Saturday 24 March 2012

JOO TUM NAI KAHA FAIZ NAI JOO FARMAYA HAI by Dohra Hai


 میںبہت دیر سے کِسی گہری سوچ میں گُم گھر کی بالکنی میں کھڑا  تھا اتنی گہری کہ،  ڈوبنے کا خوف محسوس ہونے  لگا بس وہیں سے میں نے واپسی کی راہ لی اور کُچھ لکھنے لکھانے کا موڈ بنا کرسٹڈی ٹیبل پر آبیٹھا ۔ میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور مُکمل توجہ کاغذ قلم پر مرکوز کرنے کی ٹھانی ابھی غالباًَ دوسری سطر بھی مُکمل نہ ہونے پائی کہ میز پر اِک کھٹکا ہوا ۔میں نے نظریں اُٹھائیں تو ٹیبل کی دوسری طرف ایک دراز قد شخص ٹانگ پر ٹانگ چڑہائےکُرسی پر بیٹھا نظر آیا۔اُس کا ایک ہاتھ کُرسی کی ٹیک کے پیچھے تھا تو دوسرا میز پر اپنی اُنگلیوں سے کھیلتا ہوا ۔وہ خاکی ٹی شرٹ اور جینز پینٹ پہنے ہوئے تھا۔ اُس کا رنگ ہلکی آنچ پر بھُنے ہوءے گندم کے دانوں کی مانند تھا مُنہ بھرا ہوا ،چوڑے شانے، اور موٹے ہونٹ ۔ اُس کی بڑی مونچھیں اوپر کے ہونٹوں کو چھُپائے ہوئے تھیں۔ اُس کی کالی آنکھوں میں بلا کا اعتماد تھا۔وہ  روب دار بھاری آواز میںمُجھ سے مُخاطب ہوا۔ کیا لکھ رہے ہو اور کیوں۔اُس کا اس طرح سے سوال پوچھنا مُجھے بہت بُرا لگا ۔کُچھ توقف کے بعد میں نے  جواب دیا سیاسی حالات پر ایک آرٹیکل لکھ رہا ہوں اور جہاں تک کیوں کی بات ہے تو میں قلم سے جہاد کرنے کا قائل ہوں۔ میرا یہ جواب سُن کر وہ کھِلکھِلا کر ہنس پڑا جیسے کِسی ننھے بچے کی معصوم سی بڑھک سُنی ہو ۔ کُچھ دیر قہقہے لگانے کے بعد وہ یکدم سنجیدہ ہوکر بولا۔کیا جہاد کرو گے اور کِس سے۔ کِتنے لوگ تُمہیں پڑہیں گے پچاس ، سو دویا دوسو اُن میں سے بھی اکثریت کالم ختم ہونے سے پہلے بھُلا کر آگے چل پڑے گی۔ اور اِدھر تُم خود کو۔۔۔۔۔۔ اُسکی بات سُن کرمیں لاجواب ہو گیا اور نظریں جھُکائے دل ہی دل میںشرمندگی محسوس کرنے لگا۔اپنی شرمساری چھپاتے ہوئے میں نے کہا کہ لکھنا ایک اچھا مشغلہ ہے  اور یوں خود کا کتھارسز بھی ہوجاتا ہے۔میری بات مُکمل ہو نے سے پہلے ہی اُس نے سوال کر ڈالا اُس سے کیا تُمہارا اور تُمہارے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔میں نے نظریں اُٹھائے بغیر نفی میں سر ہلا دیا۔

