Sunday 9 December 2012

بڑا سخت جان ہے ہمارا غریب



کرکِٹ کے کھیل نے انگریز اشرافیہ کے ہاں پرورش پائی ۔ یہی وجہ ہے رکھ رکھاؤ اعلی  اقدار اِس کھیل کا حِصہ بنیں  اور کرکٹ  کو جنٹلمینز گیم کے نام سے شہرت مِلی ۔ آج بھی  اعلیٰ  درجے کے انگریزخاندانوں  میں  یہ کھیل شُرفا کی شان سمجھا جاتا ہے۔جب 1992 کا ورلڈ کپ جاری تھا اور پاکِستان شِکست  پر شِکست  کھاتا  جارہا تھا،  تو اِنگلینڈ میں ایک ظہرانے کے دوران ملکہ الزبتھ نے پاکسِتانی سفیر سے   اُن کی ٹیم کی بُری کارکردگی پر اپنی تشویش کا اِظہار کیا تھا۔بس پھِر کیا تھا ہم نے شاہ سے زیادہ ملکہ کا وفادار ہونے کی  ایک انوکھی مثال قائم کر ڈالی

کرکٹ   انگریز شاہوں  کے ڈیروں  سے باہر نِکلی تو جزائرغربُ الہند  کے کالوں اور برِ صغیر کے رنگ  والوں  کے میدانوں ،پارکوں ،سڑکوں ،فُٹ پاتھوں ،اورگلیوں تک جاپہنچی۔  ہمارے محلوں میں بچے کرکٹ  اُن تنگ و تاریک  گلیوں میں بھی کھیلتے نظر آتے ہیں  جن میں سورج  بھی سارا سال جھانکنے کی ہِمت نہیں کرتا   ۔ اِن تنگ گلیوں میں  جب گیند باؤلر کے ہاتھ سے نکل کر  بیٹ کو چھوتی  ہے تو اُ سکے  بہتی  ہوئی گندی نالی  میں ڈُبکی لینے کے اِمکانات 70فی صد سےبھی  زائد   ہوتے ہیں مگر  کھیل  پھر  بھی جاری رہتا ہے ۔  کرکٹ کی اِسقدر  عوامی مقبولیت  سے اِس کھیل کی جنٹملینی تو خیر کِسی نالی  میں بہہ گئی مگر یہ کھیل  نِکھرتا گیا۔ اِسے  دِلکشی   و طِلسماتی  کشش عطا کرنے  میں  غُلام رہے ممالک کے پلئیرز کا کرِدار  جھُتلایا نہیں جاسکتا ۔غریب  میلکم مارشل   سے لیکر تنگ دست عبدلقادر اور وِو رچرڈزسے لیکر  ٹنڈلکر  تک بیسیوں  نام  ہیں جِن  کی بدولت  
یہ کھیل  آج لوگوں دِلوں  پر حُکمرانی کرتا ہے۔

سنوکر   کی کہانی بھی کُچھ  زیادہ مُختلف نہیں ہے۔ لفظ سنوکر کا  لغوی معنی  غیر  تربیت یافتہ  یا فرسٹ یئر کیڈٹ  ہے ۔  برِصغیر  میں تعینات برِٹش آرمی کا پسندیدہ کھیل  بِلئرڈ تھا   اور  وہیں   سے سنوکر   کا جنم ہوا۔  جبل پور  کے آفیسرز میس میں1875 پہلی بار اس کھیل میں رنگین گیندوں  کا اِستعمال کیا گیا۔  لگ بھگ دس سال بعد کھیل کے رولز طے کئے گئے۔  بیسویں صدی  کے آغاز میں سنوکر  برطانیہ میں تیزی سے مقبول ہونے لگا،مگر  اِس کھیل کو اِبتدا  ہی سے 

اپر کلا س تک ہی محدود رکھا گیا ۔برطانیہ  کے کلبز  میں مخصوص ممبرز ہی یہ کھیل  کھیلنے کے حقدا ر تھے۔ 
قائد اعظم کا  اِس کھیل سے لگاؤ سنوکر سے ہمارے  تعظیمی رِشتے کا باعث بنا۔وقت گُزرنے کے ساتھ  یہ  کھیل   ہمارے ہاں عام  ہوا  اورکرکٹ  کی  طرح تمام حدیں کراس کرتا  چلا گیا اور  بڑے دیہاتوں میں  گارے  کی چھتی   ہوئی چھت  کے تلے ، گرد سے اٹی ٹیبلوں پر  کھیلا جاتا ہوا  بھی نظر آنے  لگا۔ہمارا غریب بھی بہت سخت جان واقع ہوا  ہے  بالکُل  کھُمبی  کے بیچ  کی طرح کا سخت جان۔  گندگی میں تو  یہ پھلتا پھولتا ہے  ہی   ، گر موقع میسر آجائے تو    بادشاہوں کے باغات میں بھی جلوہ گر ہوکر اپنی   حیثیت منوا لیتا  ہے ۔ خواہ  سالہا  سال  مٹی کے نیچے دبا رہنا  پڑے  ۔  حالیہ دِنوں میں بلغاریہ میں    کھیلی  گئی ورلڈ کپ سنوکر ٹائٹل اپنے 
نام کر کے یہی بات ثابت کر دِکھائی محمد آصف   نامی اِک غریب پاکِستانی نے ۔

اِسی طرح اگر تختِ سُلطانی کو بھی   چند خاندانوں  سے نِکال کر  عام کر  دیا  جائے تو  قیاس کیا جا سکتا ہے کہ  اِک چھابڑی فروش سے لیکر  رکشے والا تک تختِ سُلطانی کے خواب دیکھنے لگے گا جِس سے بہت  لُٹ مچے گی ہر طرف لوٹ سیل لگ جائے  گی   اور یہ تخت ِ سُلطانی   اِن غریبوں  کی  پھٹی ایڑیوں  میں جمی گندی مٹی سے اٹ جائے گا۔ مگر اس حقیقت   کو کیسے جھُٹلایا جائےکہ   اقوامِ  عالم میں   چیمپئین فقط اِس  راہ کو اپنانے سے ہی بنا  جاسکتا ہے کیونکہ بڑا سخت جان ہے ہمارا غریب۔

Saturday 24 November 2012

آج کُچھ میری بھی سُنو


نوٹ    یہ تحریر اُستاد جی کی پوسٹ تعزیہ سے مُتاثر ہو کر لِکھی گئی ہے۔
میرا بچپن اور جوانی بھی اُستاد جی کے شہر ہی میں بسر ہوئی ہے ۔ محرم کے ماتمی جلوسوں پر میری پہلی نطر ڈگلس پورہ کے گھر کی چھت سے پڑی میرا تجربہ بھی اُستاد جی کے بنائے گئے خاکے سےمُختلف نہ تھا۔   اپنے سکول کے دور  میں  ایک بار    دس محرم کے  دِن دھوبی گھاٹ سے گُزنے کا اتفاق ہوا  اور پہلی بار زنجیر زنی   لائیو ہوتے دیکھی تو  حالت غیر ہو گئی۔  بس  خُدا خُدا کر کے اپنے گھر پہنچا وہ دِن اور آج کا دِن میں نو اور دس مُحرم کے دِن خود کو گھر  میں ہی  میں مُقید کئے رکھتا ہوں۔اِس کی  وجہ کوئی خاص نہیں بس اپنا دِل ہے ہی اِتنا کمزور  مُرغی ذبح  ہوتے دیکھ کر   ہی باہر کو  چھلانگتا  ہے ۔ اِنسانی خون  تو ،خیر رہنے ہی دیں اِس بات کو۔ محرم کے دِنوں میں مُنعقدہ مجالس  سے مُجھے اِختلاف  لاوڈ سپیکر کے اِستعمال پر ہے جِس میں ذاکر صاحبان کی تقاریر اور نوحوں کے ساتھ ساتھ دھڑام دھڑام کی آوازیں بھی  سُننے کو مِلتی ہیں ۔ جو مُجھے زنجیر زنی کے  دیکھے گئے سین میں پھِر سے  دھکیل دیتیں ہیں۔

مُجھے یاد ہے کہ میٹرک  پاس کرنے پر مُجھے  تایا جان نے ایک چھوٹا سا ٹیپ رِکاڈر گِفٹ کیا تھا۔وہ ٹیپ رِکارڈر لندن سے سفر کرتا  ہو ا مُجھ تک پہنچا تھا۔بہت پیار سے میں نے اُس ٹیپ رِکارڈر کو رکھا۔ اپنی ٹین ایج کے  ہٹ گانے جو آج بھی میری یادوں میں محفوظ ہیں اُسی پر سُنے ۔بونی ایم گروپ کی ایک کیسٹ    جوکہ ٹیپ رِکارڈر کے ساتھ ہی تشریف لائی تھی ،کُچھ ہی عرصے میں  لگ بھگ حفظ ہوگئ تھی مُجھے۔ نہ جانے کب اُس ٹیپ رِکارڈر میں گانوں کی جگہ حق نوازجھنگوی کی ایمان افرو ز تقریروں نے لے لی ۔ غالباً مسجد میں نماز اور  مولویوں سے علیک سلیک  نے یہ کرشمہ کر دکھایا تھا۔جھنگوی صاحب کی  تقاریر سُنیوں  کا خون گرماتی تھیں اور شیعوں   کے  گھر جلاتی تھیں ۔  اِن تقاریر کا مُجھ پر بھی گہرا  اثر ہوااور میں اُس( کافر قراد دی ہوئی) مخلوق کو کائنات کی بد ترین مخلوق  گرداننے لگا ۔  بس یوں محرم  کی تقاریب سے میری  وہشت کو ایک جائز  اور  مسلکی پناہ گاہ  بھی میسر آگئی۔ کافر کافر کا نعرہ خود لگانا تو  اپنی  خاندانی تربیت کے سبب کبھی مُناسب محسوس نہ ہوا مگر   لگتے دیکھ کر کبھی بُرا  بھی نہ لگا ۔ 

اِس جاندار نعرے نے کُچھ  ہی عرصے میں اپنا اثر پورے معاشرے میں قتل و غارت  اور بے سکونی  کی   صورت دِکھانا شُروع کر دیا ۔مگر میں  نے اِس نعرے کو اپنے ایمان کا  جُز و لازم جانتے ہوئے ہمیشہ اِلزام فریق ِ ثانی پر ہی دھرنے کی روش اپنائے رکھی۔ میرے چھوٹے چچا جو اُن دِنوں چنیوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے  ۔وہ اکثر  صحابہ  کے اِن جانثاروں کے قِصے سناتے  اور اِن لوگوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔مگر  میرا مُرغا بھی ایک ٹانگ لیکر ہی پیدا ہوا  تھا ۔ سٹوری میں ٹوسٹ اُس دِن آیا  جس دِن سعید انور نے 194 رنز کی کبھی نہ بھولنے والی اِننگز کھیلی ۔ سعید انور کی سنچری شام کو بنی تھی مگر اُس دِن  کا آغاز بھی ایک  الگ سنچری سے ہوا تھا۔   عاشقانِ صحابہ  کی ٹیم کے ایک  کھِلاڑی نے  اپنا سواں شکار   ابدی نیند سُلا یا تھا۔ شکار ہونے والا ایک درویش صِفت   اِنسان جِس نے  آخری سانسیں اپنے بیٹے   نیر عباس  کی گود میں  بیچ سڑک  پر لیں ۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا جاوں یہ وہی نیر عباس ہے جِسے  جعفرحُسین نے اپنی پوسٹ  میں عُرف " پستول شاہ "لِکھا ہے۔ اُس درویش کے قتل پر ہر آنکھ عشق بار تھی ہر چہرہ افسردہ ۔ ایوب ریسرچ کی وہ سڑک بھی شرمندہ تھی جہاں دِن دیہاڑے یہ  اندوہناک واقع  پیش آیا  وہ   درویش 25منٹ  تک خون میں لت پت پڑا رہااور کوئی مدد کو آنے والا نہ تھا۔ دُکھ کی بات یہ ہے  کہ میری اِن آنکھوں نے وہ چہرے بھی دیکھے جو اِس سفاکی کو جائز اور  اس قتل پر   دُکھ کے اِظہار کی  سرزنش کرتے  تھے۔

نیئر عباس سے میری دوستی بہت پُرانی ہے۔ اِنسانی تعلق  خصوصاً دوستی اِ  اِتنی کمزور کبھی نہیں ہوتی کہ  وہ حق نوازجھنگوی  یا کِسی  اور مُقرر کی  شعلہ بیانی اُسے جلا کر بھسم کر ڈالے ۔ میں اُسے اور   اُس کے مسلک کو   اِسلام سے خارج قراد دیتا رہا اور وہ اپنے دِفاع میں ہر دم سر گرداں رہا۔ وہ   ہمیشہ اپنے مسئلک کی  بطور اِسلام قبولیت  کے حق میں دلائل      پیش کرتا رہا۔ہم آپس میں لڑتےرہے  ایک دوسرے کے دلائل سُنتے  اور رد کرتےرہے  مگر نہ وہ  اپنی جگہ سے ہِلا نہ میں کھِسکا۔   ہمیں زِندگی  کے تجربات نے یہی سبق دیا کہ  دوسرے کی عِزت کرنے  سے اِنسان عِزت پاتا ہے ۔ دوسرے کا احترام کرنے سے  اِنسان خود محترم کہلاتا ہے اور سب سے بڑھ کر  یہ بات  کہ  صبر ،برداشت اور ڈائیلاگ  ہی  ایک صحت مند  معاشرے کی تشکیل کے ضامن ہیں ہے۔
اِسلام  صبر، برداشت  قُربانی اور عدم تشدد کا درس دیتا ہے ۔ نبی پاک کے نواسے کی قُربانی  اِس کا سب سے بڑا ثبوت ہے  ۔  اِس قُربانی کے اِس بُنیادی فلسفے میں ہی ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔
  

