Saturday 22 November 2014

نئی ٹوکری میں گندے انڈے

سوہنے رب نے سوہنا دِن بائیس  گھنٹوں کا بھی بنایا  ہوتا تو کم نہ تھا ، بس  یہ  عصر سے مغرب کا دورانیہ  ہے  جو ہمیشہ قلیل ہی  لگا۔ ہم نے زندگی کی رونقوں کو  اپنے جوبن پردِن کے اِسی حِصے میں دیکھا۔ جاگتی دُنیاؤں کا حسُن مغرب سے عِشا تک بھی ماند نہ پڑتا تھا مگر ہم ہاف ممی ڈیڈی قِسم کے واقع ہوئے تھے ،اِن محفلوں سے مستفیذ ہونا ہماری قِسمت میں کم کم  ہی لِکھا  گیا تھا۔ "اولاد کودو سونے کا نِوالہ لیکن  دیکھو شیرکی آنکھ سے" اِس  ضرب المثل  پر مماں یقین  نہ رکھتی تھیں۔ بلکہ اُن کا کہنا تھا کہ  اولاد  کودیکھو بھلے جِس مرضی آنکھ سے  بس محمد علی کے مُکے سے دبی رکھو۔ مماں کی ڈانٹ تو اپنے ٹامی کو پڑجاتی تو  وہ دو دِن گلی میں جھانک کر نہ دیکھتا تھا۔ہم تو۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں مادری زبان کے طوراُردو نصیب ہوئی اور بڑی سختی سے اِسی زبان پر کاربند رہنے کا حُکم صادر ہوا ۔ ہمارے پاپا ہمیشہ  پنجابی میں بات کرتے اور ہم اُردو میں جواب دیا کرتے تھے۔ پنجابی کے ساتھ ہم نے وہی سلوک کیا جو گاؤں کے غریب دیہاتی رشتے داروں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ہمیں  اُمید ہے کہ نئی  نسل ہماری اُردو  کو اپنے ڈرائنگ روم تک لے جانے کی زحمت  بھی گوارا نہ کرے گی۔

ِذکر دِن کی اُن حسین گھڑیوں کا  چھڑا ہے جب عصر کی نما ز کے بعد محلے کے بزرگ مُختلف ٹولیوں میں گپیں لگاتے گلیوں میں نظر آتے اور پھر اپنے اپنے مخصوص  کردہ تھڑوں  پر جا بیٹھتے تھے۔ محلے کےچوکوں میں قُلفی والا، لچھے ملائی والا۔ گولے والا سب  ریڑھیاں سجا لیتے تھے۔سردیوں میں اِن کی جگہ مونگ پھلی اور خُشک میوہ جات لے لیا کرتے تھے۔ چھوٹے بچے  بچیاں  بچپن کی معصومیت  بھرے کھیل کھیلتے نظر آتے ۔ کُچھ اٹھکیلیاں کرتے ٹیوشن سنٹروں کو جاتے دِکھتے ۔ لڑکے بالوں کے ٹولے سڑکوں  پر مل مارےکوئی  کھیل  یا کرکٹ کھیلتے نظر آتے ۔ اِس گیند بلے کے کھیل نے  توہمارے ہاں جنگلی شہتوت کی طرح 
جڑ پکڑ لی ہے ۔ ہر طرف   سے چوکے چھکوں کی آوازیں آتی ہیں۔