وہ کُچھ دیر مُجھ پر نظریں جمائے،  خاموش رہا اور پھر گویا ہوا۔ تُم ایک پرائیویٹ ادارے میں اِک بے توقیری کی نوکری کررہے ہو، تُمہاری تنخواہ کے دو حصے کرائے میں، ایک حصہ بلوں میں جاتا ہے اور باقی ایک حصے سے تم اپنا کچن اور دیگر ضرویات کھینچ تان کر پوری کرتے ہو۔ تیس دِن کا یہ سرکل مانگ تانگ کر ہی مُکمل ہوتا ہے۔ ابھی تو تمہارے بچے چھوٹے ہیں اُنکی سکولنگ کا  اِک بنیادی بوجھ بھی تُم پر نہیں پڑا ہے۔ اُس کی رعب دار آواز میں بتدریج اِک گرج پیدا ہوتی گئی۔ میں اُسکی اس تقریر کے دوران مُکمل خاموشی اختیار کئے رہا۔ اُسنے مزید کہا ۔تمہارے بچے بھی مہنگے ترین سکولوں میں پڑھ سکتے ہیں اچھی انگریزی بول سکتے ہیں، آج کی دُنیا کی تمام آسا ئشیں جو کہ اب انسانی زندگی کی ضرورت بن چُکی ہیں اُن ک دسترس میں آسکتی ہیں۔مگر اس کے لئے تُمہیں محنت کرنا ہوگی۔ میں تُمہیں راستہ بتاتا جاوءں گا اور تم رستے پر چل کر وہ مُقام اور خوشیاں حاصل کرپاو گے جن کا اس وقت تُم  تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اُس کی یہ بات سن کر میرے اندر اِک نئی امنگ نے انگڑائی لی اور مِیں کُرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ۔ میں نے بہت آہستگی سے پوچھا مُجھے کیا کرنا ہوگا۔ اُس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مُسکراہٹ آئی اور وہ بولا تمہیں ہمارے اشارے سمجھنے ہوں گے ۔ ہم تمہیں سگنل دیا کریں گے اور تُم اُن سگنلز کو لفظوں میں ڈھالو گے۔ ہماری مدح سرائی کے لئے ہر وقت کوشاں رہو گے۔ ہم اپنی قوم کی بہتری کے لئے جو کڑوے ٹیکے لگاتےہیں، تمہیں اپنی تحریرمیںوہ مٹھاس لانی ہو گی جو اِس کڑواہٹ کو ذہن سے زائل کرے۔ اپنی ڈیمانڈ بتاتے ہوئے اُسکی توجہ میرے چہرے کے تاثرات پر تھی۔ اُس نے مزید کہا کہ ایک بات میں تُم پر واضح کرتا  جاوءں کہ ہمارےدفتر کے باہر تُم سے ہزار درجے بہتر لکھاری ، آشیر باد ک تمنا  دِل میں لئے لائن بنائے کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن میں تُمہیں موقع دینا چاہتا ہوں تُمہارے نا گُفتہ بہ حالات دیکھ کر مُجھےتُم پر ترس آتا ہے اور تُمہارے اندر پائی جانے والی معصومیت کُچھ حد تک میرے دِل کو اچھی لگتی  ہے۔

اُس نے پانی کا گلاس اُٹھا یا ایک گھونٹ پانی پیا اور میرے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھتے ہوئے اِک چُٹکی بجائی اور مُجھے اپنی طرف متوجہ کر کے بولا۔ دراصل تمہیں ہماری خُفیہ طاقت کا اندازہ نہیں ہے ۔ آج جوتمہیں صحافت کے بڑے بڑے نام نظر آرہے ہیں جہنیں تم سنتے بھی ہو اور پڑہتے بھی ہواور اُن کی بات من و عن تسلیم بھی کرتے ہو۔ اِن میں سے اکژ ہمارے لگائے ہوے پودے ہیں ۔اِن کی آبیاری ہم نے کی ہے انہیں ایسے سیاست دان بھی ہم ہی نےبنا کر دئے ہیں جنہوں نے اِن کے لئے لفافہ فیکٹریاں لگائیں۔ مگر اب یہ خود کو بہت بڑا سمجھنے لگ پڑے ہیں  اب تو سیاست دان بھی اِن کی دُکانوں میں اپنا پروڈکٹ بیچنے  کیلئے منتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ ہم تمہیں بھی یہاں تک پہنچا سکتے ہیں۔ تُمہاری کمزور تحریر کو طاقت کے ٹیکے لگانا ہمارا کام ہے۔تُمہای پھیکی ہنڈیا میں بارہ مثالوں کا تڑکا  ہم لگائیں گے۔ تُمہارے لکھے ہوئے باغ کو گُل و گُلزار ہم کریں گے۔ تمیں اتنا پاپولر کردیں گے کہ لوگ تمہیں شوق سے پڑہیں گے بھی اورتمہاری شکل ٹی وی پر دیکھ کر چینل نہیں 
بدلیں گے۔ میری طرف سے تمہیں کھُلی آفر ہے اب فیصلہ تُمہارے ہاتھ میں ہے۔میں تمہیں کُچھ وقت دیتا ہوں سوچنے کے لئے ۔

