Sunday 29 April 2012

KHATTAY MEETHAY SIYASI CHUTKALAY Dohra Hai



 آخر وزیرِاعظم خط کیوں نہیں لکھتے"۔  "ارے بھئی اُنہوں نے  وہ خط  لِکھنے    والا گیت جو سُن رکھا ہے"۔                                                                                       
پیپل کا یہ پتہ نہیں کاغذ کا یہ ٹُکرا نہیں

اسمیں ہماری جان ہے دِل کے بہت ارمان ہیں
پہنچے وہ خط جانے کہاں جانے بنے کیا داستان
اُسپر رقیبوں کا ہے ڈر  لگ جائے اُن کے ہاتھ گر
کِتنا  بُرا انجام ہو مُلک مُفت میں بدنام ہو
جناب  پیرو مُرشد اِس خط ڈرامے کا اینڈ سین بھی بتانے کی صلاحیت رکھتے ہیں                                                                                                                                                         
اِک دِن وہ خط واپس مِلا اور ڈاک بابو نے کہا      
کِسی بنک، تھانے میں  نہیں سارے زمانے میں نہیں                 
  کوئی  اکاوئنٹ   اس نام کا                                                                                                                       
ہم نے سوئس کو خط لکھاخط میں لِکھا۔                                                                   

                      2
مشہور  تجزیہ نگار اور اینکر پرسن طلعت حُسین  نے وزیر اعظم کو  اپنے ایک کالم میں مشورہ دیا ہے  کہ وہ خود کو تمام اِلزامات سے   بڑے آرام سے کلئیر کروا سکتے ہیں بس وہ  اپنے اور اپنے خاندان کے تمام اثاثے عوام کے سامنے پیش کردیں آج  کے بھی اور آج سے چار سال پہلے کے بھی اور اسطرح دودھ کا دودھ اور سیاست  کی سیاست ہو جائے گی۔ جناب پہلی بات  تو  یہ وزیر اعظم صاحب عمران خان کی  طرح کی بچگانہ سیاست کے قائل نہیں ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ جناب گیلانی صاحب  درویش صفت آدمی ہیں ،وہ خود نُمائی  کو بالکُل بھی پسند نہیں کرتے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے  کہ  پِچھلے چار سالوں میں جو کمایا وہ مِل بانٹ کر کھایا اور مِل بانٹ کر کھانے سے رزق میں کئی گُناہ اضافہ ہوتا ہے۔


                                            ہماری قومی اسمبلی کی سیاست  کا یہ پنچ سالہ دورانیہ بس یوں سمجھیں کہ ٹیسٹ  میچ کے آخری دِن  کے  آخری سیشن تک پہنچ چُکا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ آخری سیشن کی پہلی ہی  بال پر اپوزیشن کو ایک کامیابی نصیب ہو گئی ہے اور اور وہ بھی اوپننگ بیٹسمین اور نائب کپتان کی، یوں اُن کے حوصلے کافی بڑھ گئے ہیں اس وِکٹ کے بعد بس ٹیل ہی باقی بچی ہے۔اس  سے پہلے یہ میچ  بہت حد تک ڈرا ہوتا ہی دِکھائی دے رہا تھا۔حکومت تو  میچ  کھیل ہی ڈرا کرنے  کی  نیت سے رہی ہے۔ جبکہ اپوزیشن بھی اپنی کارکردگی سے  شائقین کو مُتاثر نہیں  کرسکی  ۔ بہت سے کیچ چھوڑے گئے اور اہم  موقعوں پر اپنی وِکٹیں  غیرذمہ دارانہ اندز میں گنوائی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین نے اپوزیشن پر میچ فِکس کرنے کا الزام لگایا ۔ ویسے ہونے  کو تو ہمارے ہاں کُچھ بھی  ہو سکتا ہے۔ قِصہ مُختصر  اپوزیشن کو حکومت پر پریشر بناتے ہوئے  بقیہ وِکٹیں لینے کا بہت قیمتی موقع میسر آیا ہے، اور اُمید بھی کی جارہی ہے کہ  اس مرحلے پر   پوزیشن کی خاطر اپوزیشن میچ جیتنے کی  پوری کوشش کرے گی۔ ویسے گیلانی صاحب   ریویو کا  حق رکھتے ہیں مگر  یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ وہ نااہل ہو چُکے ہیں اِس لئے اُنہیں فارغ کر دینا چاہئے۔  اگر دیکھا جائے تو پاکستانی سیاست کا موجودہ   ڈھانچہ ہی اپنی  اہلیت ثابت کرنے میں مُکمل  ناکام رہا  ہے تو کیا بھلا پھر اُسے بھی ۔۔۔۔۔

