Friday 29 November 2013

وہ دس دِن

مُسلسل اِنکار پر اُس نے مُجھے میری محبت کا واسطہ دے ڈالا ۔اِس جذباتی حملے نے میری ناں ہاں میں بدل دی۔ وہ اُسے میرے حوالے کرتے ہوئے  بولا "تو نے  بس یہی سمجھنا کہ تو کِسی اور کو نہیں مُجھے اپنا مہمان رکھ رہا ہے " ۔ میں نے نِسبتا چھوٹے ڈائیامیٹر کی دو عدد گالیوں سے  اُس کا مُنہ بند کیا۔ یہ میرا دوست جمیل تھا ۔اُس کا دیا ہوا واسطہ کِسی "جانو "کا نہیں بلکہ جانوروں سےمیری محبت کا تھا ۔وہ  چھوٹے ماموں  کی شادی پر دس دِن کے لئے ڈیرہ غازی خاں  جاتے ہوئے اپنا  ڈوڈو نامی کُتا  میرے حوالے کرگیا۔ میں نے ڈوڈو  سے   ہیلو ہائے کرتے ہوئے اُس کا تعارف ٹامی سے کروایا۔ ٹامی ، چِٹے سفید بالوں  والا  معصوم ،پیار ا سا ، ہمارا رشین کُتا۔ اپنی شے بھلے  ٹُٹے  پیڈل والی سائیکل ہی کیوں نہ ہو چنگی  لگتی  ہے  ،  ڈھلتی عمر والا ٹامی تو خیر ہم سب کا لاڈلا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری گلی والے اُسکی غُصیلی طبیعت سے اکثر نالاں رہتے تھے۔

ڈوڈو اور ٹامی کے دو چار گھنٹے ایک دوسرے سے چھیڑ خانی کرتے کھیلتے کودتے خوشگوارماحول میں گُزرتو گئے مگر اس دوران میں نے محسوس کیا کہ ڈوڈو کو پیار کرنے پر ٹامی کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ رات کے کھانے پر تو شیطان نے "پہلے میں " کا ایسا گھٹیا وار کیا  کہ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ رہے ۔ڈوڈو اپنی جوانی   پر اِتراتااور قد کاٹھ کا گھمنڈ  کرتا  ،پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھااور ہمارا ٹامی  حقوقِ ملکیت کِسی کو دینے پر راضی نہ ہوا۔ صُلح کی ہر کوشش ناکام  ہوئی باِلآخر ٹامی کو پِچھلے صحن مُنتقل کر کے فریقین میں حد بندی کرنی پڑی ۔"کُتا بڑی کُتی شے ہوتا ہے " سیانو ں کی یہ بات میں نے سُن رکھی تھی۔ مگر اِس شے کی گہرائی ،چوڑائی ، حُجم  ،سب  کُچھ مُجھے ڈوڈو نے ایک ہی دِن میں سمجھا دیا۔جمیل نے درست کہا تھا کہ میں دس دِنوں کے لئےمیں  اُسے ہی اپنا مہمان رکھ رہا ہوں۔ڈوڈوباِلُکل اُسی ساضِدی ، ہٹ دھرم اوربے ترتیبہ تھا ۔کِسی قائدے  قانون کو نہ ماننے والا۔  اُسے کھولنا مُشکل اور  باندھنا عذاب تھا۔نسل کا خالص ہونا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سُنانےکو تو جمیل ڈوڈو  کے ماںاور  باپ  دونوں کا شجرہ نصب سات پشتوں تک سُناتا تھا مگر حقیقت نہیں سب فسانے تھے۔پہچان رکھنے والے سب سمجھتے تھے کہ ڈوڈو کی ماں کے ساتھ کوئی بے نسلا "کُتی حرکت "کر گیا تھا  اور ڈوڈو۔۔۔۔