اُسکی بات ختم ہونے پر میں نے اپنی دونوں کہنیاں میز رکھیں دُعائیہ سائن بناتے ہوئےاپنا سر نیچے جُھکا لیا ، میری نظریں
  ہاتھ کی لکیروں پر ٹھہر گئیں اور میں پھِر سے گہری سوچ میں کھو گیا ۔میں صحافت کے بڑے ناموں کے مُتعلق سوچنے لگا۔ وہ نام جنہیں ہم نظریات ک امین خیال کرتے ہیں جن کی فہم و فراست سے مسُتفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بھلا ایسا کیوں ہے کہ ۔ کِسی کا  عرفان فقط ایک ہی در کی صداقت دِکھانے تک ہی محدود ہے، اِک قاسمی کو ہم  نے محض قسمیں کھاتے، گُنگُناتے، سیٹیاں بچاتے بس اِک ہی گانا گاتے سُنا ہے " گنگا نہایا بس ایک ہی شیر باقی سب ہیر پھیر " ، اِک نذیر کو ہم نےبس ہاں جی اور ناں جی کےدرمیان ٹوِسٹ کرتے ہی پایا ہے۔ کوئی سیاست کا عبدلقادر بن کر اپنی لیگ بریک میں کبھی کبھار گُگلی  پھینکتا نظر آتا ہےتو کوئی میر ٹی وی پر صحافت کا سُلطان راہی بنے گردن ہلاتا بڑھکیں مارتا دیکھا جاتا ہے۔اِک ڈاکٹر صحافت کی مُقدس گائے کو اپنا کر دودھ  بھرے تھن کو چِمٹا ہے۔ وہ عسکری قوتوں کا مدح سرا  باریش قلندر بھی جسکے کاروبارِٹھیکیداری کا بھانڈا بھی اِک پیٹی بھائی نے اپنے کالم میں پھوڑ دیا۔ مُجھے ابنِ انشا کا کہا یاد آنے لگا۔" اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے  جو تم نے کہا فیض نے جو فرمایا ہے، سب مایا ہے" صحافت کے ہر بڑے نام نے اس مایا سے اشنان فرمایا ہے۔ تو پھر میں ۔۔ ۔۔ اور میرے بچے۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میں نے اِک جھٹکے سے اپنا سر اُوپر اُٹھایا ، مگر میرے سامنے والی کُرسی خالی تھی میری نظروں نے اُس کا تعاقب کرنے کی کوشش کی مگر وہ کہیں نہ تھا۔ لیکن ایک چِٹ ٹیبل پر پڑی تھی جِس پر لکھا تھا کہ تُم انتہائی سُست انسان ہو سوچنے میں بہت زیادہ وقت لیتے ہو، تُم ہمارےلئے کِسی کام کے نہیں۔

Saturday 17 March 2012

SOO KAI PAR SOO KA by Dohra hai


سوکے پر سوکا
ہم نے دُکی پر دُکی اور ستے پر ستہ تو کر کے بھی دیکھا اور ہوتے ہوئے بھی دیکھا مگر جو کچھ رامیش ٹندُلکرکے بیٹے نے کردکھایا وہ اس سے پہلے نہ کبھی دیکھا نہ سُنا ۔ سوکے پر سوکا ریکارڈ کے جُملہ حقوق شائد ٹنڈ ُلکر کے نام ہی محفوظ ہو جائیں گے اور اب غالبا دوبارہ ایسا ہونا مُمکن بھی نہ رہے کیونکہ ایک روزہ کرکٹ کی عمرقریب قریب آخری وقتوں میں دِکھائِ دیتی ہے۔جس طرح آگ اور پانی ایک دوسرے کی ضد ہیں کرکٹ اور بارش کا بھی کُچھ ایسا ہی رشتہ ہے جہاں بارش ہووہاں کرکٹ نہیں ہوسکتی اور جہاں کرکٹ ہو رہی ہو وہاں محبان ِ کرکٹ کم ازکم پانچ دن تک بارش کے قطروں کو بادلوں میں ہی تھمے رکھنے کی خدا سے دُعا کرتے نظر آتے ہیں۔

آفریں ہے اس کھیل پر کہ اِس نے اِسی بارش کی چھیڑخانی پررونے دھونے کی بجائے اِک نئے بچےیعنی ایک روزہ کرکٹ کو جنم دے ڈالا یہ پانچ جنوری اُنیس سو اکہتر کا واقع ہے ۔ اس کھیل نے آگے چل کر اپنے والدین کا نام خوب روشن کیا ۔ انیس صد پچھتر میں ون ڈے کا پہلا ورلڈکپ کھیلا گیا۔ جِسمیں بھارتی بلے باز سُنیل گواسکر نے ساٹھ اورز کی اِننگز کھیلی اورسینتیس رنز ناٹ آوءٹ سکور کیے۔ اگر یہ ابتدا تھی تو گواسکر ثانی کے طور پر مُتعارف ہونے والے ٹندُلکر نے اِس کھیل کی انتہا کر دکھائی۔