Thursday 15 November 2012

اے سُپر مین ہٹاں تے نئیں وِکدا



اِک کنگلے کالے  افریقی کے گھر پیدا ہونے والے بدیسی صدر کی شان میں صفحے کالے ہوتے دیکھے تو میرے دِل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کیوں نہ اپنی دھرتی کے حقیقی ہیرواور رئیس الاعظم کی اولادِ اصغر کی شان ِبیان میں کُچھ قصیدہ نِگاری کا فرض ادا کرتا  جاؤں۔ جناب کی سحر انگیزذات مُبارکہ  کے اس مفلوک لحال  اور پِسی ہوئی  عوا م پر  اسقدر احسانات ہیں کہ جِن کا قرض رہتی دُنیا تک اُتارنا کسی طور بھی مُمکِن   نہیں ہے   ۔ آپ کی عظمت کا اِس سے بڑا اور کیا ثبوت ہے کہ چند سال پہلے آپ کو پنجاب کا شیر کہا جاتا تھا مگر آج جنگل کا بادشاہ بھی شہباز کی کھال پہنے نظر آتا ہے۔

قُربان جاؤں  آپ کے صوفیانہ انداز زِندگی پر کہ مئی جون کی گرمی میں بھی آپ کو جُھگی میں بیٹھے پنکھا جھلتے دیکھا جاتا رہا۔ مگر جب ڈینگی افواج نے حملہ کیا تویہ درویش اِک جری سپہ سالارکے روپ میں نظر آیا۔ ہر گلی ہر موڑ ہر دُکان پر ڈینگی سپرے اُٹھائے "شہباز ریمبو دی ڈینگی کِلر "حقیقت میں  ڈینگی کی موت ثابت ہوا ۔ اِس عظیم اِنسان  کی  برق رفتاری  سے ہسپتالوں میں  آنیا جانیاں دیکھ کر یقین ہو گیا کہ جناب کی شکل میں سُپر مین کا حقیقی جنم ہو ا ہے۔  ہمارے سری لنکن بھائی تو  اِس سُپر مین  کے حصول کے لئےمِنتے ترلے کرتے نظر آتے ہیں اب بھلا اِن بھائیوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ  "اے سپر مین ہٹاں تے نئیں وِکدا"۔ ہمارااہلیان ِ سرِی لنکا  کو ایک  آزمودہ  مشورہ ہے  کہ  اِس سپر مین  کی آدھ پیجی  تصاویر اپنے مُلک کے تمام اخبارات میں چند دِن لگا ئیں  اور پھِر دیکھئے گا اس کا اثر۔۔۔۔ بھلے ہی موسمی حالات کا بہت فرق ہو پھِر بھی    یقینا  ڈینگی مچھر آپ سے دور ہوگا رہنے پر مجبور۔

عدلِ جہانگیری کے قِصے تو ہم نے سُن رکھے تھے مگراپنی آنکھوں سے  حقیقی عدل  بٹیا رانی کے کیس میں آپ ہی کے ہاتھوں  ہوتے دیکھا  ۔ کِس طرح آپ نے  رِشتے کی نزاکت کو بالے کی طاق پر رکھتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ہائے  میں جب بھی بِٹیا رانی کے سرتاج کی  "اُتھاں گُزاری آئی رات "کے  بارے میں سوچتا ہوں تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

آپ کے دانش سکول   سرسید  احمد خان کے مُحمڈن اورئنٹل کالج سے بڑا اِنقلاب لائیں گے۔ جب دانش سکول کے بچے بڑے ہوکر  اپنی عِلمی صلاحیت  و قابلیت کے بل بوتے پرمسندِ صدارت پر براجمان ہوں گےتو ۔۔ہائے رے ککھ نہ روےایس قلم دا۔۔۔اومِٹی پاؤ جی ۔ ہاں تو میں کہ رہا تھا   کہ آپ کے دُشمن ایک آمر کو دس بار باوردی مُنتخب کر نے کی خواہش کا اِظہار  کر سکتے ہیں   تو آ پ کی مُحبت میں گِرفتار   اور احسانوں تلے دبی  یہ غریب عوام   سے آپ کی اگلی  پانچ نسلوں کو بھی  مُنتخب کرنے کا  حق  کوئی مائی کا لال نہیں چھین سکتا۔ جب کھُلا تضادکھُلے عام دِکھائی دیتا ہے تو  موروثیت  سرعام کیوں  چل نہیں  سکتی ۔ مُفت میں ببیچے ہوئے چھوٹے کمپیوٹر   اور بدلے میں نوجوانوں کے دِل ، کِسی سمندری تبدیلی سے کہیں بہتر اِنقلاب ہے  جو حقیقت  میں اب آچُکا ہے  ۔آپ نے جمہوریت کی اِس بے لگام  اور سرکش گھوڑی کو کمشنری نظام کا ایسا چابک مارا کہ   یہ  گھوڑی  اپنے شہزادے  کو بمع اہل و ایال ،پیٹھ پر بٹھائے نئی نویلی سڑکوں اور بِنا سریے کے بنے عالیشان   پُلوں پر سرپٹ دوڑتی نظر آتی ہے۔

ہمارا لیڈر   وہ شہباز ہے جو تندی بادِ مُخالف سے نہ گھبرایا اور نہ ہی  اُس نے اُنچی اُڑان کا جھنجھٹ  پالا بلکہ  اِک کرشمہ کر دکھایا اِس تُندی کو بادِ صبا میں بدل دینے کا کرشمہ۔اِس مردِ آہن نےتنِ تنہا    اِک تباہی پھیلانے والے سونامی کو  اپنی دھرتی کے پنج دریاوں میں غرق کر  کے  جواں مردی و شجاعت کی اعلی ترین مثال قائم کرتے ہوئےاپنا نام گِنس بُک  میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کروا  لیا ہے۔( والیم 2012 صفحہ نمبر 303پر ٹی شرٹیں بدلنے  اور روٹیاں پکانے والے رِیکارڈ سے نِچلی لائن پر  آپ شہباز صاحب  کے ریکارڈ کی تفصیل مُلاحظہ کر سکتے ہیں)

خادمِ  اعلی کی دریا دِلی اور سخاوت کا مُنہ بولتا ثبوت روز کے اخبارات ہیں غریب لِکھاریوں اور مفلوک الحال اخبارات کے لئے مُختص کردہ  فنڈ   ہے جو کہ لاکھوں گھروں کے چولہے گرم رکھے ہوئے ہے ۔ اُمید کرتا ہوں  کہ یہ دریا دِلی جلد ہی میری جیب کا رستہ بھی دیکھے گی۔ میری جیب کہ جِس میں آج تک خُشک  کی سالی  غُربت ہی ناچتی رہی ہے۔ مگر اب  دولت کی بہاریں بھی دیکھ پائے گی ۔بس ایک بار۔۔۔۔

  

Friday 9 November 2012

ایک عامی کا اِقبا ل ڈے



ایک اور اِقبال ڈے گُزر گیا۔ تمام دِن اِقبال کی شاعری اور فلسفے پر روشنی ڈالی جاتی رہی اور فکر ِ اِقبال کی یاد کو تازگی بخشنے کے  نام پر ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کا پیٹ بھرا گیا۔ میں اِقبالیات کا طالبِ عِلم کبھی نہیں رہا اورپھِر آنڈے پرونٹھوں کی خوش خوراکی مُجھے فلسفیانہ اور مُدبرانہ خیالات و نظریات سے  دور دھکیلتی رہی۔ میں تو فے سے فضل الرحمٰن کے کے" پلٹنے جھپٹنے "کو کبھی نہ سمجھ پایا یہ فلسفے کے حروفِ تہجی  کو بھلا ۔۔۔

دو قومی نظریہ ڈاکٹر اِقبال کے خواب  کی صورت جنما اور ہمارے مُلک کی تخلیق کا سبب  بنا ۔  ہم بھلا محسِنوں کو کب بھولنے والے ہیں اِس دو قومی نظریے کو آج بھی زِندہ رکھے بیٹھے ہیں۔ ہمارے مُلک میں آج بھی دو  قومیں ہی بستی ہیں۔ اِک امیر اور دوسرے ہم۔   ہمیں  حکومت نے غُربت پروگرام کے سپیشل شناختی کارڈ  دے رکھے مگر اشرافیہ  کے در چھونے کے لئے شفارشی کارڈ بھی ضروری ہوتا ہے وہ نہ جانے کب مِلیں گے؟۔ ہمارا مُلک بھی کمال ہے کہ جہاں کے امیر بھی غُربت کا رونا روتے ہیں ۔بچوں کے پیمپروں کی  بڑھتی قیمت اُنہیں   مہنگائی کا احساس دلاتی  ہے۔ مہنگائی کا رونا رونے والی اِس اپر کلا س کے بچے فیری ٹیلز پڑہتے ہیں ، انگریزی میں خواب دیکھتے ہیں اور لنچ بریک میں نگٹس کھاتے ہیں۔ میں نے  کبھی  شاہین کی پرواز بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی کرگس  کے رہن سہن پر  میر ا کبھی  دھیان گیا مگر  اِک بات میں جانتا ہوں  کہ "اِن بچوں کا جہاں اور ہے اُن بچوں کا جہاں اور"

دو دِن پہلے کے اخبارات  میں اِک چھوٹی سی خبر  پڑھ کر مُجھے یادآیا کہ اِقبال نے  ممولے کو شہباز سے لڑا  دیا  تھا ۔سُنا ہےبہت طاقت تھی اِقبال کی شاعری میں ۔  مگر میں نے زِندگی میں ممولے کو پَٹتے ہی دیکھا۔   شہباز خواہ خادمِ اعلٰی ہو یا پھِرکوئی  اُس کا داماد یا سالا ہو ، وہ  ہر  حال میں مار ہی کھاتا ہے ۔ ممولا ہو یا  کوئی مُجھ  سا  معمولی ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ اِن شہبازوں کے گُن گائیں  اور خوب دِل لگا  کر  "کھائیں " اِس عملی اُصول کو ذہن نشین کرتے ہوئے " کھاؤں گا نہیں تو بڑا کیسے ہوں گا"۔


Monday 8 October 2012

سکون وِلا اور وہ


ہمارا ساتھ والی گلی کی ٹیم کے ساتھ ہوم سٹریٹ میچ چل رہا تھا ۔ ہمیں  جیت کے لئے تین گیندوں پرمحظ  دو رنز درکار تھے۔ باؤلر نے اپنے رن اپ پر دو قدم ہی  اُٹھائے  تھے  کہ  امپائر کے اِشارے پر رُک گیا۔ میں جو بیٹنگ کریز پر پوری یکسوئی کے ساتھ باؤلر پر نظریں جمائے ہوئےتھا۔ امپائر کا باہر کو  نِکلا ہو ا ہاتھ دیکھ کر سیدھا ہوگیا۔ اِک لڑکی ہرنی کی سی چال میں تِرچھے زاویے سے سڑک کراس کرتی ہوئی نظر آئی ۔ میری تمام تر یکسوئی اِن چند لمحوں میں بِکھر سی گئی بس  پھِر کیا تھا ہم میچ ہار گئے اور میں اپنا دِل۔ اُس کی چُنری کا ریشم سے بالوں کی ملائمت پر سے پھِسلنا، نیم جھُکی نظروں میں  شرماہٹ  اور  اپنائیت کے   اچھوتے بلینڈ کا  جھلکنا ،  پیلے کُرتے شلوار پر پھُلدار لال دوپٹے کا غضب ڈھانا ۔ جانے کونسی ادا    جو کہ میرے دِل میں مُستقل گھر کرگئی۔اِن چند لمحوں نے میر ی زِندگی ہی بدل ڈالی  ۔

