Saturday 25 February 2012

TAMASH BEEN by Dohra hai


تماش بین
تماشبینی حقیقی معنوں میں ہمارا قومی کھیل ہے۔ تماشبینی کا سب سے اہم اُصول یہ ہے کہ اِس کھیل کا شوقیین خود اس کھیل کا حصہ نہیں بنتا بلکہ بننا ہی نہیں چاہتا،دراصل اسی طرح سے تو وہ اس کھیل  سےپوری طرح محظوظ ہوتا ہے۔ ایک دور تھا کہ ہمیں چوراہوں میں اکژ بازی گر اور مداری اپنے فن کا  مظاہرہ کرتے نظر آتے تھے۔اور ان کے گرد اچھا خاصا ہجوم دیکھ کر ہمیں اپنے قومی کھیل کی مقبولیت  کا ندازہ ہوتا رہتا تھا۔ لوگ اس قدر انہماک سے تماشا دیکھنے میں مصروف ہوتے  کہ خودسے بھی لا تعلق۔اس  دورانِ کوئی بٹوہ لے اُڑے یا بریف کیس غائب کُچھ خبرنہ ہوتی ۔ آج  کے مہنگائ کے دور میں  زندگی جینا آسان نہیں رہا۔ ہر کوئی بسر اوقات کے لئے فکرِ روز گار میں کچھ اِسقدر مصروف ہو گیا ہے کہ بس اللہ کی پناہ رہی سہی کسر سائبر ٹیک کی دُنیا نے پوری کر دی ہے۔اب تو ایسے لگتا ہے کہ دِن چوبیس نہیں بلکہ آٹھ دس گھنٹوں کا ہو گیا ہے۔ ایسے میں اِن تماشا گروں کو اپنے کام میں مندہ نظر آیا تو بازی گروں  نے پرنٹ میدڈیا سےاپنا تعلق اِستوار کرلیا۔ اور مداریوں نے اس سائنسی دور سے بہت   خوب مدد لی۔ اپنے بندر اِک ڈبے میں بند کر کے ہمارے گھروں میں رکھوا دیے۔ اِن ڈبوں سے بندروں کی دُمیں باہر نکلی ہوتی ہیں جدید زبان میں ہم ان ڈبوں کو ٹی وی سیٹ کہتے ہیں اندر بیٹھے بندر کواور اینکر پرسن اور باہر نکلی ہوئ دُم کو ٹی وی کیبل کا نام دیا جاتا ہے۔پھر کیا تھا ہمیں اپنے کھیل سے تعلق دوبارہ استوار کرنے کا موقع مل گیا۔ اب یہ اینکرپرسن بِلیوں کو لڑائیں ،ان میں فیصلہ کروائیں یا دونوں سے ٹُکر ٹُک ٹُک کر، اپنے پیٹ میں ڈالتے جائیں ۔ ہمیں کیا ، ہمیں تو صرف دیکھنے سے غرض ہے۔ہر روزاِک نئی لڑائی اِک  نیا انداز۔  باتیں سب پُرانی بغیر کیسی حل کے جوں کی توں ،مگر ہمارا حل سے کیا لینا دینا ہمیں توفقط تماشےسے مطلب ہے، کیونکہ تماش بینی ہمارا قومی کھیل ہے اور ہم سب تماش بین ہیں صرف تماش بین۔    

