Sunday 17 February 2013

جمہوریت یا جمہوری تماشا




18 فروری 2008 کو قوم نے اپنے نمائندوں کا اِنتخاب کیا تھا۔کھِلتے گُلاب ،مہکتی بہار  اور مُسکراتے ہوئے سورج نے ہر طرف رنگ تو بکھیرے  ہی ہوئے 

تھے مگر سیاسی میدان کی گرما گرمی نے اِس دِن کی غضبناکی میں دُگنا چُگنا اِضافہ کر دیا۔  میں شیر کی تصویروں سے سجی گاڑی میں اپنے کزن کے  ساتھ پولنگ 

سٹیشن تک گیا تھا۔اُس وقت تک پولنگ سٹیشن پرزیادہ رش نہیں ہوا تھا۔ میرے کزن نے ووٹ ڈالا مگر میں مُشرف کے اِس این آر او زدہ الیکشن کا حِصہ نہ بننے کا 

پہلے سے ہی فیصلہ کر چُکا تھا۔ بقیہ دِن اخبار پڑہتے ،ٹی وی دیکھتے اور  لذیذ کھانوں کے ساتھ سیاست پر چسکور ی گفتکو  کرتے گُزرا۔میں ٹی وی پر جمہوریت کے حق  

میں کئے گئے سیاسی تبصرے سُنتا رہا اور جھومتا رہا۔مثلا! "پاکِستان میں دو پارٹی سِسٹم رواج پا چُکا ہے" "پاکِستانی ووٹرزبہت باشعور ہو چُکے"۔پاکِستان میں مضبوط ہوتی 

جمہوریت اور فروغ پاتے جمہوری کلچر کے مُثبت اِشارے دِل کو بہت بھانے لگے۔  جمہوریت کی دھمال ڈالتا ہوا میرا ذہین اِس بات کو قطعی طور پر نظر انداز کر 

تا رہاکہ میری بیگم تمام دِن اپنی مرضی کے مُطابق ووٹ کاحق اِستعمال کرنے کی خواہش ظاہر کرتی رہی مگرمیں اُس پر اپنی مرضی مُسلط کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

قائد اعظم  نے نہ جانے کِن مُسلمانوں کا خون کِس لیبارٹری سے چیک کروایا تھا ،جِس کے مُطابق جمہوریت مُسلمانوں کے خون میں شامل ہے۔


میری چسکوری فِطرت نے مُجھے  ہمیشہ مجبور کیا کہ میں اپنے گھر سے قریب مین روڈ پر دہی بھلے کی  ریڑھی پررالیں ٹپکاتے ہوئے  ہر دوسرے تیسرے دِن حاضری دوں۔

جب تک میں فیصل آبادمیں  رہا یہ سِلسلہ اِسی طرح چلتا رہا  ۔پچھلے دِنوں  فیصل آباد کا چکر لگا تو میں اُس دہی بھلے کی ریڑی پر پیٹ کا چسکا بھرنے پہنچ گیا۔ بہت کُچھ 

بدل گیا تھا اِرد گِرد کا ماحول بھی اور دہی بھلے  والا بھی ۔اُس سادہ سی ریڑھی کی جگہ برقی قمقموں سے سجے سٹال نے لے لی تھی ۔  مُجھے نہ تو اِس بدلے ماحول  میں 

کوئی کشش محسوس ہوئی اورنہ  ہی دہی بھلوں  کی پلیٹ نے وہ پہلے کا سا مزہ دیا۔رات کا وقت تھا اور رش بالکُل بھی نہ تھا۔میں نے اپنا چسکا پورا کرنے کی دہی بھلے 

والے سے  سیاست کا موضوع چھیڑ دیا۔ جناب نے مُجھے سیاست پر اچھا خاصہ لیکچر دے ڈالا جِس کا  اِختتام اِن الفاظ پر تھا "وڈی بُرائی دی جگہ چھوٹی بُرائی دا اِنتخاب 

ہی بہتر ہے "۔ اُس کا یہ جواب مُجھے بیس سال پیچھے لے گیا۔جب اِسی جگہ پر اِسی  کے باپ نے یہ "چھوٹی بُرائی تھیوری "میٹرک میں پڑہتے ہوئے اِک بچے کو سمجھائی 

تھی۔میں کافی دیر تک وہیں بیٹھا یہ سوچتا رہا کہ پِچھلے بیس سال میں کیا کُچھ  بدلا اور کیا کُچھ جوں کا توں ہی رکھ دیا گیا۔ مگر کب تک کے لئے؟؟؟


تُم آنے والے الیکشن میں کس پارٹی کو ووٹ دو گے؟ یہ سوال جب میں نے اپنے ایک اچھے خاصے پڑہے لِکھے دوست سے کیا تو اُس کا جواب تھا :"اُسی پارٹی کو 