4
ہمارے خا دم ِاعلٰی صاحب صرف نا  م ہی سے شہباز نہیں بلکہ  کام کے بھی شہباز ہیں ، وہ اپنی نوک دار اُنگلی سے مُخالفین کی آنکھیں نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ دوران تقریر سب سے زیادہ بار اُنگلی ہِلانے کا ریکارڈ  شہباز شریف صاحب  سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ پِچھلے دِنوں  گنیس بُک کے نمائندے شہباز شریف کی تقریر ریکارڈ کرتے پائے گئے ۔ چند دِنوں بعد یہی لوگ   بغل میں   انعام لئےشہباز صاحب کی کُٹیا  کا دروازہ  کھٹکھٹاتے دیکھے گئے۔ پوچھنے والے نے  پوچھا کہ یہ اُنگلی ہِلانے کا  انعام ہے تو جواب مِلا نہیں بلکہ  دُنیا کا امیر ترین خادم ہونے  کا ۔ جسمیں اُنہوں نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔

Sunday 22 April 2012

IK CHOTI SIE KHABAR By Dohra Hai

22/04/2012
اِک چھوٹی سی خبر
اُس کی اُونچی آواز فون کا سپیکر پھاڑنے کو تھی ۔   میں ریسور کو کان سے آدھ فُٹ کے فاصلے پر رکھے ہوئے تھا۔ وہ گلا پھاڑپھاڑ کر بولتا  چلا جارہا تھا اور میں محض  یار سُن۔۔ چل چھوڑ۔۔یار پریشان کیوں۔۔۔ سے آگے کُچھ نہ کہہ سکا ۔ بس آگ کے شعلے تھے جو اُسکے مُنہ سے باہر آرہے تھے جِن میں نفرت تھی گِلے شکوےتھے اور اندھیر اپھیلاتی ہوئی مایوسی ۔  اُس نے میرے چاروں  اطراف   اندھیراپھیلا کر الوداعی  کلمات  کہے بغیرفون بند کر دیا۔ میں چند منٹ  تک بُت بنے اِسی اندھیرے میں بیٹھا رہا۔ مُجھے ایسے لگا جیسے میرے دوست کی  آج فِکری اور روحانی طور پر موت واقع  ہوگئ ہو۔   وہ میرا سکول کے زمانے کا  دوست  مُنیر احمد تھا۔ ایک اِنتہائی   نفیس ،مُحبت  کرنے والا ، صابر اور سب سے بڑھ کر کبھی مایوس نہ  ہونے والا   پیارا دوست ۔صحیح معنوں میں یاروں کا یار، بہت کم گو طبیعت کا مالک ۔  کبھی نہ شکوہ کرنے والا پانچ فُٹ چھ انچ قدوقامت   کا   ایک نرم  
دِل  مگر بہت  مضبوط  اور پھُرتیلا انسان۔

