Saturday 28 July 2012

سیٹھ کامران کے سانپ


چپڑاسی نے مُجھے کمرے مییں جانے کا اشارہ کیا ۔ یہ ایک اچھے خاصے سائز کا آفس تھا جِسکا انیٹیئر  پُرانے سامان اور گلی سڑی فائلوں کی کژت کے سبب کسی سرکاری دفتر کا سا منظر پیش کر رہا تھا ۔ میں نے کالی رنگت اور درمیانے سے قد کا ٹھ کے  کمزور سی جسامت والے شخص  کو  بڑی سی ریوالونگ چئیر پر بیٹھے پایا ۔  اِس کے  چہرے پر چیچک کے کے  ہلکے ہلکے داغ تھے گالیں اندر کو  دھنسی ہوئی   تھیں   کالے ہونٹ کثرتِ سِگریٹ  نوشی کی علامت تھے  ۔ اُس کے  سوکھے ہوئے چہرے پر بڑی بڑی  چمکتی ہوئی زندگی سے بھرپور آنکھیں ،ایسے  ہی   غیر فطری سی محسوس ہوتی تھیں جیسے کِسی دشت  میں  کانٹوں  سےبھرے  ایک سوکھے درخت پر تازہ پھل۔ اُس نے مُجھے  سر کی ہلکی سی جُنبش سے  بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔وہ مُجھ سے  قریباً پندرہ مِنٹ تک بے تُکے سے سوال کرتا رہا اور پھر   میرے  دائیں ہاتھ میں  قبولیت کی سند تھماتے ہوئے  بولا تُم کل سے آفس جائین کر سکتے ہو۔ یہ میرے کیرئیر کا پہلا انٹرویو  اور پہلی ہی سلیکشن تھی۔انٹرویو لینے 
والا شخص کامیاب بِلڈرز کا مالک  سیٹھ کامران تھا۔
وہ انگوٹھا  چھاپ تھا ۔ مگر حکمت اور مردم شناسی کی صفات  اُس کا خاصہ تھیں وہ ہر بندے کو پہلی ہی نظر میں پڑھ لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔نبض چھوئے بغیر ہی  
وہ  بندے کے  اندرونی اور بیرونی  جمُلہ امراض کی تشخیص کر لیا کرتا تھا اور   پھر ہر ایک کی ضرورت کے مطابق خود کے تیار کردہ حکیم لُقمانہ  کیپسولز کی ایسی ڈوز دیتا کہ بندہ اُس کا گرویدہ ہوئے بغیر رہ نہ پاتا ۔  وہ اپنے کاریگروں اور مزدورں کو بھی اپنے سحرمیں جکڑے رکھتا تھا۔غُصہ سیٹھ کامران کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ البتہ وہ  اپنے مزدوروں پر  رُعب قائم رکھنے کے لئے  خود پر غُصہ طاری کئے رہتا تھا۔وہ اپنے تمام مُلازمین کو  بیٹا جی کہ کر بُلاتا تھا ۔ وہ اپنے ان بیٹوں کو  شیر کی نظر سے دیکھتا تھا   یہ الگ بات ہے کہ  سونے کا چمچہ فقظ اُسکی  اپنی اصل اولاد کے لئے ہی مُختص تھا۔اُسے مِلنے کِسی سرکاری دفتر کا  چپڑاسی آئے یا کوئی بیسویں گریڈ کا افسر وہ دونوں کو ایک جیسی عزت دیتا تھا۔مگر آنے والے سے بات اُسکے مزاج  اورحیثیت کے مطابق کرتا تھا۔بڑی پوزیشنوں پر بیٹھے افسران کی "خِدمت " کرنے اور اُن کا دِل جیت لینے میں تو اُسے "ملکہ شراوت " حاصل تھی۔وہ اپنا  ماضی  نہیں بھولا تھا اور نہ ہی یہ بتانے میں وہ کوئی  عا ر محسوس کرتاکہ وہ ایک معمولی مزدور سے ترقی کرتا  کرتا کنسٹرکشن کمپنی کا مالک بنا ہے ۔ وہ  اکثر اُس سرد رات کا ذِکر کرتا  ۔سردیوں کی وہ   طویل رات  اور بارش میں ٹپکتی کمرے  کی  جستی چادر کی چھت،  صُبح تک وہ  اُسکی گھر والی اور بیٹی تینوں کو ہی شدید بُخار نے آلیا ۔ جبکہ کامی مزدور  کی جیب میں ناشتے تک کے لئےبھی  پیسے نہیں تھے  ۔۔۔۔  اپنی زِندگی کا  کبھی نہ بھولنے والا واقع بتاتے ہوئے غمی اور فخر کے مِلے جُلے جذبات اُسکی آنکھوں سے عیاں ہوتے تھے