اگر مُجھے کہیں سے جادو کا چراغ ملے جِسے رگڑنے سے اِک جن برآمد ہو تو میں اُسے سب سے پہلا حکم یہ دوں گا کہ وہ مُجھے اُس جگہ کے آس پاس کی مٹی لا کر دے جہاں سے قُدرت نے ٹنڈُلکر کا خمیر اُٹھایا تھا اور اُس کے گھر پر لگے کِسی پھل دار درخت کی لکٹری بھی جِسکا پھل بچپن میں ٹنڈلکر کھاتا رہا ہو۔ اُس مٹی سے میں اِک نئِ پچ بنواوں گا اور لکڑی سے اِک بیٹ۔ جس سے میرے مُلک کے ننھے کرکٹرز استفادہ کریں گےاور پھربنیں گے تمام بیٹنگ ریکارڈزہمارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگراس کے لئے اُس عجزو انکساری کی بھی  ضروت ہوگی جو کہ اس عظیم بلے باز کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ ٹنڈ ُلکر نے جب سویں سنچری کا سواں رنز لیا اور آسمانوں پر بیٹھےاپنے مالک کی طرف نظریں اُٹھا کر دیکھا تو عِجز اُسکے پورےوجود سے جھلک رہا تھا۔ مُجھے وہ سولہ سالہ سکول گوئنگ لڑکا یاد آگیا جس نے اُنیس سو نواسی میں پاکستان کے دورے سے کیرئیر کا آغاز کیا۔ اور آزمائشی میچ میں عبدالقادر کو لگاتار چار چھکے داغ دئیے۔

بہت سے ناقدین ٹنڈ ُلکر کو عظیم بیٹسمین نہیں گردانتے بلکہ محض ریکارڈزکا بھوکا کھلاڑی ۔ بحر حال تنقید کے اس شور میں بھی اُس کے  بنائے ہوئے ریکارڈز کی گونج چاروں طرف صاف  سُنائی دیتی ہے۔ قطہ نظر اِس کے کہ ساچن کی سویں سنچری بھی میچ ہار گئی ، اُس کا نام کرکٹ کی تاریخ میں سُنہری حروف سے ہی لکھا جائے گا اور اُس پر سو سنچریوں کے ٹریڈ مارک کا نشان سب سے نمایا ں ہو گا۔

Saturday 10 March 2012

TREPERTERIA VIRUS by Dohra Hai


 یہ بیسویں ترمیم مُجھے بالکُل بھی ہضم نہیں ہورہی پتا نہیں کیوں اس سے مُجھے کچھ سازش اور ذاتی مُفاد کی بو آتی ہے مگر میں نے جس کِسی سے بھی اپنےخدشات کا ذِکر کیا تو سُننے والے نے میری بات دو  ٹوک رد کی اور اس ترمیم کو تاریخی درجات عطا کرتے ہوءے اس کے  دور رس مُثبت نتائج کی شُنید سُنائی مگر میرا دِل تھا کہ مانتا ہی نہ تھا۔ اِک بدبو سی تھی جو اس حوالے سے میرے دل و دماغ کا گھیراوء کئے ہوئے تھی۔ کل رات گیارہ بجے میں نے آپس کی بات کرنے والے  جوگی بابا کا پروگرام ٹیون کیا تو اِنہیں اس ترمیم کے حق میں دلائل دیتے اور اس کی خوشبووءں کا پُراثر تعارفی سپرے کرتے پایا ۔ بس پھر کیا مُجھے تو یقین ہو چلا کہ میری سونگھنے کی حس کِسی خطرناک بیماری کا شکار ہو چلی ہے۔ یہاں اِک بات بتاتا چلوں کہ میں جوگی بابا کا پروگرام روزانہ لگاتا ہوں مگر یہ میری مجبوری ہے کیونکہ ان کی مہورت ٹی وی پر دیکھ کر ہی میرا تین سالہ بیٹا سہم کر اپنے بسترمیں دُبکتا ہے۔بحر حال اس دِن تو بابا جی نے مُجھے بھی  خوف زدہ کردیا۔  کروٹیں بدل بدل کر رات  گُزاری ۔ اور دِن چڑہتے ہی دفتر کی بجائے ڈاکٹر کی راہ لی۔

