Saturday 24 November 2012

آج کُچھ میری بھی سُنو


نوٹ    یہ تحریر اُستاد جی کی پوسٹ تعزیہ سے مُتاثر ہو کر لِکھی گئی ہے۔
میرا بچپن اور جوانی بھی اُستاد جی کے شہر ہی میں بسر ہوئی ہے ۔ محرم کے ماتمی جلوسوں پر میری پہلی نطر ڈگلس پورہ کے گھر کی چھت سے پڑی میرا تجربہ بھی اُستاد جی کے بنائے گئے خاکے سےمُختلف نہ تھا۔   اپنے سکول کے دور  میں  ایک بار    دس محرم کے  دِن دھوبی گھاٹ سے گُزنے کا اتفاق ہوا  اور پہلی بار زنجیر زنی   لائیو ہوتے دیکھی تو  حالت غیر ہو گئی۔  بس  خُدا خُدا کر کے اپنے گھر پہنچا وہ دِن اور آج کا دِن میں نو اور دس مُحرم کے دِن خود کو گھر  میں ہی  میں مُقید کئے رکھتا ہوں۔اِس کی  وجہ کوئی خاص نہیں بس اپنا دِل ہے ہی اِتنا کمزور  مُرغی ذبح  ہوتے دیکھ کر   ہی باہر کو  چھلانگتا  ہے ۔ اِنسانی خون  تو ،خیر رہنے ہی دیں اِس بات کو۔ محرم کے دِنوں میں مُنعقدہ مجالس  سے مُجھے اِختلاف  لاوڈ سپیکر کے اِستعمال پر ہے جِس میں ذاکر صاحبان کی تقاریر اور نوحوں کے ساتھ ساتھ دھڑام دھڑام کی آوازیں بھی  سُننے کو مِلتی ہیں ۔ جو مُجھے زنجیر زنی کے  دیکھے گئے سین میں پھِر سے  دھکیل دیتیں ہیں۔

مُجھے یاد ہے کہ میٹرک  پاس کرنے پر مُجھے  تایا جان نے ایک چھوٹا سا ٹیپ رِکاڈر گِفٹ کیا تھا۔وہ ٹیپ رِکارڈر لندن سے سفر کرتا  ہو ا مُجھ تک پہنچا تھا۔بہت پیار سے میں نے اُس ٹیپ رِکارڈر کو رکھا۔ اپنی ٹین ایج کے  ہٹ گانے جو آج بھی میری یادوں میں محفوظ ہیں اُسی پر سُنے ۔بونی ایم گروپ کی ایک کیسٹ    جوکہ ٹیپ رِکارڈر کے ساتھ ہی تشریف لائی تھی ،کُچھ ہی عرصے میں  لگ بھگ حفظ ہوگئ تھی مُجھے۔ نہ جانے کب اُس ٹیپ رِکارڈر میں گانوں کی جگہ حق نوازجھنگوی کی ایمان افرو ز تقریروں نے لے لی ۔ غالباً مسجد میں نماز اور  مولویوں سے علیک سلیک  نے یہ کرشمہ کر دکھایا تھا۔جھنگوی صاحب کی  تقاریر سُنیوں  کا خون گرماتی تھیں اور شیعوں   کے  گھر جلاتی تھیں ۔  اِن تقاریر کا مُجھ پر بھی گہرا  اثر ہوااور میں اُس( کافر قراد دی ہوئی) مخلوق کو کائنات کی بد ترین مخلوق  گرداننے لگا ۔  بس یوں محرم  کی تقاریب سے میری  وہشت کو ایک جائز  اور  مسلکی پناہ گاہ  بھی میسر آگئی۔ کافر کافر کا نعرہ خود لگانا تو  اپنی  خاندانی تربیت کے سبب کبھی مُناسب محسوس نہ ہوا مگر   لگتے دیکھ کر کبھی بُرا  بھی نہ لگا ۔ 

