپی لینے لگی تھیں ۔
بنگلورکی پِچ تو شائد  کشمیر میں استعمال ہوتے بارود سے تیار کی گئی تھی۔تین دِنوں میں ہی کھیل کی آخری اننگز چل پڑی تھی ۔ کم بخت چوتھا دن کھلاڑیوں کےآرام کا  ہو ا کرتا تھا ۔ اُن کےاُس دن کےآرام نے ہمارا جینا حرام کئے رکھا ۔ تمام دن گھڑی کی سوئی ہماری اُئی اُئی کراتی  چلتی رہی ۔اگلے دن  میچ کے آغاز پرہی نانی اماں ٹی وی پر دم درود پھونکتی ہوئی کہتی جاتیں " یا اللہ ہمارا  بِلا دشمن کا ہر کیچ پکڑ لے  آمین  " ہمار ا  بلا"   سلیم یوسف تھے جو وِکٹوں سے ایسے جُڑے بیٹھے تھے جیسے شکار کے انتظار میں بِلا بیٹھا ہو۔ دُعائیں رنگ لا رہی تھیں مگرسُنیل گواسکر بڑی ڈھٹائی سے   جیت کی ہماری آرزو  کورنز کی دیوار میں چُنتے چلے  جا رہے تھے ۔اُدھر بلیک  اینڈ وائٹ وردی والے امپائروں کی اُنگلیاں کالی ماتا نے پتھر کی بنا رکھی تھیں ۔اللہ کے حکم سے بندشوں کا توڑ ہوتا گیا ، بند قفل کھُلتے گئے اور پھردلوں کی دھڑکنیں تیزہوتی چلی گئیں ۔نواں کھلاڑی آؤٹ ہونے کے فوراً بعد راجر بنی نے توصیف کوچھکا لگا دیا، ہمارے دِل نے تو جیسے مزید دھڑکنے سے ہی معذرت کر لی ۔ آخر کار نانی کی   دُعا  قبول ہوئی   اور ہمارے بِلے نے راجر بنی کا کیچ پکڑ کریہ اعصابی جنگ  سولہ رنز سے اپنے نام کر لی

  ورلڈ کپ 1987 ، وہ پہلا موقع تھا جب تمام ٹیموں کے میچز ہمیں ٹی وی پربراہ راست دیکھنے کو ملے، کُل مِلا کے ستائس میچ تھے۔گھر پرعائد پابندیوں کا توڑ ہم نے یہ نکالا کہ بہت سے میچز بی جی (پرنانی ) کے گھر دیکھنے چلے جاتے۔ ہم سکول سے سیدھا بی جی کےگھر  پہنچ جاتے۔ ہمارے  پہنچنے سے چند منٹ پہلے مُلازم دروازہ کھول دیا کرتا تھا۔ اک لمبی سی گلی تھی جِسمیں داخل ہونے پر اناراور امرود کادرخت جھُک کر آنے والے کا  استقبال کر تے ۔ یہ پتلی گلی وسیع صحن میں لے جاتی تھی، جسکے بائیں  ہاتھ کیاریوں میں لگی موسمی سبزیاں جن پر  بانس کے فریم کا سہارا لئے  انگور کی بیل چھت بنائے ہوئےتھی ۔صحن کے دائیں طرف برآمدہ تھا، جِسمیں میں رکھا قدم لال فرش پر پڑتا۔رتا لال ،چمکتا  ہوا شیشہ ، چہرہ دیکھنا کیا پڑہنا بھی مُمکن ہو جیسے۔  ملازمین کو دن میں تین بار پوچا لگانے کے احکامات سختی سے جاری کئے گئے تھے۔پوچا لگنے کے دوران مکمل طور پر کرفیو لگ جایا کرتا، خلاف ورزی کرنے و الا بی جی کے خوف سے ہی مرجایا کرتا تھا۔ بس وردی کی ہی کمی تھی ورنہ کِسی مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر سے کم نہ تھیں ہماری بی جی ۔وہ کرکٹ  کی اتنی  شائق تھیں کہ میچ  والے دن ٹی وی اُن کے پلنگ کے بالکل ساتھ جُڑا ہوتا تھا۔پاکستان کے میچ کی تو بات ہی الگ ہے۔ جیسے ہی ٹیم پر مُشکلات کے بادل چھاتے بی جی کے دونوں ہاتھوں کی گرفت تسبیح پر مضبو ط ہوجاتی ۔ مخالف ٹیم کی بیٹنگ کے دوران ہرکھلاڑی کے آؤٹ ہونےپر وہ نوافل کی منت مانگتیں ، دو ، چار ،چھے یا آٹھ؟؟ ؟ تعداد  کھلاڑی کے سابقہ ریکارڈ سے مشروط ہوا کرتی تھی۔بی جی میچ کے دوران میری نان سٹاپ رننگ کمنٹری بھی  بڑے شوق سے سُنا کرتی تھیں۔انہیں کے ہاں دیکھا  پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ جس میں عبدلقادر نے سیکنڈ لاسٹ بال پرچھکا لگا کر میچ  کا پانسا بدلا تھا ۔ ہار کرگراؤنڈ میں لیٹے ویوین رچررڈزجیسے فولادی انسان کی آنکھوں میں تہرتے آنسو بھلانا آج بھی مُشکل ہے ۔ بڑی  روائت پسند ، زندہ دِل اور نہائت وضع دارخاتون تھیں ہماری بی جی ۔ گھرواپسی پر مُجھے ایک روپیہ ملا کرتا تھا۔  یہی دستور تھا بی جی کا ، وہ اپنے بچوں کے ہاتھ پر ہمیشہ  کُچھ رکھ کرہی رُخصت کیا کرتی تھیں ۔