ٹامی کو پِچھلے صحن تک محدود کر دیا گیا اورڈوڈو کو اگلے صحن میں باندھا جانے لگا۔ ہمارے گھر کے سامنے پارک تھا۔  صبح کے وقت اور شام کو ٹامی کو اُس پارک تک لانے کے لئے گھر میں دفہ "کُتالیس" لگانی پڑتی تھی ۔یعنی یہ بات یقینی بنائی جاتی تھی کہ  دونوں کِسی صورت میں بھی ایک دوسرے کا مُنہ نہ دیکھنے پائیں۔ بصورتِ دیگر  اگلے دِن ڈاکڑ عبدلقدیر کو اپنے کلینک میں ایمرجنسی لگانی پڑجاتی ۔ڈاکٹر صاحب ہمارے عِلاقے کے مشہور ای این ٹی سپیشلسٹ تھے۔ڈاکٹر صاحب محلے میں" کناں آلا ڈاکٹر "کے نام سے جانے جاتے تھے"یہ پیارا سا  نام اِنسانی کانوں کے لئے  اُن کی گرانقدر خدمات کا  صِلہ نہیں تھا  بلکہ  اللہ کے عطا کردا  ا ُن کے اپنے    ہاتھی نما  کان اِس  خِطاب کا سبب بنے تھے ۔

میں اُن دِنوں میں سیکنڈ ایئر کا سٹوڈنٹ تھا۔ ہفتہ وار تعطیل جُمعے کو ہوتی تھی اور اُس ویک اینڈ پر کالج  کے دوستوں نے سینما میں رات کا شو  دیکھنے کا پروگرام بنایا۔  میرے دِل میں سینما درشن کی خواہش  کافی عرصے سے انگڑائیا ں لے رہی تھی، سو میں نے حامی بھرلی۔ اب مسئلہ گھر سے رات کو پھوٹنے کا تھا۔ کام بہت مُشکل تھا    اِک ذرا  سی  لغزش کچے پلستر کی طرح  کھال اُدھڑوا سکتی تھی۔ میں نے یہ رِسک لینے کا فیصلہ کیا۔چھوٹے بھائی کو دو سموسوں کا لالچ دیکر شریک جُرم کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ  اُن دوسموسوں میں سے ایک  پر میں نے ہی ہاتھ صاف کئے۔خیر  "بڑےبھائی کا بھتہ " کی   یہ روائیت توچلی آرہی ہے۔ رات نو بجے چھوٹے بھائی نے  سرکاری  کاغذوں میں  میری نیند پر دستخط کئے ، مہر لگائی اور سیل بند لفافہ  دروازے پر لٹکا  چھوڑا ۔ سبزی منڈی میں واقع بابر سینما ، میری پہلی سینما گردی ، مزید یہ کہ ہر دس مِنٹ بعد  ناچتے گاتے شان اور ریما ۔ بس یہی تھا میرے اُس ایڈونچر کا کُل حاصل ۔واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ کِتنے اچھے ہوتے ہیں وہ بچے جو بڑوں کی باتوں کو پلے باندھ لیتے ہیں خود سے تجربہ کر کے خوار نہیں ہوتے۔
لوٹ کے یہ بُدھو جب گلی کے نُکڑ پر پہنچا تو رات کے دو بج چُکے تھے۔ غالباً نومبر کا تیسرا   ہفتہ تھا۔ ہولے ہولے  سے چلتی ٹھنڈی ہوا موسم کو اچھا خاصاسرد کئے ہوئے تھی۔ رات  تو جیسے کالےسمند ر میں ڈوبی ہوئی ہو۔اِس فِلمی مِشن کا آخری مرحلہ سر پر آن پہنچا تھا۔اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی مُجھے مین گیٹ پر ڈوڈو کی موجودگی کا احساس ہوا۔ میں  پوری گلی کو فِلم کی کہانی سُنانے کا رِسک نہیں لے سکتا تھا لہذا میں اُلٹے قدموں واپس ہوا۔اب میرے پاس  پِچھلی گلی سے گھر پہنچنے کے سِوا اور کوئی  راستہ نہیں تھا۔ شام کے بعد اِس پتلی گلی میں تو جن بھوتوں کی محفل سجتی تھی ۔ اُس اندھیری رات  تو ایسے لگ رہا تھا   جیسے گلی میں چڑیلیں  بال بکھیرے لیٹی پڑی ہوں۔ بس ایک  غلط قدم پڑا اور بندہ چڑیل کے مُنہ میں۔ اب چڑیل کا مُنہ ہو یابِنا ڈھکن کے گٹر نتیجہ تو ایک ہی سا  ہوتا ہے۔ خیراللہ اللہ کر تا میں اپنے گھر تک پہنچ گیا۔ ٹامی کو آہستہ سے آواز دیکر اپنی موجودگی کا یقین دلایا۔ کُتا بھی اِنسان کی طرح بڑا جذباتی جانور ہے۔ اچانک سے  مِلی خوشخبر ی  پر بندے کی آنکھ کا پانی کنڈے کنارے توڑ کر بہنے لگتا ہے  اور کُتے کی زبان لگام   چھُڑا  ئے دوڑپڑتی ہے ۔ٹامی نے مُجھ پر احسان یہ کیا کہ اُسنے اُچھلتے کودتے ، بھونکتے ہوئے اپنا  والیم کم رکھا ۔ میں سالم کھال اور  ہڈیوںسمیت اپنے  کمرے  میں پہنچ گیااور میر ا یہ فِلمی سفر ختم ہوا۔