اُس دن بھی  بعد ازنماز عصرہم  لوگوں نے  حسب معمول پیپسی کے دو ڈالے بطور وِکٹیں لگا کر اپنے کھیل کا آغازکیا تھاکہ گلی   میں چوہدری فتح صاحب کی آمد ہوئی  ۔اپنی گلی کا موڑ مُڑ کر ساتھ والی گلی میں آخری مکان اُنہی کا تھا ۔  چوہدری فتح صاحب ابھی باؤلرز اینڈ کے قریب قریب ہی تھے ۔جب موٹا بلال   عرف لڈو  جو وِکٹ کیپری کے سوا بس دُشمن تھا اناج کا ،وائرس کی طرح پھیلا ہوا بھارتی فِلم   "تِری دیو " کا یہ  گانا گانے لگا "تِرچھی ٹوپی والے ہووووووو/بابو بھولے بھالے " ۔ سِلی مِڈ آن پر کھڑا شاد ہ   تو جیسے  چورن کے پھکے مار  کر آیا تھا،اِس  شیطانی لوری سے جھوم کر پھٹے ہوئے ڈھول کی  طرح  "اوئے اوئے،اوئے اوو اووااا" کہتا   لڈو   کا ہمنوا ہوا۔ اب اِس ساری سچوئشن کا  چوہدری فتح صاحب کے سر پر رکھی  پرہیز گارٹوپی سے رِشتہ کیونکر بنا ؟اس سوال کا جواب عِلاقے کی ڈیوٹی پر مامور شیطان کے سوا اور کِسی کے پاس نہیں ہے ۔چوہدری فتح صاحب نے پچ کے درمیان میں پہنچ کر پوزیشن سنبھالی اور پلک جھپکنے میں مارٹر گولوں کی بوچھاڑ کر ڈالی۔ کوئی جان بچاتے اپنے گھر کو بھاگا ،تو کوئی گلی میں  کھڑی گاڑیوں  پیچھے جا دُبکا ۔ میں خود شیخ صاحب کی سفید  اٹھاسی کرولا کے بیک بمپر کے نیچے گھُسنے کی کوشش میں لگا رہا۔ جو"بھاگنے " کا تجربہ رکھتے تھےاُنہوں نے دوسرا سانس ہی اگلے محلے پہنچ کر لیا۔ رب نے دُنیا  میں کوئی شے بھی بے مقصد نہیں بنائی اِس بات کا عملی تجربہ پہلی بار اُسی دن ہوا جب ہم نے موٹے بِلال کو ساری "گولیاں" بڑے حوصلے سے اپنے سینے پر کھاتے اور  اپنا دفاع کرتے  دیکھا ۔ چوہدری صاحب اور ہماری کرکٹ کا ویر کوئی نئی بات نہ تھی مگر ہماری آنکھوں نے جو ڈرامہ اُس دن دیکھا  وہ تصور سے کہیں بڑا تھا۔

اگلے دِن ہم مجمع بنائے میں ایسے کھڑے تھے کہ جیسے کرکٹ کےقُل   کا  اِرادہ  باندھا ہو۔اِتنے میں شیخ صاحب   اپنے مخصوص انداز میں  چھڑی کوا وپر تک  چلاتے ،لمبے ڈگ بھرتے ہوئے گلی میں داخل ہوئے۔  ہمارے پاس پہنچ کر رُک گئے اور پوچھنے لگے  "او مُنڈیو خیر ہے اج  روڈ تے میلہ نہیں سجیا؟" ہم نے کل کا سارا قِصہ اُن کو سُنا ڈالا۔  وہ بولے  "او جھلیو تتے توے تے بندہ کِنچ نچدا فیر کل تُسی ویکھ ہی لیا ناں ، اپنا ہائی بلڈ پریشر  نوں تتا توا  ہی سمجھو۔ چوہدری  تے ویسے وی  ذرا کپتا بندہ اے ۔تسی  وِکٹاں تھوڑیاں اگے کر کے لا لو تے ایک مُنڈا موڑ  تے کھڑا کر چھڈو ۔ باقی دو چار منٹ اگے پِچھے  ہوجا نا کیڑھا مُشکل اے"۔ ہم نے میاں صاحب کی بات پر عمل کیا ۔ اُس واقعے کےبعد بھی  دو چار بار ہمارا چوہدری صاحب سے ٹاکرا ہوا مگر اُس   ایک تجربے نے ہمیں خاصا سیانہ کر دیا تھا اور چوہدری صاحب کا غُصہ  بھی سُپیڈو میٹر کی  مقرر کردہ حدود میں ہی رہا۔یہ الگ بات ہے کہ  چوہدری صاحب کو ہم نے پھِر جگا ڈاکو کے نام سے ہی یاد کیا۔

