Monday 13 February 2012

AKHIYAN UDIKDIYAN DIL WAJAN MAARA by Dohra hai


اکھیاں اڈیکدیاں دل واجاں مار دا 
 بھارتی انا کو میں نے تقریبا بیس سال پہلے دیکھا تھا وہ ممبئی کی غلیظ جھونپڑ پٹی کی پیداوار تھا۔ بازاروں کی گلیوں میں پلنے والا،دُنیاکے اس خطے میں رائج نظام کا دُھتکارا ہوا انا۔ مگرخوداعتمادی سے لبریز ۔اس نے خود میں موجود شاطرانہ صلاحیتوں کاخوب منفی  استعمال کیا اور وہ سب کچھ اس ظالم اور کمزور کو کھا جانے والے سماج سے چھین لیاجو کہ اُس کی پہنچ سے بہت دور تھا اوریوں وہ بن گیا مُمبئی کے انڈر ورلڈ کا  ڈان۔ اپنی بیوی اور بیٹے کو جلا دینے والا انا۔اپنے بے ایمانی کے کاروبار کو اِنتہائی ایمانداری سے کرنے والا انا سیٹھ۔ اُس کا بولا ہوا ڈائیلاگ مجھے آج بھی یاد ہے "نہ بھائی نہ بہن نہ بیوِی نہ بیٹا، دھندے میں کوئی کسی کا بھائی نہیں ہوتا"بالی وڈ کی کچرہ فلم انڈسٹری کے کچرے میں پڑی چند ہیرافلموں میں سےایک فلم "پرندہ" اور "انا سیٹھ اس کا ایک منفی  کردار۔۔جسے نانا پاٹیکر نےانتہائی مُتناسب رنگ بھرتے ہوئے لازوال بنا دیا۔جس طرح امجد خان کے دنیا چھوڑ جانے سے گبھرسنگھ مٹی تلے نہیں دب گیا بلکہ آج بھی ہشاش بشاش ہمارے خیالوں کی دُنیا میں جی رہا ہے کہیں سے ذرہ برابر گرد نے بھی اُسے نہیں چھُوا۔ اسی طرح انا سیٹھ بھی  میرے دماغ کی ھارڈ ڈسک میں محفوظ ہے اور ماوءس کی محظ ایک کلک پر تروتازہ ہو جاتا ہے۔اس فلم کے آغاز میں مُمبئی کے ساحل پر کمزورکِرنوں سےڈوبتا ہوا سورج اور اُس کی جگہ ہر سو چھاتا ہُوا اندھیرا  دِکھایا گیا ہےجو اس طرف اشارہ ہے کہ ہندوستان میںچاروں طرف اندھیر راج ہے اور چند مافیاز نے ہندوستان کو اپنی گرفت میں بُری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔

آج بیس سال بعد ناجانے کیوں مُجھے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ بھارت کی کالی رات  کا اختتام شائداب ہونے کو ہے اور طلوٰعِ سحر کا نقارہ قریب قریب بجنے کو ہے ۔ اس کی وجہ بھی اِک انا ہی ہے مگر یہ کوئی فرضی کردار نہیں ہے بلکہ ہماری طرح جیتا جاگتا اِک انسان جسے جلد یا بدیر اسی مِٹی میں مل جانا ہے۔ مگر دھرتی ماں اور اِس دھرتی ماں پر بسنے والوں کی بہتری کیلے اُس کی اِک کاوش اُس  دیپ کی مانند ہے جو لاکھوں مزید دیپ جلانے کا باعث بنے گی۔ اگردیپ روشن ہونے کا یہ سلسلہ حقیقت میں چل نکلا تو پھرشا ئد رُکنے نہ پاءے اور وہ دن آجائےجسکا فیض نے خلق خدا کے لئے دیکھنا لازم قرار دیا ہے اور جس کی اُمید پر کروڑوں اربوں لوگ زندگی سے ناطہ جوڑے بیٹھےہیں۔یہ روشنی اِن کی اپنی ہو گی خالص اپنی کسی بیرونی ذریعہ کی مرہون نہیں ہوگی ۔ نہ اماوس کی کالی چادراسے اپنی لپیٹ میں لےپائے گی اور نہ ہی کوئی گرہین اسکےاُجالے کو داغ دار کر پاءےگا۔