سیٹھ کامران نے ایک بار مُجھ سے کہا کہ پاکستان پر اللہ کا بہت احسان ہےا ِس مُلک میں ترقی کے راستے بہت ہیں مگر ہر راستے کے دروازے پر تالا  لگا ہوا ہے اور ایک زیریلا سانپ کُنڈلی مارے دروازے پر بیٹھا ہے اور دروازے کی چابی سانپ کی کُنڈلی میں پڑی ہے۔  لوگ ترقی کرنا چاہتے ہیں  مگر سانپوں کے خوف سے اُن کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ یہ دودھ پینے والے سانپ ہیں اِن کو دودھ پِلا کر اِن سے دوستی کی جائے تو چابی تک رسائی مُمکن ہے۔ اُن دِنوں میں اِنقلابی خیالات سے بھرا ہوا ایک چھوکرا ہوا کرتا  تھا۔ سیٹھ کامران سے سوال کر بیٹھا " اگر  اِن سانپوں کو مار دیا جائے؟" اُس کا جواب تھا ۔ "نہ بیٹا جی نہ  اِنا ں نو مارنا نیئں  ، اے سپاں دا بڑا خطرناک قبیلہ جے" اُس کے خیال میں اگر آپ کسی ایک سانپ کو مارو گے تو  سانپوں کا یہ خطرناک قبیلہ آپ کی سات پُشتوں سے اِنتقام لے گا۔ میں سیٹھ کامران کی یہ باتیں بالکُل بھی نہ سمجھ پایا ۔ میں نے تقریبا تین سال بعد سیٹھ کی نوکری چھوڑ دی  ۔ اِن تین سالوں میں سیٹھ کی  کمپنی کا گراف مزید اوپر کی طرف گیا۔ بہت سے  نئے پراجیکٹس  پر کام شروع ہوا  اور آفس کی ظاہر حالت اور حجم میں بھی خاطر خوا ہ اِضافہ دیکھا گیا۔


  ملک ریاض کی کہانی   بھی کُچھ  ردوبدل کے ساتھ اِسی قسم کی محسوس ہوتی ہے۔ ملک ریاض  کے مُتعلق کوئی تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں ہے ملک ریاض پر بہت کُچھ لِکھا جا چُکا ہے  سید طلعت حُسین  سے لیکر  محترم جاوید چوہدری صاحب   تک بہت سے قلمکاروں نےاپنے قلم سے ملک ریاض کےمُختلف شیڈز  کو  اُجاگر کیا ہے ۔ جنکی روشنی میں اُسکی زِندگی کی پرتوں کو سمجھنا کوئی مُشکل کام نہیں رہا۔ملک ریاض کے مُتعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی فائلوں کو  ٹائیر لگا کر چلاتا ہے۔ اگر ملک ریاض کی ترقی کی رفتار پر نظر دوڑائی جائے تو  یوں محسوس ہوگا کہ ملک ریاض "انجینئر "اپنی فائلوں کو"    خود" کا تیار کردہ   مِنی جیٹ اِنجن لگادیتا تھا     جس سے  کام کی رفتار میں سینکڑوں گُناہ اِضافہ ہوجاتا تھا۔میٹرک میں تین  سو تیتیس نمبر لینے والے اس  بند ے نے  جو کام کیا بے مثال کیا ۔ اگر دیکھا جائے تو ملک  ریاض  نے سِکہ رائج الوقت حاصل کرنے کے لئے   طریقہ رائج الوقت ہی استعمال کیا ۔ اُس نے  اِس طرز میں جدید  سائنسی  اُصول مُتعارف کروائے۔ ملک ریاض نے بھی سانپو ں سے  دوستی کی اُن کو دودھ پِلایا ۔ اُسکے اندر کی پیاس نے اُسے مزید آگے  دھکا دیا یہاں تک کہ وہ بڑہتا  بڑہتا ان سانپوں کے سرداروں  تک جا پہنچا ۔سانپوں سے دوستی کا یہ کھیل  اُسے مزہ دینے  لگا   ، اور بات یہاں تک پہنچی کہ وہ سانپوں اور  سپیروں کا بیوپاری بن بیٹھا۔ مگر ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔وِڈیو۔۔۔۔۔