ہمارے  محلوں ، کالونیوں میں   تھوڑی بہت اونچ نیچ کے ساتھ  کُچھ ایسا ہی  ماحول ہوا کرتا تھا ۔جہاں ایک  چوہدری فتح ہوتا ہے وہاں شیخ  صاحب جیسا کردار بھی  موجود۔ ۔ٹین ایج میں داخل ہونے والوں سے لیکر کر بیس پچیس سال تک کے لڑکے اِک دوسرے  کی تربیت کا باعث بنتے تھے۔ بزرگ بھی  اپنےتجربات سے ایسے نوازتے جیسے عِلمی عرق کے  بڑے پیار سے چھِٹے مار رہے ۔ پتا بھی  نہ لگ پاتا اور  نئی پنیری  کومعصومیت کی  کیاری سے بڑے کھیت میں  مُنتقل کر دیا جاتا تھا۔ جہاں وہ  دھوپ چھاؤں کی سختیاں جھیلنا سیکھنے لگتی۔ محفلیں جما کرتی تھیں بحث مُباحثے ہوتے تھے ۔ ہنسی مذاق کے ساتھ  ساتھ ہر معاملے پر بات ہوا کرتی تھی حتٰی کہ سیاست پر بھی ۔ جہاں   چین کی بنسی بجتی ہے  وہاں شیطانی   کان  بھی دھواں دینے لگتے ہیں۔کبھی کبھار تلخیاں بھی جنم لیا کرتی تھیں ۔ ۔ بالی عمر  سے گزرتے بچوں میں فطرتی  طور پر جذباتیت کا عنصر زیادہ  ہوتا ہے ۔حالات  جب بھی  کبھی تناؤ کی طرف جاتے تو بزرگ کِسی کا کندھا دبا کر کِسی  کو گلے لگا کر کو ئی لطیفہ  یا حکائت سُنا تے اور معاملہ سنبھال لیتے ۔
گلی محلوں کی رونقیں، وہ محفلیں  اب دم توڑتی جارہی ہیں۔  آج  کا   رونا ہے بس  پیٹ پوجا  ،  بھولا   ہر معاملہ دوجا۔گلی محلوں کی سوشل لائف  سوشل میڈیا  میں سمٹنے لگی ہے ۔نئی نسل جسمانی کسرت کی بجائے کمپوٹر گیمز سے مغز چٹوانے کی زیادہ شائق  ہو گئی ہیں ۔ وہ اپنی اُنگلیوں پرجدید دُنیا دیکھتی ہے ، سوچتی ہے، اپنے تئیں سمجھتی ہے، موازنہ کرتی ہے، پریشان ہوتی ہے ۔۔۔۔  خیالات میں   اِنتشار۔۔۔۔۔مگر اُسکا کندھا پکڑنے والا  ، اُسے گلے لگانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نتیجہ اِک خلا ، جِسے پورا کرنے کو   چلتی  ہیں آندھیاں ،تیز آندھیاں پگڑیاں اُچھالتی آندھیاں شلواریں  اُڑاتی آندھیاں۔

اِسی ضِمن  میں ایک خط  نقل کر رہا ہوں

ڈئیر ابوجان

آج میں اپنی زِندگی کا ایک بہت بڑا تجربہ کرنے جارہا ہوں  جِسکا کیا نتیجہ نِکلے گا میں نہیں جانتا ۔مگر مُجھ  میں ایسے تجربو ں کی ہمت آپ ہی کی عطا کردہ ہے۔ ابو میں دس سال کا تھا  جب میں  نے سردیوں کی اِک رات آئسکریم کھانےکی ضِد کی تھی  ،آپ کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود میں نے آئسکریم کھا کر ہی دم لیا تھا۔ اگلی صُبح  جب آپ نے مُجھے اُٹھایا تو میرا بدن بُخار میں تپ رہا تھا۔ میری حالت دیکھ کر آپ کا چہرہ اُتر گیا،  مگر آپ نے  ایک بار بھی    مُجھے کوسا نہیں، بس آئندہ احتیاط کی تلقین کی ۔میں  اپنی نادانی کے سبب ایک ہفتہ شدید بیمارر ہا  ۔آ پ کو دفتر سے  چھُٹی  بھی لینی پڑی مگر آپ نے  مُجھے نہیں جتایا۔ا بو یہ پہلی مثال ہے  جسے میراکمزور ذہن محفوظ کر سکا۔  میری زِندگی ایسے بہت سے واقعات سے بھری ہوئی ہے ۔میرے میٹر ک کے پیپر ہوئے تو میں نے ڈی  وی ڈی پلئر لینے کی ضِد کی تھی ۔ آپ نے امی اور دادا جان  کی سخت مُخالفت کے باوجود ڈی وی ڈی پلئر لیکر دیا ۔ ہمارے شوق کی خاطر آپ ہی  ہمیں فِلمیں لاکر دیتے پہلے خود دیکھتے اور  ہمارے معیار وفہم کے مُطابق  حد بندی کرنے کےبعد ہمیں دیکھنے دیتے ۔ ہر بچے کے لئے  اُسکے والدین آئیڈیل ہوا کرتے  ہیں  مگر ابو ہمارے کزنز ہمارے گھر میں کُچھ دِن گُزارنے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں   ،ہماری وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے ابو کی وجہ سے   ۔ شائد آپکو اِ س کا اندازہ نہ ہو میں آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ  آپ کے بھانجے بھتیجے آپ  ہی کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں ۔  کیونکہ آپ نئی نسل   کے راہنما سے زیادہ اُن کے ترجمان بنے،  دوست بنے  اُن کی پسند ناپسند  کو فوقیت دینے والے، اُن کے ساتھ ساتھ چلنے والے ساتھی بنے ۔اپنی  روایات پر فخر کرنے والے  گھرانے میں ہماری نسل کو آگے بڑہنا خود سے فیصلے کرنا ، صرف اور صِرف آپ  نے  سِکھایا۔