اِس جاندار نعرے نے کُچھ  ہی عرصے میں اپنا اثر پورے معاشرے میں قتل و غارت  اور بے سکونی  کی   صورت دِکھانا شُروع کر دیا ۔مگر میں  نے اِس نعرے کو اپنے ایمان کا  جُز و لازم جانتے ہوئے ہمیشہ اِلزام فریق ِ ثانی پر ہی دھرنے کی روش اپنائے رکھی۔ میرے چھوٹے چچا جو اُن دِنوں چنیوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے  ۔وہ اکثر  صحابہ  کے اِن جانثاروں کے قِصے سناتے  اور اِن لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔مگر  میرا مُرغا بھی ایک ٹانگ لیکر ہی پیدا ہوا  تھا ۔ سٹوری میں ٹوسٹ اُس دِن آیا  جس دِن سعید انور نے 194 رنز کی کبھی نہ بھولنے والی اِننگز کھیلی ۔ سعید انور کی سنچری شام کو بنی تھی مگر اُس دِن  کا آغاز بھی ایک  الگ سنچری سے ہوا تھا۔   عاشقانِ صحابہ  کی ٹیم کے ایک  کھِلاڑی نے  اپنا سواں شکار   ابدی نیند سُلا یا تھا۔ شکار ہونے والا ایک درویش صِفت   اِنسان جِس نے  آخری سانسیں اپنے بیٹے   نیر عباس  کی گود میں  بیچ سڑک  پر لیں ۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا جاوں یہ وہی نیر عباس ہے جِسے  جعفرحُسین نے اپنی پوسٹ  میں عُرف " پستول شاہ "لِکھا ہے۔ اُس درویش کے قتل پر ہر آنکھ عشق بار تھی ہر چہرہ افسردہ ۔ ایوب ریسرچ کی وہ سڑک بھی شرمندہ تھی جہاں دِن دیہاڑے یہ  اندوہناک واقع  پیش آیا  وہ   درویش 25منٹ  تک خون میں لت پت پڑا رہااور کوئی مدد کو آنے والا نہ تھا۔ دُکھ کی بات یہ ہے  کہ میری اِن آنکھوں نے وہ چہرے بھی دیکھے جو اِس سفاکی کو جائز اور  اس قتل پر   دُکھ کے اِظہار کی  سرزنش کرتے  تھے۔

نیئر عباس سے میری دوستی بہت پُرانی ہے۔ اِنسانی تعلق  خصوصاً دوستی اِ  اِتنی کمزور کبھی نہیں ہوتی کہ  وہ حق نوازجھنگوی  یا کِسی  اور مُقرر کی  شعلہ بیانی اُسے جلا کر بھسم کر ڈالے ۔ میں اُسے اور   اُس کے مسلک کو   اِسلام سے خارج قراد دیتا رہا اور وہ اپنے دِفاع میں ہر دم سر گرداں رہا۔ وہ   ہمیشہ اپنے مسئلک کی  بطور اِسلام قبولیت  کے حق میں دلائل      پیش کرتا رہا۔ہم آپس میں لڑتےرہے  ایک دوسرے کے دلائل سُنتے  اور رد کرتےرہے  مگر نہ وہ  اپنی جگہ سے ہِلا نہ میں کھِسکا۔   ہمیں زِندگی  کے تجربات نے یہی سبق دیا کہ  دوسرے کی عِزت کرنے  سے اِنسان عِزت پاتا ہے ۔ دوسرے کا احترام کرنے سے  اِنسان خود محترم کہلاتا ہے اور سب سے بڑھ کر  یہ بات  کہ  صبر ،برداشت اور ڈائیلاگ  ہی  ایک صحت مند  معاشرے کی تشکیل کے ضامن ہیں ہے۔
اِسلام  صبر، برداشت  قُربانی اور عدم تشدد کا درس دیتا ہے ۔ نبی پاک کے نواسے کی قُربانی  اِس کا سب سے بڑا ثبوت ہے  ۔  اِس قُربانی کے اِس بُنیادی فلسفے میں ہی ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔
  

Thursday 15 November 2012

اے سُپر مین ہٹاں تے نئیں وِکدا



اِک کنگلے کالے  افریقی کے گھر پیدا ہونے والے بدیسی صدر کی شان میں صفحے کالے ہوتے دیکھے تو میرے دِل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کیوں نہ اپنی دھرتی کے حقیقی ہیرواور رئیس الاعظم کی اولادِ اصغر کی شان ِبیان میں کُچھ قصیدہ نِگاری کا فرض ادا کرتا  جاؤں۔ جناب کی سحر انگیزذات مُبارکہ  کے اس مفلوک لحال  اور پِسی ہوئی  عوا م پر  اسقدر احسانات ہیں کہ جِن کا قرض رہتی دُنیا تک اُتارنا کسی طور بھی مُمکِن   نہیں ہے   ۔ آپ کی عظمت کا اِس سے بڑا اور کیا ثبوت ہے کہ چند سال پہلے آپ کو پنجاب کا شیر کہا جاتا تھا مگر آج جنگل کا بادشاہ بھی شہباز کی کھال پہنے نظر آتا ہے۔