جِسے  2008 کے الیکشن میں ذِمہ داری سونپی تھی ۔اپنے اِس جواب کی وضاحت میں بتانے والے نے  بتایا  " ہماری گلی کی ٹوٹی سڑک نئی بنا دی گئی ہے ۔ محلے کا 

کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا بندوبست کر دیا گیاہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ میرے بچے کا برتھ سرٹیفیکیٹ میری منشا کے عین مُطابق 2 سال کم کرکے تیار 

حالت میں میرے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے اب اِس سے بڑھ کر مُجھے اور کیا چاہئے؟ "بس یہی ہے ہماری جمہوریت کی پانچ سالہ پرفارمنس ۔ہماری پانچ سالہ جیتی 

جاگتی جمہوریت نے لوکل باڈیز سطح کے کام قانون ساز نمائندوں کے حوالے کئے رکھےہم پر ڈیڑہ سو سالہ کمشنری نظام مسلط رکھااور اِسی کو جمہوریت کا  نام دیاجا تا رہا ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ آج بھی  
ہمارا قانون ساز نمائندہ ڈیولپمنٹ فنڈ کے سر پر اپنی کارکردگی منواتا ہوا نظر آتا ہے ۔


پِچھلے دِنوں لاہور میں چلنے والی بس سروس کو دیکھ کر حقیقی معنوں میں خوشی محسوس ہوئی  مگر اِس بس کو اِنقلابی رنگ دینے کے لئے میر ے ہی دئے گئے ٹیکس 

کے سر پر جِس طرح سے پبلسٹی کی گئی وہ لمحہ فِکریہ ہے۔ کب تک ہمارے ہاں اِنقلاب سڑکوں ہی کے راستے آتا رہے گا۔ فِکری انقلاب کی طرف قدم کب اُٹھائے 

جائیں گے؟؟۔کہ جِس سے ہمارا ووٹر بِنا خوف اور لالچ کے سوچ میں آزاد ہوگا ۔ یہ  آزادی ہی ہمیں بالغ نظر بنا سکتی ہے ۔نہیں تو جمہوریت کے نام پر جمہوری 

تماشے یوں ہی چلتے رہیں گے۔


Saturday 2 February 2013

آدھا جھوٹ کا ایک سال



میرے تخیل نے جب بھی اُڑان بھرنے کے لئے پر تولے تو اُن کا وزن چند چھٹانکوں سے  زیادہ نہ نِکلا ۔کوشش در کوشش سے تولے ،ماشوں میں  اِضافہ تو ہوا مگر 

تخیل کاشوق ِ پرواز اِنہی ٹوٹے پھوٹے  اور بےوزن پروں میں ہی دم توڑتاگیا  ۔  مجبوراً   مُجھے  یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑا کہ یہ کم بخت میرا تخیل بھی حقیقی زِندگی کا 

آئینہ دار  ہے۔۔۔میر ی حقیقی زِندگی کی مثال اُس سرکاری دفتر کے آفس بوائے کی سی ہے  جو کہ صاحب کے روم کے باہر بیٹھا اکثر خوابِ اخروٹ کے مزے 

لیتا دِکھائی دیتا ہے .ایک کپ چائے کے لئے نیند میں خلل آنے پر مُنہ بسورتا ہوا کِچن کا رُخ کرتا ہے اور ایک عدد سینہ ساڑ قِسم کی  کالی چائے کا کپ طلبگار 

کی خِدمت میں دے مارتا ہے۔


 میں تخیل کے پرواز کا شوق تو پورا نہ کرپایا  مگر اپنا خیالی انڈےاُبالنے کا شوق ابھی تک پالے ہوئے ہوں۔انڈوں کا یہ خیالی کاروبار کِسی شیخ چلی کی صحبت کا  اثر 

نہیں ہے بلکہ یہ انتخاب میں نے اپنی سہل پسندی کی عادت کے باعث خود ہی فرمایا ہے ۔ایک تو دماغ میں اُبل اُبل کر یہ انڈے خود ہی پک جاتے ہیں   اور میرے تخیل 

کو دوام  بخشنے کا باعث بنتے ہیں ۔دوسری بات یہ کہ اگر  کُچھ کرنے کو دِل نہ چاہے تو بِنا کِسی جھنجٹ کے توڑ کر پھینکنا بھی آسان کام ہے۔ جہاں تک مُجھے یاد پڑتا ہے خیالی انڈے 

اُبالنے کا  شوق مُجھے بلوغت کی پیچیدہ زِندگی میں قدم رکھنے سے پہلے سے  ہے۔جب میں اپنی دادی اماں سے روپیہ دو روپیہ لیکر رگلی میں  بِکتی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں خرید 

لاتا تھا اوراُنہیں غُسل خانے   میں  سیمنٹ کےبنے  بڑے سےباتھ ٹب میں ڈال کر اُن کے بڑے ہونے کا اِنتظار کر تا تھا۔وہ مچھلیاں چند دِن بعد مرنے سے پہلے 