مُجھے رات سوتے سوتے چار بج گئے اور صُبح چھے ساڑھے چھ بجے  چھوٹے بھائی نے ڈوڈوکی سیرکا مضمون مُجھے سنانا شُروع کر دیا۔ میں سخت نیند میں تھا۔ میں نے چھوٹے بھائی کو صلواتیں سُناتے ہوئے یہ ڈیوٹی اس کے سُپرد  کر دی ۔میں تکیے کے سٹیشن سے نیند کے سگنل  لئے خواب کی ٹرانسمشن سے  مُنقطع ہوا رابطہ ابھی بحال کر نہ پایا  تھا  کہ چھوٹے بھائی  نے پھِر سے  مُجھے جھنجوڑتے ہوئے اُٹھایا"وہ  ۔ ۔وہ ڈوڈو قابو میں۔۔۔" اُس کی بات مُکمل نہ ہونے پائی تھی کہ ٹامی کی چیخنے کی آوازیں ۔۔۔۔ ہم سب گھر والے پِچھلے صحن کی طرف بھاگے۔ ڈوڈو نے ٹامی کو نیچے گِرارکھا تھا اور اپنے دانت اُس کی گردن میں گاڑ رکھے تھے۔وہ منظر اِنتہائی خوفناک تھا۔ بڑی مشکل سے ٹامی کو ظالم کے نرغے سے چھُڑوایا گیا۔اُس کی گردن کے سفید چمکتے بال لال ہوچُکے تھے ۔میں اور والد صاحب  زخمی ٹامی کو  فوراً سے انکل اصغر کے گھر لے گئے ۔ انکل والد صاحب کے بچپن کےدوست اور ویٹنری ڈاکڑ  ،اُن کے گھر تک پہنچنے میں مُشکل سے پندرہ منٹ لگتے تھے۔ ٹامی خطرے سے باہر تھا ۔گردن میں دو تین زخم  تھے   مگرزیادہ گہرے نہ تھے ۔ٹامی کی  مرہم پٹی کرا کے کوئی گھنٹے بعد ہم واپس گھرلوٹے تو سب گھر والوں نے سُکھ کا سانس لیا ۔تمام بزگانِ فیملی نے باری باری میری خوب"خاطر " کی۔ایک  کمینے کُتے نے میری گھر میں وہ   کُتے والی کروائی کہ بس  ۔وہ میرے سامنے ہوتا  تو میں اُسےگولی ماردیتا۔اِس  چار ٹانگوں والے بھگیاڑ نما کُتے کو نہیں بلکے دو ٹانگوں والے اُس گدھے کو جو پِچھلے سات دِنوں  سے شادیاں "چر" رہا تھا۔

بیچارہ زخمی ٹامی تو  خیر اُس دِن ایک ہارے ہوئے فوجی کی طرح  سر جھُکائے زیادہ تر  ایک کونے میں ہی بیٹھا رہا مگر  ڈوڈو  کے مزاج میں بھی بہت تبدیلی آگئی ۔ اُس نے خوامخواہ کی اکڑ اور اڑب پن کی روش ترک کر دی۔ اِسی طرح اگلے دو دِن بھی گُزر گئے ۔ جمیل جب  ڈوڈو کو لینے آیا تو ڈوڈو اُسے ایسا چِمٹا جیسے دس دن نہیں بلکے سالوں بعد اپنے مالک کی شکل دیکھ رہا ہو۔جمیل کو ڈوڈو کی کرتوت کا عِلم ہوا تو بیچارہ بہت شرمندہ ہوا۔ ڈوڈو کو اُس نے ٹھیک ٹھاک ڈانٹ پلائی۔ جمیل جب جانے لگا تو میں نے  ڈوڈو کو پیار کیا مگر اُس نے اپنا سر اوپر نہیں اُٹھایا۔  مین گیٹ سے باہر نِکلتے ہوئے  ڈوڈو  نے گردن گھُما   صحن کے ایک کونے میں  اپنے پنجوں کے درمیان زمین پر  سر رکھ کر لیٹے ٹامی کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو "ہوسکے تو مُجھے معاف کردینا"