اُس کی خوبصورتی  کے کیا کہنے ۔یہ آج کل کی کترینہ کیف میک اپ انڈسٹری کے سمندر میں سات ڈُبکیا ں لیتے ہوئے بن ٹھن کر نِکلے تب بھی اُس قدرتی حسن   اور پاکیزگی کے عشرِ عشیر کو بھی نہ پہنچ پائے۔ وہ ہماری گلی کے نُکڑ والے گھر میں رہتی تھی،  اُس گھر کی اوپر والی  منزل پر ہماری گلی  کی طرف اُس کا کمرہ تھا۔سورج کی پہلی کِرن اُسی کے کمرے پر پڑتی تھی۔ ہر صُبح اُس کی  گالوں کو چومتی  ، وہ جھٹ سے اُ ٹھتی ، جھروکےسے جھانکتی  اور یوں ساری گلی میں اُجالا ہو جاتا۔ ہم یار دوست تقریباً ہر شام میاں صاحب  کےگھر کے  باہر تھڑے پر بیٹھے گپیں لگاتے   تھے ۔کرکٹ ، کالج کے قِصے ، سیاست ،  پونڈی اور فِلمیں  ہمارے  پسندیدہ موضوعات ہوتے تھے۔ مگر اب میرے لئے ہر چیز بے معنی سی ہوگئی تھی  میرا پورا وجود بس یہی  پکارتا تھا " شامان پئیاں دِل دے ویڑے توں چانن بن کے آ" اُس کا چند لمحوں کے لئے جھروکے میں آنا۔ گھر سے کِسی کام   یا کالج  کے  لئے نکلنا ،  اور میرا ایک نظر اُسے  دیکھ لینا بس میرے لئے زِندگی اِس کے سِوا کُچھ نہ رہی تھی۔

وہ بارہویں کلا س  کی طالبہ تھی   اور میں بھی روزانہ  ہاتھ میں دوعدد کِتابیں اُٹھائے کالج کی سیر کو جاتا تھا ۔ جہاں پہلے ہی پیریڈ میں ہمارے اُستا د  یہ  فِقرہ ضرور دہراتے تھے"  او  میرے ہیرے پُترو بی اے کی انگریزی  آوارہ کُتوں کی طرح گلیوں  میں لور لور پھِرنے سے کلئیر نہیں ہوتی "۔ہمارے اُستاد بہت  فرینڈلی طبیعت کے مالک تھے۔اُنہوں نے ہماری انگریزی پر خوب محنت   ضائع کی۔  ہمیں پریسی لکھنے  کےاسلوب سِکھائے اور خوب  پریکٹس کرنے کی تلقین کی ۔ میں نے بھی اپنی تمام تر توانائیاں اُس پندرہ صفھے کے خط کو اثر انگیز، محبت سے لبریز  اور  پریسائس بنانے میں صر ف کر ڈالیں جو میں  اپنی محبت کی پہلی راتوں میں  لِکھ چُکا تھا ۔ پندرہ صفحوں  کو سُکیڑ کی میں   لگ بھگ دو صفحات کے احاطے تک محدود  کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب اِسے  مُحبت  کا ضعف کہیں یا اِک بُزدِل کی مُحبت ۔  انگریزی ادب کی وہ شاہکار تحریر آج تک کِسی کے ہاتھ نہیں لگ سکی ۔شائد   میرے بعد یا صدیوں بعد   دورانِ کھُدائی   پولیتھین    کی موٹی پیکنگ میں نہائت سلیقے  سے تہہ شُدہ حالت میں  پائی جانے والی تحریر  کِسی تاریخ دان کے ہاتھ لگ جائے۔پھِر دُنیا ڈھونڈتی پھِرے گی اُس سچے مگر ناکام ع ا ش ق کو۔
دِن رات یونہی گُزرتے گئے اور بہار سے موسم جاڑے میں تبدیل ہوگیا۔ دِسمبر کی چھُٹیوں  میں اِک ٹھنڈی سہ پہر میں اپنے لنگوٹئے یارکے ساتھ میاں صاحب کے تھڑے پر بیٹھا  دِل  کا بوجھ ہلکا کر رہا تھا کہ  گُڈو    آن پہنچا۔ گُڈو"  اُن"  کا بارہ سالہ مُلازم تھا جِسے ہم کرکٹ کھیلتے ہوئے  رلو کٹے کے طور پر ساتھ رکھتے تھے۔  اُس نے آتے  ہی پوچھا  "بھائی جان آج کرکٹ نہیں  کھیلیں گے   ؟"میں  نے اُسے اِگنور کرتے ہوئے  نفی میں  سر ہلایا  اور اُس سے جان چھُڑانے کے لئے کل کا کہ دیا۔  وہ  قدرے مایوس انداز میں بولا  "کل، تو مُجھے ٹائم ہی نہیں مِلے گا کل تو مہمانوں  نے آنا ہے جی، باجی  کی شادی  کی تاریخ رکھنے "۔ یہ کہ کر مایوس   گُڈو تو چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا  گھر کو ہو لیا۔ مگر اُس کم عقل  کی دی ہوئی خبر مُجھ پر ایک دھماکے کی طرح بریک ہوئی۔میرا لنگوٹیا  اور واحد ہمراز مُجھے سہارا  دیکر گھر تک لے  آیا۔ چند  ایک تسلیاں دیں اور  جاتے ہوئے میری جیب میں غم بھُلانے کی دوا ڈال گیا جو کہ وہ  تازہ تازہ خرید کرلایا تھا۔ میں  تین دِن تک خود  ساختہ قید تنہائی میں رہا اور غم بھلانے کی دوا  ہی میرا ساتھ دیتی رہی۔ یہ بِناکا گیت مالا کا لیٹسٹ والیم "غم کے آنسو "تھا۔ واہ کیا گانے تھے" میری قِسمت میں تو نہیں شائد کیوں تیرا  اِنتظار کرتا ہوں" اِ ن تین دِنوں کی خود ساختہ قید  اور "غم کے آنسو" میری ری کوری میں بہت معان ثابت ہوئے۔یقیناً تنہائی اِک بہترین مساج ہے اور سوچ بِچار ایک طاقتور ٹانک  ۔

اُس کی جِس جھٹ سے منگنی ہوئی تھی اُسی پٹ سے شادی   ہوئی۔ امریکہ میں تین عدد  پٹرول پمپس کے مالک تھے صاحب ۔ بقول  رائے دہندگان جناب جھٹ پٹ صاحب بہت ہینڈ سم   اور  اِنتہائی مِلنسار طبیعت  کے مالک تھے یہ الگ بات ہے کہ وہ مُجھے تو  دیکھنے میں بُش سینئیر کا باڈی گارڈ ہی لگا۔  قِصہ مُختصر  وہ جھٹ پٹ کے ساتھ جھٹ سے امریکہ کے لئے اُڑ گئی۔۔۔اورمیںاُڑتے جہاز کو دیکھ کر بس یہ گیت دہراتا رہا "برباد محبت کی دُعا ساتھ لئے جا"  اِنسان کی زِندگی میں کُچھ تعلق ماچس کی تیلی کی مانند ہوتے ہیں  جو کُچھ دیر کیلئے اور تھوڑی سی  روشنی کرتے ہیں ہے  اورکُچھ تکلیف دے کر ہو ا  میں اُڑ جاتے ہیں  مگر   وہ   چند لمحوں  کی روشنی اِنسان کے اندر اِک چراغ جلا جاتی ہے کبھی نہ بجھنے والا روشن چراغ ۔

میری اگلی منزل اللہ سے لو لگانے  کی تھی۔میں نے چاروں نمازیں  با جماعت مسجد میں پڑہنا شُروع کردیں  ۔  چار اس طرح     کہ سردیوں   کے یخ  موسم میں بِسترمجھے  نہیں چھوڑ تا اورگرمیوں کی  چھوٹی چھوٹی راتوں  میں  بِستر مجھ سے  نہیں  چھوڑا جاتا  ۔ اِسی لئے فجر کی نماز بابت  معافی نامہ میں ہمیشہ سے ہی اپنی جیب میں  تیار رکھتا ہوں  ناجانے کب بُلاوا آجائے ، جھٹ سے اللہ کے حضور پیش کر دوں گا۔اللہ بہت معاف  کرنے والا ہے۔ ہمارے محلے کی مسجد  ساتھ والی گلی میں تھی  بس  موڑ مُڑو  کُچھ قدموں کی واک اور  بندہ مسجد میں۔ میں جب  بھی مسجد جاتا تو راستے میں اُسی نُکڑ والے گھر کی نیم پلیٹ پر میری نظر چند لمحوں کے لئے  احتراماً ٹھہرتی تھی  ۔جِس پربڑی نفاست سے لِکھا تھا"سکون وِلا" ۔ اِس احترام و عقیدت  کی وجہ کچھ اورنہیں ہماری کرکٹ کے رلو کٹے"  گُڈو " کی دی ہوئی خبر تھی جِس کے مُطابق یہ نیم پلیٹ  اُس کی باجی نے اپنے  ہاتھ سے لِکھی تھی۔ وقت نے کروٹ لی اور  تقریباً دو سال بعدمیں اِس گلی ، محلے   بلکہ شہر سےدور پھینک دیا گیا۔

بہت عرصے بعد اپنے   شہر جانے کا اِتفاق ہو ا تو اس گلی سے جڑی یادیں   اِک مقناطیس کی طرح مُجھے اپنی طرف کھینچ لائیں۔  سہپہر کے وقت میں کُچھ دیر باقی تھا ، گلی  میں بِالکُل خاموشی  تھی۔  یہاں بہت کچھ بدل چُکا  تھا  ۔کچھ گھر گِرا کر نئے بنائے جا چُکے تھے۔ جِن میں ہماری سابقہ رہائش گاہ بھی شامل تھی۔ البتہ میاں صاحب کا تھڑا اپنی اصل حالت میں دیکھ کر بہت خوشی محسوس  ہوئی ، میں وہیں بیٹھ گیا۔ پھرِ  تو جیسے کِسی نے  دماغ کا سرچ بٹن ہی دبادیا    ہو لمحوں  میں فائلوں کاایک انبار لگتا گیا۔ گولیوں مچھیوں ، اِمبلی چورن والے  چاچا اکرم سے لیکر  میری پہلی شیو بنانے والا دوسہ نائی، اور نہ جانے کیا کچھ۔ مُجھے تو دماغ کا نیٹ ورک ڈگ مگاتا ہوامحسوس ہوا۔ توجہ بٹانے کے لئے میں  نے سِگریٹ سُلگائی ابھی دو کش  ہی لئے تھے کہ اذان کی آواز میرے کانوں میں گونجی ۔ میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو ابھی پونے چار ہوئے تھے  اور نماز میں بہت ٹائم پڑا تھا ۔ میری سِگریٹ ختم ہوئی مگر یادوں  کی لڑی تھمنے میں نہ آئیں۔ میں کچھ دیر اپنے ماضی میں کھویا رہا  ۔ اور اُٹھا چھوٹے چھوٹے قدم لیتا ہوا    نُکڑ والے گھر  کے سامنے آکھڑا ہوا میری نظر    "سکون وِلا "  کی مخصوص جگہ پر پڑی مگر۔۔ ۔

گھر کا مین گیٹ کھُلا ہو اتھا ،مجھ  پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔ میں بُت بنے کھڑا تھا، گے کہ اِک  صاحب نے  مجھے بڑی گرمجوشی سے گلے لگایا اورگھسیٹتے  ہوئے    "سکون وِلا " کے اندر لے گئے۔ میں اپنے ہوش  میں نہیں تھااُن صاحب  کی گرم جوشی سے  اندازہ  ہو ا کہ ہماری اِ ن سے  بہت پُرانی علیک سلیک  ہے۔ ۔ اقامت کہی جار ہی تھی۔ میں نےبمشُکل  وضو  کِیا اور جماعت کے ساتھ ہو لیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا  کہ جیسے میں اپنا ہی نماز ِ جنازہ پڑہ رہا ہوں۔مولانا صاحب  نے سلام پھیرا   ،   دُعا کی اپنی ناف کو چھوتی ہوئی  ریشِ مُبارک میں  خلال کیا۔ اور اپنی جگہ سے اُٹھ کر ایک کونے میں  پہلے سے  تیار بیٹھے  بچوں کو سبق دینے لگے۔ سب نمازی جاچُکے تھے مگر مُجھ میں اُٹھ  کر چلنے کی بھی ہمِت نہ تھی۔ میری سوچنے کی صلاحیت  گُم  ہو چلی تھی مگر میری نظریں  مولانا   ہی پر جمی ہوئی تھیں۔ کُچھ دیر بعد میں گھِسٹتا ہوا  مولانا  صاحب کے پاس آبیٹھا  اور اُن سے  سوال کر نے کی جسارت کر ڈالی  کہ ساتھ والی گلی میں  محظ چند قدموں پر ایک بہت بڑی  اور کشادہ  مسجد موجود ہے تو پھِر اِس رہائشی عِلاقے  کے  اِس گھر میں مسجد بنانے کی آپ کو کیا ضرورت   محسوس ہوئی؟ میر ے لہجے کی تُرشی اور  جُملے کی کڑواہٹ   کو محسوس کرتے ہوئے ،ہاتھ میں پکٹرے   ڈنڈے پر  اُن کی گرفت مضبوط ہوتی گئی ۔مولانا کی  آنکھوں میں اُترتا ہوا جلا ل دیکھ کر میری آواز کی تُرشی گلے ہی میں دب کر رہ گئی۔ ۔۔ ۔۔۔