Monday 13 February 2012

SIYASI CRICKET by Dohra hai



     سیاسی کرکٹ  



کرکٹ ہمارا قومی کھیل نہیں ہے مگر اس کھیل میں  ۱۸ کروڑ کے ہجوم کو ایک قوم کی شکل دینے کی سحر انگیز شکتی ضرور موجود ہے۔ہماری تریسٹھ سالہ تاریخ کےچند ایک  واقعات کو چھوڑ کراگر دیکھا جاءے جتنی خوشیاں ہمیں اس گیند بلے کے کھیل سے ملی ہیں شائد ہی کہیں اور سے نصیب ہوئی ہوں۔اِک آخری گیند کے چھکے سے ہم پورے بھارت کو فتح کر بیٹھے۔ اُنیس سو بانوے، بہار کا موسم، رمضان کی اک بابرکت شام کہ جِس نے اِس بہار کو ہر پاکستانی کے لئے سدابہار کر دیا۔ اُس شام ہر پاکِستانی بعد از نمازِمغرب فتح ِ عالم کا تاج سر پر سجاءے بازاروں اور گلیوں میں ناچتا گاتا پایا گیا۔
کرکٹ کا کھیل ہمارے دِلوں کی دھڑکن ہے توسیاست ہمارے خون میں شیطان کی رفتار سے شایدایک دو قدم تیز دوڑتی پھرتی ہے۔ ۔سیاست اور کرکٹ کاآپس میں دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہے مگر دونوں کی کچھ قدروں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے ۔کرکٹ میں میچ فکس ہوتا ہے تو سیاست میں باریاں۔ ۔شائقین کرکٹ کے میدان کا رُخ چھکے چوکے دکھنے کیلئے کرتے ہیں تو سیاست کے ایوانوں میں بھی گالیوں کی دُکیوں،الزامات کے چوکوں اور نعروں کے  چھکوں سے عوام الناس کا دل لُبھایا جاتا ہے ۔اِک دور تھا کہ کرکٹ کو جنٹلمین کے کھیل کے طور پر جانا جاتا تھا مگر اب سپاٹ فکسنگ اس کی وجہ شہرت بنتی ہے۔ ماضی میں سیا ست میں بھی نیک نام شخصیات کی  بہت زیادہ کمی نہ تھی مگر اب فقط سوداگر۔۔۔
ہماری سیاست میں کرکٹ کا شوق و ذوق رکھنےوالی بہت سی  شخصیات موجود ہیں۔ جن میں سے ایک میاں صاحب ہیں۔ نواز شریف صاحب ایک بالغ نظر سیاست دان ہیں۔قوم کے احساسات، جزبات و خواہشا ت  کو بخوبی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے سیاسی اُفق پر قدم جماتے ہوءے ستارے عمران خان کو دس دس اوورز کے کرکٹ  میچ کا چیلنج دیا۔جسے عمران نے ایک بھونڈے نفسیاتی حملے کے ساتھ قبول کیا۔ "میاں صاحب میچ میں جلدی کریں یہ نہ ہو کہ میچ کے لئےآپکو ٹیم ہی نہ ملے " یہ تو میاں صاحب کا بڑا پن ہے کہ اُنہوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجاءے خاموشی اختیار کی۔ گیارہ سیاسی کرکٹرز کی ٹیم تو میاں صاحب اپنے گھر سے  ہی پوری کرسکتے ہیں۔کوئی ایک آدھ کی کمی رہ جاءے تو اُن کا کوءِی تنخواہ دار سیاسی کھلاڑی  پوری کر دےگا۔حقیقت میںتو عمران کو میچ کی جلدی کرنی چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ وہ پیڈ پہنے اپنی باری کا انتظار کرتا رہے اور میاں صاحب باری مار جاِئیں اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اگلے پنج سالہ مُقابلے تک میاں صاحب اپنے گھر کی دومضبوط ٹیمِیں میدان میں اُتاریں گے مردوں کی الگ خواتین کی الگ،بس خُدا کسی مُشرف کی نظرِبد سے محفوظ رکھے۔
دونوں ٹیمیں بظاہر برابر کی چوٹ محسوس ہوتی ہیں۔اِک ٹیم میں عابد شیر علی جیسا تیز باوءلرہے۔ جو جتنی تیز بال کراتا ہے اُتنی ہی زور دار اپیل بھی کرتا ہے۔اس ٹیم میں خواجہ آصف جیسا لیگ بریک گُگلی باِولراور انتہائ نپی تُلی باولنگ کروانے والا  آف سپنر پرویز رشید کی صورت میں موجودہیں۔جہاں احسن اقبال جیسا چاک و چوبند فیلڈر، چوہدری نثار جیسا آفریدی نُما آل راونڈر، اسحاق ڈار جیسا با صلاحیت بیٹسمین اور پھر میاں برادران کا تجربہ ہو اور جسکا بارہواں کھلاڑی خواجہ سعد رفیق جیسا محنتی کھلاڑی ہو وہ  ٹیم بھلا کیسے کمزور ہو سکتی ہے۔