ابو  آپ کے ذہن سےدوہزار آٹھ کا وہ دن یقینا محو نہیں ہوا  ہوگا  جو میری بیسویں سالگرہ سے دو دن بعد آیا تھا۔ آپ نے مُجھے اُس دِن بڑ ے جوش سے  کہا تھا کہ  چلو بیٹا  اپنا فرض ادا کرنے چلیں آج   اللہ نے ہمیں ایک بڑے بدمعا ش سے بدلہ لینے کا موقع عطا کیا ہے ۔ ابو یاد ہوگا آپ کو، میں نے گاڑی کے پیچھے ہرا جھنڈا بھی لگایا تھا اُس دِن ۔دو ہزار تیرہ تک آتے آتے اِتنا کُچھ بدل جائے گا یہ میں نے  کبھی  نہ سوچا   تھا کہ پانچ سال بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں چھُپاتے  ووٹ ڈالنے جائیں گے ۔ معاملہ اِتنا سنجیدہ ہو جائے گا کہ ہم آپ سے  سیاست پر بات کرنے سے کترائیں ۔ گھر میں اِک ٹینشن کے سے حالات بن جائیں گے۔  امی بتاتی ہیں کہ1985 کو ضیا صاحب کے  ریفرنڈم میں آپ نے بڑے زورو شور سے حِصہ لیا تھا۔ آپ نے اُس نیک کاز کو ثواب سمجھ کر بہت سے لوگوں کے ووٹ بھی  بھگتائے تھے ۔ابو شائد وہ آپ کی زندگی کا ایک تجربہ تھا شائد کُچھ ایسے ہی تجربے سے آج  ہم گُزر رہے ہیں

ابو  یاد ہے آ پ کو  جب آپ ہم بہن بھائیوں کو   پُرانی مہران میں سکول و کالج چھوڑنے جایا کرتے تھےتو کبھی  کبھار چوہدری ظہور اِلہی روڈ کے بند ہونے پر ہمیں لمبا چکر کاٹنا پڑتا تھا  ۔ اِس پر آپ کا بلڈ پریشربہت  بڑھ جاتا تھا۔ آپ بمشکل خود پر قابو پایا کرتے تھے ۔ابا میں  بچپن سے چچا حمید کے   گھر بڑے شوق سے جایا کرتا تھا ۔ میں اور علی شام کو گلی میں  دیگر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ابو مُجھے پِچھلے پانچ سال سے  چچا حمید کے گھر جانے سے وحشت ہونے لگتی ہے اور اسکی وجہ ،گلی کے  دونوں طرف  رکاوٹیں اور سخت سکیورٹی ۔ ایسے لگتا ہے جیسے  کِسی نے قید کر دیا ہو آزاد لوگوں کو۔  اب یہ "شرافت "کِس شریف کی ہے آپ جانتے ہیں۔ا بو آپ نے تو  پرویز الہی سے اپنا بدلہ لے لیا تھا مگر جذبات میرے بھی کُچلے گئے ایک بار نہیں بار بار کُچلے  جاتےرہے ہیں۔

ابو  میں پِچھلے سال پورا ہفتہ گاؤں  اپنے  دیہاتی  رشتہ داروں کے ہاں رہ کر آیا تھا۔ یہ بات آپ کےلئے  بھی حیرت کی تھی ،کہاں گاؤں کے نام سے بھی میں دور بھاگتا تھا  اور کہاں پورا ایک ہفتہ گاؤں میں رہ آیا ۔ ابا مُجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ یہ لوگ ہر گِز کم  تر نہیں  ہیں بلکہ ہم سے بہتر زِندگی گُزارنےوالے اور   ہم سے زیادہ سُتھرےلوگ۔ ابو میں پورا ہفتہ بطور تبدیلی رضا کار گاؤں گاؤں پھِرا  میں نے تو یہی نتیجہ اخذ کیا کہ اُنہیں فرسودہ  نظام میں جکڑ کر جاہل رکھا گیا ہے ۔ ابو آپ نے  تبدیلی کے نعرے کا ہمیشہ مذاق اُڑایا  ۔  میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا یہ مُثبت  تبدیلی نہیں کہ جِس نے مُجھے اور مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو عام دیہاتی سے  جوڑ دیا؟۔ ابو تبدیلی تو  ایسی گہری کھائی  کا نام ہے کہ جِسمیں جِتنا  بھی کُچھ نیا  ڈال دو وہ بھرتی  نہیں۔ اگر میر ی بات غلط ہے تو  آج کے امریکہ میں تبدیلی کانعرہ  لگانے والا کبھی بھی کامیاب  نہ ہوتا۔

