Thursday 22 May 2014

میرا گھر وہ پیارا گھر۔ تیسری اور آخری قِسط


گلے میں بستہ ڈالے سرکاری سکول کے گیٹ اندر داخل ہوتا  ہر بچہ عمارت   کے ماتھے پر ٹِکے کی طرح سجی یہ عبارت پڑہ  ہی لیتا 
ہے "تعلیم اِنسان کا زیور ہے"۔نصاب کی چند  کِتابیں  کھولنے پر یہ حقیقت  بھی  اُس پر عیاں ہو جاتی ہے  کہ انگریزی اِس زیور
سے لدی  دلہن ہے۔  خیر ہمارے ہاں خالی برتن بھی انگریزی میں کھڑک جائے تو اپنی قیمت بڑہا  لیتا ہے ۔  پنجابی لہجے میں اُردو بولنے کی  کوشش کرتا  سرکاری سکول کا بچہ لاکھ سر پٹخ لے ، انگریزی اور اردو   کی کے درمیان خلیج پاٹنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔پھر ہزاروں سال بعد نرگس کےہاں میرا پیدا ہوجاتی ہے۔  دُنیا لاکھ مذاق اُڑائے ، حق بات یہ  
کہ میراکی بولی  وہ نہر سویز ہے  جو اردو کےسفینے کو سیدھا   بحر الانگریزی تک رسائی دیتی ہے  ۔دو زبانوں کو  قریب لانے پر  میڈم 
میرا کا نام  آج نہیں تو کل سنہری لپ اسٹک سے ضرور لکھا جائے گا۔ میڈم میرا   پر غیب سے نازل ہوتی لِسانی شکتی مُجھ  پر بھی اُترا 
کرتی تھی اور میں نرگسی کوفتے کی سی شکل بنائے  پیڑک کی انگریز ی درست کرتا رہا تھا۔ مگر کُتے کی دُم کا بنایا سو سالہ ریکارڈ انگریز  کےجبڑے میں پھسی زبان  ہی توڑتی ہے ایک سو  ایک سال  کی کوشش کرمارو،لفظ ڈِنگے چِبے ہی نکالے گی  ۔ ویسے پیڑک نے   بھی ہماری اُردو میں جدِت پیدا کرنے کی کوئی  کم کوشش نہیں کی۔ ناجانے کِس مترجم کی راہنمائ سے وہ  چند اُردو کے الفاظ  سیکھ کر آیا تھا ۔ جب گھر کے کِسی بڑے سے مِلتا تو   کمر کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے  کہتا "جناب علی کیا حال ہے" ۔  جنا ب  کی ب کو سائلنٹ کا درجہ عطاکرتے ہوئے  بنا الف کے عالی   کُچھ اِس معصومانہ انداز میں بولتا کہ  دیکھنے والے کی ہنسی  ایسے مُنہ پھاڑ تی  باہر کو آتی جیسے سینے  سے نہیں بلکہ راکٹ لانچر سے چھُٹی ہو۔ انگریز ی کا وہ لفط جِسے ہم غُصے کی شِدت کنٹرول کرنے کا لقمانی نُسخہ تصور کرتے تھے اُس  کا اُردو مُتبادل بھی ہمیں پیڑک ہی سے معلوم ہواتو  ناک پر ہاتھ رکھے  بےاختیار ہمارے مُنہ سے نِکلا  "ش ش ٹ ٹ "۔ ایک دِن  ٹیوی پر  انگلش فلم سیریز  "نائیٹ رائیڈر " (جادوئی گاڑی والی سیریز)۔ دیکھتے ہوئے   پیٹر ک نے  یہی بدبو دار   لفظ  ہمارے ٹی وی کے مُتعلق بولا۔اُس کے مُنہ سے ایسی گُستاخی  سیدھی میرے دِل میں جنگلی کنڈے کی طرح لگی۔ سچ ہے کہ وہ  بُڈھا ہو چُکا تھا مگر  پھیکی پھیکی  مدہم سی تصویر دکھاتا فلپس کا یہ  ٹی وی میری زندگی کا پہلا رومانس   تھا۔عمر میں مجھ سے چار پانچ سال بڑا تھا۔رات خبرنامہ کے بعد ہلکے نیلے رنگ کا ریشمی کپڑا      ڈال کر   سر پر گُلدان رکھے سُلا دیا جاتا تھا۔حاملہ پیٹ کی طرح پھولی ہوئی سکرین والا  ٹی وی   ولائیت گئے ہمارے تایا نے بھیجا تھا۔ہماری گلی  کے کسی بھی  گھرمیں  چلتی تصویریں دکھانے والا یہ پہلا  ڈبہ تھا ۔سُنا ہے ہر شام   آس  پاس کے گھروں سے بیبیاں ہمارے ہاں اکٹھی ہوجاتی تھیں ۔ کمرے  میں اندھیرا کئے   سینماہا ل
جیسا ماحول بنایا جاتا  تھااوردوڑتی بولتی  تصویریں دیکھنے  والوں کی پلکیں ساکت ہو جایا کرتی تھیں۔