قُربان جاؤں  آپ کے صوفیانہ انداز زِندگی پر کہ مئی جون کی گرمی میں بھی آپ کو جُھگی میں بیٹھے پنکھا جھلتے دیکھا جاتا رہا۔ مگر جب ڈینگی افواج نے حملہ کیا تویہ درویش اِک جری سپہ سالارکے روپ میں نظر آیا۔ ہر گلی ہر موڑ ہر دُکان پر ڈینگی سپرے اُٹھائے "شہباز ریمبو دی ڈینگی کِلر "حقیقت میں  ڈینگی کی موت ثابت ہوا ۔ اِس عظیم اِنسان  کی  برق رفتاری  سے ہسپتالوں میں  آنیا جانیاں دیکھ کر یقین ہو گیا کہ جناب کی شکل میں سُپر مین کا حقیقی جنم ہو ا ہے۔  ہمارے سری لنکن بھائی تو  اِس سُپر مین  کے حصول کے لئےمِنتے ترلے کرتے نظر آتے ہیں اب بھلا اِن بھائیوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ  "اے سپر مین ہٹاں تے نئیں وِکدا"۔ ہمارااہلیان ِ سرِی لنکا  کو ایک  آزمودہ  مشورہ ہے  کہ  اِس سپر مین  کی آدھ پیجی  تصاویر اپنے مُلک کے تمام اخبارات میں چند دِن لگا ئیں  اور پھِر دیکھئے گا اس کا اثر۔۔۔۔ بھلے ہی موسمی حالات کا بہت فرق ہو پھِر بھی    یقینا  ڈینگی مچھر آپ سے دور ہوگا رہنے پر مجبور۔

عدلِ جہانگیری کے قِصے تو ہم نے سُن رکھے تھے مگراپنی آنکھوں سے  حقیقی عدل  بٹیا رانی کے کیس میں آپ ہی کے ہاتھوں  ہوتے دیکھا  ۔ کِس طرح آپ نے  رِشتے کی نزاکت کو بالے کی طاق پر رکھتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ہائے  میں جب بھی بِٹیا رانی کے سرتاج کی  "اُتھاں گُزاری آئی رات "کے  بارے میں سوچتا ہوں تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

آپ کے دانش سکول   سرسید  احمد خان کے مُحمڈن اورئنٹل کالج سے بڑا اِنقلاب لائیں گے۔ جب دانش سکول کے بچے بڑے ہوکر  اپنی عِلمی صلاحیت  و قابلیت کے بل بوتے پرمسندِ صدارت پر براجمان ہوں گےتو ۔۔ہائے رے ککھ نہ روےایس قلم دا۔۔۔اومِٹی پاؤ جی ۔ ہاں تو میں کہ رہا تھا   کہ آپ کے دُشمن ایک آمر کو دس بار باوردی مُنتخب کر نے کی خواہش کا اِظہار  کر سکتے ہیں   تو آ پ کی مُحبت میں گِرفتار   اور احسانوں تلے دبی  یہ غریب عوام   سے آپ کی اگلی  پانچ نسلوں کو بھی  مُنتخب کرنے کا  حق  کوئی مائی کا لال نہیں چھین سکتا۔ جب کھُلا تضادکھُلے عام دِکھائی دیتا ہے تو  موروثیت  سرعام کیوں  چل نہیں  سکتی ۔ مُفت میں ببیچے ہوئے چھوٹے کمپیوٹر   اور بدلے میں نوجوانوں کے دِل ، کِسی سمندری تبدیلی سے کہیں بہتر اِنقلاب ہے  جو حقیقت  میں اب آچُکا ہے  ۔آپ نے جمہوریت کی اِس بے لگام  اور سرکش گھوڑی کو کمشنری نظام کا ایسا چابک مارا کہ   یہ  گھوڑی  اپنے شہزادے  کو بمع اہل و ایال ،پیٹھ پر بٹھائے نئی نویلی سڑکوں اور بِنا سریے کے بنے عالیشان   پُلوں پر سرپٹ دوڑتی نظر آتی ہے۔

ہمارا لیڈر   وہ شہباز ہے جو تندی بادِ مُخالف سے نہ گھبرایا اور نہ ہی  اُس نے اُنچی اُڑان کا جھنجھٹ  پالا بلکہ  اِک کرشمہ کر دکھایا اِس تُندی کو بادِ صبا میں بدل دینے کا کرشمہ۔اِس مردِ آہن نےتنِ تنہا    اِک تباہی پھیلانے والے سونامی کو  اپنی دھرتی کے پنج دریاوں میں غرق کر  کے  جواں مردی و شجاعت کی اعلی ترین مثال قائم کرتے ہوئےاپنا نام گِنس بُک  میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کروا  لیا ہے۔( والیم 2012 صفحہ نمبر 303پر ٹی شرٹیں بدلنے  اور روٹیاں پکانے والے رِیکارڈ سے نِچلی لائن پر  آپ شہباز صاحب  کے ریکارڈ کی تفصیل مُلاحظہ کر سکتے ہیں)