ابو آپ نے ساری عمر بنکنگ کی ہے ۔ مُجھے یاد ہے  اپنے بچپن کا وہ  دور  جب میں آپ کےبنک آیا کرتا تھا ۔میں نے  بنک سے پیسہ نکلوانے آئے  لوگوں  کے چہروں  پر ہمیشہ پریشانی ہی  جھلکتی  ہی  دیکھی۔ پیتل کا ٹوکن لینا   چیک پر درست دستخطوں  کا خاص خیال رکھنا ۔ بنک عملے کا کھاتوں میں اینٹریاں کرتے رہنا، بنک سٹیٹ منٹ  کے لئے  رجسٹر  سے فوٹو کاپیاں  کروانا ۔ زِندگی عذاب، بنکر کی بھی تھی اور  صارف کی بھی ۔ مگراب تو دُنیا ہی بدل گئی ہے،آج کی نسل کو ایسی کہانیاں سنائی جائیں تو وہ مذاق اُڑاتی ہے ۔ جِس نسل نے اے ٹی ایم  مشینیں اور  چند سیکنڈوں میں گھر بیٹھے  بنک سٹیٹ منٹیں نکالنا  ہی دیکھا  اُس کے لئے تو پرانا نظام پتھر کے دور کی کہانی ہی ٹھہرا ۔
اب آپ خود ہی سوچئے کہ  آج  کا انسان کیونکر  پُرانے بوسیدہ  طرزالیکشن  پر یقین و ایمان لائے گا۔ ابو آپ نے ہمیشہ یہی کہا کہ لنگڑی لولی جمہوریت کو چلنے دینا  چاہئے ۔ ابو  ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر اِس لنگڑی لولی  کے ساتھ بھنگی چرسی جمہوریت کو برداشت کرنا مُجھ جیسوں کے لئے شائد مُمکن ہی نہیں ہے۔

ابو  مُجھے فیس بُک پر  کم عقل، ناسمجھ گردانا جاتا  ہے ، جاہل کے نام سے پُکارا جاتا ہے ۔ تاریخ سے نابلد، ترقی کا مُخالف پُکار کر طعنہ زنی کی جاتی ہے ۔ ابو مُجھے کِسی کی پرواہ نہیں میں بس  آپ کے ساتھ کو ترستا ہوں ۔وہ ساتھ جو بچپن سے لیکر آج تک  میری سب سے بڑی طاقت رہا  ہے ۔
.......

اِس خط کےدو  پیراگراف ابھی باقی ہیں مگر مزید   چھاپنے کی  مُجھے اِجازت نہیں  ہے۔  یہ خط  فیس  بُک پر فقط  فیملی ممبرز  کے لئے لکھا گیا  تھا۔ میں اپنے فیس بُک فرینڈ کا  شُکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اپنی ا  ذاتی تحریر   ناصرف مجھ سے شئر کی بلکہ اِس پوسٹ میں شامل کرنے کی اجازت دی۔

خود پر بیتے کا آج کے  دور سے  موازنہ کروں تو بس  یہی کہ پاؤں گا کہ بچے   لاڈلے بھلے نہ ہوں انوکھے ضرور ہوتے  ہیں، کھیلن کو چاند ہی مانگا کرتے ہیں ۔ ہم لوگ چاند کی جگہ" چاند گاڑی" پر  خوش  ہوجایا کرتے تھے۔ مگر آج ..... 


Wednesday 22 October 2014

مون سون سٹوڈیو

ترتیب کی لڑی میں اِک سلیقےسے پرویا اُنتیس تیس دِنوں بعد آسمان پر جو جلوہ افروز ہوتا ہے وہ مون کہلاتا ہے اور اُس بے اصولے، من موجی، سال بعد آنے والے گھن چکرکو مون سون کہتے ہیں ۔ مئی جون کی تھپیڑے مارتی ہوئی گردن توڑ گرمی سے بے حال اللہ کی مخلوق ہاتھ اُٹھائے رب سے اُسے  ہی مانگتی ہے ۔ ساون کے آغاز پر جنگل کا مور اور اِنسانی دِل ایک ہی سا ناچتے ہیں ۔ مکیش کا  گانا اِسی کی عکاسی کرتاہے ۔
ساون کا مہینہ پون کرے سور
جیا رارا جھومے ایسے
جیسے بن ما (جنگل میں) ناچے مور
موت کے سرد غُبارے میں بھری حرارت کام نام زندگی ہے ۔حیات  حرارت میں ہےاور حرارت حرکت کی مرہون۔ ٹھنڈے سمندر سے ہوائیں زِندگی کی تلاش میں  خُشکی کا رُخ کرتی ہیں۔ ہندوستان کے بادشاہوں کی طرح بحرہند بھی دِل کا شہنشاہ ہوتا ہے  ۔اپنے سینے پر آوارہ پھرتی ،دِل کی  اس رانی  
  کو بہت کُچھ دے دِلا کر رُخصت کرتا ہے۔