دوسری ٹیم بھی طاقتِ پرواز کچھ کم نہیں رکھتی اسمیںمحمود  قُریشی جیسا زیرک ،عقابی نظرسے گیند کی لاین سمجھنے والا اوپنر ہے اور پھر مرد بحران وکٹ کیپر بیٹسمین جاوید ہاشمی ،جو کِسی بھی وقت کھیل کا پانسہ بدل سکتے ہیں۔ اس ٹیم کی بیٹنگ بہت مضبوط ہے، البتہ باولنگ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ فی الحال صرف عمران خاں ہی اِک مُستند باوِءلر نظر آتے ہیں، باقی سب پارٹ ٹائم گیند باز ہیں۔ اگر دونوں کپتانوں کا موازنہ کیا جاءے تو دونوں ہم پلہ محسوس ہوتے ہیں دونوں کا ریِکاڈ بھی مِلتا جُلتا ہے۔ دونوں ہی خود کو شیر سے تشبیھ دینا پسند کرتے ہیں۔ اِک نے کرکٹ کے میدان میں اپنا لوہا پوری دُنیا میں منوایا تو دوسرے نے صنعتی میدان میں لوہا لگا کر سیاست میں بہت نام کمایا۔        
 دس اوورز کا یہ مُجوزہ معرکہ شدید گھُٹن کے ماحول میں اس قوم کے لئے اِک خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا۔ ذرا تصور کیجئے کہ اِک رنگوں بھری خوشگوارسہپہر اس معرکے کا انعقاد ہو جیسے پوری قوم اِک شاندار ہایئ ٹی سے لُطف اندوز ہو رہی ہو کہ جسمیں یہ میچ اِک چاءے کا کپ اور دستر خواں پردِل کی بھوک مِٹانے کے لئےحامد میر کے چٹ پٹےتیز مِرچی دہی بھلے ، جاوید چوہدری کی ڈرامائی چاٹ افسانے کی میٹھی چٹنی کے ساتھ، ڈاکڑ شاہد مسعود کے اِملی کے کھٹے پانی میں ڈُبکیاں لگاتے ہوءے فلسفیانہ گول گپے۔ کامران خان  کے تجزیوں میں تلے ہوئے سموسے، عزیزی کے چٹکلوں سے تیار کردہ لزیذ کھیر اور چند اینکرز کی شاطرانہ اور نابلغانہ انداز سے تیار کی ہوِیئ پیسٹریاں ۔ کیسا تاریخی دن  ہوگا وہ دن ، یہ قوم کہ  جسکے پچاس فی صد سے ذیادہ لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے جی رہے ہوں۔ جنکے گھروں میں گیس نہ آتی ہو، بجلی کی طویل بندش لوگوں کا روزگار چھین رہی ہو٫وہ اٹھارہ کروڑ عوام  اسقدرعظیم شُغل کا نظارہ کریں۔غالبا ہم اپنی زندگی میں شاید ایسے ہی  انقلاب کے خواہاں ہیں۔
میرا اِن سیاسی کرکٹرز کو مشورہ ہے کہ وہ کرکٹ ضرور کھیلیں کرکٹ کا کھیل اُن کے لئے اِک سیاسی اکیڈمی کا کردار ادا  کر سکتا ہے۔مگر دس دس یا بیس بیس اوورز کی گیم  یا ایک دِن کا میچ نہیں بلکہ پانچ روزہ کرکٹ پر اپنی تمام تر  توجہ مرکوز کریں۔ جسمیں طویل اور صبر آزما اِنگز کھیلنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ جسکے لیئے ثابت قدمی پلیننگ اور حوصلے  کی انتہائ ضرورت پڑتی ہے۔ کِسی بھی باہر جاتی ہوئ گیند کو بِلاوجہ نہِیں چھیڑا جاتا ۔ اپنی بیسک ٹیکنیک کو درست کیا جاتا ہے۔ صرف اپنی باری ہی کا مزہ نہیںملتا  بلکہ سخت دھوپ میں تمام دِن فیلڈنگ اور باولنگ کروانا پڑتی ہے۔حالات کے مُطابق درست فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔دفاع اور اٹیک دونوں کا  درست استعال کرنا پڑتا ہے،محض چوکے چھکوں کے سہارے پر ٹیسٹ کبھی نہیں جیتا جاسکتا ۔۔ٹیسٹ میچ وُہی یادگار ہوتا جو پورے پانچ دن چلے اور ٹیم وہی جیتتی ہے تو پورے وقت میچ میں سو فیصدی پرفارمنس دے ،  ۔ نمبر ون ٹیم کا تاج اُسی کے سر سجتا ہے  جسکا ریکارڈ ہر قسم کی پچ اور حالات میں  بہترین ہو۔ ہماری سیاسی ٹیموں کو بھی ہر طرح کے حالات اور پچز پر بہترسے بہتر ریزلٹ دینے کی عادت ڈالنی ہو گی اپنی پُرانی روش "ذرانم ہو یہ پچ تو بہت مال ہے ساقی " کو ترک کرنا ہوگا اِدھر اُدھر سے نمی یا امپائروں کی ہہمدردی تلاش کرنے کی بجاءے اپنی کمیوں کوتاہیوں کی بہتری پر توجہ دینی ہوگی،فقط یہی 


