Monday 13 February 2012

KOH KAAF LEAGUE by Dohra hai


کوہ قاف لیگ
ارضِ پاک کہ جس کی تاریخ کے بیشتر حصے میں فوجِ پاک نے بارِ حکومت اپنا بنیادی حق سمجھتےہوِئےباِلواستہ یابلاواسطہ اپنے کندھوں پر اُٹھاَ رکھنے کو ہی خدمتِ عظیم سمجھا۔ اقتدار پرزبردستی  براجمان ہونے والے ہر طالع آزماء نے خود کو پوِتراور سیاست دانوں کومُلک کی زبوں حالی کا سبب اور تمام بُرائیوں کا سِرا جانتے ہوءے نااہل قراردینے کوہی عوامی خدمت جانا۔ ایوب سے ضیاء اور پھر مشرف ہر ایک نے سیاست دانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کر کے اپنے تئیں قوم پر ایک احسانِ عظیم کیا۔                                      ایوب خان نے ایبڈو نافذ کرتے ہوءے تما م سیاست دانوں کے ساتھ سابقہ کا لاحقہ جوڑتے ہوءےاُنہیں گھر بھیج دیا اور میدانِ سیاست میں نیابیج بویا فصل کی آبیاری اپنے خونِ دِل سے کی۔ ضیاء الحق آءےتو اُنہوں نے چند ماہرین فلکیات سے رابطہ کرتے ہوءےسیاسی اُفق پر نئے ستارے ڈھونڈے۔ ضیاء صاحب کا اپنا ستارہ تو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا مگر اُن کے منظورِنظر ستارے آہستہ آہستہ زمین پر اُترے اور اسے ہی اپنا مستقل ٹھکانا بنالیا ۔ جن میں سے بعض نے مذہب کا یک رُخی سبق پڑھ اور پڑہا کر ایک ایسی لیگ تشکیل دی جو آج پوری قوم کے ساتھ سپر لیگ کھیلنے میںمصروف ہے۔ادھر چوکا اُدھر چھکا ۔ اُن کے لئے محض جنت مِیں جانے کا اِک کھیل اور ہمارے لئے مکمل بربادی اورعذاب۔                                                                                          مشرف بھلا پیچھے کیسے رہتے اُنہوں نے ہم سا ہو تو سامنے آئے کا نعرہ لگاتے ہوءے قوم کی نیا پارلگانے کا بیڑہ اپنے سر اُٹھایا۔ کوہ قاف سے نئی ٹیم  امپورٹ کی جس میں حسین و جمیل پریاں بھی تھیں اور خوبروسوٹڈ بوٹڈ جوان بھی۔ نظریہ ضرورت کو بُنیادبناتےہوئےچند ایک پُرانے بدنُمااورداغدار چہروں کوجی ایچ کیوبیوٹی پارلرسے  میک اپ کرایاگیا اور اِن بھدےچہروں کو ریکنڈیشنڈ کا سرٹیفیکیٹ عطا کرتے ہوءے اُنہی کے ہاتھ میں قوم کے مسقبل کو تھما دیا۔اور پھراگلے پانچ سال تک ہم تھے اور وہ۔۔ بچانے والا کوِئی نہ تھا۔                                                                              
۱۹۹۸ کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہونے والی خُشک سالی ذرا لمبی ہوءِِِِِِِِِی تو ہمارے بڑوں نے دُعا کی کشادگی رزق کی ۔اُن کی یہ دعا قبول ہوئ اور ہمیں القاعدہ کا فایدہ میسر آیا۔ ہمارے پُرانے آشنا امریکہ نے ہم سے پھر رشتہ جوڑاجو آج تک قائم ہے۔ مگر اس بارانکل سام  دو منہ والی بندوق کے ساتھ جلوہ گرہوئےہیں۔ جس کی ایک نالی ڈالر برساتی ہے تو دوسری نان سٹاپ بارود پھونکتی ہے۔ ۲۰۰۲ کے الیکشن کے بعد ق لیگ کو حکومت کی نعمت ملی اِس دور میں قوم کو بہت سے اندرونی بیرونی چیلنجوں کا سامنا تھا اِنہوں نے کمال مہارت سے ان میں دو چار کا اضافہ کرتے ہوے سب مسائل آگے پاس آن کردئے۔ اس پانچ سالہ دور میں لینڈ مافیا کی لوٹ مار،ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری سٹیل مِل، اور جانے کون کون سےمعاملات میں اگلے پچھلے رِکارڈ اپنے نام کیےگئے۔امریکی ڈالروں سے اپنی تجورِیوں کی رونق بڑہائ اور عوام کو ٹرکل ڈاوءن اِکانومی کے خواص اِک سنہرے خواب کی صورت میں دکھاءے۔ مگر یہ اکانومی کی ٹرکل بھی عوام کے ساتھ ٹرِک کرگئ اور اس غریب قوم  کے حصے  میں آئے فقط ڈاوءن سے ڈاوءن حالات اور ڈرون حملے۔                                                                                                      