وہ ایک غریب دیہاتی گھرانے میں پید ا ہوا۔ تین بھایئوں اور چار بہنوں میں سب سے  بڑا۔ وہ  روز  انہ  ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کر کے  شہر کے سکول پہنچتا  تھا۔ تعلیمی میدان میں  وہ ایک اوسط درجے کا سٹوڈنٹ تھا۔مگر کھیل کے میدان میں اُس کی کارکردگی بہت نُمایاں  ہوتی تھی ایتھلیٹکس ، کبڈی ، ہاکی  اور بیڈمنٹن   سب میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا تھا۔ سکول کے بعد جب کالج میں داخلے کا مرحلہ آیا تو  سپورٹس ریزروڈ سیٹوں پر داخلہ کی  اُسکی خواہش پوری نہ ہوسکی ۔  وجہ صرف اور صرف  سفارش کا نہ ہونا تھی۔ یہ  1988 کی بات ہے۔ اسی سال  اولمپکس گیمز میں ہمارے ایک باکسر حُسین شاہ نے پاکستان کے لئے    واحد کانسی کا تمغہ جیتا۔  بس یہیں سے  مُنیر کی زندگی نے اِک موڑ لیا وہ باکسنگ کے کھیل میں دِلچسپی لینے لگا۔ 1989 میں ہونے والی سیف گیمز میں جب پاکستان کے باکسرز نے تما م  کے تما م گولڈ میڈلز جیت لئے تو  میرے دوست کی مکے بازی کے کھیل سے دِلچسپی بہت بُلندی پر پہنچ  گئی۔ اُس نے اپنی محنت کے سرپر  انٹر کالجئیٹ  باکسنگ میں شرکت کی اور میڈل جیتا۔ گو کہ اُسے اپنی ویٹ کیٹیگری سے  بڑی کیٹیگری میں اُتارا گیا ، یہاں پر وجہ اقربا پروری بنی۔ مگر اُس نے  گلہ شِکوہ کرنے  کی بجائے جواں مردی سے حالات کا مُقابلہ کرتے ہوئے اپنی پوزیشن بنائی۔  اور پھرباکسنگ رِنگ میں  پھُرتیاں دِکھانے والا مُنیر احمدمعاشی حالات کے  شکنجے میں آگیا ،گھر میں بڑا ہونے کے ناطے باپ کا دایاں بازو بننا اُس کی اولین ذمہ داری ٹھہری۔ وہ انٹر کے بعد ایک  غیر معروف پرائیویٹ  ادارے میں مُلازم  ہو گیا۔ تاہم اُسکا شوق  اُسکے ساتھ چپکا رہا۔

اِک معمولی سی سیلز مین کی جاب ، کمر توڑ محنت کے بعد ماہانہ   تنخواہ مونگ پھلی کے دانے موافق۔ اس تنخواہ کے دو حصے والد صاحب کی خدمت میں اور ایک حصہ ماں کے قدموں میں ، اور باقی کا بچا   کلب کی فیس ۔۔۔ کلب میں مُنیر کی محنت تین  سال بعد رنگ لائی اور اُسے   ایک  بڑے پرائیویٹ ادارے نے بطور باکسر اپنے ہاں کنٹریکٹ پر بھرتی کر لیا۔ اُس نے اس  ادارے کی طرف  سے چار بار نیشنل  ایونٹ میں شرکت کی  جس میں دو برانز ایک  سلور میڈل جیتا اور ایک بار بنا  میڈل واپسی ہوئی۔ یہاں پر بھی اُس کے ساتھ پنجابی بلوچی اور مکرانی  کے نام پر   ہاتھ کیا گیا۔ اُسے  ٹریننگ کے لئے باہر بھیجنے  کی بجائے اپنوں کو اُس پر فوقیت  د ی گئی ۔ کوچ نےخود اُس کا رستہ روکنے ،حتی کہ  اُسکی جیت میں روڑے اٹکانے تک کا کوئی موقع ضائع نہ ہونے دیا۔ قریباً چھ سالوں کی نوکری کے بعد اُسکے ہاتھ میں شُکریہ کے ساتھ خُدا حافظ  کا  پروانہ تھما دیا گیا۔ اور یوں سن 2001 میں اِک غریب  کی مُکہ بازی سے  محبت کی داستاں کے  پہلے حصے کا اختتام ہوا۔

میں نے اُسے  زندگی کے کسی موڑ پر کبھی مایوس نہیں دیکھا  ہمیشہ اِک نئی اُمید کے ساتھ مُسقبل میں زندہ  پایا۔  وہ محمد علی کو  اپنا پیر و مُرشد مانتا ہے۔ اُسکے کمرے کا مال و متاع   محض لٹکے ہوئے گلوز کا جوڑا  ،چند میڈل اور دیواروں چِسپاں اُسکے پسند ہ   باکسرز کی   پوسٹر سائزتصاویر ہیں،جن میں ہولی فیلڈ ، لینکس لیوس ، پرنس نسیم ،جارج فور مین  ، مائیکل سپنکس اور سب سے نُمایاں  عظیم محمد علی  شامل ہیں  ۔وہ  مائک ٹائسن کو باکسر نہیں مانتا تھا۔  اُسکی زندگی کا پہلا ٹارگٹ ایشین گیمز   میں شرکت کرنا تھا۔   اُس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر  نہ ہو سکا ۔ البتہ ایشین گیمز2002میں ایک پاکستانی باکسر  مہراللہ  کے گولڈ میڈل جیتنے پر صدرِپاکستان نے 50 لاکھ کے انعام کا اعلان کیا   تو میں   نے مُنیر احمد  کو بچوں کی طرح  خوش ہوتے  اور چھلا   نگیں مارتے دیکھاجیسے اُسکی اپنی 50 لاکھ کی لاٹری نکل آئی ہو۔مگر جب کُچھ سالوں بعد مہرُللہ پر چرس  کے استعمال کی وجہ  سے  ،   پابند ی عائد کی گئ  تب  بھی مُنیر کا ڈھلکا چہرہ ا اُسکی معصومیت کو ظاہر کر  رہا تھا ۔مُنیر کو کرکٹ کے کھیل سے چِڑھ سی تھی وہ اکژ سٹے بازی  میں بدنام  ہوئے کرکڑز سے باکسنگ رنگ میں مُلاقات کی خواہش کا اظہار کرتا ،تاکہ اُنہیں  چوکوںاورچھکوںکےاپنے  ریٹ بتا سکے ۔ میں نے اُسکوکرکٹ کے کھیل  میں بھی  پاکستان کی جیت کے لئے  دعائیں کرتا  ہی دیکھا ۔              