طریقہ ہے میچ جیتنے کا اور عوام کے دل جیتنے کا بھی۔

ایک بات خود سے بھی کرنے کو دِل چاہتا ہے کرکٹ میں کھلاڑیوں کے ریکارڈز کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔ ہم کرکٹ کے متو الے کرکٹرز کے ریکارڈز پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ جانے کب ہم سیاسی افراد کے چُناو کے دوران سابقہ ریکارڈز کی چھلنی کا استعمال کرنا سیکھیں گے۔ ہم بھی کمال لوگ ہیں کرکٹ دیکھتے ہیں اور سیاست کھیلتے ہیں۔ شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کرکٹ کھیلنے کے لئیے گراونڈز کی کمی ہے اور سیاست سیکھنے اور کرنے کے لیئے مضبوط سیاسی اداروں کی ۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو  جمہوریت کی اہمیت کا احساس  ہوتا  چلا جا رہا ہے۔ مگر اب بھی ہماری جماعتیں چند ناموں ہی کی ملکیت ہیں۔ اس کُھلے تضاد کو فقط " توہین جمہوریت کا ارتکاب" ہی کا نام  دیا جا سکتا ہے کہ جسکا مُرتکب ہمارا پورا سیاسی نظام ہو رہا ہے۔
 کرکٹ سے ہم ایک بہت اہم سبق بھی لے سکتے ہیں۔ اگر موروثی گدی نشینی کوئ اعلی معیارہوتا۔  توآج شائد ٹنڈُلکر نہیں بلکہ  ڈان بریڈ مین کاکوئ پوتا یا نواسہ سو سنچریوں کے  سنگِ میل کو چھو رہا ہوتا۔ محلوں کی گلیوں میں پھس ُپھسی گیند سے اپنی کرکٹ شروع کرنے والے انضمام اور یوسف پاکستان کے لئے ریکارڈز نہ بناتے بلکہ رنزوں کے انبار لگانے والے تما م بلےلِٹل ماسڑ حنیف محمد کے گھرکی الماریوں میں پڑے ہوتے۔
Learn Test Cricket and Poltcs as well
                              