خادمِ  اعلی کی دریا دِلی اور سخاوت کا مُنہ بولتا ثبوت روز کے اخبارات ہیں غریب لِکھاریوں اور مفلوک الحال اخبارات کے لئے مُختص کردہ  فنڈ   ہے جو کہ لاکھوں گھروں کے چولہے گرم رکھے ہوئے ہے ۔ اُمید کرتا ہوں  کہ یہ دریا دِلی جلد ہی میری جیب کا رستہ بھی دیکھے گی۔ میری جیب کہ جِس میں آج تک خُشک  کی سالی  غُربت ہی ناچتی رہی ہے۔ مگر اب  دولت کی بہاریں بھی دیکھ پائے گی ۔بس ایک بار۔۔۔۔

  

Friday 9 November 2012

ایک عامی کا اِقبا ل ڈے



ایک اور اِقبال ڈے گُزر گیا۔ تمام دِن اِقبال کی شاعری اور فلسفے پر روشنی ڈالی جاتی رہی اور فکر ِ اِقبال کی یاد کو تازگی بخشنے کے  نام پر ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کا پیٹ بھرا گیا۔ میں اِقبالیات کا طالبِ عِلم کبھی نہیں رہا اورپھِر آنڈے پرونٹھوں کی خوش خوراکی مُجھے فلسفیانہ اور مُدبرانہ خیالات و نظریات سے  دور دھکیلتی رہی۔ میں تو فے سے فضل الرحمٰن کے کے" پلٹنے جھپٹنے "کو کبھی نہ سمجھ پایا یہ فلسفے کے حروفِ تہجی  کو بھلا ۔۔۔

دو قومی نظریہ ڈاکٹر اِقبال کے خواب  کی صورت جنما اور ہمارے مُلک کی تخلیق کا سبب  بنا ۔  ہم بھلا محسِنوں کو کب بھولنے والے ہیں اِس دو قومی نظریے کو آج بھی زِندہ رکھے بیٹھے ہیں۔ ہمارے مُلک میں آج بھی دو  قومیں ہی بستی ہیں۔ اِک امیر اور دوسرے ہم۔   ہمیں  حکومت نے غُربت پروگرام کے سپیشل شناختی کارڈ  دے رکھے مگر اشرافیہ  کے در چھونے کے لئے شفارشی کارڈ بھی ضروری ہوتا ہے وہ نہ جانے کب مِلیں گے؟۔ ہمارا مُلک بھی کمال ہے کہ جہاں کے امیر بھی غُربت کا رونا روتے ہیں ۔بچوں کے پیمپروں کی  بڑھتی قیمت اُنہیں   مہنگائی کا احساس دلاتی  ہے۔ مہنگائی کا رونا رونے والی اِس اپر کلا س کے بچے فیری ٹیلز پڑہتے ہیں ، انگریزی میں خواب دیکھتے ہیں اور لنچ بریک میں نگٹس کھاتے ہیں۔ میں نے  کبھی  شاہین کی پرواز بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی کرگس  کے رہن سہن پر  میر ا کبھی  دھیان گیا مگر  اِک بات میں جانتا ہوں  کہ "اِن بچوں کا جہاں اور ہے اُن بچوں کا جہاں اور"

دو دِن پہلے کے اخبارات  میں اِک چھوٹی سی خبر  پڑھ کر مُجھے یادآیا کہ اِقبال نے  ممولے کو شہباز سے لڑا  دیا  تھا ۔سُنا ہےبہت طاقت تھی اِقبال کی شاعری میں ۔  مگر میں نے زِندگی میں ممولے کو پَٹتے ہی دیکھا۔   شہباز خواہ خادمِ اعلٰی ہو یا پھِرکوئی  اُس کا داماد یا سالا ہو ، وہ  ہر  حال میں مار ہی کھاتا ہے ۔ ممولا ہو یا  کوئی مُجھ  سا  معمولی ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ اِن شہبازوں کے گُن گائیں  اور خوب دِل لگا  کر  "کھائیں " اِس عملی اُصول کو ذہن نشین کرتے ہوئے " کھاؤں گا نہیں تو بڑا کیسے ہوں گا"۔