بڑا سادہ دور  تھا وہ ، ہمسایوں سے ملنا ملانا  بغیر کِسی تصنع و بناوٹ کے ہوا کرتا تھا۔ ہمارے صحن میں  تو ایک دو بائی دو فٹ کا جھروکہ 
بھی  رکھا  گیا تھا۔  جہاں سے میں اور میرا لنگوٹیا یار  آپس میں باتیں کیا کرتے تھے ۔ ہم سیٹی  مارکی ایک دوسرے کو جھروکے میں
بُلاتے تھے ۔ہماری دادیاں  بھی اسی جھروکے سے  گھنٹوں  دِن بھر کی کارگزاریوں کا  تبادلہ کیا کرتی تھیں۔ بہنوں جیسا پیار تھا ہماری دادیوں میں  ،شائد اِس سے بھی زیادہ ۔ خاص بات یہ تھی کہ دونوں ایک دوسرے کو نیک اور بہت بڑی ولیہ کا درجہ   دیتیں  تھیں۔میں نے جب  ہو ش سنبھالا اپنی دادی کو حُقہ  پیتے دیکھا   اور  جب  میں نے ہاتھ میں گیند سنبھالا  تو حُقے کی چلموں  کا نشانہ لینے لگا۔   اِسی لئے  گھر میں  چلم شکن کے نام سے شہرت  پائی ۔ میں انگیٹھی پر رکھی چلم  کا نشانہ لیتا اور  فاتحانہ انداز میں  دادی اماں کی طرف دیکھتا ،چلم ٹوٹنے  کی آواز   سُن کر دادی اماں ماتھے پر  شکن ڈالتی  مُجھے  گھور  تیں ، تھپڑ دکھاتی  ہوئی تیزی سے   میری طرف  بڑھتیں   اور  پھرپوپلے مُنہ  سے  میرا دایاں گال چومتے ہوئے کہتیں " اے منڈا  تے شیطان دی ٹوٹی  بن گیا   ھےے"۔ اگلے جُملے میں مُجھے  دادی اماں  کی طرف سے   سخت سی وارننگ مِلا کرتی تھی ، جِسکا مُجھ پر رتی برابر بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔ مُجھے  تو 
چِلم توڑکر دادی اماں  سے  گال پر انعام لینا ہوتا تھا،اپنی پیاری دادی کا کِس۔