AKHIYAN UDIKDIYAN DIL WAJAN MAARA by Dohra hai


اکھیاں اڈیکدیاں دل واجاں مار دا 
 بھارتی انا کو میں نے تقریبا بیس سال پہلے دیکھا تھا وہ ممبئی کی غلیظ جھونپڑ پٹی کی پیداوار تھا۔ بازاروں کی گلیوں میں پلنے والا،دُنیاکے اس خطے میں رائج نظام کا دُھتکارا ہوا انا۔ مگرخوداعتمادی سے لبریز ۔اس نے خود میں موجود شاطرانہ صلاحیتوں کاخوب منفی  استعمال کیا اور وہ سب کچھ اس ظالم اور کمزور کو کھا جانے والے سماج سے چھین لیاجو کہ اُس کی پہنچ سے بہت دور تھا اوریوں وہ بن گیا مُمبئی کے انڈر ورلڈ کا  ڈان۔ اپنی بیوی اور بیٹے کو جلا دینے والا انا۔اپنے بے ایمانی کے کاروبار کو اِنتہائی ایمانداری سے کرنے والا انا سیٹھ۔ اُس کا بولا ہوا ڈائیلاگ مجھے آج بھی یاد ہے "نہ بھائی نہ بہن نہ بیوِی نہ بیٹا، دھندے میں کوئی کسی کا بھائی نہیں ہوتا"بالی وڈ کی کچرہ فلم انڈسٹری کے کچرے میں پڑی چند ہیرافلموں میں سےایک فلم "پرندہ" اور "انا سیٹھ اس کا ایک منفی  کردار۔۔جسے نانا پاٹیکر نےانتہائی مُتناسب رنگ بھرتے ہوئے لازوال بنا دیا۔جس طرح امجد خان کے دنیا چھوڑ جانے سے گبھرسنگھ مٹی تلے نہیں دب گیا بلکہ آج بھی ہشاش بشاش ہمارے خیالوں کی دُنیا میں جی رہا ہے کہیں سے ذرہ برابر گرد نے بھی اُسے نہیں چھُوا۔ اسی طرح انا سیٹھ بھی  میرے دماغ کی ھارڈ ڈسک میں محفوظ ہے اور ماوءس کی محظ ایک کلک پر تروتازہ ہو جاتا ہے۔اس فلم کے آغاز میں مُمبئی کے ساحل پر کمزورکِرنوں سےڈوبتا ہوا سورج اور اُس کی جگہ ہر سو چھاتا ہُوا اندھیرا  دِکھایا گیا ہےجو اس طرف اشارہ ہے کہ ہندوستان میںچاروں طرف اندھیر راج ہے اور چند مافیاز نے ہندوستان کو اپنی گرفت میں بُری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔

آج بیس سال بعد ناجانے کیوں مُجھے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ بھارت کی کالی رات  کا اختتام شائداب ہونے کو ہے اور طلوٰعِ سحر کا نقارہ قریب قریب بجنے کو ہے ۔ اس کی وجہ بھی اِک انا ہی ہے مگر یہ کوئی فرضی کردار نہیں ہے بلکہ ہماری طرح جیتا جاگتا اِک انسان جسے جلد یا بدیر اسی مِٹی میں مل جانا ہے۔ مگر دھرتی ماں اور اِس دھرتی ماں پر بسنے والوں کی بہتری کیلے اُس کی اِک کاوش اُس  دیپ کی مانند ہے جو لاکھوں مزید دیپ جلانے کا باعث بنے گی۔ اگردیپ روشن ہونے کا یہ سلسلہ حقیقت میں چل نکلا تو پھرشا ئد رُکنے نہ پاءے اور وہ دن آجائےجسکا فیض نے خلق خدا کے لئے دیکھنا لازم قرار دیا ہے اور جس کی اُمید پر کروڑوں اربوں لوگ زندگی سے ناطہ جوڑے بیٹھےہیں۔یہ روشنی اِن کی اپنی ہو گی خالص اپنی کسی بیرونی ذریعہ کی مرہون نہیں ہوگی ۔ نہ اماوس کی کالی چادراسے اپنی لپیٹ میں لےپائے گی اور نہ ہی کوئی گرہین اسکےاُجالے کو داغ دار کر پاءےگا۔