میں  تیز تیز قدم اُٹھاتا اِس گلی کو پیچھے چھوڑتا جار ہا تھا  میرے ماضی کا  قیمتی خزانہ سانس لیتی جیتی جاگتی  زِندہ  یادیں  ہیں ، جوسکون  وِلا کو مسجد ماننے سے  قطعی اِنکاری تھیں۔ مولانا صاحب کے کہے ہوئے الفاظ میرے کانوں پر مُسلسل ہتھوڑے کی طرح لگ رہے تھے۔  "   دین کی اصل  حالت میں ترویج ہم سب  پر  فرض ہے اور اِس پورے ایریا میں ہمارے شِرک و بدعت سے پاک  مسلک کی ایک بھی مسجد اور مدرسہ موجود  نہیں  تھا ۔ہمارا یہ اقدام شریعت کے  عین مُطابق  ہے  ۔ یہ گھر برائے فروخت تھا ہم نے  خرید کر اِسے مسجد و مدرسہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔"

Sunday 16 September 2012

گُل خان کے نام


گُل خان ہمارے بڑے صاحب کا سرکاری ڈرائیور ہے۔  وہ اِنتہائی سادہ طبیعت اور خلوص سے بھرا ،کھرا اور پیارا اِنسان ہے۔ وہ خیبر پختونخواہ کے کِسی دور افتادہ گاؤں سے تعلق رکھتا ہے ۔ اِتنا دور کہ بیسوں دفعہ بتائے جانے کے باوجود بھی مُجھے اُس کے گاؤں کا نام یاد نہیں رہتا۔میں اکژ سوچتا ہوں کہ   گُل خان اگر کبھی   برینڈڈ سوٹ  پہنے بازار کا چکر لگائے تو لڑکیاں اُسے بریڈ پِٹ نہیں تو  اُس کا کزن سمجھتے ہوئے آٹو گراف لیتی ہوئی نظر آئیں ۔وہ اپنے کام اوراُس سے جُڑے لوگوں سے اِنتہائی مُخلص ہے۔ میں نے اُسے کبھی بھی کِسی قِسم کی دفتری سیاست کا حِصہ بنتے نہیں دیکھا۔ میرے  آفس کولیگز میں غالباً گُل خان وہ واحد بندہ ہے جِسے میں بے دھڑک اپنے اچھے ساتھیوں یا دوستوں  میں شُمار کر سکتا ہوں۔ فُرصت کے لمحات میں وہ اخبار کا مطالعہ کرتا ہوا پایا جا تا ہے یا پھردُنیا جہاں سے لاتعلق ہوئے کِسی ٹی وی ٹاک شو کا حِصہ بنا ہوا نظر آتا ہے۔ گُل خان جیسے لوگ جہاں بھی ہوں اپنے کِردار کی بُلندی سے ہراِک سے عِزت و احترام پاتے ہیں۔وہ بڑے گہرے سیاسی نظریات رکھتا ہے جِن پر اِسلامی رنگ غالب ہوتا ہے۔   گُل خان کی  سیاست اور حالات حاضرہ پر،  وقت اور حالات کی نز اکت  کو سمجھے بغیر بے لا گ اور طول پکڑتے ہوئے  تبصرے ایک واحد ایسی  عادت ہے جو بسا اوقات  سُننے والے کے لئے سخت کوفت کا باعث  بنتی ہے۔
ابھی کچھ ہی عرصے پہلےگُل خان نے آغا  وقار کی پانی سے گاڑی چلتی دیکھی  تو بس پھِر کیا تھا جناب نے    دو عدد گاڑیاں لیکر کر کرائے پر چلانے کا  خواب بھی دیکھ لیا اور نوکری کو خیر باد کہنے کی پلیننگ بھی کرلی۔  اُس کا کہنا تھا کہ آغا وقار اگر امریکہ میں پیدا ہوتا تو  شائد اب تک نوبل پرائز کا    حق دار ٹھہرتا۔آغا وقار کی مدح سرائی  سے تنگ آکر میں نے نامور کیمیا  دان ،  ڈاکٹر عطا لرحمٰن کی اعلٰی ترین ڈِگریوں اور  اُن کے تحقیقاتی مقالوں    کا رُعب جماتے ہوئے   اُسکی زُبان بندی کی کوشش کی تو  گُل خان نے جواب دیا۔ "صیب اِتنا بڑا کیمیا دان ہوتا تو  ایک محلول  نہ تیار کر لیتا جِس کے غرارے کرنے سے  بندے کی آوازتو مردانہ ہو جاتی " گُل  خان  نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی خاطر  حامد میر  کا سہارا کُچھ اِن الفاظ میں لیا" صیب حامد میر بال کی کھا ل اُتار کر اُسے نچوڑتا ہے  اور پھِر دھوپ میں  سوکنے ڈال دیتا ہے ،   اُس نے  پرویز رشید کے ساتھ بیٹھ کر پانی والی گاڑی خود چلائی ہے   ،پتا نہیں آپ کیا بات کرتا ہے۔"
گُل خان کا کہنا تھا  کہ ہمارے لوگوں میں بہت ٹیلنٹ ہے  جِسکی مثال وہ اپنے ساتھی کے کارنامے سے دیتا ہے جِس نے بقول گُل خان کے گھڑی  اُلٹے رُخ چلا کر اپنی ذہانت و قابلیت  ثابت کی۔ میں نے گُل خان پر اپنی تعلیمی برتری  جتانے کی غرض سے  سوال کیا کہ  گھڑی کلاک وائز چلتی ہے اِس  کے رُخ کو اینٹی کلاک وائز چلانے سے بھلا کیا فائد ہ ہوا؟  گُل خان کا جواب تھا  " صیب آپ کی بات اپنی جگہ ،مگر میرے دوست نے گھڑی کو  دائیاں رُخ دِکھا کر ہماری گھڑی کو اِسلامی  رستے پر چلا دیاہے "۔
پانی گاڑی فیم آغا وقار  کی پولیس کو مطلو ب ہونے کی خبر  جب  سُننے میں آئی تو میں نے  گُل خان کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ  یار تمُہارا آغا وقار تو  پولیس کو وانٹڈ رہ چُکا ہے ۔ گُل خان نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں  دو سیکنڈ کی خاموشی اختیار کی اور بولا "مُجھے تو ایک بات معلوم ہے  صیب کہ آغا وقار کو میں وانٹتا ہوں میرے سارے گھر والے وانٹتے ہیں اور پور ا پاکستان وانٹتا ہے"
گُل خان کی انگریزی  میری اور"میرا" کی انگریزی سے شائد ایک دو درجے   ہی کم معیار کی ہوگی لیکن  اُسکے  "اقوال  "اقوال زریں  کے ہم پلہ ہوتے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے بادل چھائے  ہوئے تھے گُل خان باہر سے آیا تو میں نے اُس  سے بارش کے   بارے میں سوال کیا    ۔ اُس کا جواب یہ تھا" صیب بارش تو   پِچھلے دو گھنٹوں سے ہوتا جارہا ہے، کبھی  تیز ہوجاتا ہے کبھی ڈِم ہوجاتاہے۔" گُل خان کے اِس جواب پر سب  خوب قہقہ لگا کر ہنسے۔  اب  میرے ذہن میں پیدا ہونے والے سوال کا جواب تو کوئی  مُفکر ہی دے سکتا ہے کہ دو زبانوں  کے باہم قتل و غارت کا   میدان  جو ہم نے  گرم کر رکھا ہے اِس میں نُقصان بھلا کِس زُبان کا زیادہ ہورہا ہے؟ 

Sunday 9 September 2012

کلچ،ایکسیلیٹر اور بریک


میں جب پہلی بار موٹر سائکل کو چلانے کے اِرادے سے اِس پر سوار ہواتو میرے ایک کزن نے چند مِنٹ پر مُحیط ایک لیکچر دیا ۔ جِس کا آغاز کلچ کے تعارف ، اہمیت  اورمقصد سے ہواپھر ایکسیلیٹر کے  مُتعلق بتایا تیسرے نمبر پر گئر کا تعارف و استعمال اورسب سے آخر میں  بریک کی افادیت پر روشنی ڈالی گئی۔ ایک اہم بات یہ بھی بتائی گئی کہ کلچ اور ایکسیلیٹر کے اِستعمال کے لئے ایک خاص قِسم کی مہارت اور توجہ  درکار ہوتی ہے اس بارے میں معمولی سی لغزش کِسی بڑے نُقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اِس  پانچ سات منٹ کے لیکچر کے بعد میں نے اپنی  تمام تر  توانائیاں یکجا کرتے ہوئے  کلچ دبایا   بائک گئر میں ڈالی پھِر ایکسیلیٹر اور کلچ میں موزوں ربط پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ میر ی یہ  عملی  کوشش  موٹربائک   کو باِلکُل پسند نہ آئی اور جوابی کاروائی میں اُس نے مُجھے   یوں نیچے گِرایا جیسے  ایک چالاک اور تجربہ کا رگھوڑا اناڑی سوار کو اپنی پیٹھ سے نیچے  گِرا تا بلکہ پھینکتا ہے۔

اِسکے چند سالوں بعد جب ہماری  مسجد کے قاری صاحب نے  مُجھ سے موٹر سائکل سیکھنے کی   خواہش ظاہر کی  تو میں نے فوراً  حامی بھرتے ہوئے خود کو مِلا ہوا   وہی لیکچر  پاس اون کر دیا ۔ قاری صاحب  جیسےہی اِس لرننگ  مِشن پر نِکلنے لگے تو  اُن کی ہمت بندہانے کے لئے میں بھی ساتھ ہو لیا۔ ہمارے قاری صاحب اعصابی طور پر بہت مضبوط ثابت ہوئے اُنہوں نے بڑے اعتماد  کے  ساتھ بائک کو گئر میں ڈالا  کلچ اور ایکسیلیڑ میں موزوں ربط پیدا کیا  اور پھر  چل سو چل   ،بات    پانچ مِنٹوں میں چوتھے گئر تک جاپہنچی   جبکہ سپیڈ و میٹر پر سوئی ساٹھ کے ہندسے کو چھونے لگی کہ ا اچانک مُجھے ایوب زرعی ترقیاتی اِدارہ فیصل آباد کی بیرونی دیوار اپنے قریب آتی نظر آئی  ۔ میں نے قاری صاحب  سے سپیڈ سلو کرنے کی درخواست کی جِسکا جواب جناب نے ایک سوال کہ صورت میں دیا  "یار سپیڈ آہستہ کیسے کرنی ہے" تب جا کر مُجھے یاد آیا  کہ   ڈرائیونگ بابت دیئے گئے لیکچر  میں بریک  کا  حِصہ تو میں سہوا چھو ڑ ہی گیا تھا۔بس پھر کیا تھا دوزخ کے داروغے ہاتھ پھیلائے مجھے اپنی طرف بُلاتے صاف نظر آنے لگے ۔ اُس دوران یقینا ہمارے قاری صاحب حوروں ک  کا نظارہ کر رہے ہوں گے بس  اِنہی حوروں میں سے کسِی  ایک حور کو دیکھ کر قاری صاحب جذباتی ہوگئے اور  فُل کلچ دبا بیٹھے    یوں صِراط مُسقیم سے تھوڑ ا سا بھٹکےاور موٹر سائکل سڑک سے نیچے  کھُلے گراؤنڈ میں جاپہنچی۔ قُدرت نے ہم پر احسان یہ  کیا   کہ اُس وقت  گراؤنڈ میں گھُٹنے  گھُٹنے  تک بارش کا پانی  جمع تھا۔

اِسی طرح جب ہمارے  والد نے پہلی بارگاڑی خریدی تو  وہ غالباً اُس گاڑی  کا ہمارے گھر میں تیسرا دِن تھا ۔ میں اپنے جذبات کو  بریک نہ لگا سکا  اور اپنے چھوٹے بھائیوں پر کُچھ رعب جمانے کے چکر میں  پورچ میں کھڑی گاڑی کو سٹارٹ کئے گئر میں ڈال بیٹھا ۔ مگر جیسے  ہی میں نے کلچ چھوڑا   تو گاڑی دو عدد جھٹکے کھاتی ہوئی  ادھ کھُلے مین گیٹ میں جا لگی  ۔گاڑی کے بمپر  پر  ایک عدد ڈینٹ پڑا  جو کہ اگلے کئی سال تک میر امُنہ چڑہاتا رہا۔ اِس واقعے کے فوراً  بعد  میرے  والد  نے مجھ پر اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے پر بین لگا دیا۔ یہ سخت ترین   فیصلہ  سُنتے ہی میرے دِماغ نے سے جو توانائی حرارت بن کر  خارج ہو ئی اُسے میں نے بغیر کلچ دبائے ایکسیلٹر دیتے ہوئے زبان کے رستے  اِن الفاظ میں  ہوائی لہروں کے سپرد کیا"ٹھیک ہے اب گاڑی میں تب ہی چلاؤں گا جب وہ میری اپنی ہوگی "۔  اِس بات کو سترہ سال بیت چُکے ہیں  ۔ والد صاحب  کی گاڑی کا کلچ پھِر کبھی دبا یا  نہیں اور اپنی اب تک خرید پایا نہیں۔