بھاری بھرکم وڈ ورک  اور ماتھے پر کاشی کاری    کا تاج  سجائے  وہ مقفل   الماری   جِس کے پھول  نما ہینڈل کو  لٹو کی طرح گھماتے 
 ہوئے ہم کھُل جا سم سم کا ورد کیا  کرتے تھے ۔ مگر  خزانے سےبھری الماری  کی چابی ہمیشہ دادی اماں 
کے دوپٹے کے پلو سے بندھی رہتی تھی۔دُنیا کا کوئی  بھی تالاانسانی کھوپڑی میں فِٹ شیطانی ہتھوڑی کا وار نہیں سہہ سکتا ۔
سوہن حلوہ ،پستے ، بادام اخروٹ  ، چلغوزے ، مخانے پھلیاں یہ سب خزانہ ہم اکثر  چُرا  لیا کرتے تھےاور معصوم   دادی  قانونی 
رستوں سے چور ڈھوندتی رہ جاتی  تھیں ۔ اُن کا  ایمان تھا کہ  قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتےہیں ،جبکہ ہماری طاقت یہ یقین کہ  جِس قانون کو پولیو کے قطرےہی کبھی نہیں پلائے گئے  اُس کے لمبے ہاتھوں سے کیا ڈرنا۔  ہمارے  گھر کے صحن میں  لگی سٹیل کی تار  ہر تیسرے دِن کپڑو  ں سے بھری نظر آتی تھی ۔  دیسی صابن اور  ڈنڈے کی دھمک   سے  وہی چمک  اور اُجلا پن  کپڑوں میں آتا تھا  جِسے  آج  بدیسی پاؤڈروں کے چمتکا ر کا نام دیا جاتا ہے۔ دادی اماں کا کپڑے دھونے والا ڈنڈا  خاص  طور پر ڈیزائین کیا گیا تھا۔  وہ  بیس بال بیٹ سے مشابہت رکھتا  تھا  اور اِس کےچاروں کنارے گول تھے ۔ میں نے اپنے کرکٹ  کیرئیر کا آغاز بھی اِسی بلے سے کیا تھا۔میں اپنی دادی کے مُتعلق بس  ایک جملہ ہی کہوں گا" تُجھ سا ناہیں کوئی اور"۔ اپنے حِصے کے سیب کی مالٹے جِتنی پھاڑیاں کئے اپنے بچو ںاور بچوں کے بچوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر  اُن کے مُنہ میں ڈالنے والی  ہماری دادی۔ اگر کبھی صرف اپنی بھوک مٹا نے کو روٹی پکاتیں تو ایک نہیں دو ،پہلی روٹی گلی کے کِسی آوارہ کُتے کے لئے ہوتی تھی۔سردیوں  کی راتوں میں  ہم سب کِچن میں   بڑی چھوٹی  چوکیوں ، پیڑیوں پر قبضے کی لڑائی لڑتے  ہوئے چولہے کے  گِرد  دائرہ  بنائے    بیٹھ جاتے۔کھانے کے ساتھ ساتھ دادی اماں  سے کہانیاں سُنا کرتے تھے۔ دادی اماں  ہاتھوںمیں پیڑا گھماتے ہوئے   توے پر  روٹی ڈالنا بھول جاتیں اور ہمیں کہانی میں ڈوب کر  ،اگلا نوالہ مُنہ تک   اُٹھا نا یاد نہیں رہتا تھا ۔مذہبی روائیتوں ، حکایتوں ، لوک داستانوں  ،کہاوتوں سے لیکر سکھ دور تک  کے قِصے   سُننے کو ملا کرتے تھے۔ایرانی بِلے کی طرح  اپنی پسند کی چوکی   پر بیٹھا توے پر پکتی روٹی کو  بغور دیکھتا ہو اپیڑک جسے دادی اماں پہلی روٹی  دیتیں مگر  پوری بِسم اللہ  پڑہے  بغیر اُسے نوالہ توڑنے کی اِجازت نہیں ہوتی تھی ۔ ہماری دادی نے تو اُسے پہلا کلمہ  بھی یاد کروا دیا تھا۔ اُن کا بس چلتا تو نمازیں بھی سِکھا دیتیں اور اس بھولے بادشاہ نے نمازیں شُروع بھی کر دینیں تھیں۔  ہم پر حکومت کرنے والے انگریز کے راج میں سورج  غریب ،غروب   ہو نے کو ترسا کرتا تھا۔ شائد کِسی  ایسی  کہانی نے   پیٹرک  کے کانوںکو نہیں چھوا  تھا، ورنہ وہ اپنے  شاندار ماضی کی کُچھ جھلک ہمیں بھی دکھاتا  ۔ جیسے  اِسلام کے  دورِ عروج کے   ٹیکے لگا لگا  ہماری نسلوں  کو"مُتعدی قوموں "سے  بچایا جاتا ہے ایسا ٹیکہ اُسے نہیں لگایا گیا تھا۔مُجھے  آج تک یاد ہے  مہمانوں کی روانگی  کاوہ  دِن ،جب  دادی اماں نے اپنے مخصوص انداز میں پیڑک کو  چومتے ہوئے کہا " چل پُتر اللہ دے حوالے "ناجانے اُسے یہ دُعا سمجھ 
آئی تھی کہ نہیں مگر اُس کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں  نے ہم سب کو رُلا دیا تھا۔


کُچھ عرصہ پہلے میر ےتایا  کا بڑا بیٹا   کمپنی ٹوؤرپرایک  ہفتے کے لئے پاکستان آیا تھا۔میں اُسے پنچ ستارہ ہوٹل میں ملنے گیا۔کافی سالوں  بعد ہماری مُلاقات ہوئی ۔  وہ بڑی گرمجوشی   سے ملا بہت اچھا لگا ۔بات کرنے کا وہی انداز، ٹوٹی پھوٹی سی
بول کر احسان کرنے والی اردو۔خوشگوار حیرت اُس کے مذہبی رجحان سے ہوئی ماشااللہ ہر بات میں قُرانی آئت سے دلیل 
اور حدیث کا حوالہ، سچی بات ہے میں تواُس سے بہت  مُتاثر ہوا۔کھانےکی میز پر میں نے بات سے بات چلانے  کے لئے پیڑک  کاذِکر 
کر دیا۔ وہ میری طرف غور سے دیکھنے لگا  اور  اپنی گھنی سیاہ داڑہی میں خلال کرتے ہوئے بولا ۔" مُجھے تو اب یاد بھی نہیں رہا پیڑک" ۔ پھِر مُسکراکر کہنے لگا  " ضرورت بھی کیا ہے یاد رکھنے کی، کُفار سے ہمیں  دوستی  کی ضرورت بھی کیا ہے"۔ شائد وہ درست کہ 
رہا تھا   ہمارا کُفار سے بھلا  کیسا تعلق اور  کیسی دوستی ۔

پنچ ستارہ ہوٹل کی پارکنگ سے اپنا موٹر سائیکل باہر نکالتے ہوئے مُجھے اپنی دادی یاد آگئی ۔جِس دن دادا ابا کا ساتا(ساتواں ) تھا  ٹھیک اُس سے اگلے دِن ہماری دادی بھی دادا کے ساتھ والی قبر میں جاکر لیٹ گئیں تھیں ۔ سادگی کے  رنگ میں رنگا   اور خلوص کے شیرے ڈوبا  ہوا  معصوم سا اِسلام ، ہماری دادی  جاتے وقت  اپنے ساتھ ہی لے گئیں۔