مُجھے آج بھی وہ دس دن یاد آتے ہیں تو سوچتا ہوں  اپنی غلطیوں سے، بہتر کل کے لئے جانور بھی جینا سیکھ جاتا ہے ۔  مگر  انا کےسخت خول میں بُغض و عناد کی کنکریاں جمع کئے بیٹھا اِنسان انہی نفرت  کی کنکریوں کے اثاثے کو سینے سے لگائے اپنی ساری زِندگی بِتا دیتا ہے ۔

 سچ کہ گئے تھےبا با  بُلھے شاہ" بازی لے گئے کُتے"






Sunday 10 November 2013

سبز باغ کی سبزی

دو گھنٹوں سے جاری  کامیاب مذاق رات اپنے  آخری مرحلے میں داخل ہو چُکے تھے۔ حکیم اللہ محسود اپنے لاڈلے جرمن شیفرڈ کے بالوں میں پیار سے  ہاتھ پھیرتے ہوئے مُشترکہ اعلامیہ  پر دستخط  کرنے ہی  کو تھاکہ دڑ  ۔۔دڈ۔ دڑ۔دڑ۔ ڈرون طیارے کی آواز نے سب  تلپٹ کرڈالا  ۔مگر  اگلا منظر  ڈرون سے زیادہ ڈرونا  تھا،غضبناک ہوتی ہوئی بیگم میرے سر پر کھڑی تھی ۔ گھبراہٹ میں آنکھیں ملنے کی بجائے بےاختیار میرے مُنہ سے نِکلا "بیگم اِتحاد ہوگیا"۔ میں متوقع حملے سے پہلے خو د کو لحاف کی پناہ میں دے چُکا تھا۔ "ارے او اِتحاد بین الپارٹیز کےٹھیکیدار کُچھ گھر والوں کی  فِکر بھی ہے ،کھِڑکی کے ٹوٹے  شیشے سے آتی ٹھنڈی ہو ا میں بچے ساری رات ٹھٹھرتے رہے مگر تُم دِن  کے گیار ہ  بجے  خراٹے لیتے  ہمسائیوں کے کتے کی نیند بھی حرام کئے ہوئے ہو۔"  تاریخی واقعات و القابات سے لیس  بیگم کا  خِطاب کوئی سو اگیارہ مِنٹ تک جاری رہا ۔جِس کی تفصیل عام کرنا ہر گِز ہر گِز مُلکی مفاد میں نہیں۔ چند سیکنڈکی خاموشی کے بعد  بیگم کی آواز پھِر سے گونجی "پندرہ مِنٹ سے سبزی والا  گلا پھاڑ پھاڑ ہلکان ہو رہا ہے مگر تُمہیں  اپنی سیاست کے سوا کاہے کی ہوش " میں نے جھلا کر لحاف  پرے  پھینکتے ہوئے  کہا "پَچھلے تیرہ مِنٹ  سے تو میں تُمہارے تابڑ توڑ حملوں سے بچ رہا  ہوں اب تُمہاری طرف سے جنگ بندی ہوتو   آگے کے لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے "۔میں نے سلیپر پہنے اور  سبزی لینے چل پڑا۔