کسان بابو راوء ہزارے نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مُفلس والدین کے کروڑوںبچے جو سکول جانے کا محض خواب دیکھ سکتے ہیں مگرحقیقت میں، غُربت کی اُونچی چار دیواری اُنہیں سکول میں پڑہتے ، اُستادوں سے تازہ سبق لیتے ،اپنے معصوم ذہنوں میں آنے والےدُھنکی ہوئی  روئی  کی طرح اُجلے ہوئےمعصوم مگرشرارت سے بھرے سوالات پوچھتے،  بچوں کی آواز تک سُننےکا حق نہیں دیتی ۔انا کے بھائی بہن بھی اُنہی میں سے تھے مگروہ خود کچھ درجہ خوش نصیب تھا جو کسی  رحمدل رشتے دار  کے سہارے ساتویں کلاس تک سکول میں تعلیم حاصل کرسکا۔مگر اسکے بعد فکر معاش نے اُسے عمر سے پہلے سیانہ بنا دیا اور وہ سٹیشن پر پھول بیچنے لگا ۔خوب انتھک محنت سے وہ دو دُوکانوں کا مالک بھی بن گیا۔انا نےبارہ سال فوج کی نوکری بھی کی  دو جنگیں لڑیں ۔ دوران مُلازمت موت کو قریب سے دیکھ لینے والا سڑک کا اِک حاد ثہ اسکی زندگی میں بہت بڑے موڑکا موجب بنا۔
 اپنے آبائی علاقہ میں واپس آنے کے بعد اُس نے غُربت افلاس ، لا قانونیت، بے راہ روی اور وسائل کی کمی جیسےمسائل پر نُقطہ چینی کرنے کی بجائے حالات کا مُناسب تدبیراور فراست کے ساتھ مُقابلہ کرنے کی ٹھانی  مگر سب سے بڑھ کر تھی اُس کی ہمت، ثابت قدمی اور بہتریں نظم و نسق۔ اُسنے اپنے علاقے  کے نوجوانوں پر مُشتمل ایک کا گروپ تیار کیا۔ معاشی اور سماجی مسائل پر توجہ دی۔ فرسودہ نظام کی بیڑیا ں کھول کر دریا بُرد کر دیں۔ بے راہ روی کے سدِباب کے لئے شراب کی لِعنت کو بزور طاقت روکا۔ انا ہزارے نے اپنے چھوٹے سے علاقے ریلیگن سِدھی کو کُچھ سالوں میں مگر انتھک محنت سے ایک مثالی علاقے میں تبدیل کر دیا ۔ انا ہزارے کا کردار الف لیلائی داستانوں کا اِک کردارمعلومہوتا  ہے کہ جس میں اِک نیک جن کسی آفتوں سے بھرے  علاقے سے گُزرتا ہے اور مکینوں پر ترس کھا کر سارے علاقے کو نحوسطوں سےآزاد کرتےہوئے ہر طرف خوشحالی اور امن کا بول بالا کر دیتا ہے ۔ انا ہزارے جس کو ہندوستان کے اعلی تریں اعزازات جن میں پدما شِری اورپدما بھوشن بھی شامل ہیںمل چُکے ہیں۔بقول ہندوستان ٹائمز کے وہ مُمبئی کی سب سے زیادہ پُر اثر ہستی بن گیا ہے۔
نہ جانے میں کیوںبہت دِنوںسے  انا ہزار ے کو اس شدت سے یا د کیے جا رہا ہوں کہ رات کو دوران نیند بھی وہ مُجھے اپنے مخصوص انداز میں چلتا میرِِی طرف آتا محسوس ہوتا ہے مگر اِک حیرت انگیز تبدیلی کے ساتھ اُس نے پاجامہ اور شیروانی زیبِ تن کیا ہوتا ہے اور اُس کے سر پر نہرو ٹوپی نہیں بلکہ جناح کیپ ہوتی ہے۔میں پچھلے  کئی دنوں سے اُسے روز اِسی طرح دیکھتا ہوں اُس کا سترہ بہترہ لاغر جسم مگر عزم اور حوصلہ کسی ۲۲ سالہ ڈائریکشن لیس نوجوان سے کہیں زیادہ جوان۔ میرے اس خواب کا عالبا میرے دماغ کی اختراع ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر یہ دل ہے کہ کہ رہا ہے کہ تُم یہیں ہو، یہیں کہیں ہو ۔۔۔۔ کیا کریں ہمیں بھی اِک انا ہزارے چاہیئے۔ ہماری سیاست کے ہزاروں انوں کو آنکھیں چاہئیں۔اور وہ آنکھیں انا ہزارے ہی دے سکتا ہے۔مُجھے اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لئے بھی غالبا کسی پُرانی ہندی فلم ہی کا سہارا لینا پڑے گا۔ جسمیں دوجڑواں بھائی ہوتے ہیں مگر بچپن ہی میں بچھڑ جاتے ہیں ۔ اور پھر اگلے سین میں بچے بڑے ہوتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اک کسی مُسلمان کے گھر اوردوسرا ہندو کے گھرپل کر جوان ہو چُکے ہیں۔ مگر ایک بات طے ہوتی ہے کہ ہوتے دونوں ہیرو ہیں۔ میں تو دعا کرتا ہوں کہ ایسی ہی کوئی سٹوری کم ازکم اس معاملے میں سچ ہو جاءے۔ یا پھر ایک اور طریقہ ہے کہ تاریخ پر نئے سرے سے ریسرچ کی جاءے اور انا ہزارے کا ہری پور ہزارے سے کوئی تعلق نکالا جاءے۔کیوں کیا خیال ہے کرتے ہیں آپ پھر ریسرچ۔۔۔۔۔؟        