بحرِ ہند سے ہوائیں خُشکی کارُخ دوحِصوں میں کرتی  ہے ۔ ایک حِصے کو ویسٹرن آرم اور دوسرے
 کو ایسٹرن آرم کہتے ہیں۔  مغربی گھاٹ کا پہاڑی سلسلہ  کوچی، منگلور پانا جی ، گوا سے  لیکر ممبئی تک کے ساحلی علاقے مون سون کی ہواؤں سے خوب نہاتے ہیں۔ مون سون ہواؤں کا ایسٹرن آرم "گنگا کے جبڑے " (ماوتھ آف گینجز) کے راستے خُشکی  سے ٹکراتا ہے ۔ یہ ماؤتھ آف گینجز بھی قدرت کا کمال کرشمہ ہے۔ گنگا(پدما)  اورآسا  م کی پہاڑیوں سے آتے دریائے برہم پترا(بنگالی جمنا) بنگلہ دیش کے مقام راج باڑی   پر آپس  میں مِلتے ہیں  اوران گِنت ندی نالے بناتے ہوئے پاپیوں کے پاپ  سمند ر کے  حوالے کردیتے ہیں۔


بنگال اوربھارت کے شمال مشرقی عِلاقوں   کے رستے  یہ مون سون ہوائیں ہمالیہ سلسلے سے ٹکراتی ہوئی   پیارے پاکستان کو رُخ کرتی ہیں ۔باقی سب دعوے کرتے ہیں ،حقیقت میں آسمان سے باتیں صِرف ہمالیائی پہاڑ ہی کرتےہیں ۔ یہ  پہاڑ ہماری زِندگیوں میں سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں  ۔پل بھر کو اپنی  دُنیا  اِن پہاڑوں بِنا تصورکیجئے،  خشک گرمیاں  اور پھرِ میٹھے آم ہی نہیں کانوں میں رس گھولتی میٹھی  سرائیکی  زبان بھی سُننے  کو  نصیب نہ ہوتی ۔ پانی کی بوند بوند  کو ترستے گرما کے بعد جب سائبیرئین  ہوائیں  سردیوں میں ملتان کا درجہ حرارت منفی 20 تک لے جاتیں تو کدھر بچتی میٹھی  زبان  بولنے  والی    ملتانی"شریف" مخلوق۔

مون سون سسٹم دُنیا کی ساٹھ فیصد آبادی پر اثر اندازہوتا ہے ۔اِس کے  میکانزم  کو سمجھنے کے لئے  محض سمندر سے خُشکی اور سردیوں میں اِس کے برعکس چلتی ہواؤں کی ٹریڈشنل تھیوری ناکافی ہے ۔زمین کا درجہ حرارت ہرجگہ یکساں نہیں ہوتاہےاور اِسی سبب  ہوا کا دباؤ بھی  متغیر ۔ جِس کے باعث تجارتی ہواؤں کو  تقویت مِلتی ہے۔خط استوا پر سورج کی شُعاعیں سیدھی پڑتی ہیں ۔زمین کے  اِستوائی  خط  پر سور ج کی سالانہ شِفٹ  کی وجہ سے"    اِنٹر کنورجنس زون"(آئی ٹی سی زیڈ)  ( ہوا کے کم دباؤ کی پٹی  جو کہ خط استوا کے ساتھ ساتھ  زمین کو لپیٹے ہوئی  ہے جہاں شمالی کرے اور جنوبی کرے کی تجارتی ہوائیں  آپس میں ملتی ہیں )بھی  سورج کے ساتھ   شمال اور پھِر  جنوب کی طرف حرکت کرتا ہے۔"ڈائنامک تھیوری آف مون سون"   کی رو  سے  آئی ٹی سی زیڈمئی سے جون تک  شمال کی طرف حرکت کرتا ہے ۔آئی ٹی سی زیڈ کی یہ   شِفٹ  مون سون کی شِدت  اور وقت کا تعین کرتی ہے ۔
  