قسمت اچھی تھی میری، ڈاکٹر صاحب دُکان کی جھاڑ پونجھ کر کے بس ابھی کُرسی  پر بیٹھے ہی تھے۔ میں نے موقع جانتے ہوءے اپنی ساری کی ساری تکلیف ایک ہی سانس میں اُن سے کہ ڈالی۔ بحرحال ڈاکٹر صاحب نے میرا مسئلہ نہائت تحمل اور صبر سے سُنا ۔ چند سیکنڈ کا توقف کیا اور پھر بڑے پرسکون انداز میں بولے کہ فکر کی کوئی ایسی بات نہیں ہے آپ پر تریپرٹیریا وائرس نے حملہ کیا ہے۔ اتنا جدید اور مُشکل نام جیسے ہی میرے کانوں سے ٹکرایا بس مُجھےتو اپنے پیر  قبرمیں دھنستے ہوءے محسوس ہوءے۔ جسم سے جان باہرکو بھاگنے لگی بڑی مُشکل سے اُسے بدن میں واپس دھکیلا۔ دو چار لمبے لمبے سانس لئے جب یقین ہو چلا کہ زندگی کے آثار ابھی موجود ہیں تو پھر سے گویا ہوا۔"ڈاکٹرصاحب یہ بیماری کتنی خطرناک ہے  کہاں سے آئی ہےاور اس کا علاج کیا ہے۔" تین سوال ایک ساتھ میں نے جڑ دئے۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی پرسکون انداز میں کُرسی سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور اُن کی نظریں مُجھ پر جمی ہوءی تھیں۔ غالبا وہ میری حرکات و سکنات  کو انجوائے کر رہے تھے۔ میرے سوالات سُن کر ہلکی سی مُسکراہٹ اُن کے چہرے پرنمو دار ہوئی اور وہ بولے۔"دیکھیں آپ زیادہ پریشان نہ ہوں یہ کوئِ خطرناک بیماری نہیں ہے۔ البتہ نِئ ضرور ہے تاہم اس کی روک تھام کے لئے ہمارے شاہی خاندانوں نے ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں اور اُمید کی جارہی ہے کہ جلد ہی اس وائیرس پر قابو پا لیا جائے گا اور جہاں تک تعلق ہے کہ یہ وائرس آیا کہاں سے تو اِس بارے میں وثوق سے تو کُچھ نہیں کہا جاسکتا مگر امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاہی اصطبلوں میں اس کی پیدائش ہوئِ ہے کیونکہ بہت سے گھوڑوں میں یہی والے جراثیم پائے گئے ہیں۔مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمارے شاہی خاندانوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے اپنے اصطبلوں کی دیواریں اُونچی کروا لی ہیں اور چارہ کی مقدار اور کوالٹی بھی بہتر کر دی ہے۔ باہر سے چند مہنگے ترین  خوشبو سپرے منگوا کر ٹی وی والوں کو دے دئے گئے ہیں تاکہ وہ ہر وقت چینلز پر سپرے کی پھُس پھُس کرتے رہیں تاکہ عوام کہیں کوئی بدبو محسوس نہ کریں ، مُطمئن رہیں اور اُن میں مایوسی نہ پھیلے۔

میر اگلا سوال اس بیماری کی علامات کے مُتعلق تھا اور ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا کہ ساری وُہی علامات ہیں جو آپ میں اس وقت موجود ہیں مثلاْ تبدیلی کی تڑپ پیدا ہوجانا، موجودہ سیاسی خاندانوں سے بغاوت کا جزبہ بیدار ہونا، خاندانی سیاست اور کاروباری سیاست کو اِک روگ سمجھنے لگنا وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر صاحب نے مُجھے اس کی روک تھام کے لئے چند احتیاطی تدابیر سے بھی آگاہ کیا۔ جو درج ذیل ہیں۔

۱۔ کسی بھِی نئے سیاسی چہرے کی بات نہ سُنی جاءے خواہ وہ کِتنا ہی مشہور اور نسبتا بہتر کردار کا ہو۔
۲۔ شاہی جمہوری خاندانوں کی بات کو پورے غور سے سُننا اور ہر بات پر سر تسلیم خم کرنا
۳۔ اس بات کا خود کو قائل کرنا کہ تبدیلی کی ضرورت نہیں کیونکہ تبدیلی تو آچُکی ہے۔
۴۔ جو بندہ جمہوری شاہی پارٹی چھوڑ جائے اُسے لوٹا قرار دینا اور جو باہر کہیں سے آجاءے اُسے جپھیاں ڈالنا
۵۔ خود کو اِس عقیدے پر سختی  قائم رکھنا کہ حکومت صرف تجربہ کار اور پہلے سے آزمائے ہوءے ہی کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی احتیاطی تدابیر سُننے کے دوران اچانک ہی مُجھے گامے قصائی کی بات یاد آگئی ۔ ابھی کل ہی میں گوشت لینے اُس کی ُدکان پرگیا تھا تو وہ بھی کِسی اسی طرح کے نئے وائرس کا ذکر کر رہا تھا اورکِسی مولوی کا حوالہ دیتے ہوئے بتا رہا تھا کہ یہ وائرس یہودیوں نے ہمارے یہاں چھوڑا ہے۔ مُجھ سے رہا نہ گیا اورمیں نے یہ سوال بھی ڈاکٹر صاحب سے کر ڈالا۔ ڈاکٹر صاحب نے دورانِ مُلاقات پہلی بار زور دار قہقہہ لگایا اور بولے کہ یار ہمارے ہاں جِتنی گندگی اور غلاظت ہے یہاں پر بیرونی وائیرسز کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ویسے  بھی باہر کے وائرس اِتنی گندگی میں سروائیو نہیں کر سکتے۔ میرا  ڈاکٹر صاحب سے آخری سوال اس مرض کے نُقصانات کے مُتعلق تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کُچھ اُکتاتے ہوئے سہی مگرجواب سیر حاصل دے ڈالا۔ اُن کا کہنا تھا ۔ پچھلے چونسٹھ سالوں سے ہمارے یہاں کِتنے وائرسز آءے ختم ہو گئے اور اُن کی جگہ نئے وائرسز نے لے لی۔مگر ہم جیسے تھے جہاں تھے وہیں کے وہیں رہے۔ ہماری قوتِ مُدافعت بہت مضبوط ہو چُکی ہے۔ ہمیں بھلا اس وائرس سے کیا نُقصان ہونا ہے , بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس ہم پر کُچھ مُثبت اثرات چھوڑجائے یا پھر ہمارے دماغ اس نئے وایرس کا ڈیٹا بھی اپنے پاس محفوظ کر لیں۔ اصل میں تریپرٹیریا وائرس سے خطرہ جمہوری شاہی خاندانوں کو ہےکیونکہ وہ اِتنے نازک افراد ہوتے ہیں کہ ذدا سی دھول  اُڑتی ہے تو اُن کو ڈسٹ الرجی کا عارضہ ہو جاتا ہےاور وہ اپنی موت کے خوف میں مُبتلا ہو جاتے ہیں