میرے نام ہزاروں انڈے وصیت کر جاتی تھیں۔ میں آج بھی اُنہی انڈوں  کو   خیالوں میں لئے  جی رہا ہوں۔


میرے دور کی جینریشن نے وی سی آر کے توسط سے تعلیم تو خیر حاصل نہ کی  مگر  تربیت کو خوب  گلے لگایا۔ایک دور تھا جب  ایک رات کے لئے وی سی آر کرائے 

پر لایا جاتا اور بغیر کسی بریک کے چار چار فِلمیں ہضم کی جاتیں۔بعض اوقات چلتے چلتے وی سی آر  کے ہیڈ میں کچرہ آنے سے فِلم سے فِلم بینوں کا رابطہ مُنقطہ ہو جاتا 

ایسےمیں ہیڈ صاف کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ میری تخیلاتی دُنیا  میں بھی انڈے اُبال  قِسم کےخیالات فِلمی انداز میں ہر دم چلتےرہتےہیں۔مگر بعض اوقات ہیڈ میں کچرہ آجانے 

کے باعث ہیڈ کی صفائی نا گزیر ہو جاتی ہے بس اِس صفائی کی خاطر میں  قلم اُٹھاتا ہوں اور کُچھ لِکھ ڈالتا ہوں۔

میں نے جب بھی لِکھا خود ہی پڑھا اور کُچھ دِنوں بعد پھاڑ کر پھینک دیا۔پِچھلے سال فروری میں میرے ایک قریبی دوست کے ہاتھ میر ی ایک تحریر لگ گئی ۔ 

جناب میرا وہ قیمتی کاغذ لے اُڑے ۔ اگلے دِن میں اپنی پُرانی سی سکوٹری پر   وہ کاغذ لینے اُن کے گھر جا پہنچا۔ موصوف نے وہ "قیمتی اثاثہ" میرے ہاتھ میں دیتے 

ہوئے ایک عدد مشورہ دے ڈالا۔"یار  یہ جوتُم فضول قِسم کی بکواس لِکھنے میں وقت برباد کرتے ہواِس س کہیں  بہتر ہے کہ اپنی اِس گند ی ہوتی  سکوٹری کو پانی و کپڑا   

مار کر صاف کر لیا کرو"۔ واپسی پر گھر جاتے ہوئے میری پھٹیچری گاڑی نے اِتنا دھواں نہیں مارا ہوگاجِتنی میرے مُنہ سے اُن کے لئے دھواں دار القابات برآمد ۔ 

بس پھِر میں نے ضِد میں آکر اپنا بلاگ بنا ڈالا۔مگر یہ میرے  محترم دوست کا بڑا پن ہے  کہ اُس نے اپنی کہی بات  کو انا کا مسئلہ نہ بنایا بلکہ وہ بلاگ پر تشریف 

بھی لاتے ہیں اور مُفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ بڑے لوگ ہمیشہ بڑے دِل والے ہوتے ہیں۔


ہمارے معاشرے میں ہر طرف سچ ہی سچ بِکھرا ہوا ہے ہر چینل اور اخبار سچ کےاصولوں پر قائم اور  ہر کوئی سچ بول رہا ہے  اور بیچ  رہا ہے ۔ بڑا سخت مُقابلہ ہے 

اِس میدان میں ۔اِسی لئے  میں نے جھوٹ کا اِنتخاب کیا اور اپنا بلاگ جھوٹ سے  شُروع  کیا ہے  آدھے جھوٹ سے ۔ یہ تجربہ کامیاب رہا تو پورا جھوٹ بولنا بھی 

شُروع کیا جاسکتا ہے۔


میں خصوصی طور شُکریہ ادا کرنا چاہوں گا اپنے دیرینہ دوست  جعفر حُسین کا جِس نے   میری بھرپور  راہمنائی کی ۔وہ واقعی اُستاد کہلائے جانے کا حق دار ہے۔

شیخوں کی کنجوسی کے مُتعلق ہزار قِصے مشہور ہیں ۔ مگر میرے ایک شیخ  دوست ہیں ۔ وہ  مُجھے بِنا پیکج  لمبے لمبےفون کرتے ہیں اور اپنی پریکٹیکل  دُنیا  کے  قیمتی تجربات مُجھ 

حقیر سے شئیر کرتےہوئے   ہمیشہ میری راہنمائی و حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔میں اُن کا شُکریہ ادا کرنا  ضروری سمجھتا ہوں۔

میں تمام ریڈرز اور ساتھی بلاگرز کا بھی مشکور  ہوں جِن کے قیمتی کومنٹس  میری تربیت اور فِکری بلوغت کا   باعث بن رہے ہیں ۔آپ   دوستوں کا ساتھ رہا 

تو یہ سِلسلہ چلتا رہے گا۔(اِنشاللہ)