کسان بابو راوء ہزارے نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مُفلس والدین کے کروڑوںبچے جو سکول جانے کا محض خواب دیکھ سکتے ہیں مگرحقیقت میں، غُربت کی اُونچی چار دیواری اُنہیں سکول میں پڑہتے ، اُستادوں سے تازہ سبق لیتے ،اپنے معصوم ذہنوں میں آنے والےدُھنکی ہوئی  روئی  کی طرح اُجلے ہوئےمعصوم مگرشرارت سے بھرے سوالات پوچھتے،  بچوں کی آواز تک سُننےکا حق نہیں دیتی ۔انا کے بھائی بہن بھی اُنہی میں سے تھے مگروہ خود کچھ درجہ خوش نصیب تھا جو کسی  رحمدل رشتے دار  کے سہارے ساتویں کلاس تک سکول میں تعلیم حاصل کرسکا۔مگر اسکے بعد فکر معاش نے اُسے عمر سے پہلے سیانہ بنا دیا اور وہ سٹیشن پر پھول بیچنے لگا ۔خوب انتھک محنت سے وہ دو دُوکانوں کا مالک بھی بن گیا۔انا نےبارہ سال فوج کی نوکری بھی کی  دو جنگیں لڑیں ۔ دوران مُلازمت موت کو قریب سے دیکھ لینے والا سڑک کا اِک حاد ثہ اسکی زندگی میں بہت بڑے موڑکا موجب بنا۔
 اپنے آبائی علاقہ میں واپس آنے کے بعد اُس نے غُربت افلاس ، لا قانونیت، بے راہ روی اور وسائل کی کمی جیسےمسائل پر نُقطہ چینی کرنے کی بجائے حالات کا مُناسب تدبیراور فراست کے ساتھ مُقابلہ کرنے کی ٹھانی  مگر سب سے بڑھ کر تھی اُس کی ہمت، ثابت قدمی اور بہتریں نظم و نسق۔ اُسنے اپنے علاقے  کے نوجوانوں پر مُشتمل ایک کا گروپ تیار کیا۔ معاشی اور سماجی مسائل پر توجہ دی۔ فرسودہ نظام کی بیڑیا ں کھول کر دریا بُرد کر دیں۔ بے راہ روی کے سدِباب کے لئے شراب کی لِعنت کو بزور طاقت روکا۔ انا ہزارے نے اپنے چھوٹے سے علاقے ریلیگن سِدھی کو کُچھ سالوں میں مگر انتھک محنت سے ایک مثالی علاقے میں تبدیل کر دیا ۔ انا ہزارے کا کردار الف لیلائی داستانوں کا اِک کردارمعلومہوتا  ہے کہ جس میں اِک نیک جن کسی آفتوں سے بھرے  علاقے سے گُزرتا ہے اور مکینوں پر ترس کھا کر سارے علاقے کو نحوسطوں سےآزاد کرتےہوئے ہر طرف خوشحالی اور امن کا بول بالا کر دیتا ہے ۔ انا ہزارے جس کو ہندوستان کے اعلی تریں اعزازات جن میں پدما شِری اورپدما بھوشن بھی شامل ہیںمل چُکے ہیں۔بقول ہندوستان ٹائمز کے وہ مُمبئی کی سب سے زیادہ پُر اثر ہستی بن گیا ہے۔
نہ جانے میں کیوںبہت دِنوںسے  انا ہزار ے کو اس شدت سے یا د کیے جا رہا ہوں کہ رات کو دوران نیند بھی وہ مُجھے اپنے مخصوص انداز میں چلتا میرِِی طرف آتا محسوس ہوتا ہے مگر اِک حیرت انگیز تبدیلی کے ساتھ اُس نے پاجامہ اور شیروانی زیبِ تن کیا ہوتا ہے اور اُس کے سر پر نہرو ٹوپی نہیں بلکہ جناح کیپ ہوتی ہے۔میں پچھلے  کئی دنوں سے اُسے روز اِسی طرح دیکھتا ہوں اُس کا سترہ بہترہ لاغر جسم مگر عزم اور حوصلہ کسی ۲۲ سالہ ڈائریکشن لیس نوجوان سے کہیں زیادہ جوان۔ میرے اس خواب کا عالبا میرے دماغ کی اختراع ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر یہ دل ہے کہ کہ رہا ہے کہ تُم یہیں ہو، یہیں کہیں ہو ۔۔۔۔ کیا کریں ہمیں بھی اِک انا ہزارے چاہیئے۔ ہماری سیاست کے ہزاروں انوں کو آنکھیں چاہئیں۔اور وہ آنکھیں انا ہزارے ہی دے سکتا ہے۔مُجھے اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لئے بھی غالبا کسی پُرانی ہندی فلم ہی کا سہارا لینا پڑے گا۔ جسمیں دوجڑواں بھائی ہوتے ہیں مگر بچپن ہی میں بچھڑ جاتے ہیں ۔ اور پھر اگلے سین میں بچے بڑے ہوتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اک کسی مُسلمان کے گھر اوردوسرا ہندو کے گھرپل کر جوان ہو چُکے ہیں۔ مگر ایک بات طے ہوتی ہے کہ ہوتے دونوں ہیرو ہیں۔ میں تو دعا کرتا ہوں کہ ایسی ہی کوئی سٹوری کم ازکم اس معاملے میں سچ ہو جاءے۔ یا پھر ایک اور طریقہ ہے کہ تاریخ پر نئے سرے سے ریسرچ کی جاءے اور انا ہزارے کا ہری پور ہزارے سے کوئی تعلق نکالا جاءے۔کیوں کیا خیال ہے کرتے ہیں آپ پھر ریسرچ۔۔۔۔۔؟        


No comments:

Post a Comment