اِس ورلڈ کپ میں ایک میچ ہمارے شہر فیصل آباد میں بھی ہوا۔ آج بھی دِل سے دُعا نکلتی ہے اپنے اُس دوست کے لئے جو لنچ ٹائم پر اپنے بڑے بھائی سے بہانہ کئے اسٹیڈیم سے نکلا اور سیدھا ہمارے گھرآپہنچا۔ ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا "لے پکڑاور جا کر لےاپنا  شوق دیدار پورا"۔ بس ٹکٹ  کا ہاتھ میں آنا تھا، میں نے دائیں دیکھا  نہ بائیں سیدھا اقبال اسٹیڈیم  پہنچ کر ہی اپنی چھوٹی سی سائکلی کی بریک لگائی ۔ اسٹیڈیم کا منظر میر ے تصورات سے یکسر مختلف نکلا، ا ندرجانےکو ہوتی دھکم پیل  دیکھ کردل ڈوبنے سا لگا۔ ایک پولیس والا چلا یا  " مُنہ چُکدے نیں تے آجاندے میچ ویکھن سارے شہر دے مفت خورے"۔ اصل پریشانی  یہ تھی کہ  یہاں پہنچنے سے پہلے میرے مفُت خورے ہونے کی مخبری ہوئی پڑی تھی ۔میں نے اللہ کا نام لیکر حالات کا مُقابلہ کرنے کی ٹھانی اوراپنی جگہ پرقدم جمائے رکھے۔ پولیس کی لاٹھی اندھی تو ہوتی ہے مگر بے آواز ہر گِز نہیں ، یہی سبق لئے لنگڑاتے ہوئے گھرکی راہ لینی پڑی۔ گراؤنڈ کے باہرجو میرے ساتھ ہوئی اُس سے کہیں بڑھ کر سلوک ہماری ٹیم نے معصوم سری لنکنز کے ساتھ  کیا۔۔اُس دور میں پولیس کی مار کھانے کی نسبت تین سو رنز کھالینے کے طعنے سُننا  زیادہ  ذلت آمیز ہوا کرتا تھا۔ تین سو سے بس تین ہی رنز کم بنائے تھے  ہماری ٹیم نے ۔ 113 رنز سے ملی اس جیت پر اتراتے ہوئے ہمارے کِسی کھلاڑی نے سری لنکا کی ٹیم کے بارے میں  حقارت بھرے الفاظ بول دئے ۔  پھر کیا تھا ہمارے گلے خُشک ہوگئے آنکھوں سے پانی بہہ نِکلا مگر خُدا نے ہماری گریہ زاری نہ سُنی اور ورلڈ کپ سیمی فائنل کے 18 رنز ہم سے نہ بن پائے ۔اللہ  بڑے بول کو پسند نہیں فرماتا ۔ اِسی بڑے بول کی وجہ سے ہماری ٹیم  سیمی فائنل سمیت  مسلسل اگلے نو میچ ہاری تھی۔اُس سیمی فائنل کی ہار پرتو تکلیف سے ہمار ے کلیجے  کٹ ہی جاتے مگر اللہ نے فرنگیوں کو فرشتہ بنا کر بھیجا ۔ بھارت دوسرا سیمی فائنل فرنگیوں سے ہارا تو ہمارے سینوں میں ٹھنڈ پڑ گئی۔

بی جی 1990  اکتوبر میں اللہ  کو پیاری ہوگئیں    ، 1992 میں  زندہ ہوتیں تو یقنا اپنی بیٹی اور اُن کی اولادوں کے ساتھ کرکٹ کی سب سے بڑی خوشی مناتیں۔ ہماری نانی اماں کا
    کرکٹ سے لگاؤ بڑھتا گیا،وہ اخبارمیں کرکٹ کی خبریں، تبصرے اور تجزئے باقائدگی سے پڑہنے لگیں۔1996 میں ہم نے مِلکر  ٹیم کا ایک کمبی نیشن تیار کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میانداد کو اپنی اوریجنل پوزیشن  ٹو ڈاؤن پربھیجا جانا چاہئے۔ مگر نانی اماں نے تو میانداد کی پلئنگ الیون میں جگہ  پرہی سوالیہ نشان لگا دیا۔ اُن کے خیال میں میانداد  اب  رن ریٹ کو ساتھ لے کر چلنے کے قابل نہیں رہا ۔ اُس کی ٹھُک ٹھُک سےلوور مِڈل آرڈر پرپریشر بنتا جاتا ہے۔ انڈیا پاکستان  ہوئے میچ کے دوران ہمارے ٹی وی لاونج میں ایسا ہی تناؤ رہا جیسا ہارتی ہوئی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں ہوا کرتا ہے ۔وہ تو بہت سالوں بعد میں سمجھ پایا کہ نانی اماں کی کرکٹنگ سینس مُجھ سے اِتنی ہی بہتر ہے جِتنی دھونی کی  کپتانی  آفریدی سے۔