                                مشرف کی اس کوہ قاف لیگ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اپنے نام کی پہچان کا تھا۔ یہ خود کو "ق" لکھتے رہے اور لوگ "ک" پڑہتے رہے۔ لاکھ کوشش کی مگر کچھ بن نا پایا۔ قاتل لیگ کا نام دے کر زرداری صاحب نے اِن پر احسانِِِ عظیم کیا اور یوں ان کو پہچان مل گئی ۔باقی رہا الزامِ قتل تو گزارش یہ ہے کہ جس ملک مِیں گورنر کا باڈی گارڈ کے ہاتھوں قتل ہو۔ اور اس قتل کے  حق میں لوگ توجیحات بیان کریں۔جہاں اپنےگھرسے بچوں کی روزی روٹی کے لئے نکلنے والےیا اپنے اللہ کی یادمیں مسجد جانے والے قدموں کو ناحق بارود سے اُڑادیا جائے یا خون میں نہلا دیا جاءے۔ ان دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد ایسے بتاءی جائے جیسے کسی ٹونٹی ٹونٹی میچ میں ایک اوور کا سکور۔ وہاں قتل کا الزام مِٹی پاوءتے روٹی کھاوء سے زیادہ کچھ مِعنی نہیں رکھتا ۔چودھریوں نے بھی سیاست میں اعلی اقدار کو فروغ دیتے ہوئے زرداری صاحب کے احسان کا بدلہ گرتی ہوئ حکومت کو بہت سےتنکوں کا صحارا دے کر کیا۔مگر افسوس اس ظالم سیاسی بساط پرکہ جسمِیں کسی کےاس اچھے عمل کو بھی شک کی نظرسے دیکھا گیا۔ ان شکی القلب لوگوں کواِتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ راج نیتی میں بھلا کون کسی کا باپ بیٹا پوتا نواسہ ہوا ہے ۔ شہنشاہ عالمگیر کااپنے باپ اور بھائ کے ساتھ کیے گئےسلوک کو ذرا ذہہن پر زور دیکر یاد کریں نہیں تو ہمارے پڑوسی ملک سے درآمد شدہ فلم راجنیتی دیکھ کر کچھ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔میرا چودھری برادران کواِک مفت مگر بڑا قیمتی مشورہے کہ وہ کچھ پیسہ ویسہ لگا کر اس فلم کوکیبل پر خوب تواتر کے ساتھ چلوائیں تاکہ اس ناسمجھ قوم کو بھی کچھ کھرے کھوٹے کی پہچان ہو                                                                                                                        ۔
جب  مشرف  لال مسجد  کی دیواروں پرمحض چند اسلحہ برداروں کے حصول کیلئے نہتی بچیوں کے خون سے رنگائ کروا رہا تھا تب بھی ان میں سے کسی کا ضمیرخوابِ خرگوش کا ِحصار توڑنے میں کامیاب نہ ہوا ۔اور یہ سب بیک زبان مشرف کے قافیے سے قافیہ جوڑتے رہے۔ مگرآج یہ مشرف کا نام اپنی لغت سے جلد سے جلد مٹانا چا ہتےِِِِِِِِہیں۔ نہ جانے کیوں ہم ہمیشہ سےہی اپنی تاریخ ایک بلیک بورڈ پر لکھنے کے خواہشمند  رہے ہیں تاکہ جب چاہا اور جہاں سے چاہا مٹادیا۔ بھلے ہی ہم اپنے ماضی کی تحریر کو مٹا ڈالیں اُسے لوگوں کے کمزور حافظے سے بھی جلد منہا کرنے میں کامیاب ہوجائَیں ۔مگرہمیں یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیئے کہ اسکے اثرات اِِِک خونخوار درندے کی مانند ہوتے ہیں کہ جو آنکھیں موندے ہوئے معصوم سے کبوترکی چیر پھاڑمیں ذرا بھر بھی توقف نہیں کرتا۔                                                                                                             
                                                        

No comments:

Post a Comment