اپنی ہی زِندگی سے جُڑے کلچ بریک  سے سجے یہ واقعات نہ جانے کیوں سِتمبر کے آغاز  ہی  میں مُجھے یاد آنے لگے۔ ایسا ہی موسم تھا یہی مہینہ اور لگ بھگ یہی تاریخیں مگر اُس وقت کو بیتے پورے سینتالیس سال ہو چلے ہیں جب ہمارے "موروثی دُشمن " نے ہم پر رات کے  اندھیرے  میں حملہ کیا تھا۔
اِس جنگ کے جُڑے کُچھ واقعات بتاتے ہوئے گوہر ایوب  فرماتے ہیں ۔ ہندُستان کے حملے کے جواب میں  ہم نے کھیم کرن کے مقام پر حملے کا ایک  منصوبہ بنایا تھا  جِس کی منظوری جنرل ایوب خان نے خود دی تھی اور وہ اِس  آپریشن بارے میں بہت پُر اُمید تھے۔ کھیم کرن (قصور سے ملحقہ عِلاقہ) کے مُحاظ  پر ہم پیش قدمی کر رہے تھے ۔ایک نہر کے پُل پر سے گزرتے ہوئے ایک ڈرائیور نے کلچ دبا دیااور ٹینک وہیں پھنس گیا ۔ پُل مزید بوجھ برداشت نہ کر سکا اور ٹوٹ گیا  ہمیں پُل مُرمت کرتے ہوئے چھتیس گھنٹے لگ گئے فیلڈ مارشل بار بار  پُل کی مُرمت بارے میں پوچھتے رہے مگر اِس دوران ہندُستان  والوں  نے دریا جِتنی بڑی  مادھو پور نہر کو توڑ کر پورے عِلاقے میں سیلاب کی سی کیفیت پیدا کر دی   ۔ ہم وہا ں بُری طرح پھنس گئے اور یو ں یہ جنگ 11 ستمبر ہی کو ختم ہوگئی۔ الطاف گوہر  نے بھی اپنی کِتاب " فوجی راج کے دس سال "میں  اِ س واقعے کو تفصیل سے بیان کیاہے ۔

Saturday 1 September 2012

غبی اور کُند ذہن


میں سکول دور سے ہی اِس  قِسم کے القابات کو سینے پر سجائےہوئے ہوں ۔لاکھ کوششوں  کے باوجود اِن  سے چھُٹکاراحاصل نہیں کرپایا ۔ چھُٹکارا بھلا  پاتا بھی  کیسے ۔ یہ فہم و فراست ، تدبر اور بات کی سطح کو پھاڑ کر اِس کی گہرائی میں غوطہ لگانے کی اہلیت میں  خود میں  پیدا کر ہی نہ پایا اور سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بقیہ زِندگی میں اِس کی توقع رکھنا  میری خام خیالی ہی ہو سکتی ہے ۔سادہ سے سادہ بات کو سمجھنے میں مُجھے وقت درکار ہوتا ہے مگر اکثر وقت بیچارا   بھی میری مدد سے قاصر رہتا ہے۔
میں جب بھی بازار سے گُزرتا ہوں اور کِسی نالے والی دیوار پر یہ فِقرہ لِکھا دیکھتا ہوں " وہ دیکھو کُتا پیشاب کر رہا ہے" تو میری آنکھیں ہمیشہ اُس اِنتہائی ٹرینڈ آوارہ کتے کو دیکھنے کے لئے حرکت میں آتی ہیں جوہمیشہ اپنے لئے مخصوص  کی ہوئی اِس جگہ آکر پیشاب کرتا ہے مگر میں آج تک  ایسا آوارہ   ٹرینڈ کُتا دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوپایاالبتہ  اپنی طرح کے انسانوں کو ہی۔۔۔۔۔۔۔
اِسی طرح سکول میں اُستاد جی کے سِکھائے ہوئے محاورے بھی مُجھے سمجھ نہیں آتے تھے ۔ اب آپ اِس محاورے ہی کو لیں "اُلٹاچور کوتوال کو ڈانٹے " میرا کمزور ذہن  ہمیشہ اِس بات کو سمجھنے میں ناکام رہا  کہ یہ اُلٹا چور کوتوال کو کیسے ڈانٹتا ہے۔ پھِر میرے ذہن میں بھارتی فِلموں کے سین دوڑنے لگتے جِس میں کوتوال  صاحب ایک چور کو اُلٹا لٹکائے چھِتر پریڈ کرتے ہیں۔ مگر میں آج تک سمجھ نہ پایا کہ یہ  رسیوں سے  بندھا ہوا  اُلٹا لٹکا ہوا  اور  مار کھاتا ہوا  بیچارا چور بھلا  اِس   موٹی توند والے جابر کوتوال کو ڈانٹ کیسے سکتا ہے۔
میں جب آٹھویں کلاس میں تھا تو ہمارے اُستاد نے مُجھ جیسے کمزور بچوں کو تینتس نمبروں کا سنگِ میل عبور کرنے کے لئے ایک ٹیسٹ پیپر تجویز کیا اگر میں غلط نہیں ہوں تو غالباًاُس کا نام درسی  ماڈل ٹیسٹ پیپر تھا۔  بھلا ہو اُس  ٹیسٹ پیپر  کے  "موجد " کا   ، آج بھی اُس کے لئے  دِل سے دعا نِکلتی ہے  ۔ اُس کی انتھک محنت  سے تیا ر ہوا   نُسخہ   کہ جِسے  مُجھ جیسے للو پرساد بھی    رٹ رٹا کر  امتحانی  میدان مار لیتے تھے۔ ہمارے سکو ل  کے نتائج میں پاس ہونے کا تناست  سو فیصدی سے کبھی کم  نہ ہوا تھا ۔ اِس کا سہرا ٹیچروں کی بجائے    اِس  ماڈل ٹیسٹ پیپر  کے سر  ہی جاتا تھا۔ اُس تاریخی  ٹیسٹ پیپر کے بیک پیج پر اِک ہیڈ لائن تھی "نقالوں سےہوشیار" اور اُس کے نیچے لِکھا ہوا تھا "چور بھی کہے چور چور چور" میں آج تک اُس  چور کے چور چور کہنے کی منطق کو بھی نہیں سمجھ پایا۔ چور بھلا کیوں کرے شور شور شور۔
میں آج بھی وہیں کھڑا ہوں عقل سے پید ل  ۔ اب آج کل کی خبروں میں  چوہدری نِثار ہی کو دیکھ لیں  جناب ایک  لِسٹ تیار کئے ہوئے ہیں  اُن صحافیوں کی کہ جِن پر حکومت خصوصی  طور پر مہربان ہے اور اِس مہربانی میں حاتم طائی کی پیروری کرنے  کا پروگرام بنائے ہوئے ہے۔ یہ چوہدری صاحب کا خوامخواہ کا شور میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ میں اپنی کم عقلی  کے باعث  تو بس اِتنا ہی  سمجھ پایا ہوں کہ حکومت اگر  پِچھلے پانچ سالوں میں کوئی ایک عددہی  نیک کام کا اِرادہ  کئے ہوئے ہے تو ہمیں   اِس نیک کام میں حکومت کا  ساتھ دینا چاہئے  اور اِ سی میں ہم سب کی  بھلائی ہے  ہو سکتا ہے کہ کل کلاں یہ نیکی ہم بلاگرز کےگھر تک آن پہنچے۔ اِسے کہتے ہیں کہ نیکی کر اور پھِر اُسکی توقع رکھ ۔
ہمارے ایک بہت پُرانے دوست ہیں  بلاگرز کی دُنیا کا بہت بڑا نام  ، اپنے دِل کا حال اِنتہائی خوبصورتی سے سُناتے ہیں۔ اکژ مُجھ سےکہتے کہ کی " یار تو بہت سیاسی ہوگیا ہے"۔  وہ درست کہتے ہیں مگر میں آج ایک بات کہنا چاہوں گا کہ میں  سیاسی ہونے کے باوجود میں  اِس سیاست سے  آج تک کُچھ سیکھ نا پایا کیونکہ میں ٹھہرا ایک "غبی اور کُند ذہن"۔ ویسے جاتے جاتے میں ایک اور کم عقل  اور نا  سمجھ کا   ذِکر کرتا جاؤں جو کہ ہمارے چیف جسٹس جناب اِفتخار محمد چوہدری کے گھر لگ بھگ چونتیس سال پہلے  پیدا ہوا ۔


Monday 6 August 2012

I AM A DOG LOVER


 " آئی ایم آ ڈاگ لور"  میں نے بہت سی قِسموں کے کُتے مُختلف وقتوں میںرکھے۔ کُچھ صِرف بھونکنے والے تھے, کُچھ کاٹنے والے ، اِسی طرح نخرے والے ، ڈرنے والے ،جان کی بازی لگا دینے والے،  ضد کرنے والے، بہت غُصے والے ، کمینگی دِکھانے والے ،  کم وفا کرنے والے، چالبازی  کرنے والے ،سہہ لینے والے  خاموش طبع اور معصوم غرض یہ کہ  ہر کُتے کا اپنا الگ مزاج ہوتا ہے۔میں نے گلی میں پھرتے آوارہ کُتوں سے 
دوستی کر کے بھی دیکھی ہے،  ظُلم سہ لینے والےیہ کُتے ہر حال میں  صبر کرنے والے اور پیار کے بھوکے، حقیقت میں وفا کے پُتلے ہوتے ہیں ۔ 

جو کُتا غُصیلہ نہ ہو اور کم بھونکے تو  اُسے کچھ دِنوں کے لئے باندھ کر رکھا جاتا ہے اور وہ بہت غُصیلہ ہو جاتا ہے اور خوب ۔۔۔۔۔ پنجابی میں اِسے کہتے ہیں "کوڑا کُتا" اگر آپ نے اِس مثال کو سمجھنا ہو تو فیصل رضا عابدی کی عدلیہ بارے کی گئی پریس کانفرنس دیکھ لیں سب سمجھ آجائے گی۔ یہ بات تو باآسانی ہر کوئی سمجھ سکتا ہے مگر ایک بات مُجَھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ خواجہ آصف کے ساتھ بھلا کیا معاملہ ہوا؟ شائد کوئی نفسیاتی دباو کا ری ایکشن تھا یا  پھر بریکنگ نیوز کے وائر س نے اُس پر  حملہ کیا تھا ، بحرحال جو بھی وجہ تھی میں سمجھنے سےباِلکُل قاصر ہوں

ہاں تو میں بات کر رہا تھا "آئی ایم آ ڈاگ لور"۔ کتا مالک کا بہت وفادار ہوتا ہے اور ہر اُس شخص پر  بھونکتا ہے بلکہ  ٹوٹ پڑتا ہے جو اُسکے مالک کو آنکھیں دِکھائے،مالِک خواہ اِشارہ کرے نہ کرے

  اگر آپ کا ذہن یہ سوچ رہا ہے  کہ میں یہ سب   کُچھ تشبیحاً کہ رہا ہوں ۔ اور میں یہاں کسی کو کِسی سے مِلانے کی کوشش کرہا ہوں۔ تو میں آپ کو خبردار کرتا ہو ں  ۔ آپ  اپنے  ذہنوں کو بریک لگائیں اور ہر گِز اُدھر نہ جائیں جِدھر کا آپ نے  اِرادہ باندھاہے  کیونکہ "آئی ایم آ ڈاگ لور"۔

 کُتا  اپنے مالک سے بِنا کسی ذاتی لالچ کے مُحبت کرنے والا جانور ہے۔اُسکا مالک سے تعلق بے لوث ہوتاہے اُسے نہ  کسی منسٹری کی لالچ  ہوتی ہے ،  نہ سینیٹر بننے کی   حِرص۔روکھی سوکھی پر بھی گُزارہ کرتا ہے مگرمالک سے  وفا  ہر حال میں نِبھاتا ہے۔  بابا بُلے شاہ نے اپنی شاعری میں بہت  خوبصورتی سے یہ بات بیان فرمائی ہے

راتیں جاگیں کریں عبادت 
راتیں جاگن کُتے 
تیتھوں اُتے
بھونکنوں بند مول نہ ہوندے 
جاررُڑی تے سُتے 
تیتھوں اُتے
کھسم اپنے دا در نہ چھڈدے 
بھانویں وجن جُتے 
تیتھوں اُتے 
بُلھے شاہ کوئی رخت وہاج لے 
بازی لے گئے کُتے 
تیتھوں اُتے
   