Friday 2 March 2012

DIFFAA-E-PAKSTAN AUR KALI BILLI by Dohra hai


سردیوں کی اندھیری رات تھی میں اِک میدان میں تنہا ٹھٹھرا ہواسہما بیٹھا تھا حیران و پریشان تھا کہ یہاں کیسے پہنچا۔ اس کھلے میدان کے کناروں پر لگے درختوں کے پتوں سے ہوا خوب چھیڑ خانی کر رہی تھی پتوں کی سر سراہٹ ماحول کو مزید خوف ناک بنا رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے تیزجھونکے میرے بدن میں سوسو چھید کر کے گُزرتے تھے۔ستا روں سے بھرا کھُلا آسمان شبنم کی پھوار پھونک کر موسم کو مزید یخ کررہا تھا۔ آسمان پر ٹمٹماتے ہوئے ستارے شائد مُجھے آنے والےکِسی خطرے کا سِگنل دے رہے تھے۔ اس وسیع میدان کےبالکُل  وسط میںستر،اسی کے قریب قبریں تھیں۔شدید سردی اور خوف نے میرے بدن کو ساکت کردیا تھا۔ اچانک مُجھے  ان قبروں میں سے مردے نکلتے ہوئے نظر  آئےاور ساتھ ہی میدان میں کُچھ روشنی  بھی پھیل گئ   ، ان مُردوں نے سفید چادریں اوڑھی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے نارمل سائز سے نسبتا بڑے تھے، شکلیںکُچھ بگڑی ہوئ محسوس ہوتی تھیں۔ بہت سوں کے سروں اور چھاتیوں پر بچھو چِمٹے ہوئے تھےچند ایک سانپوں کی جکڑ میں تھے۔یہ سانپ اوربچھو وقفے وقفے سےانہیں کاٹتے تھے جس پر وہ زور دار چیخ  مارتے تھے۔یہ مردے بہت سی ٹولیاں بنا کرکھڑے ہوگئے ۔ یہ چند منٹ آپس میں سرگوشی کرتے اور پھر اِن میں سے ایک اونچی آواز میںکُچھ بولنا شروع  کردیتاجیسے کوئی  تقریر کررہا ہو،تمام ٹولوں کی نْقل وحرکت ایک ہی سی تھی ۔ان کی تقریروں کی اور چیخوں کے شور نے چند لمحوں پہلے سائیں سائیں کرتے میدان کو  اِک مچھلی منڈی میں تبدیل کردیا تھا۔ گو کہ اِن کی شکلیں بِگڑی ہوئی تھیں ،پھر بھی نہ جانے کیوں مُجھے یہ محسوس ہونے لگا جیسے ان چہروں سے میری کُچھ شناسائی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کُچھ ہی دیر میں میرا تمام خوف اُڑن چھو ہو گیا اور میں اِن کی حرکات و سکنات  کے مُشاہدے میںمُکمل طور پر کھو گیا۔ یکایک میری نظر اِک اژدہے پر پڑی جو بڑی تیزی سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ میرا دھیان اس کی طرف جانے تک  بہت دیرہو چُکی تھی اور وہ مُجھ پرچھلانگ لگا چُکا تھا۔