سبزی والا   سائیکل کی کاٹھی پر بیٹھا پیڈل مارنے ہی کو تھا  کہ اُسے روکتے ہوئے میں نے پوچھا ۔ "ہاں بھئی  یہ مٹر کِس طرح لگائے ہیں  ؟"180 روپے کِلو جی " وہ  سائیکل  سے اُترتے ہوئے بولا۔   میں نے اپنا غُصہ سبزی فروش پر نِکالتے  ہوئے   اللہ کے غضب  کو اُسی کے مخصوص کر دیا۔ اُس نے جھٹ سے  عُذر پیش کیا  "بس کیا  کریں جی، پٹرول ہی بہت مہنگا  ہوگیا ہے جی"۔ میں نے اُس کی  پھٹیچر سائیکلی پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا"یہ مِرزا دور کی سایئکل میں بھلا تُم پٹرول ڈالتے کہاں سے ہو"۔  وہ بھی ڈیل کارنیگی کا شاگرد   نِکلا کہنے لگا کہ پٹرول تو اب ہماری قوم کی رگوں میں دوڑتا ہے  صاحب ۔ بس  تھوڑی سی تپش مِلنے کی دیر ہے بندہ آگ کا گولا  بن جاتا ہے ۔ میں نے اُسکے جواب کو نظر انداز کرتے ہوئے ۔ ٹماٹروں کا ریٹ پوچھا  تو جواب مِلا 160 روپے  کِلو ۔  میں نےایک دو ٹماٹر اُٹھا  کر دیکھے "ارے یہ گلے سڑے ٹماٹر  تو کِسی کو مارتے ہوئے بھی شرم آئے" اُس نے جواب دئے بغیر کندھے  میں لٹکتے  تھیلے میں سے چمکتا ہو ا ٹماٹر نِکال کر اپنی ران پر کُچھ ایسے رگڑا کہ مُجھے خانصاحب کی  جوانی یاد آگئی ۔جب وہ  نئی گیند  ران  پررگڑتے   میچ کا  اپنا پہلا سپیل پھینکتے تھے اور  ہمارے کانوں میں اِفتخار احمد کی آواز  رس گھولتی تھی۔ "عِمران ٹو گواسکر  اینڈ  ہی بولڈ ہیِم""220 روپے کِلو جی " کم بخت کی بھدی آواز نے میری سُنہری   یادوں کی بنتی ڈوری کو مکڑی کے جال  کی طرح بِنا احساس کئے توڑ ڈالا۔ میں نے خشمگیں نظروں سے سبزی فروش کو دیکھا اور سائیکل کے  کیرئیر پر پڑی ٹوکری سے ہوا مُنقطع تعلق پھِر سے باندھا ۔ "یار یہ  سُرخی پاؤڈر لگائے کشمیری ناری کی طرح چمکتی سبزی کا کیا   ریٹ ہے  ؟"۔ وہ اپنا مُنہ میرے کان کے قریب لاتے ہوئے بڑے  رازدارنہ اندازمیں بولا " 106 روپے ٍ12پیسے "۔ میں نے حیرت سے پوچھا "بھائی یہ   سبزی کا ریٹ  بتا رہے ہو  کہ ڈالر کا ؟" اُس  کے مُنہ میں بھی جیسے  جواب تیار تھا نِکلنے کو" باؤ جی یہ سبزی کھانے والا ڈالروں میں ہی کھیلتا ہے۔ میں نےسپن باؤلر کی طرح ہاتھ میں شلجم گھُماتے ہوئے جواب دیا" میاں  ہمارا  بھلا فارن کرنسی سے کیا  لینا دینا  ڈالروں میں  تو   بس تُمہارے یہ گونگلوہی  کھیلتے ہیں" اب کی بار اُس نے جواب میں گُلزار کی شاعری کا سہارا لیا۔

ہم نے دیکھی ہے اِن آنکھوں میں شلجموں کی مہکتی خوشبو

ہاتھ سے چھوکے اِنہیں رِشتوں کا اِلزام  نہ دو

شلجم کو شلجم ہی رہنے دو سیاست کا نامِ بدنام نہ دو

اُس کے جواب  کی  داد دئے بغیر میں رہ نہ سکا، مگر وہ اپنی سائیکل پر سوار ہوچُکا تھا۔  میں نے  اُسے پھِر سے روکتے ہوئے  آلو پیاز کے ریٹ   بھی پوچھ لئے ۔ وہ میری ہتھیلی پر دو ہری مرچیں پکڑاتے ہوئے بولا " باؤ جی بُرا مت منانا  آپ اور میرے جیسے مُنہ رکھنے والوں کے لئے جو دال والا  مُحاورہ  بنا ہوا ہے نہ اُس میں اب آلو اور پیاز کا  اِضافہ بھی ہو چُکا ہے ۔ آپ اِن مرچوں  کی چٹنی پر ہی گُزارا کرو جی "۔سبزی والا اپنی چاں چوں کرتی سائیکل پر  اگلی منزل کو چل دیا اور میں  ہتھیلی پر دو  ہری مرچیں سجائےسوچنے لگا کہ ہمارے آج کے حُکمران اپنے ہزاروں مربع میل پر پھیلے سبز باغ میں ہمارے لئے آلو مٹر ٹماٹر بھلے ہی نہ لگائیں  مگر اپنے سیاسی مُرشد کی یاد میں کم ازکم گنڈے (پیاز) تو گڈ لیں۔۔