میں  کبھی حیران نہیں ہو اکہ مُنیر رِنگ میں اِتنے زور دار مکے کیسےسہہ  جاتا ہے۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اِس کے اندر بلا کا صبر اور برداشت ہے مگر مُجھے حیرت ہوتی تھی کہ چڑیا کے بچے کو بِلی کے مُنہ میں دیکھ کر تڑپنے والا انسان دوسرے انسان   کو مارتا کیسے ہے۔ وہ جواب دیتا کہ رِنگ  میں اِسکی  توجہ فقط اپنے ہُنر اور اِسکی خوبصورتی پرمرکوز ہوتی ہے۔اُسکو رِنگ سے نِکل  کر میں نے پریشان محض اِس بات پر ہوتے  دیکھا کہ ماں جی سے اپنا زخموں بھرا چہرہ کیسے چھُپائے گا۔ ماں جی  صحیح معنوں میں ایثارو قُربانی کی عالمی سفیر تھیں۔ نماز روزہ ، خود کی نفی ،قُربانی اور  خِدمتِ خلق بس یہی تھا  اُن  کی زندگی کا خُلاصہ۔ یقیناً 
ایسی مائیں ہی اِس دھرتی پر ایسے پیڑوں کے تحفے دیتی ہیں، جنکی ٹہنیاں جھُکی ہوئیں اورپھل میں شہد  کی مٹھاس ہوتی ہے۔

