نوٹ یہ تحریر اُستاد جی کی پوسٹ تعزیہ سے مُتاثر ہو کر
لِکھی گئی ہے۔
میرا بچپن اور جوانی بھی اُستاد جی کے شہر ہی میں بسر ہوئی
ہے ۔ محرم کے ماتمی جلوسوں پر میری پہلی نطر ڈگلس پورہ کے گھر کی چھت سے پڑی میرا
تجربہ بھی اُستاد جی کے بنائے گئے خاکے سےمُختلف نہ تھا۔ اپنے سکول کے دور میں ایک بار
دس محرم کے دِن دھوبی گھاٹ سے
گُزنے کا اتفاق ہوا اور پہلی بار زنجیر
زنی لائیو ہوتے دیکھی تو حالت غیر ہو گئی۔ بس
خُدا خُدا کر کے اپنے گھر پہنچا وہ دِن اور آج کا دِن میں نو اور دس مُحرم
کے دِن خود کو گھر میں ہی میں مُقید کئے رکھتا ہوں۔اِس کی وجہ کوئی خاص نہیں بس اپنا دِل ہے ہی اِتنا
کمزور مُرغی ذبح ہوتے دیکھ کر
ہی باہر کو چھلانگتا ہے ۔ اِنسانی خون تو ،خیر رہنے ہی دیں اِس بات کو۔ محرم کے دِنوں
میں مُنعقدہ مجالس سے مُجھے اِختلاف لاوڈ سپیکر کے اِستعمال پر ہے جِس میں ذاکر
صاحبان کی تقاریر اور نوحوں کے ساتھ ساتھ دھڑام دھڑام کی آوازیں بھی سُننے کو مِلتی ہیں ۔ جو مُجھے زنجیر زنی
کے دیکھے گئے سین میں پھِر سے دھکیل دیتیں ہیں۔
مُجھے یاد ہے کہ میٹرک
پاس کرنے پر مُجھے تایا جان نے ایک
چھوٹا سا ٹیپ رِکاڈر گِفٹ کیا تھا۔وہ ٹیپ رِکارڈر لندن سے سفر کرتا ہو ا مُجھ تک پہنچا تھا۔بہت پیار سے میں نے اُس
ٹیپ رِکارڈر کو رکھا۔ اپنی ٹین ایج کے ہٹ
گانے جو آج بھی میری یادوں میں محفوظ ہیں اُسی پر سُنے ۔بونی ایم گروپ کی ایک کیسٹ
جوکہ ٹیپ رِکارڈر کے ساتھ ہی تشریف لائی
تھی ،کُچھ ہی عرصے میں لگ بھگ حفظ ہوگئ
تھی مُجھے۔ نہ جانے کب اُس ٹیپ رِکارڈر میں گانوں کی جگہ حق نوازجھنگوی کی ایمان
افرو ز تقریروں نے لے لی ۔ غالباً مسجد میں نماز اور مولویوں سے علیک سلیک نے یہ کرشمہ کر دکھایا تھا۔جھنگوی صاحب کی تقاریر سُنیوں
کا خون گرماتی تھیں اور شیعوں کے گھر
جلاتی تھیں ۔ اِن تقاریر کا مُجھ پر بھی گہرا اثر ہوااور میں اُس( کافر قراد دی ہوئی) مخلوق
کو کائنات کی بد ترین مخلوق گرداننے لگا
۔ بس یوں محرم کی تقاریب سے میری وہشت کو ایک جائز اور مسلکی پناہ گاہ بھی میسر آگئی۔ کافر کافر کا نعرہ خود لگانا
تو اپنی
خاندانی تربیت کے سبب کبھی مُناسب محسوس نہ ہوا مگر لگتے دیکھ کر کبھی بُرا بھی نہ لگا ۔
اِس جاندار نعرے نے کُچھ ہی عرصے میں اپنا اثر پورے معاشرے میں قتل و
غارت اور بے سکونی کی صورت دِکھانا شُروع کر دیا ۔مگر میں نے اِس نعرے کو اپنے ایمان کا جُز و لازم جانتے ہوئے ہمیشہ اِلزام فریق ِ ثانی پر ہی دھرنے کی روش اپنائے رکھی۔
میرے چھوٹے چچا جو اُن دِنوں چنیوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے ۔وہ اکثر
صحابہ کے اِن جانثاروں کے قِصے
سناتے اور اِن لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔مگر میرا مُرغا بھی ایک ٹانگ لیکر ہی پیدا ہوا تھا ۔ سٹوری میں ٹوسٹ اُس دِن آیا جس دِن سعید انور نے 194 رنز کی کبھی نہ بھولنے
والی اِننگز کھیلی ۔ سعید انور کی سنچری شام کو بنی تھی مگر اُس دِن کا آغاز بھی ایک الگ سنچری سے ہوا تھا۔ عاشقانِ صحابہ کی ٹیم کے ایک
کھِلاڑی نے اپنا سواں شکار ابدی نیند سُلا یا تھا۔ شکار ہونے والا ایک
درویش صِفت اِنسان جِس نے آخری
سانسیں اپنے بیٹے نیر عباس کی گود میں بیچ سڑک
پر لیں ۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا جاوں یہ وہی نیر عباس ہے جِسے جعفرحُسین نے اپنی پوسٹ میں عُرف " پستول شاہ "لِکھا ہے۔ اُس
درویش کے قتل پر ہر آنکھ عشق بار تھی ہر چہرہ افسردہ ۔ ایوب ریسرچ کی وہ سڑک بھی
شرمندہ تھی جہاں دِن دیہاڑے یہ اندوہناک
واقع پیش آیا وہ درویش 25منٹ تک خون میں لت پت پڑا رہااور کوئی مدد کو آنے
والا نہ تھا۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ میری اِن
آنکھوں نے وہ چہرے بھی دیکھے جو اِس سفاکی کو جائز اور اس قتل پر دُکھ کے اِظہار کی سرزنش کرتے
تھے۔
نیئر عباس سے میری دوستی بہت پُرانی ہے۔ اِنسانی تعلق خصوصاً دوستی اِ اِتنی کمزور کبھی نہیں ہوتی کہ وہ حق نوازجھنگوی یا کِسی
اور مُقرر کی شعلہ بیانی اُسے جلا
کر بھسم کر ڈالے ۔ میں اُسے اور اُس کے
مسلک کو اِسلام سے خارج قراد دیتا رہا
اور وہ اپنے دِفاع میں ہر دم سر گرداں رہا۔ وہ
ہمیشہ اپنے مسئلک کی بطور اِسلام
قبولیت کے حق میں دلائل پیش کرتا رہا۔ہم آپس میں لڑتےرہے ایک دوسرے کے دلائل سُنتے اور رد کرتےرہے مگر نہ وہ اپنی جگہ سے ہِلا نہ میں کھِسکا۔ ہمیں زِندگی کے تجربات نے یہی سبق دیا کہ دوسرے کی عِزت کرنے سے اِنسان عِزت پاتا ہے ۔ دوسرے کا احترام کرنے
سے اِنسان خود محترم کہلاتا ہے اور سب سے
بڑھ کر یہ بات کہ صبر
،برداشت اور ڈائیلاگ ہی ایک صحت
مند معاشرے کی تشکیل کے ضامن ہیں ہے۔
اِسلام صبر،
برداشت قُربانی اور عدم تشدد کا درس دیتا
ہے ۔ نبی پاک کے نواسے کی قُربانی اِس کا
سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ اِس قُربانی کے اِس بُنیادی فلسفے میں ہی ہمارے تمام مسائل کا
حل موجود ہے۔