Saturday 28 July 2012

سیٹھ کامران کے سانپ


چپڑاسی نے مُجھے کمرے مییں جانے کا اشارہ کیا ۔ یہ ایک اچھے خاصے سائز کا آفس تھا جِسکا انیٹیئر  پُرانے سامان اور گلی سڑی فائلوں کی کژت کے سبب کسی سرکاری دفتر کا سا منظر پیش کر رہا تھا ۔ میں نے کالی رنگت اور درمیانے سے قد کا ٹھ کے  کمزور سی جسامت والے شخص  کو  بڑی سی ریوالونگ چئیر پر بیٹھے پایا ۔  اِس کے  چہرے پر چیچک کے کے  ہلکے ہلکے داغ تھے گالیں اندر کو  دھنسی ہوئی   تھیں   کالے ہونٹ کثرتِ سِگریٹ  نوشی کی علامت تھے  ۔ اُس کے  سوکھے ہوئے چہرے پر بڑی بڑی  چمکتی ہوئی زندگی سے بھرپور آنکھیں ،ایسے  ہی   غیر فطری سی محسوس ہوتی تھیں جیسے کِسی دشت  میں  کانٹوں  سےبھرے  ایک سوکھے درخت پر تازہ پھل۔ اُس نے مُجھے  سر کی ہلکی سی جُنبش سے  بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔وہ مُجھ سے  قریباً پندرہ مِنٹ تک بے تُکے سے سوال کرتا رہا اور پھر   میرے  دائیں ہاتھ میں  قبولیت کی سند تھماتے ہوئے  بولا تُم کل سے آفس جائین کر سکتے ہو۔ یہ میرے کیرئیر کا پہلا انٹرویو  اور پہلی ہی سلیکشن تھی۔انٹرویو لینے 
والا شخص کامیاب بِلڈرز کا مالک  سیٹھ کامران تھا۔
وہ انگوٹھا  چھاپ تھا ۔ مگر حکمت اور مردم شناسی کی صفات  اُس کا خاصہ تھیں وہ ہر بندے کو پہلی ہی نظر میں پڑھ لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔نبض چھوئے بغیر ہی  
وہ  بندے کے  اندرونی اور بیرونی  جمُلہ امراض کی تشخیص کر لیا کرتا تھا اور   پھر ہر ایک کی ضرورت کے مطابق خود کے تیار کردہ حکیم لُقمانہ  کیپسولز کی ایسی ڈوز دیتا کہ بندہ اُس کا گرویدہ ہوئے بغیر رہ نہ پاتا ۔  وہ اپنے کاریگروں اور مزدورں کو بھی اپنے سحرمیں جکڑے رکھتا تھا۔غُصہ سیٹھ کامران کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ البتہ وہ  اپنے مزدوروں پر  رُعب قائم رکھنے کے لئے  خود پر غُصہ طاری کئے رہتا تھا۔وہ اپنے تمام مُلازمین کو  بیٹا جی کہ کر بُلاتا تھا ۔ وہ اپنے ان بیٹوں کو  شیر کی نظر سے دیکھتا تھا   یہ الگ بات ہے کہ  سونے کا چمچہ فقظ اُسکی  اپنی اصل اولاد کے لئے ہی مُختص تھا۔اُسے مِلنے کِسی سرکاری دفتر کا  چپڑاسی آئے یا کوئی بیسویں گریڈ کا افسر وہ دونوں کو ایک جیسی عزت دیتا تھا۔مگر آنے والے سے بات اُسکے مزاج  اورحیثیت کے مطابق کرتا تھا۔بڑی پوزیشنوں پر بیٹھے افسران کی "خِدمت " کرنے اور اُن کا دِل جیت لینے میں تو اُسے "ملکہ شراوت " حاصل تھی۔وہ اپنا  ماضی  نہیں بھولا تھا اور نہ ہی یہ بتانے میں وہ کوئی  عا ر محسوس کرتاکہ وہ ایک معمولی مزدور سے ترقی کرتا  کرتا کنسٹرکشن کمپنی کا مالک بنا ہے ۔ وہ  اکثر اُس سرد رات کا ذِکر کرتا  ۔سردیوں کی وہ   طویل رات  اور بارش میں ٹپکتی کمرے  کی  جستی چادر کی چھت،  صُبح تک وہ  اُسکی گھر والی اور بیٹی تینوں کو ہی شدید بُخار نے آلیا ۔ جبکہ کامی مزدور  کی جیب میں ناشتے تک کے لئےبھی  پیسے نہیں تھے  ۔۔۔۔  اپنی زِندگی کا  کبھی نہ بھولنے والا واقع بتاتے ہوئے غمی اور فخر کے مِلے جُلے جذبات اُسکی آنکھوں سے عیاں ہوتے تھے


سیٹھ کامران نے ایک بار مُجھ سے کہا کہ پاکستان پر اللہ کا بہت احسان ہےا ِس مُلک میں ترقی کے راستے بہت ہیں مگر ہر راستے کے دروازے پر تالا  لگا ہوا ہے اور ایک زیریلا سانپ کُنڈلی مارے دروازے پر بیٹھا ہے اور دروازے کی چابی سانپ کی کُنڈلی میں پڑی ہے۔  لوگ ترقی کرنا چاہتے ہیں  مگر سانپوں کے خوف سے اُن کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ اُس کا کہنا تھا کہ یہ دودھ پینے والے سانپ ہیں اِن کو دودھ پِلا کر اِن سے دوستی کی جائے تو چابی تک رسائی مُمکن ہے۔ اُن دِنوں میں اِنقلابی خیالات سے بھرا ہوا ایک چھوکرا ہوا کرتا  تھا۔ سیٹھ کامران سے سوال کر بیٹھا " اگر  اِن سانپوں کو مار دیا جائے؟" اُس کا جواب تھا ۔ "نہ بیٹا جی نہ  اِنا ں نو مارنا نیئں  ، اے سپاں دا بڑا خطرناک قبیلہ جے" اُس کے خیال میں اگر آپ کسی ایک سانپ کو مارو گے تو  سانپوں کا یہ خطرناک قبیلہ آپ کی سات پُشتوں سے اِنتقام لے گا۔ میں سیٹھ کامران کی یہ باتیں بالکُل بھی نہ سمجھ پایا ۔ میں نے تقریبا تین سال بعد سیٹھ کی نوکری چھوڑ دی  ۔ اِن تین سالوں میں سیٹھ کی  کمپنی کا گراف مزید اوپر کی طرف گیا۔ بہت سے  نئے پراجیکٹس  پر کام شروع ہوا  اور آفس کی ظاہر حالت اور حجم میں بھی خاطر خوا ہ اِضافہ دیکھا گیا۔


  ملک ریاض کی کہانی   بھی کُچھ  ردوبدل کے ساتھ اِسی قسم کی محسوس ہوتی ہے۔ ملک ریاض  کے مُتعلق کوئی تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں ہے ملک ریاض پر بہت کُچھ لِکھا جا چُکا ہے  سید طلعت حُسین  سے لیکر  محترم جاوید چوہدری صاحب   تک بہت سے قلمکاروں نےاپنے قلم سے ملک ریاض کےمُختلف شیڈز  کو  اُجاگر کیا ہے ۔ جنکی روشنی میں اُسکی زِندگی کی پرتوں کو سمجھنا کوئی مُشکل کام نہیں رہا۔ملک ریاض کے مُتعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی فائلوں کو  ٹائیر لگا کر چلاتا ہے۔ اگر ملک ریاض کی ترقی کی رفتار پر نظر دوڑائی جائے تو  یوں محسوس ہوگا کہ ملک ریاض "انجینئر "اپنی فائلوں کو"    خود" کا تیار کردہ   مِنی جیٹ اِنجن لگادیتا تھا     جس سے  کام کی رفتار میں سینکڑوں گُناہ اِضافہ ہوجاتا تھا۔میٹرک میں تین  سو تیتیس نمبر لینے والے اس  بند ے نے  جو کام کیا بے مثال کیا ۔ اگر دیکھا جائے تو ملک  ریاض  نے سِکہ رائج الوقت حاصل کرنے کے لئے   طریقہ رائج الوقت ہی استعمال کیا ۔ اُس نے  اِس طرز میں جدید  سائنسی  اُصول مُتعارف کروائے۔ ملک ریاض نے بھی سانپو ں سے  دوستی کی اُن کو دودھ پِلایا ۔ اُسکے اندر کی پیاس نے اُسے مزید آگے  دھکا دیا یہاں تک کہ وہ بڑہتا  بڑہتا ان سانپوں کے سرداروں  تک جا پہنچا ۔سانپوں سے دوستی کا یہ کھیل  اُسے مزہ دینے  لگا   ، اور بات یہاں تک پہنچی کہ وہ سانپوں اور  سپیروں کا بیوپاری بن بیٹھا۔ مگر ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔وِڈیو۔۔۔۔۔

آج ہر محبِ وطن   ملک ریا ض    اور اُس کے افعال پر لعن طعن کرنے کو کلمہ حق     گردانتا ہے۔ ایک بات  یاد رکھنے کی ہے کہ کلمہ حق محظ ایک مُردہ عمل کے سوا کُچھ نہیں ہوتا جب تک کہ راہ حق سےآشنائی نہ ہو  اور  اس سے  سنگت نہ کی جائے۔ یہ  راستہ  بہت پتھریلا  اور خُشک ہے  ۔ اس راستے پر پاوں زخمی ہوتے ہیں ۔پیاس انسان کے   صبر کا کڑا امتحان لیتی ہے ۔ جگہ جگہ زہریلے  سانپوں سے مُقابلہ کرنا پڑتا ہے یہ  سانپ متلاشگانِ حق کے ازلی دُشمن ہوتے  ہیں۔ منزل جِتنی خوبصورت ہے  اُتنا ہی  سفر کٹھن ہے۔  مگر یہ  سفر کلمہ حق  کے مردہ عمل کو زندگی  عطا کرتا ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے عملوں کی جانچ پڑتا ل کی ضرورت ہے ۔ خود کا محاسبہ شائد ہمارے مُردہ عملوں میں روح بھرنےکا ذریعہ بن جائے۔ہمیں  اپنی جیبوں کی تلاشی لینی ہو گی جِن میں ہم  وہی ٹائر ہر وقت  ریڈی  رکھتے ہیں جو ملک ریاض استعمال کرتا رہا ہے۔ ہم ٹریفک قانون کو توڑ کر اِنہی ٹائروں میں اپنی غلطی چھُپانے کی کوشش کرتے ہیں۔  ٹریفک لائسنس حاصل کرنے  کے لئے قانونی طریقہ کار کو  پس پُشت ڈال کر  اپنی جیبوں میں موجود ٹائروں  سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ پاسپورٹ کےحصول میں لمبی لائن دیکھ کرہم دوسروں کا حق مارتے ہوئے یہی ٹائیر  استعمال کرتے ہیں ۔ ہمیں  محکمہ مال سے واسطہ پڑ جائے یا ہم نے اپنا  اِنکم ٹیکس/پراپرٹی ٹیکس ادا کرنا ہو،  کسی پٹواری سے  فرد کے حصول   کا معاملہ ہو یا  بجِلی گیس کے میٹر کا مسئلہ  ہر معاملے  میں ہم سانپوں کو دودھ پِلاتے ہیں ۔ اپنے دِل کو محظ   اِس کمزور دِلیل سے تسلی دیتے ہیں" اِس کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے"۔   حد تو یہ ہے کہ   ووٹ  دیتے وقت بھی ہم اُمیدواران  کی گاڑیوں پر نظر دوڑاتے ہیں اور جِسکی گاڑی کے ٹائر بڑے ہوں اُسے مُنتخب کر لیتے ہیں۔ ہمیں اپنی جیبوں سے تمام ٹائیر نِکالنے ہوں گےاُنہیں شہرکے بڑے سے چوک میں رکھ کر  آگ لگانی  ہوگی ۔اِس  دھوئیں سے اوزون کی تہہ کو ہر گِز کوئی نُقصان نہیں ہو گا مگر ہمارے دِلوں پر  چڑہی ہوئی  سیاہی ضرور دُھل  جائے گی۔ ہمیں  راہ حق پر ایک  ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک لشکر کی صورت میں پیش قدمی کی ضرورت ہے ۔  اِن  سانپوں   کے پورے  قبیلے کو گھیرے میں لیکر اِن  کا قلع قمع  کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو یہ سِسٹم یوں ہی چلتا رہے گا۔ آج ایک ملک ریاض ہے کل کوئی اور ہوگا  اسی رول میں کِسی  اور شکل اورنام کے ساتھ ۔ ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی سِسٹم میں جی رہی ہوں گی ۔ پاکستان میں بڑے ٹاونز ،بڑی روڈز اور  ملٹی سٹوری بِلڈنگز بنیں گی  ۔  ہر ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے خُداسے اُس کے ملک رِیاض جیسا بننے کی دُعا کرے گی۔ ہر باپ اپنے بچے کو دروازے پر بیٹھےکُنڈلی مارے سانپ کے روپ میں دیکھنا چاہے گا۔ میرے جیسا غبی ، کم عقل اور حالات کی نزاکت کو نہ سجھنےوالا ، لنڈے کی جینز اور ٹی شرٹ پہنے کِسی بڑی سڑک  جِس کے  دونوں طرف ملٹی سٹوری بِلڈنگز   قطار بنائے ہوں گی ، کے فُٹ پاتھ  پر لگے بنچ  پر بیٹھا    شوں شوں کرتی نئی گاڑیوں پر سر سری سی نِگا ہ کرتے ہوئے  اِنسانیت   کے  دُنیا سے رُخصت ہونے پر نوحہ لِکھنے کی ایک ناکام سی کوشش کر رہا ہوگا ۔