میر ی اُس سے جب بھی مُلاقات ہوتی خوب لمبی ہوتی اور جِس کا بیشترحصہ   کھیلوں پر تبصرے میں گُزرتا۔  حسب عادت میں اُسے بولنے کا موقع کم دیتا اور  وہ  بیچارہ چند الفاظ بیان کر کے مائک پھر سے مُجھے تھما دیتا۔ میں اُسے ازراہ مذاق کہتا کہ تم  اگر کبھی محمد علی کہ طرح ورلڈ ٹائیٹل جیت بھی  لو  گے تو  صحافیوں کو کیسے جیتو گے۔ محمد علی رنگ میں مُخالف کو ناک آؤٹ کرتا تھا تو  صحافیوںکوبھی ناکو ں چنے چبوا دیتا تھا۔ یہ سُن کر وہ  بہت سنجیدہ  سا مُنہ بنا کر کہتا کہ تُمیں کیا پتا کہ میرے پاس کہنے کو کیا کُچھ ہےمگر۔۔۔۔ وہ مُجھے  ہمیشہ کہتا تھا کہ ہمارے مُلک کی زمین میں بہت  طاقت ہے  یہ سونا اُگلتی ہے اور اس دھرتی پر بسنے والے لوگ بڑے سادہ، نرم دِل مگر  فولادی  عزم وحوصلے کے مالک ہیں ۔ اُس کا یہ ماننا تھا کہ  ہمارے یہاں بہت ٹیلنٹ موجود ہے بس اسکو ایک سمِت دینے کی ضرورت ہے۔وہ اپنی مثال دیتا کہ کیسے حُسین شاہ   کے اِک میڈل  نے  اُسے باکسنگ سےجوڑ دیا اور اگر  شروع دِنوں میں اُسے  مناسب راہنمائی اور سرپرستی مِلتی تو وہ بھی۔۔۔   میں اُسکو یہی جواب دیتا کہ  ابھی ہمارا نظام   انتظامی  طور پربہت پیچھے ہیں۔ ہمارے سِسٹم کی  ابھی بہت کانٹ چھانٹ  باقی ہے۔ میں اُسے محُمد علی کی مثال دیتا  کہ 80 کی دہائی کے اوائل میں  اُسکی  فائٹ  پی ٹی وی  براہ راست نشر کرتا تھا  جبکہ ہمارے ہاں براہ راست میچز  دکھانے  کا تصور تک نہ تھا اور یہ پوری   قو  م اِسے کُفر اور اسلام کی جنگ تصور کئے فتح اسلام کی تمنا دِل میں لئے   جذباتیت کی چادر اوڑھےٹی و ی سکرین کے آگے بیٹھ رہتی۔  اور پھر کیا ہوا  بس رات گئی اور بات گئی ۔وہ میری بات سُنی ان سُنی کرتے ہوئے اپنے سر کو  نفی میں معمولی سی جُنبش دیتا اپنی دھرتی ماں  کی  مزید صفات بیان کرتا اور جہانگیر اور جان شیر کی مثال دیتا کہ کیسے  اُنہوں  فقط اپنے ٹیلنٹ پر ساری دُنیا کو دہائیوں تک زیر کیےرکھا۔ میں اُس سے   آج کی سکوائش میں پاکستان کی ریٹنگ پوچھتا  تو وہ  ذرا سا چِڑ ھ کر کہتا یار ہم آج بھی سب کُچھ کر سکتے ہیں بس دِل میں لگن، نیت میں صفائی اور تھوڑی سی راہنمائی چاہئے۔میں اُسے مزید چڑانے کے لئے کہتا کہ دِل کی لگن اور نیت کی صفائی کے لئے ہمیں امریکہ ہی سے کوئی دوائی  اِمپورٹ کرنی پڑے گی ۔ ہر بار ہماری بحث  ایسے ہی طول پکڑتی جاتی۔میں اُسپر زور دیتا کہ  سُہانے خواب دیکھنا اچھا ہے مگر اُن کے پورے ہونے کی اُمید لگانا بے وقوفی۔ ہم تو ایسی گیمز جِن میں ہماری اِجارہ داری تھی  اُنہیں نہ سنمبھال پائے۔ ہاکی  کے گراؤنڈز  ویران پڑے ہیں کبڈی کا کوئی پراپر اِنفرا سڑکچر ہم نہیں دے سکے اور تو اور کُشتی کے اکھاڑوں  کی ہماری روایات دم توڑ گئیں  اور اب وہاں چرس مِلتی ہے یا غُنڈہ گردی کو فروغ۔ میں اُسے حقائق کی طرف کھینچتے ہوئے بتاتا  کہ تُمہارے کھیل پر  کوریا، رشین ممالک ،تھائی لینڈ، جرمنی ، امریکہ  اور  چھوٹے سے کیوبا کا  مُکمل کنٹرول ہے۔ پروفیسر انور چوہدری  کے بیس سال تک آئبا کا صدر  رہنا ہمیں کُچھ خاص فائدہ نہ دے سکا تو اب بھلا ہم کیا اُمید رکھیں۔اس ساری بحث کا ڈراپ سین وہ اپنے جذبات کے سمند ر میں  ڈبکی  لگا  کر کرتا۔وہ اپنے دِل کے خواب مجھ سے شئیر کرنے لگتا اُس کی اِس شیئیرنگ کے دوراں میں مُکمل خاموش ہو جاتا  اور اُسکے اندر کے اُبال کو باہر نکلنے  دیتا۔ وہ اپنے خوابوں کی بات کرتا   اپنی خواہشات بیان کرتا،  اولمپکس میں اُس کی گیم  باکسنگ میں ایک میڈل  کی تمنا کا اظہار  کرتا ، کوئی  سا ایک میڈل اُس کے گھر سے  ،اُسکی  گلی سے ، اُسکے گاؤں سے اُسکے شہر سے یا پھر مُلک کے کِسی کو نے سے ۔  وہ  اپنے گاؤں میں نوجوانوں کی  بے راہ  روی، اسلحے کی طرف اُن کے  رُجحان ،   لڑائی مارکُٹائی، اور فروغ پاتا  بدمعاشی کلچر  نتیجاً  کورٹ کچہری اور فوج داری مُقدمات میں گلتی ہو ئی گبھرؤوں کی  جوانیوں پر اپنا دُکھڑہ روتا۔ وہ   ہندی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ہندی کلچر  کے پھیلتے ہوئے زہر  سے بھی خائف نظر آتا۔ اور پھر  وہ کھیلوں کے ذریعے دیہاتوں کے ماحول کو  صحت مند بنانے کااپنا  خواب دہراتا۔ ایسا خواب جِس میں وہ اپنے گاؤں کے ہرے بھرے کھیتوں  میں گھِرے گراؤنڈ میں  بچوں کو مُختلف کھیلیں کھیلتا دیکھتا ہے۔ وہ کِسی کو دوڑیں لگاتا دیکھتا ، کِسی کو کُشتی لڑتے ، کُچھ بچے کبڈی کھیل رہے ہوتے اور دو چار گراؤنڈ کے اِک کونے میں مُکے   بازی کا فن سیکھ رہے ہوتے۔    اس دوران میں اُسکے خوابوں  کی نزاکت  کو محسوس کرتے  ہوئے اپنے لب سئیےرکھتا۔