JUNGLE MAIN BANDAR NACHA by Dohra hai



جنگل میں بندر ناچا کس نے دیکھا
جنگل میں بندر کبھی نہیں ناچتا یہ شرفِ سادگی کہ جس پر قربان جانے کو بھی دِل نہیں چاہتا  مور کے حصے میں آ تی ہے۔ اک مسحور کر دینے والے مظاہرکےبعد نہ نعرہ نہ کوئی تالی نہ واہ واہ۔ بھلا بندر اتناسادہ کہاں وہ تو جنگل میں تگنی کا ناچ نچاتا ہے شیر کوبھی ہاتھی کو بھی بھالو کو بھی اور اپنے خالو کو بھی۔ناچتا تو وہ ادھر شہرمیں آکر ہے خوب مجمع لگا کرہر طرف سے تالیاں واہ واہ ویلِیں ۔ بندر کا بھی فاِئدہ اور بندر نچانے والے کا بھی اور خوش ہوئے عوام۔ڈارون کی تھیوری بھلے ہی انسانوں پر درست ہو نہ ہو ہمارےسیاسی پنڈتوں پر مکمل فِٹ بیٹھتی ہے۔یہ بھی اپنا ناچ اورکرتب خوب مہارت سےدکھاتے ہیں۔ناچ کے وقت کا بڑی زیرک نظری سے تعین کرتے ہییں۔ کب کتنا کہاں کیسےاور کیوں واہ راےواہ کیا کہنے کیا کہنے ہر طرف سے تالیاں نعروں القابات کی برسات ہو پڑتی ہے ۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے مائ باپ سے ہی تو سیکھا ہے۔ بندر بانٹ میں تو انہیں ملکہ حاصل ہے۔ اس خوبصورتی سے بندر بانٹ کرتے ہیں کہ ان کی مہارت پر سبحان اللہ کہے بغیر رہا نہیں جاتا۔ پپنجاب اور مرکز کی ایسی بانٹ کہ عوام بیچاری کو سمجھنے میں اتنے سال لگیں کہ جس میں وہ نئے میلہ مویشی تک کا سفرتقریبا مکمل کر لیں۔ان کی بندر بانٹ تو اس قدر ایڈوانس ہو چکی ہے کہ جنگل سے ان کے بھائِی بھی جدید تھیوریاں سیکھنے انہی کے پاس آتے ہیں۔                                                                                                                                                ہمارے ایک سیاسی کرتا دھرتا جو کہ اب تو ایک مہان کا درجہ پا چکے ہیں اس کرتب بازی میں بلا شرکتِ غیرے پہلے پائیدان پرہیں۔ناچ کے وقت کا تعین کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے خواہ اس کے لیے اک دہاِئی تک کسی نخلستان میں ہی بٹھنا پڑے اور پھر درست موقِع کا تعین اورنت نئے کمالات کا اضافہ واہ کویئ مقابل نہیں دور تک۔کسی پچھلے جنم میں یقیناِ اِن کی شیرسے کوئی محلے داری رہی ہو گی۔ جو خود کو شیر کہنا اور کہلوانا ان کا من بھاتا مشغلہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ غیر جانبدار مبصرین اور لکھاری انہیں اِک بلی سے زیادہ کا  درجہ نہیں دیتےہیں ۔ویسےبات کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ اِن میں بلی کے بہت سی صفات پائی جاتی ہیں۔ مثلابلی کو پنجرے میں بند کر دیا جائے تو اُس کا دم گھٹنے لگتا ہے،اِن کے ساتھ بھیِ کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے۔  بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا مشکل ہے تو ان کے گلے میں اُصول باندھےرکھنا آسان نہیں۔ البتہ بوقت ِ ضرورت من پسند اُصولوں کا پٹہ گلے میں باندھنا انہیں خوب آتاہے۔ بلی نو سو چوہے کھا کر حج پر جاتی ہے یہ نو سو ارب یا عرب کھا کر (جو جلدی ہضم ہو جاءے سب چلتا ہے)۔بلی کو چھچھڑوں کے خواب آتے ہیں اور اِنہیں باربار وزیراعظم بننے کے ۔جب بلی کو گھر سے باہر ہی چھحھڑے میسر آنے لگیں تو وہ اپنے مالک کو پہچاننے سے معزرت کر لیتی ہے اِسی طرح اِنہوں نے بھی اپنے مالک یعنی سفید ہاتھی کو پہچاننے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اسی لئے وہ سفید ہاتھی یہ کہتے پایا جاتا ہے کہ ہماری بلی ہمیں ہی میاوِءں۔ ویسے انہیں احتیاط کا مشورہ ضرور دینا چاہئے کہیں یہ نہ ہو کہ یہ  محاورہ مشہور ہو جائےکہ بندر چلا بلی کی چال اپنی بھی بھول گیا                     
ذکر ہوا ہے سفید ہاتھی کا تو کچھ تعارف بھی ہوتا جائے یہ دشمن اناج کا تو ہے ہی البتہ پنگےلیتا ہے بڑے بڑے بعض دفعہ اپنے سائز سے بھی بڑے۔یہ اپنےدکھانے والے دانتوں سے بھی کیا خوب کام لیتا ہے۔ سِیاسی بندر سُدھانے کاکام اُنہیں گود میں کھلانے کاکام۔اسی لئے توہمارا ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی نہ کرنے میں ترقی کر رہا ہے۔نتیجتہً عوام کے مقدرمیں لکھا گیا ہے  گھاس کھانا وہ بھی اس ہاتھی کے پاوءں تلے روندی ہوئی گھاس۔                                                                                 
نہ جانے بنرروں کی کونسی قسم ہے کہ جس میں ملکہ کے کسی حادثے میں مرنے کی صورت میں اُسکے پتی کو مہاراشٹر پتی بنا دیا جاتا ہےاور اُسے وہ بھی حاصل ہو جاتی ہے جسکے لئے اِٹلی کا وزیراعظم جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔بندروں کی زبان میں جسےکچھ یوں بیان کیا جاسکتاہےکہ سیاسی ناچ دکھانےکے لِئے لنگوٹ تک اُتار دینے کی مکمل آزادی۔ہمارے یہاں سیاسی بندروں کی بہت وسیع ورائٹی موجود ہے موٹی موٹی توندوںاور لمبی داڑھیوں والےسیاسی بندر کہ جنہیں اس فن میں اُستادی کی اسناد مل چکی ہیں انکے پیٹ میں پلاٹ ڈیزل پٹرول سب کچھ خوبصورتی سے سما جاتا ہے مگر مجال ہے کہ فنِِِ سیاسی ناچ میں ذرا سا بھی جھول آنے دیا ہواستادِ محترم نے ۔ سمندرپاربیٹھ کر ٹیلیفون کی تاریں چھیڑنے والےکا ذکرکئے بغیر تمام بات ایسے ہی مزا ہے کہ جیسے کھیر کھائ جائے بغیر شکر کے۔ موصوف مجمع گرم رکھنے میں کوئ ثانی نہیں رکھتے۔ان کے گلے میں وہ طاقت اورساز ہے جو کہ کسی گائےکے تنومند بچھڑے کے گلے مِیں بھی نہیں۔مداری کے بندر ناچ مِیں کچھ کردار کتے کا بھی ہوتا ہے ہماری سیاست میں بھی ان کا اچھا خاصا کردار موجود ہے مگر بد قسمتی سےیہ سب دھوبی کے ہیں۔                 
                                                                                                                   