Saturday 16 June 2012

ہائے ری بیجاری ہاکی اور کپتان کی ٹیم



ہمار ا قومی کھیل ہے ایک مرتبہ پھِرآئی سی یو وارڈ میں داخل کر لیا گیا ہے  سُننے میں آرہا ہے کہ زرداردی صاحب وزارتِ کھیل کی بجائے ہاکی  وزارتِ صحت کے حوالے کرنے کا سوچ رہے ہیں اور بہت جلد اِس بارے میں  صدارتی فرمان بھی جاری ہو جانے کی شُنید ہے۔ویسے ہمارے مُلک میں سُننے کو کُچھ بھی مِل  سکتا ہے اور ہونے کو کُچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ہاکی  کی گِرتی ہوئی  صحت پر  ہروہ پاکِستانی پریشان ہوتا ہے  جِسکی یادوں کے آڈیو ریکارڈ  خانے میں وہ آوازیں تواتر کے ساتھ محفوظ ہوتی رہی ہیں"حسن سردار ڈی میں ، ایک کھلاڑی کو ڈاج، دوسرے کو  دیا اور  گیند گول میں"  اور پھِر وہ   دور گیا  اب تو ہاکی کے ہمارے تمام خلیل خان مصنوعی ٹرف پر گو ل کرنے کی بجائے فاختائیں اُڑا تے نظر آتے ہیں۔

ہم تو پِچھلے  پندرہ سالوں سے کوئی پچیس تیس  پلیئرز ہی کو دیکھ رہے ہیں  جو ریٹائرمنٹ  کا اعلان کرتے ہیں اور پھِر  تین چار سال بعد ہری وردی پہنے  ہاکی گراونڈ  میں اللہ اکبر کا نعرہ بُلند کرتے نظر آتے ہیں۔ان پلئرز  کو جب ہاکی میں پیسہ نظرنہ  آیااور نہ کوئی جام شُہرت  نصیب ہوا تو ایجاد کی والدہ سے اُنہوں نے لیا  اِک مشورہ ۔اپنی ہاکیوں کے ہُک کو ایک کُنڈا تصور  کرتے ہوئےیورپی لیگز  میں کُنڈے فِٹ  کرنا شروع کر دئیے  کبھی ڈچ لیگ کبھی جرمن لیگ  ، سپینش لیگ اور اب توایک اور آگئی ہے غیر قانونی  بھارتی لیگ   جِس میں پاکِستان کے پانچ  پلئیرز نے  فیڈریشن  کی اجازت کے بغیر شِرکت کی نتیجتاً  فیڈریشن نے اُن پر پابند ی کا اعلان کردیا ۔ اور نئے لڑکوں  کے ساتھ ٹیم ملائشیا چلی گئی اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سزا یافتگان کی ہوئی واپسی   پھِر، نظر آئیں گے  لندن اولمپکس میں  یہی پلئرزپھِر۔اِس پھِر کی زیر کبھی پیش بن 
کر آن پڑی اوپر تو پھِر۔۔۔۔

پاکِستان  ہاکی سے تو اِن پلئیرز کو کو ئی سروکار  نہیں ہے ۔ گرین شرٹش تو یہ  صِرف  اولمپئینز بننے کے لئے  پہنی رکھتے ہیں ۔ہاکی کے ناقدین کہتے ہیں کہ  گراس روٹ لیول پر ہاکی  پھر سے شُروع کئے بغیر ہاکی میں بہتری کی توقع کرنا   خام خیالی ہے۔ اب بھلا  ان سمجھ داروں کو کون سمجھائے  کہ گراس کو لیول کرنا  کوئی آسان کام نہیں ہے اورپھِر خوامخواہ میں یہ کام کیا کیوں جائے جب گراس پر ہاکی کا دور گُزرے عشرے بیت گئےہیں۔بعض ناقدین کا  کہنا ہے کہ ہاکی کو سیاست کھاگئی ہے ۔یہاں پر بھی سیاست؟؟؟ یہ کلموئی سیاست بھلا دیمک کی کونسی قِسم ہے  کہ جو ہر چیز کو کھاجاتی ہے۔ جِس  اِدارے  کا بھی رُخ کرو پتہ چلتا ہے سیاست کھاگئی  بس ہر طرف ڈھانچے ہی ڈھانچے کھڑے ہیں  اندر سے ہر چیز کھوکھلی ہو چُکی ہے اور سُننے کو یہی مِلتا ہے  کہ سیاست کھاگئی ۔کِسی جرمن پیسٹسائد کمپنی نے بھی اس سیاسی  دیمک  کا  کوئی سپرے   تیار نہیں کیا ، ہاں البتہ ہٹلر  کُچھ دیر اور زِندہ رہتا تو شائد اس طرف کُچھ پیش رفت ہوتی  ۔ میں نے  اہلِ 
دانش سے سُن رکھا ہے کہ جمہوریت کا عِلاج مزید جمہوریت ہوتی ہے ۔ اِس فارمولے کو اگر سیاست پر  اِستعمال کیا جائے تو پھر سیاست کا عِلاج بھی مزید سیاست ہوئی  مطلب مزید سیاسی پارٹیاں مزید نئے چہرے ، مزید  سیاسی نمائندے ،مزید۔۔۔۔۔ میری اِن دیمکانہ باتوں پر اہلِ عِلم لوگ تو لاحول پڑہتے ہیں پر میں بھی کیا کروں مُجھے کِسی پیر صاحب کی بددُعا لگی ہوئی کہ بس اِسی طرح  کی باتیں سوجھتی ہیں۔

سیاست کے آسمان سے ہمارے کپتان جی کے ستارے کی چمک نے ہم تک پہنچنے میں سولہ سال لگائے۔کپتان جی  میرے مزید سیاست کے فلسفے کی اِک روشن مِثال ہیں۔ مگر کُچھ عرصے سے اُنہوں نے اپنی پارٹی کو  ایک  ہاکی  طرز کی سیاسی لیگ میں بدلنا شُروع کر دیا ہے۔اُنہوں نے اپنی جماعت میں بہت سے ہاکی پلئرز نما سیاست دان اکٹھے  کر لئے ہیں۔ یہ  سب سیاست دان بھی ہاکی پلئرز کی طرح اپنے کُنڈے مُختلف لیگوں میں اٹکائی رکھتے ہیں  کبھی  نون لیگ کبھی  ق لیگ کبھی  فلانی لیگ اور اب عِمران لیگ ۔۔خان صاحب کرکٹ کے بہت  بڑے پلئر رہ چُکے ہیں اور یقیناً   وہ ایک گیند پر تین وکٹیں لینے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ مگر اُن کو  ہاکی کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اِن کے یہ نئے ساتھی سیاست کو ہاکی کی طرح کھیلتے ہیں۔یعنی گیند لیکر ڈربل کرتے ہوئے بھاگنا ، دائیں دِکھا کر بائیں نِکلنا، صرِف خود گول کرنے کی کوشش کرنا، اپنے  ہی پلئیر کو جان بوجھ کر  غلط پاس دینا  ، جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر نا وغیرہ ، وغیرہ۔ اللہ کی پناہ ایسے سیاسی پلئرز سے  یہ تو بھاگتے  بھاگتے کِسی کے پیر میں گیند مار دیتے ہیں اور اگر امپائر کی نظریں کُچھ کمزوری دِکھائے تو  کِسی کے گھُٹنے میں ہاکی دے مارنے سے بھی نہیں چوکتے۔ خُد نخوستہ  اگر امپائر کی نظروں میں یہ حرکت آجائے تو مُڑ کر ایسے  معصومانہ انداز دیکھتے  ہیں جیسےجناب  ابھی ابھی تو بیت ُاللہ کے سات چکر پورے کر کے آئیں ہیں۔بھئی میری  رائے میں تو  اِن سیاسی کھلاڑیوں کو سمجھنے کے لئے  خان صاحب کو ہاکی میں  مہارت چاہئے۔ خان صاحب  کو تاحال ہاکی کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں  ہے مگر  اُن کا یہ نعرہ "نوے دِنوں میں کرپشن ختم کردوں گا " ہاکی بورڈ کی قوم کو دی ہوئیں تسلیوں سے کافی مماثلت رکھتا ہے ۔ جو  ہر گُزرنے والے ٹورنامنٹ پر بس ایک اعلان کر دیتے ہیں کہ  اگلے ٹورنامنٹ میں ہماری ٹیم وِکڑی سٹینڈ پر ضرور پہنچے  گی۔

یہ رام کہانی بیان کر نے کا میرا  مقصد  کپتان جی کویہ  باور کروانا ہے کہ اُن کے نئے ساتھیوں میں سے اکژ  چھاوں کے ساتھی  ہیں ،کڑی دھوپ کے ہمسفر بالکل بھی نہیں ہیں۔ یہ لوگ زیادہ    سے زیادہ چاندنی رات تک ساتھ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اندھیرے سے پہلے ہی یہ لوگ غائب ہونے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ کِسی کوٹھڑی کا اندھیرا اور اُس کے اندر موجود مچھر بڑے بڑوں کو ہیجڑہ بنا دیتے ہیں۔ خد ا نہ کرے کہ ہمارے کپتان پر وہ وقت   آئے۔ 

Thursday 7 June 2012

Khalil Jabran Aur Pity the Pak Nation



جبران خلیل  جبران اور پِٹی دی پاک نیشن
جسسٹس آصف سعید کھوسہ انتہائی   پُراثر شخصیت   کے مالک ہیں ۔  گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی اور پھرکوئنز کالج ،یونیورسٹی آف کیمبرج اور لنکنز اِن  جیسے اداروں  نےجسٹس صاحب کی خُدا داد صلاحیتوں کو نکھارنے میں  اہم  کردار ادا کیا ۔تعلیمی میدا ن  میں حاصل کئے ہوئےطلائی تمغے  جناب کو ایک نُمایا ں اور مُنفرد حیثیت عطا کرتے ہیں ۔ کھوسہ صاحب کی ذاتی لائبریری میں  قانون  کی ضخیم کتابوں  کے ساتھ ساتھ ادبی کتابیں بھی اک  تناسب کے ساتھ موجود ہیں۔  جسٹس کھوسہ نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ۔ قانون  کے میدان کو اپنی زِندگی کا بہت  بڑا حصہ دینے کے باوجود  ادب سے اِن کے  تعلق میں کوئی ضُعف نہیں آیا ۔ اپنے پُرانے ہم جماعتی اور آج کے وزیرِاعظم  کے توہینِ عدالت  کے مُقدمےمیں   جسٹس کھوسہ کا اِضافی نوٹ  اس بات کا واضح  ثبوت ہے۔ جِسمیں اُنہوں نے خلیل جبران  کی ایک نظم کو اپنے فِکر ی احساسات کے رنگ میں ڈھالا
قطع نظر اِس کے کہ  کھوسہ صاحب نے  اِضافی نوٹ میں  ادبی حوالہ   دیکر صحیح کیا یا غلط ۔ مُجھے  اُن کا یہ عمل اس طور لائق تحسین ضرور محسوس ہوتا  ہے  کہ اُنہوں نے  کولا ویری ڈی پر تھرکتی  ، سٹار پلس کے  قِسط وار ڈراموں میں غرق  ہو کر اپنی حسِ لطافت کو سیراب کرتی ہوئی  اس قوم کوادب کے ایک بڑے نام   سے مُتعارف  کروایا۔ ہر وہ شخص جِس کی نظریں اخباری خبروں پر کُچھ دیر ٹِکتی ہیں وہ آج خلیل جبران خلیل کی پِٹی دی نیشن کو پڑھ چُکا ہے انٹرنیٹ پر   نوجوان نسل کولا 
ویری ڈی طرز کے گانوں کے ساتھ ساتھ خلیل جبران کے مُتعلق کُچھ پڑہنےکے لئے بھی سرچ اِنجن  کا استعمال کرتی نظر آرہی ہے۔

