Sunday 9 December 2012

بڑا سخت جان ہے ہمارا غریب



کرکِٹ کے کھیل نے انگریز اشرافیہ کے ہاں پرورش پائی ۔ یہی وجہ ہے رکھ رکھاؤ اعلی  اقدار اِس کھیل کا حِصہ بنیں  اور کرکٹ  کو جنٹلمینز گیم کے نام سے شہرت مِلی ۔ آج بھی  اعلیٰ  درجے کے انگریزخاندانوں  میں  یہ کھیل شُرفا کی شان سمجھا جاتا ہے۔جب 1992 کا ورلڈ کپ جاری تھا اور پاکِستان شِکست  پر شِکست  کھاتا  جارہا تھا،  تو اِنگلینڈ میں ایک ظہرانے کے دوران ملکہ الزبتھ نے پاکسِتانی سفیر سے   اُن کی ٹیم کی بُری کارکردگی پر اپنی تشویش کا اِظہار کیا تھا۔بس پھِر کیا تھا ہم نے شاہ سے زیادہ ملکہ کا وفادار ہونے کی  ایک انوکھی مثال قائم کر ڈالی

کرکٹ   انگریز شاہوں  کے ڈیروں  سے باہر نِکلی تو جزائرغربُ الہند  کے کالوں اور برِ صغیر کے رنگ  والوں  کے میدانوں ،پارکوں ،سڑکوں ،فُٹ پاتھوں ،اورگلیوں تک جاپہنچی۔  ہمارے محلوں میں بچے کرکٹ  اُن تنگ و تاریک  گلیوں میں بھی کھیلتے نظر آتے ہیں  جن میں سورج  بھی سارا سال جھانکنے کی ہِمت نہیں کرتا   ۔ اِن تنگ گلیوں میں  جب گیند باؤلر کے ہاتھ سے نکل کر  بیٹ کو چھوتی  ہے تو اُ سکے  بہتی  ہوئی گندی نالی  میں ڈُبکی لینے کے اِمکانات 70فی صد سےبھی  زائد   ہوتے ہیں مگر  کھیل  پھر  بھی جاری رہتا ہے ۔  کرکٹ کی اِسقدر  عوامی مقبولیت  سے اِس کھیل کی جنٹملینی تو خیر کِسی نالی  میں بہہ گئی مگر یہ کھیل  نِکھرتا گیا۔ اِسے  دِلکشی   و طِلسماتی  کشش عطا کرنے  میں  غُلام رہے ممالک کے پلئیرز کا کرِدار  جھُتلایا نہیں جاسکتا ۔غریب  میلکم مارشل   سے لیکر تنگ دست عبدلقادر اور وِو رچرڈزسے لیکر  ٹنڈلکر  تک بیسیوں  نام  ہیں جِن  کی بدولت  
یہ کھیل  آج لوگوں دِلوں  پر حُکمرانی کرتا ہے۔

سنوکر   کی کہانی بھی کُچھ  زیادہ مُختلف نہیں ہے۔ لفظ سنوکر کا  لغوی معنی  غیر  تربیت یافتہ  یا فرسٹ یئر کیڈٹ  ہے ۔  برِصغیر  میں تعینات برِٹش آرمی کا پسندیدہ کھیل  بِلئرڈ تھا   اور  وہیں   سے سنوکر   کا جنم ہوا۔  جبل پور  کے آفیسرز میس میں1875 پہلی بار اس کھیل میں رنگین گیندوں  کا اِستعمال کیا گیا۔  لگ بھگ دس سال بعد کھیل کے رولز طے کئے گئے۔  بیسویں صدی  کے آغاز میں سنوکر  برطانیہ میں تیزی سے مقبول ہونے لگا،مگر  اِس کھیل کو اِبتدا  ہی سے 

اپر کلا س تک ہی محدود رکھا گیا ۔برطانیہ  کے کلبز  میں مخصوص ممبرز ہی یہ کھیل  کھیلنے کے حقدا ر تھے۔ 
قائد اعظم کا  اِس کھیل سے لگاؤ سنوکر سے ہمارے  تعظیمی رِشتے کا باعث بنا۔وقت گُزرنے کے ساتھ  یہ  کھیل   ہمارے ہاں عام  ہوا  اورکرکٹ  کی  طرح تمام حدیں کراس کرتا  چلا گیا اور  بڑے دیہاتوں میں  گارے  کی چھتی   ہوئی چھت  کے تلے ، گرد سے اٹی ٹیبلوں پر  کھیلا جاتا ہوا  بھی نظر آنے  لگا۔ہمارا غریب بھی بہت سخت جان واقع ہوا  ہے  بالکُل  کھُمبی  کے بیچ  کی طرح کا سخت جان۔  گندگی میں تو  یہ پھلتا پھولتا ہے  ہی   ، گر موقع میسر آجائے تو    بادشاہوں کے باغات میں بھی جلوہ گر ہوکر اپنی   حیثیت منوا لیتا  ہے ۔ خواہ  سالہا  سال  مٹی کے نیچے دبا رہنا  پڑے  ۔  حالیہ دِنوں میں بلغاریہ میں    کھیلی  گئی ورلڈ کپ سنوکر ٹائٹل اپنے 
نام کر کے یہی بات ثابت کر دِکھائی محمد آصف   نامی اِک غریب پاکِستانی نے ۔

اِسی طرح اگر تختِ سُلطانی کو بھی   چند خاندانوں  سے نِکال کر  عام کر  دیا  جائے تو  قیاس کیا جا سکتا ہے کہ  اِک چھابڑی فروش سے لیکر  رکشے والا تک تختِ سُلطانی کے خواب دیکھنے لگے گا جِس سے بہت  لُٹ مچے گی ہر طرف لوٹ سیل لگ جائے  گی   اور یہ تخت ِ سُلطانی   اِن غریبوں  کی  پھٹی ایڑیوں  میں جمی گندی مٹی سے اٹ جائے گا۔ مگر اس حقیقت   کو کیسے جھُٹلایا جائےکہ   اقوامِ  عالم میں   چیمپئین فقط اِس  راہ کو اپنانے سے ہی بنا  جاسکتا ہے کیونکہ بڑا سخت جان ہے ہمارا غریب۔