ہمارے ہاں جب  مون سون  کی یہ   بدلیاں پہنچتی ہیں تو  پیلائی ہوئی رُت کو ہریالی سے بدل دیتی ہیں ۔  مگر یہ بے لگام مون سون مستی پر اُتر آئے تو ہمارے  دریاؤں کو باغی بنا دیتی ہے اور پھِر   انگریزی کا سیل اور اردو کا آب   مل کر  بنتا ہے سیلاب ۔ پانی کی لوٹ سیل  ہی تو ہے  سیلاب ۔ پانی لُٹاتا ہے  غریب لُٹتا ہے ،اپنے گھر بار ڈھور ڈنگر سے ۔  غریب کے ڈنگر گوبھر کے مول  خریدنے والا کوئی  اور نہیں  عِلاقے کا چوہدری  یا وڈیرہ ہوتا ہے۔ سیلابی پانی نے بھی شائد بڑے زمینداروں کے ساتھ  کوئی  مُک مُکا  کر رکھا ہے ۔ یہ پانی زمین کو سونا اُگلنے کی  شکتی دیتا ہوا واپس ہولیتا  ۔مگر غریب کے گھر کی چوکھٹ سالوں تک سیدھی نہیں ہوپاتی ۔

 کہتے ہیں پانی دولت ہے بہت بڑی دولت، شائد اِسی لئے سیانے انگریز نے دریا کنارے کو بنک آف ریور کا نام  دے رکھا ہے  ۔ اللہ جانے  ہمارے دیس میں نا اِتفاقی کی آگ کِس نے لگائی۔مگر بدبختی  کے عِلاوہ اِسے کیا  نا م دیا جائے کہ  ان دریاؤں کے پانی کو"  بنک آف پنجاب "کا  ٹھپہ لگائے      ہر سال ہم یہ دولت سمندر کی سپردگی میں دئیے جاتے ہیں۔

بچپن میں جب ہم یار دوست  ملکر کوئی شرارت  کیا کرتے تھے تو بڑے  بزرگ ہماری  سرزنش  ان الفاظ میں کرتے  تھے۔"پُتر کیڑہے سکولے پڑہدے او؟؟" یہ  طنزیہ سوال ہمیں  ایسےچُبھتا تھا جیسے سینڈل   کا بکل  ٹخنے میں  ۔  ہمارے سیاست دانوں کی حرکتیں دیکھ    کر وہ سکول والا سوال نہیں بلکہ  جھٹ سے جواب  ذہن میں آتا ہے کہ  یہ لوگ  یقینا ً     کِسی  فِلم سٹوڈیو  سے "تعلیم یافتہ" ہیں۔ اِن مون سون کی بارشوں سے ہی اندازہ لگا لیجئے اِدھر    بارشوں نے  سین بنایا  اُدھر  لمبے لمبے  بوٹ   پہنے سڑکوں پر لوکیشن اور سین کے انتخاب کا آغاز  ہوجاتا ہے ۔  اب  تو بارش کے بعد مینڈکو ں کی ٹر ٹر  کم  ریڈی سٹارٹ ایکشن کی آوازیں زیادہ آتی ہیں۔


لڑکپن کا دور تھا   جب   ایس ٹی این ٹی وی چینل   لانچ ہوا  تو ہمیں پی ٹی وی  کی جبری "قید  بینائی" سے رہائی   مِلی   تھی ۔ایس ٹی این خبریں  نشر  کرنے  کا اختیار تو نہ رکھتا تھا مگر اُن دنوں بانوے کے سیلاب پر بنی  شاہکار فلم  سرکاری  چینل کے ساتھ  ساتھ  ایس ٹی این  پر بھی  اِس  تواتر سے دِکھائی گئی کہ ہر  پاکستانی کو حفظ ہوگئی تھی۔ ڈوبے دیہات میں غریبوں  کے گھروں تک پہنچتا ہوا ، غریب بُڈھے  کو اپنی واسکٹ  پہناتا ہوا  ، بوڑھی عورت سے دُعائیں لیتا  ہواہیرو" ہیرے" کی طرح ہِٹ  ہوا۔   مون سون سٹوڈیو میں بننے والی یہ   فِلم  بلاک بسٹر ثابت ہوئی تھی۔ بڑی سے بڑی ہِٹ فلم  بھی  پلاٹینم جوبلی   کے بعد  شہری سینماؤں سے اُتر کر  چھوٹے  قصبوں دیہاتوں  کے تھکڑ  ،بے چھتے سینماؤں  میں اپنی آخری سانسیں لیتی ہیں۔اب تو  زمانہ بھی  پلٹی کھا چُکا ہے ۔   ہلکی آنچ پر پکائے پکوان کھانے والےپرانے فِلمی ہیرو طرزسیاستدانوں  کو جان  لینا چاہئے کہ    مارشلائی  دور  کے دُکھڑے سنا کر   رام کرنے  کا دور بیت چُکا   ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ  " بلو ٹھمکا لگاذرا لک نوں ہِلا  " کے اِس دور میں جمہویت کے فیض کو ترستی ، ہوا کے گھوڑوں پر سوارنئی نسل ایک"   اینگری ینگ مین" کردار کی طرف  متوجہ نظر آتی ہے۔ 