میری اپنی  ایک   تخیلاتی دُنیا ہے جب اِس حقیقی دُنیا میں چاروں سو اندھیرا  پھیل جاتا ہے  ہے تو میں اس  دُنیا کی  دیوار پھلانگ کر اُس تخیلاتی دُنیا میں  پہنچ جاتا ہوں   جو  کہ صرف اور صرف میری ملکیت ہے ۔میری  ا ِس دُنیا  میں داخلے کا اختیار فقط میرے دِل کے پاس ہے  وہ جِسے چاہے ویزہ دے  اورکھینچ لائے ۔کبھی کِسی سیاست دان کو ، کبھی کِسی کھلاڑی کو ،تاریخ کے  کِسی بڑے نام کو یا پھرکوئی چھابڑی والا، کوئی موچی ، کوئی ترکھان  میرا  مہمان بن بیٹھے۔ پِچھلے کُچھ دِن سے  اس تخیلاتی دُنیا میں میری مُلاقات  1883 میں پیدا ہونے والے خلیل جبران خلیل سے ہو رہی ہے۔میری اُس سے بہت اچھی دوستی ہوگئی ہے۔وہ میرے ساتھ اُردو میں بات کرتا ہے مُجھے اپنی زِندگی کی کہانی سُناتا ہے۔ بچپن کے  اِنتہائی  مُشکل حالات میں جبکہ اُس کے باپ کو کرپشن پر سزا ہوتی ہے اور اُسکی کی تمام جائیداد  ضبط ہو جاتی ہے  جبران  کی ماں اپنے بچوں کو بوسٹن[امریکہ] لے جاتی ہے۔ وہاں اپنے بھائی کی مدد سےاپنے بچوں کی پرورش کے لئےلیس بیچنے کا کام شُروع کرتی ہے اور پھِر  ایک چھوٹا سا سٹور بنالیتی ہے ۔  خلیل جبران اپنی زندگی میں آنے والی بہت بڑی تبدیلی  کے مُتعلق بتاتا  ہے جب اُسکی آرٹ ٹیچر  تیرہ سال کے بچے میں موجودٹیلنٹ کو بھانپ کر اُسکی مُلاقا ت اُس دور کے مشہور  آرٹسٹ فریڈ ہالینڈ ڈے سے کرواتی ہے  جو کہ اُس  کے اندر مو جود  ادب  اور فنونِ لطیفہ  کی صلاحیتیں بھانپ جاتا ہے اور  کُچھ ہی عرصے بعد  اُسے  نیچرل جینئس قراددیتا ہے  اور  اُسکی راہنمائی کرتا ہے۔   اپنی علمی پیاس بُجھانے کے لئے جبران بیروت  کا سفر کرتا ہے  جہاں وہ مدرسۃالحکمہ سے عربی ادب  مِیں اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ ۱۹۰۲  میں اُسکی ماں  اور پھر بہن  مہلک بیماری کے باعث جہان ِفانی سے کوچ کر جاتیں ہیں ۔ اُسکی چھوٹی  بہن ماریانہ کپڑے  سی کر  گزُر  بسر کرتی ہے جبران  پھر سے اپنے  گُرو  ہالینڈ  ڈے  کی مدد لیتے  ہوئے  اپنے آرٹ ورک  کا آغاز کرتا ہے۔جبران  ایلیزببیتھ ہیسکل  جو کہ ہیسکل سکول فار گرلز کی مالکہ تھی  کا ذِکر انتہائی عقیدت و احترام سے کرتا ہے  ہیسکل  اپنے کیرئیر کے آخر میں کیمبرج سکو ل کی ہیڈ مسڑس  بنی ۔  وہ   نہ صرف خلیل جبران  کی  مالی معاون  رہی  بلکہ اُسکی  اگلے بیس سال  تک  انگریزی کی اُستادبھی  رہی۔ ہیسکل ہی کی فنڈنگ پر جبران   نے فرانس  جاکر   مُصوری اور ڈرائینگ کی  اعلی تعلیم حاصل کی ۔

جبران مُجھ سے   اپنی فلسفیانہ باتیں بھی کرتا ہے جو کہ مُجھ جیسے کم عقل کو بغیر چھوءے گُزر جاتی ہیں۔جبران بتاتا ہے کہ وہ  سلطنتِ عثمانیہ کی مُخالفت کیوں کرتا تھا۔ اُسکی باتوں سے عرب دُنیا کے لئے  مُحبت کی خوشبو آتی ۔ وہ میرونیٹ چرچ کے  بہت سخت کنٹرول کا  بھی شدید مُخالف تھا۔ خلیل جبران   اپنے لِکھے ہوئے مضامین کہانیوں  نظموں کا بھی ذِکر کرتا ہے جنہیں اہل دانش نے بہت سراہا۔ ہےاُسکی کی  نظم سپرٹ ریبلیس جو کہ ۱۹۰۸ میں شائع ہوئی  جس کے  بعد  خلیل جبران کو ایک ریفارمسٹ  کے طور پر پہچانا جانے لگا تھا۔  خلیل جبران اپنی چھپنے والی کِتابوں   اور زِندگی کےآخری دور کاذکر بھی کرتا ہےجب   جِگر کے  کینسر نے اُس  کی زندگی کا انتہائی بیدردی سے  خاتمہ کرڈالا۔وہ 1931کا سال تھا جب  اس مشہور لِبنانی ادیب اور آرٹسٹ نے  اِس جہانِ فانی کو خیر آباد کہا۔  اُسے تمام  عرب  دُنیا میں عزت کی نگا ہ سے دیکھا  جاتا ہے۔خلیل جبران اپنی روداد سُنا نے کے ساتھ ساتھ مُجھ سے میرے مُلک کے حالات و واقعات،  رہن سہن اور تاریخ کے بارے میں پوچھتا  جاتا ہے  ۔ وہ میرے مُلک کے  سیاسی حالات  کے بابت   بھی بہت سے سوالات کرتا ہے۔ میں  ان سوالات کے تفصیلی جوابات   دیتا ہوں  ۔ وہ  میری  بھرائی   ہوئی آواز کا دُکھ محسوس کرتا ہے اس دوران اُس کی  آنکھوں میں اُمڈ آنے ولاے آنسو میں صاف  دیکھ سکتا ہوں۔ میں خلیل جبران سے "پِٹی دی نیشن"  ترنم کے ساتھ  سُنانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہوں ہو میری خواہش کا احترام کرتا ہے اور اس خوبصورت نظم کو اپنے انداز میں اِس ترنم کے ساتھ پڑہتا ہے کہ  مُجھے  حبیب جالب کی یاد آجاتی ہے۔


 Pity the nation that is full of beliefs and empty of religion.
قابل رحم ہے ہو قوم  جِس کے پاس عقیدے تو بہت ہوں مگر پقین سے خالی ہو
Pity the nation that wears a cloth it does not weave,
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو ایسے کپڑے پہنتی ہو جِو اُس نے خود نہ بُنے ہوں
eats a bread it does not harvest,
روٹی وہ کھائے جو کہ اُس نے خود نہ اُگائی
and drinks a wine that flows not from its own wine-press.
دوسروں کی کشیدہ شراب سے لُطف اندوز ہوتی ہو
Pity the nation that acclaims the bully as hero,
قابل رحم ہے وہ قوم جو باتیں بنانے والے کو اپنا سب کُچھ سمجھ لیتی ہو
and that deems the glittering conqueror bountiful.
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو اپنا سب کُچھ سمجھ لیتی ہو
Pity a nation that despises a passion in its dream,
قابل رحم ہے وہ قوم جو بظاہر خواب کے عالم میں ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہو
yet submits in its awakening.
لیکن عالم بیدااری میں مُفاد پرستی کو اپنا شُعار بنا لیتی ہو
Pity the nation that raises not its voice
قابل رحم ہے وہ قوم جو  نہیں اُٹھاتی  آواز
save when it walks in a funeral,
سوائے اس کے کہ جب وہ کِسی جنازے کے جلوس میں ہو
boasts not except among its ruins,
اور ماضی کی یادوں کے سِوا اُس کے پاس فخر کرنے کو کُچھ نہ ہو
and will rebel not save when its neck is laid
اور اُس وقت تک حالات کےخلاف احتجاج نہیں کرتی
between the sword and the block.
جب تک اُس کی گردن عین تلوار کے نیچے نہیں آجاتی
Pity the nation, whose statesman is a fox,
قابل رحم ہے وہ قوم جِس کے سیاست دان لومڑی کی طرح مکار ہوں
whose philosopher is a juggler,
اور جِس کے فلاسفر محض شعبدہ باز
and whose art is the art of patching and mimicking.
اور جس کا آرٹ مداری کا کرتب ہو
Pity the nation that welcomes its new ruler with trumpeting,
افسوس اُس قوم پر جو اپنے نئے حُکمران کو ڈھول کی تھاپ پر خوش آمدید کہتی ہے
and farewells him with hooting,
اور اُس کے جانے پر آوازے کستی ہے
only to welcome another with trumpeting again.
محظ اس لئے کہ آنے والے حُکمران کا پھر سے پُرتپاک استقبال کر سکیں
Pity the nation whose sages are dumb with years
جِس کے اہل دانش وقت کےساتھ ساتھ گونگے بہرے ہوگئے ہوں
and whose strong men are yet in the cradle.
اور جِس کے مضبوط لوگوں کے ہاتھ بندھے ہوں
Pity the nation divided into fragments,
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو کہ فِرقوں میں بٹی ہو
each fragment deeming itself a nation
اور ہر فِرقہ خود کو ایک الگ قوم تصور کرتا ہو

خلیل جبران مُجھ سے جسٹس کھوسہ کے بارے میں بھی سوال کرتا ہے وہ  اُن کے اِضافی  نوٹ کی بھی تعریف کرتا ہےوہ مُجھ سے پاکستان کے حالات سُن کر خاص طور اپنی نظم میں کُچھ اِضافہ کر کے سُناتا ہے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم  جو دُنیا کی ہر آشائش کو حاصل کرنا  چاہتی ہے مگر  ہر چیزغیروں کی بنی  ہوئی  موبائل سے لیکر گاڑی تک
قابلِ رحم ہے وہ قوم  جس کی اصل طاقت  زراعت ہو  مگر اُس کا کِسان اپنے تن پر اچھے کپڑے پہننے کی بھی  سکت  نہ رکھتا ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم  کہ جِس کا امیر اپنے عالیشان گھر  میں چین کی ٹھنڈی  نیند سوئے اور غریب ،دو وقت کی روٹی کے لئے  مارا مارا پھرے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو    قانون   کو فقط کاغذی کاروائی سے زیادہ کوئی اہمیت نہ دے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے مذہب نے حقیقی معنوں میں دُنیا سے   بُت پرستی  اور شخصیت پرستی  کو ختم کیا ہو مگر وہ قوم   شخصیت پرستی   کے اندھے کنویں میں اوندھی  پڑی ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم    کہ جِس کے مُنصف  اُس وقت انصاف کریں جبکہ وہ بے معنی ہو جائے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو بیوپاریوں کے ہاتھ میں عنان حکومت تھما دے اور اُنہِی رہزنوں کو رھبر جانے
قابل رحم ہے وہ قوم جو لاکھوں انسانوں  کا خون دیکر اپنی سرحدوں کا تعین کرے مگر پھِر چند سو بندوق والوں سے یرغمال بن جائے جوپوری قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے پھِریں
قابل رحم ہے وہ قوم جوعِلم والوں کی عزت نہ کرے،  تعلیمی اداروں میں نقل اور غُنڈہ گردی عام ہو  اِن  اِداروں میں  مذہبی اقدار کی پاسداری پر تو زور  دیا جائے  مگرتعلیمی میدان میں  کوئی مُسلمہ مقام حاصِل کرنا کبھی بھی اِن کی ترجیح نہ رہی ہو۔
قابل رحم ہے وہ قوم جس کے حُکمران   سرعام اپنی ہی  قوم کے افراد کو قتل کرنے والے کرائے کے جاسوس کو عِبرت کا نشان بنانے کی بجائے چھوڑ دیں اور وہ ااٹھارہ کروڑ   اِنسان پھر بھی محض  ہجوم  ہی بنے رہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم  جِس کے حُکمران  محظ پیسوں کی خاطرغیروں کو  اپنے ہی لوگوں پر بم برسانے کا پرمٹ دے دیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو صرف آدھا سچ بولے  اوراُسی آدھے سچ کو کُل حقیقت جانے
اور اختلاف کرنے والوں پر غداری یا کُفر کاٹھپہ  جڑ دے
قابل ِ رحم ہے وہ قوم جو ساٹھ سال میں درجن بھر  تجربے کرنے کے باوجود اِک  واضح سیاسی نظام وضع نہ کرپائے۔
قابلِ رحم ہیں  اُس خطے کے باسی  جہاں ڈاکٹرملک غُلام مُرتضی ، حکیم سعید،مولانا سرفراز نعیمی ،مولانا  اسلم شیخوپوری اور ڈاکٹر فاروق جیسے امن کے داعی  عالموں کو  قتل کردیا جائے اور اِس سازش کا توڑ کرنے کے   لئے پھر بھی وہ لوگ مُتحد نہ ہو۔
آج صُبح  میں اپنی جاگیر سے  ہوتا ہوا اس حقیقی دُنیا میں واپس لوٹا  تو سوچنے لگا کہ  خلیل جبران  نے جو کُچھ بھی پاکِستان کے مُتعلق کہا شائدوہ  میرےدِماغ کی اپنی اختراع ہو۔مگر پھر اِک  معصوم  سی خواہش نے دِل میں  اِک انگڑائی سی  لی  ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خلیل جبران آج کے دور میں ہمارے درمیان موجود  ہوتا  ۔ وہ اپنی   پُر اثرشاعری اور مضامین  کے ذریعے   ہماری کمیوں کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا ہماری فِکری اصلاح   کا  سبب ،،،مگریہ کولا ویری ڈی پر تھرکتی  ، سٹار پلس کے  قِسط وار ڈراموں میں غرق  ہوکر ، اپنی حسِ لطافت کو سیراب کرتی ہوئی  اس قوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