                                                                      
                                                                                             
                                                                                            

KOH KAAF LEAGUE by Dohra hai


کوہ قاف لیگ
ارضِ پاک کہ جس کی تاریخ کے بیشتر حصے میں فوجِ پاک نے بارِ حکومت اپنا بنیادی حق سمجھتےہوِئےباِلواستہ یابلاواسطہ اپنے کندھوں پر اُٹھاَ رکھنے کو ہی خدمتِ عظیم سمجھا۔ اقتدار پرزبردستی  براجمان ہونے والے ہر طالع آزماء نے خود کو پوِتراور سیاست دانوں کومُلک کی زبوں حالی کا سبب اور تمام بُرائیوں کا سِرا جانتے ہوءے نااہل قراردینے کوہی عوامی خدمت جانا۔ ایوب سے ضیاء اور پھر مشرف ہر ایک نے سیاست دانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کر کے اپنے تئیں قوم پر ایک احسانِ عظیم کیا۔                                      ایوب خان نے ایبڈو نافذ کرتے ہوءے تما م سیاست دانوں کے ساتھ سابقہ کا لاحقہ جوڑتے ہوءےاُنہیں گھر بھیج دیا اور میدانِ سیاست میں نیابیج بویا فصل کی آبیاری اپنے خونِ دِل سے کی۔ ضیاء الحق آءےتو اُنہوں نے چند ماہرین فلکیات سے رابطہ کرتے ہوءےسیاسی اُفق پر نئے ستارے ڈھونڈے۔ ضیاء صاحب کا اپنا ستارہ تو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا مگر اُن کے منظورِنظر ستارے آہستہ آہستہ زمین پر اُترے اور اسے ہی اپنا مستقل ٹھکانا بنالیا ۔ جن میں سے بعض نے مذہب کا یک رُخی سبق پڑھ اور پڑہا کر ایک ایسی لیگ تشکیل دی جو آج پوری قوم کے ساتھ سپر لیگ کھیلنے میںمصروف ہے۔ادھر چوکا اُدھر چھکا ۔ اُن کے لئے محض جنت مِیں جانے کا اِک کھیل اور ہمارے لئے مکمل بربادی اورعذاب۔                                                                                          مشرف بھلا پیچھے کیسے رہتے اُنہوں نے ہم سا ہو تو سامنے آئے کا نعرہ لگاتے ہوءے قوم کی نیا پارلگانے کا بیڑہ اپنے سر اُٹھایا۔ کوہ قاف سے نئی ٹیم  امپورٹ کی جس میں حسین و جمیل پریاں بھی تھیں اور خوبروسوٹڈ بوٹڈ جوان بھی۔ نظریہ ضرورت کو بُنیادبناتےہوئےچند ایک پُرانے بدنُمااورداغدار چہروں کوجی ایچ کیوبیوٹی پارلرسے  میک اپ کرایاگیا اور اِن بھدےچہروں کو ریکنڈیشنڈ کا سرٹیفیکیٹ عطا کرتے ہوءے اُنہی کے ہاتھ میں قوم کے مسقبل کو تھما دیا۔اور پھراگلے پانچ سال تک ہم تھے اور وہ۔۔ بچانے والا کوِئی نہ تھا۔                                                                              
۱۹۹۸ کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ہونے والی خُشک سالی ذرا لمبی ہوءِِِِِِِِِی تو ہمارے بڑوں نے دُعا کی کشادگی رزق کی ۔اُن کی یہ دعا قبول ہوئ اور ہمیں القاعدہ کا فایدہ میسر آیا۔ ہمارے پُرانے آشنا امریکہ نے ہم سے پھر رشتہ جوڑاجو آج تک قائم ہے۔ مگر اس بارانکل سام  دو منہ والی بندوق کے ساتھ جلوہ گرہوئےہیں۔ جس کی ایک نالی ڈالر برساتی ہے تو دوسری نان سٹاپ بارود پھونکتی ہے۔ ۲۰۰۲ کے الیکشن کے بعد ق لیگ کو حکومت کی نعمت ملی اِس دور میں قوم کو بہت سے اندرونی بیرونی چیلنجوں کا سامنا تھا اِنہوں نے کمال مہارت سے ان میں دو چار کا اضافہ کرتے ہوے سب مسائل آگے پاس آن کردئے۔ اس پانچ سالہ دور میں لینڈ مافیا کی لوٹ مار،ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری سٹیل مِل، اور جانے کون کون سےمعاملات میں اگلے پچھلے رِکارڈ اپنے نام کیےگئے۔امریکی ڈالروں سے اپنی تجورِیوں کی رونق بڑہائ اور عوام کو ٹرکل ڈاوءن اِکانومی کے خواص اِک سنہرے خواب کی صورت میں دکھاءے۔ مگر یہ اکانومی کی ٹرکل بھی عوام کے ساتھ ٹرِک کرگئ اور اس غریب قوم  کے حصے  میں آئے فقط ڈاوءن سے ڈاوءن حالات اور ڈرون حملے۔                                                                                                      
                                مشرف کی اس کوہ قاف لیگ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اپنے نام کی پہچان کا تھا۔ یہ خود کو "ق" لکھتے رہے اور لوگ "ک" پڑہتے رہے۔ لاکھ کوشش کی مگر کچھ بن نا پایا۔ قاتل لیگ کا نام دے کر زرداری صاحب نے اِن پر احسانِِِ عظیم کیا اور یوں ان کو پہچان مل گئی ۔باقی رہا الزامِ قتل تو گزارش یہ ہے کہ جس ملک مِیں گورنر کا باڈی گارڈ کے ہاتھوں قتل ہو۔ اور اس قتل کے  حق میں لوگ توجیحات بیان کریں۔جہاں اپنےگھرسے بچوں کی روزی روٹی کے لئے نکلنے والےیا اپنے اللہ کی یادمیں مسجد جانے والے قدموں کو ناحق بارود سے اُڑادیا جائے یا خون میں نہلا دیا جاءے۔ ان دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد ایسے بتاءی جائے جیسے کسی ٹونٹی ٹونٹی میچ میں ایک اوور کا سکور۔ وہاں قتل کا الزام مِٹی پاوءتے روٹی کھاوء سے زیادہ کچھ مِعنی نہیں رکھتا ۔چودھریوں نے بھی سیاست میں اعلی اقدار کو فروغ دیتے ہوئے زرداری صاحب کے احسان کا بدلہ گرتی ہوئ حکومت کو بہت سےتنکوں کا صحارا دے کر کیا۔مگر افسوس اس ظالم سیاسی بساط پرکہ جسمِیں کسی کےاس اچھے عمل کو بھی شک کی نظرسے دیکھا گیا۔ ان شکی القلب لوگوں کواِتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ راج نیتی میں بھلا کون کسی کا باپ بیٹا پوتا نواسہ ہوا ہے ۔ شہنشاہ عالمگیر کااپنے باپ اور بھائ کے ساتھ کیے گئےسلوک کو ذرا ذہہن پر زور دیکر یاد کریں نہیں تو ہمارے پڑوسی ملک سے درآمد شدہ فلم راجنیتی دیکھ کر کچھ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔میرا چودھری برادران کواِک مفت مگر بڑا قیمتی مشورہے کہ وہ کچھ پیسہ ویسہ لگا کر اس فلم کوکیبل پر خوب تواتر کے ساتھ چلوائیں تاکہ اس ناسمجھ قوم کو بھی کچھ کھرے کھوٹے کی پہچان ہو                                                                                                                        ۔
جب  مشرف  لال مسجد  کی دیواروں پرمحض چند اسلحہ برداروں کے حصول کیلئے نہتی بچیوں کے خون سے رنگائ کروا رہا تھا تب بھی ان میں سے کسی کا ضمیرخوابِ خرگوش کا ِحصار توڑنے میں کامیاب نہ ہوا ۔اور یہ سب بیک زبان مشرف کے قافیے سے قافیہ جوڑتے رہے۔ مگرآج یہ مشرف کا نام اپنی لغت سے جلد سے جلد مٹانا چا ہتےِِِِِِِِہیں۔ نہ جانے کیوں ہم ہمیشہ سےہی اپنی تاریخ ایک بلیک بورڈ پر لکھنے کے خواہشمند  رہے ہیں تاکہ جب چاہا اور جہاں سے چاہا مٹادیا۔ بھلے ہی ہم اپنے ماضی کی تحریر کو مٹا ڈالیں اُسے لوگوں کے کمزور حافظے سے بھی جلد منہا کرنے میں کامیاب ہوجائَیں ۔مگرہمیں یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیئے کہ اسکے اثرات اِِِک خونخوار درندے کی مانند ہوتے ہیں کہ جو آنکھیں موندے ہوئے معصوم سے کبوترکی چیر پھاڑمیں ذرا بھر بھی توقف نہیں کرتا۔