میں نے اِک زور دار چیخ ماری اوراگلا سین کچھ اسطرح سے ہے کہ میں اپنے کمرے میں بستر پر پایا جاتا ہوں ۔وہ بھی اِس حالت میں کہ پلنگ کے ساتھ ٹیک لگاءے ہوءے تھا، ہیٹر فُل سپیڈ میں آن تھا ۔ ٹیوب لائٹ جل رہی تھی اور ٹی وی سکرین پر کوئی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ گھڑی تین بجانے ہی کو تھی ۔حواس کُچھ بحال ہوءے تو سمجھ میں آیا کہ خواب میں دیکھے ہوئے چہروں سے میری شناسائی انہی نیوز چینلز ہی کے ذریعے ہوئی ہے۔ تب مُجھے خیال آیا کہ میری الیکٹرانک میڈیا سے نفرت اس خواب کی وجہ ہوگی۔مگرکھوج لگا نے پر کھُرا اُس تقریر تک جا پہنچا کہ جِسے سُنتے سُنتے میری آنکھ لگ گئی تھی۔ یہ مولانا یعقوب صاحب  کی تقریر تھی کہ جِسمیں وہ میڈیا کا قبرستان بنانے کی دھمکی دے رہے تھے، مولانا کا تعلق حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ سے ہے۔ دھمکیاں دینا ایک پریشر ٹیکٹک ہے اور ہر جماعت ایسا کرتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں نے ان کی دھمکی کو اِتنی سنجیدگی سے کیوں لیا ۔ جواب کی تلاش میں، وقت کی پٹڑی پر ریورس گئر لگا کرمیں ذرا  پیچھے کو چلا تو زندگی کی  گاڑی نے کالج لائف کے سٹاپ پر جا کر بریک لگادی۔یہ وہ زمانہ تھا  جب ہم لشکرِطیبہ والوں کا مُجلہ، فارغ پیریڈ کے دوران کالج کے لان میںاپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر  پڑہا  کرتے تھے۔ جِس کے پچھلے صفحے پر تحریر ہوتا تھا کہ اسے پڑھنا ، پڑھانا اور آگے پھیلانا باعث ثواب پے۔کوئی شک نہیں کہ اسمیں دین کی بہت اچھی اور مُفید معلومات ہوتی تھیں۔ مگر اس مُجلے میں ہمسایہ مُلک کے کافروں کا ذکر کچھ ایسے انداز میں کیا جاتا تھا جس سے صرف دشمنی خریدی اور نفرت بیچی جاسکتی ہے۔ تصویر، ٹی وی اورڈش کی کسی طور بھی مذھب میںاجازت مُمکن نہیں اس مُجلے میں یہ تصورایک حُکم کے طور پربڑے تواتر کے ساتھ صادر کیا جاتا تھا ۔ٹی وی سیٹ توڑنے کی سلسلہ وار کہانی شائع ہوتی تھی آلہ بصری کو جہنم واصل کرنے کی باقائدہ ترغیب دی جاتی تھی ۔  ٹی وی قبرستان میں دفناءے ہوءے سیٹس کا باقائدہ ِرکارڈ بھی رکھا جاتا تھا۔ یہ لوگ اُس قبرستان میں  اب کبھی فا تحۃ کہنے بھی نہیں گئے ویسے بھی فاتحہ خوانی ان کے مسلک میںجائز تصور نہیں کی جاتی۔ اب یہ اُسی ٹی وی پراپنے لئے ٹائم مانگتے ہیں یا پھر اِک نئے قبرستان کی دھمکی دیتے ہیں۔ سچ کہا ہے کِسی نے۔بدلتا ہےآسماں  رنگ کیسے کیسے۔
دفاع پاکستان قونصل میں اک جماعت جو کہ ماضی میں عشقِ صحابہ کی دعویدار رہی ہے۔عشق توفقط  پیار، ایثارو قُربانی کا اِک خوبصورت درس ہے۔ اور صحابہ جیسی عظیم ہستیوں سے دعوہ عشق سے اچھی  اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ نبی صلاۃ و سلام کے تربیت یافتہ ساتھیوں نے اپنے نام اور وجود کو اللہ کے دین کے لئے وقف کردیااُن سے افضل  بھلا کون ۔ مگر اس جماعت محض رقابت  کی پتنگیں اُڑائیں،طعن و تشنیع کے کھینچے مارے،نفرت کے پیچ لگائے، اختلافی مسائل کی چرخی سے لمبی لمبی ڈوریں دیں نتیجتا  اپنی خود کی گُڈیاںبھی بو کاٹا ہوئیں اور تعصب کا مانجھہ لگی ہوئی ڈور پورے ملک میں گُنجل گُنجل ہوکر پھیل گئِ جو اب بھی کسی کی گردن کاٹتی ہے تو کسی کو پیروں میں پھنس کر اُوندھے مُنہ گِراتی ہے۔