آج ہر محبِ وطن   ملک ریا ض    اور اُس کے افعال پر لعن طعن کرنے کو کلمہ حق     گردانتا ہے۔ ایک بات  یاد رکھنے کی ہے کہ کلمہ حق محظ ایک مُردہ عمل کے سوا کُچھ نہیں ہوتا جب تک کہ راہ حق سےآشنائی نہ ہو  اور  اس سے  سنگت نہ کی جائے۔ یہ  راستہ  بہت پتھریلا  اور خُشک ہے  ۔ اس راستے پر پاوں زخمی ہوتے ہیں ۔پیاس انسان کے   صبر کا کڑا امتحان لیتی ہے ۔ جگہ جگہ زہریلے  سانپوں سے مُقابلہ کرنا پڑتا ہے یہ  سانپ متلاشگانِ حق کے ازلی دُشمن ہوتے  ہیں۔ منزل جِتنی خوبصورت ہے  اُتنا ہی  سفر کٹھن ہے۔  مگر یہ  سفر کلمہ حق  کے مردہ عمل کو زندگی  عطا کرتا ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے عملوں کی جانچ پڑتا ل کی ضرورت ہے ۔ خود کا محاسبہ شائد ہمارے مُردہ عملوں میں روح بھرنےکا ذریعہ بن جائے۔ہمیں  اپنی جیبوں کی تلاشی لینی ہو گی جِن میں ہم  وہی ٹائر ہر وقت  ریڈی  رکھتے ہیں جو ملک ریاض استعمال کرتا رہا ہے۔ ہم ٹریفک قانون کو توڑ کر اِنہی ٹائروں میں اپنی غلطی چھُپانے کی کوشش کرتے ہیں۔  ٹریفک لائسنس حاصل کرنے  کے لئے قانونی طریقہ کار کو  پس پُشت ڈال کر  اپنی جیبوں میں موجود ٹائروں  سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ پاسپورٹ کےحصول میں لمبی لائن دیکھ کرہم دوسروں کا حق مارتے ہوئے یہی ٹائیر  استعمال کرتے ہیں ۔ ہمیں  محکمہ مال سے واسطہ پڑ جائے یا ہم نے اپنا  اِنکم ٹیکس/پراپرٹی ٹیکس ادا کرنا ہو،  کسی پٹواری سے  فرد کے حصول   کا معاملہ ہو یا  بجِلی گیس کے میٹر کا مسئلہ  ہر معاملے  میں ہم سانپوں کو دودھ پِلاتے ہیں ۔ اپنے دِل کو محظ   اِس کمزور دِلیل سے تسلی دیتے ہیں" اِس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے"۔   حد تو یہ ہے کہ   ووٹ  دیتے وقت بھی ہم اُمیدواران  کی گاڑیوں پر نظر دوڑاتے ہیں اور جِسکی گاڑی کے ٹائر بڑے ہوں اُسے مُنتخب کر لیتے ہیں۔ ہمیں اپنی جیبوں سے تمام ٹائیر نِکالنے ہوں گےاُنہیں شہرکے بڑے سے چوک میں رکھ کر  آگ لگانی  ہوگی ۔اِس  دھوئیں سے اوزون کی تہہ کو ہر گِز کوئی نُقصان نہیں ہو گا مگر ہمارے دِلوں پر  چڑہی ہوئی  سیاہی ضرور دُھل  جائے گی۔ ہمیں  راہ حق پر ایک  ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک لشکر کی صورت میں پیش قدمی کی ضرورت ہے ۔  اِن  سانپوں   کے پورے  قبیلے کو گھیرے میں لیکر اِن  کا قلع قمع  کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو یہ سِسٹم یوں ہی چلتا رہے گا۔ آج ایک ملک ریاض ہے کل کوئی اور ہوگا  اسی رول میں کِسی  اور شکل اورنام کے ساتھ ۔ ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی سِسٹم میں جی رہی ہوں گی ۔ پاکستان میں بڑے ٹاونز ،بڑی روڈز اور  ملٹی سٹوری بِلڈنگز بنیں گی  ۔  ہر ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے خُداسے اُس کے ملک رِیاض جیسا بننے کی دُعا کرے گی۔ ہر باپ اپنے بچے کو دروازے پر بیٹھےکُنڈلی مارے سانپ کے روپ میں دیکھنا چاہے گا۔ میرے جیسا غبی ، کم عقل اور حالات کی نزاکت کو نہ سجھنےوالا ، لنڈے کی جینز اور ٹی شرٹ پہنے کِسی بڑی سڑک  جِس کے  دونوں طرف ملٹی سٹوری بِلڈنگز   قطار بنائے ہوں گی ، کے فُٹ پاتھ  پر لگے بنچ  پر بیٹھا    شوں شوں کرتی نئی گاڑیوں پر سر سری سی نِگا ہ کرتے ہوئے  اِنسانیت   کے  دُنیا سے رُخصت ہونے پر نوحہ لِکھنے کی ایک ناکام سی کوشش کر رہا ہوگا ۔