میرا دوست پِچھلے دس سالوں سے ایک فِٹنس   کلب میں ٹرینر کی نوکر ی کررہا ہے مگر آج بھی اپنے  ہی گاؤں میں بیوی ،تین بچوں اور ماں با پ کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ اُسکا ایک بھائی  بڑے شہر میں شفٹ ہو چُکا ہے اور دوسرا بہتر  مُستقبل کے لئے کینیڈا  سکونت اختیار کر چُکا ہے۔  منیر احمد کو بھی باہر جانے کے بہت سے مواقع دستیاب ہوئے  مگر وہ  اپنے خوابوں  اور اُمیدوں کو  دامن میں لئے اپنی دھرتی ماں سے چِپکا بیٹھا ہے۔
مگر آج فون پر اُسکی زبان کی تلخی   اس مُلک کے سِسٹم سے بیزاری کو ظاہر کر رہی تھی اور اُسکی  اُونچی آواز میں کہی ہوئی مایوسی کی باتیں مُجھ پر خوف طاری کررہی تھیں۔مُنیر احمد کے مُنہ سے اِس مُلک کو چھوڑ جانے کی بات سُن کر  میرے جِسم کا بال بال کھڑا ہوگیا۔وہ محض اخبار کی   ایک کالمی چھوٹی سی خبر پر اِتنا سیخ پا ہو رہا تھا۔ خبر  کُچھ یوں تھی ۔ "لندن اولمپکس کے لئے پاکستان کا کوئی بھی باکسر کوئیلفائی نہ کرسکا، جبکہ بھارت کے سات باکسرز نے لندن اولمپکس میں اپنی جگہ بنا لی" مُنیر اپنے  خوابوں کے محل کے زمین بوس ہو جانے پر اتنا دِلبرداشتہ تھایا کوئی معاشی مسئلہ اُسکو اپنے  شیطانی شِکنجے میں لئے ہوئےتھا اِس کا فیصلہ میں ابھی تک کر نہیں پایا۔            








.








.