اپنے بات کو تقویت دینے کے لئے میں اپنے ایک خوبرو دوست کا واقعہ بیان کرتا جاوءں، جس پر آغاز جوانی میں اِک مذہبی بھوت سوار ہوگیا۔ وہ بھوت اُسے مدرسے لے اُڑا ، اُس کی تعلیم کا آغاز صرف و نحو کی کلاس سے ہوا۔ اُستاد محترم نے پہلے دِن صرف و نحو کی تعریف بیان کی مکمل کورس کا ذکر کیا اور اس موضوع پر لکھی ہوئی اعلی ترین کتاب کا تعارف کروایا۔ دوسرے دن اُسے بتایا گیا کہ یہ کِتاب ایک اہلِ تشیع نے لکھی ہے۔محترم دوست دِل ہی دِل میںمُعلم کی فراخ دِلی اور اعلی ظرفی سے بہت مُتاژر ہوا۔ تیسرے دِن کلاس میں اُستادِ محترم نے پہلے سے تیار کردہ نوٹس بمع سوال وجواب لکھوائے۔ اک سوال تھا کہ یہ کتاب اِک  اہل تشیع عالم نے لکھی ہے اس بارے آپ کی کیا راءے ہے؟ اس سوال کاجو جواب لکھوایا گیا وہ کُچھ یوں تھا۔"اگر آپ کو کِسی گندی نالے میں قیمتی ہیرا پڑا نظر آئے تو کیا آپ اُٹھائیں گے یا نہیں"۔ گندی نالی کے گندے جواب کو سُن کر موصوف پر مذہبی بھوت کی گرفت کُچھ ڈھیلی ہوئی جس کا بھرپور فائدہ ایک دُنیاوی جن نے خوب اُٹھایا اور ساتویں دِن اُس بھوت کو شکستِ فاش دیتے ہوےمحترم دوست کو واپس دُنیا داری کی راہ دِکھا ئی۔
ہہاں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ وہ دور تھا کہ جب ہمارے یہاں کسی بلیک واٹر نامی تنظیم کا کوئی وجود نہ تھا بلکہ یہ تمام کیا دھرا تنگ نظری کی اُس بلیک کیٹ کا تھا جو کئی بار ہماری ترقی کا راستہ کاٹ چُکی ہے اور ہر سو اپنی نحوست کے اژرات اب تک پھیلا رہی ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کا دفاع مضبوط کرنا ہے تو ہمیں اِس کالی بِلی کو مار بھگانا ہو گا۔تب ہی ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیرحد تک مضبوط ہوگااور ترقی کی منزل ہماری دسترس میں آئے گی۔ جنرل ضیاءالحق نے پاکستان میں اسلامائزیشن کے ہائِ پوٹینسی انجیکشن لگا ئےبہت اچھا کیا ۔ مگر اس کے سائد ایفیکٹس خطرناک بیماریوں کی صورت میںنمودار ہوئے ۔ جس کا مُجھے پہلی بار احساس انیس سو نواسی میں ہوا جب پاکستان میں ساوءتھ ایشین گیمز پہلی بار مُنعقد ہوئیں۔ بینظیر بھُٹو اُس وقت وزیر اعظم تھیں۔ ان گیمز کی ابتدائیہ تقریب میں سکول کی ننھی معصوم بچیوں نے بہت خوبصورت پرفارمنس پیش کی ۔ جس پر ہمارے مُلک کے مولوی حضرات کو بُخار ہوگیا مگر پیرا سٹا مول خود لینے کی بجائے اُنہوں نے قوم کے منہ میں دینی شُروع کر دی۔
اقبال نے اپنے فلسفے اور فِکر کی بُنیاد پر ہمیں آگاہی دی"جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی" ۔ مگر ہم نے جواپنے تجربے سے سیکھا وہ اِس سے ذرا  مُختلف ہے۔" جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے تبلیغی جماعت اور شامل ہو دیں سیاست میں تو بن جاتا ہےمولانا فضل الرحمان"حضرت اقبال کا کہاغلط نہیں ہے ۔ درحقیقت ہماری کیمیا گری میں ہی  کوئی نُقص رہ گیا ہے جو نتائج بہتر نہیں آتے ورنہ دین کو سیا ست سے الگ کرنا تو ہے ہی بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔ 
ہم نے سُنا تھا کہ مُلا کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت اس سےبالکُل  مُختلف نِِکلی مُلا کو ہم نے جی ایچ کیو اور آب پارہ تک بھی دوڑتے دیکھا بلکہ اگر موقع ملے تو امریکہ تک میراتھان لگانے سے بھی نہیں کتراتا ۔ سمارٹ مگر پھر بھی نہیں ہوتا  البتہ کبھی کبھار اوور سمارٹ بننے کی کوشش ضرور کرتا