Wednesday 6 May 2015

سائنس اور آرٹ


کوئی دس بارہ سال پُرانی بات ہے ایک تھکا دینے والے سفر کے بعد لاہور سٹیشن پر اُترا ،گھر تک کا سفر آگ کا دریا معلوم ہونے لگا ۔ جون کی جھلسا دینے والی   لو  نے تو قدم اُٹھانے کی ہِمت ہی چھین لی تھی ۔ تینتیش نمبر ویگن تک پہنچتے پہنچتےگرم ہوا شعلہ بننے کو تھی ۔بھری ویگن تو  جیسے میرے ہی انتظار میں سورج کےغضب سے لڑتی ،چلنے کو تیار کھڑی تھی ۔ نیم بیہوشی کی سی کیفیت میں ایک صاحب نے ہاتھ کا سہارا دیتے ہوئے اپنے ساتھ خالی سیٹ پر بِٹھا لیا۔ مُسکراتا چہرہ ،زبان کی مِٹھاس آنکھ کان کو ایسی بھلی لگی جیسے شدید گرمی میں ٹھنڈا ،شربت کا گِلاس ۔
 محترم کا ساتھ اگلے دو سٹاپ تک نصیب ہوا اس دوران میں اُن کی میٹھی باتوں سے محظوظ  ہوتا رہا۔ میں اُنہیں آج تک یاد رکھے ہوئے ہوں۔ بھولوں بھی کیسے بِن موسم کے آئی چند لمحوں کی بہار ،جِس کے جاتے ہی ایسی بیقراری کہ خُدا کی پناہ ، مُجھے تر نوالہ بنائے وہ صاحب بٹوہ لے اُڑے تھے۔
آرٹ ہے جناب بہت بڑا آرٹ ہے ،کِسی کو لوٹنا اور اس پیار سے لوٹنا کہ لُٹنے والا گالی دینا بھی بھول جائے ۔ انِسانی نفسیات کی سائنس کا اُستاد اور ہاتھ کی صفائی میں کمال مہارت ۔سائنس اور 
 آرٹس کا اِس سے بہتر امتزاج شائد ہمارے سیاست دانوں کے ہاں ہی  مُمکن ہے 

الیکشن لڑنا بھی ایک سائنس  ہے اور دھاندلی ایک آرٹ۔ ہمارا سیاسی نظام ایسی مثالوں سے بھر ا ہوا ہے ۔ فرق مواقع مِلنے کا ہے ورنہ کاریگری ایک سی۔ جیب کترا بھی دو اُنگلیوں کا اِستعمال ہی تو کرتا ہے ۔ وہ کِسی کی جیب میں ڈال کر لوٹتا ہے تو سیاست دان اِنہی اُنگلیوں سے وِکٹری کا نِشان بنائے یہی کام بڑے پیمانے پر کر جاتا ہے