Sunday 8 April 2012

BATAA TERY RAZA KIA HAI by Dohra Hai


 اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی ہی ٹانگوں میں سے گُزار کر کانوںتک پہنچانے کی مشق کا خیال دِل مِیں آتے ہی مُجھ جیسے بہت سے سرکاری میڈیم زدہ لوگ سکول کے کلاس روموں میں گُم ہو جاتے ہیں ۔ہمارے  بزرگوں نے ہمیں اس عمل کا نام مُرغا بننا بتایا ۔اب اس سوال کا جواب کوئی محقق ہی دے سکتا ہے کہ مُرغی کا مُذکرپہلے دُنیا میں آیا یا ۔۔۔۔۔ اس یوگا نُما مشق کا زیادہ استعمال اسکولوں میں بہتر نتائج کے لئے کیا جاتا ہے۔ ہمارے اُردو کےماسٹر جی  بھی  اس ہتھیا ر کا استعمال بڑی مہارت سے کرتےتھے۔ وہ صاحب ذوق شخصیت تھے اکژ اپنا پسندیدہ شعر گُنگُناتے تھے
چار کِتاباں آسمانوں اُتریاں پنجواں اُتریا ڈنڈا
چار کِتاباں کُجھ نہ کیتا ڈنڈا کیتاسیدھا
یہ شعر محض گُنگُنانے کے لئے نہیں تھا بلکہ اس پر مُکمل عمل بھی ہوتا تھا۔ بس یہی تھےوہ حالات جنمیں ہم نے ماسٹر جی سے حضرت عِلامہ اِقبال کو پڑہا بلکہ سمجھا۔ جب کِسی شاگرد کو قریباً بیس منٹ تک مُرغا بنا یا جاتا تو موصوف کے دماغ کی تمام بند الماریوں کے قُفل کھُل جاتے،اور پھر بید کی لچک دار چھڑی بِنا آوازکےپتلی کمریا پر نشان چھوڑتی،تو پورا شعر بمعہ تشریح اُن الماریوں کے خانوںمیں نہایت سلیقے سے فِٹ ہو جاتا تھا نہ ایک سوتر زیادہ نہ کم۔ 
  جب ہم  نے عملی زندگی کو رونق بخشی  تواس ظالم دُنیا نے بھی ہم پر وہی ماسٹر جی والا کُلیہ ہی آزمایا مگرقدرے ہا ئی  ڈوزکے ساتھ۔ فِکرِ مُعاش  کی دوڑ دھوپ میں اقبال ، اُسکا فلسفہ  خودی ، اور فِکرِ اقبال کُچھ ایسی گُم ہوئی جیسے 
سرکاری دفتر میں کوئِ قیمتی فائل گُم ہوجاتی ہے۔

مگر ہماے یہاں ٹیلنٹ کی کمی تھوڑا ہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اقبال کی فِکر اورفلسفے کا بہت باریک بینی کے ساتھ مُطالعہ کیا اور جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اِس میں ترمیم و اضافےبھی کئے۔ جیسے کہ ہمارے سیاستدان ،جِنہوں نے اقبال کے کہے پر من و عن عمل کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری میں" جمہوری تماشہ" کا ذِکر کیا ہے تو ہماری سیاسی اشرافیہ نے نت نئے جمہوری تماشے کر کے دِکھائے اور جمہوریت کا ایسا ماڈل ڈیزائن کیا کہ پوری دُنیا میں کوئی شلوار نہیں ملتی جو ان ننگی ٹانگوں کی ستر پوشی کر سکے ۔ جہاں تک قمیض کا تعلق ہے تو جمہوریت کے تخلیق کُندگان،اہلِ مغرب نےاسے رکھا ہی ٹاپ لیس ہے۔  البتہ جمہوریت کی شلوار سے چھیڑ خانی ہمارے ہاں ہی ہوئی ہے۔
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیا ست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہ افلاک
ہماری ہاں کی اشرافیہ میں بیوروکریٹس کا ایک اہم مقام ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ، ذہین اور فِکری استطاعت کے حامل یہ افراد معاشرے کا سب سے اہم طبقہ ہیں۔ اس طبقے نے اقبال کا خوب باریک بینی سے مُطالعہ کیا، بدلے ہوئے زمانے کے انداز کو بھی ملحوظ خاطر رکھا، نئے راگ کے لئے ساز بھی بدلے اور آواز بھی۔اور یوں اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھا۔ اقبال کی شاعری میں بہتری اور جِدت بھی پیدا کی
خودکوکر بُلند اِتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے      
خلقِ خُدا تُجھ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

پاک سرزمین کے مُحافظ ہماری اشرافیہ کی لِسٹ کو سدا سے لیڈ کررہے ہیں۔ اقبال سےان کی بھی جزباتی وابستگی ہے۔ البتہ کُچھ ردوبدل بوقتِ ضرورت محض سٹریٹیجک پلیننگ کے لئے ناگزیر ہے۔ حضرت اِقبال نے فرمایا:


نہیں تیرا نشیمن قصرِسُلطانی  کے گُنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
عسکری قیادت کی وار سٹریٹیجی میں اس شعر کو مرکزی خیال کی حیثیت حاصل ہے ۔ بس تھوڑی سی سمارٹ نیس دِکھائی گئِ ہے،شائد تنقید کرنے والوں کو وہ کُچھ اوور لگتی ہو۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر شاہین بنا کے بٹھا دئے طا لبانی اور خود کے لئے قصرِ سُلطانی کے ڈرائنگ روم۔آفڑ آل وار میں کیمو فلاج بھی اِک سود مند لائحہ عمل ہے۔