Thursday 14 August 2014

سیاسی مِکس چاٹ

1
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے رندھی ہوئ آواز میں کہا میرےعزیز ہم وطنو میں نے استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا ہے. معصوم چہرےپر چھائے کرب کو ہر دیکھنے والے نے محسوس کیا. میری والدہ رونے لگیں والد صاحب کا پارا یک دم آسمان کو چھونے لگا میری آنکھوں میں بھی آنسو تہر رہے تھے. ٹیوی سکرین میں کھبا ہوا ربو مسلی جو دروازے کے ساتھ لگا کھڑا تھا اس کے چہرے پر خوشی کے تاثرات دیکھے تو میرے جسم میں تو جیسے آگ لگ گئی. یہ بات انیس سو ترانوے کی ہے. اس وقت میں ووٹ دینے کا اہل نہ تھا مگر میاں صاحب کے لئے دل میں شدید محبت رکھتا تھا
آج پھر میاں صاحب تقریر کرنے کو ہیں مگر وہ آج استعفی دے بھی دیں تو مجھے ذرہ برابر بھی افسوس نہ ہو گا. میاں صاحب کے ساتھ آج بھی وہی ماضی والا ظلم ہونے کو ہے مگر آج میں ان کے ساتھ نہیں ہوں اور نہ ہی جمہوریت کے بچھوڑے کا تصور مجھے کھائے جا رہا ہے.
ماضی کے تجربات پر جب میں نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ترانوے میں میاں صاحب ملک اور جمہوریت کےعلمبردار نظر آتےتھے. مگر چھیانوے میں میرا ماتھا ٹھنکا جب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو پنجاب کا مختار کل بنا دیا. آج تو میں لاکھ کوشش بھی کر لوں میاں صاحب کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں کہ پاؤں گا. میں مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو ملوک جمہوریت کا ولی عہد ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھ پاتا.

 2

جمہوریت کے ساتھ ضیا صاحب نے جو کیا سو کیا مگر بینظیر بھٹو کی پاکستان آمد نے عوامی جذبہ جنوں پھِر سے بیدار کر دیا۔ وہ سالوں کی جلاوطنی کے بعد پاکستان آئیں اور جمہوری سیاست میں ایک نئی روح پھونکتے ہوئے مُلک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں اُس الیکشن کا ٹرن آؤٹ 43 ٪ رہا تھا۔ عورت کی حکومت سےاِسلام کو شدید خطرات لاحق ہوگئے دو سالوں میں حکومت گِرا دی گئی اورووٹ ڈالنے فرشتے بھی میدان میں آئے اور ۔ ووٹنگ ٹرن آؤٹ 44٪ تک چلا گیا۔ اِس کےبعد ترانوے اور ستانوے کے الیکشن میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ باِلترتیب 40٪ اور 36٪ پر آگیا ۔ گویا جمہوریت سے محبت میں عوامی جوش میں کمی آنے لگی۔ اللہ خوش رکھے مشرف صاحب کو جن کی جمہوریت کے لئے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی جن کی بدولت عوام پھر سے جمہوریت کی اہمیت کو حقیقی معنوں میں جان پائے۔ 2008 میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ 44 پرسنٹ پر پھِر سے آگیا۔

مگر دو ہزار تیرہ میں تبدیلی کا نعرہ سمندری لہروں پر بیٹھا تو جمہوری سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا ووٹنگ ٹرن آؤٹ 55 ٪ سے بھی اوپر چلا گیا۔ جمہوری انقلاب کی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں ۔ یہ گیارہ پرسنٹ ووٹر کہاں سے آیا ؟؟ یقینا یہ فرشتے نہیں تھے یہ لوگ مُلک کی برگری کلاس ہے یا پھِر وہ لوگ جِن کا سیاست سے کوئی لینا دینا ہی کبھی نہیں رہا۔ الیکشن دوہزاز تیرہ میں لائین میں لگے اٹھاون سالہ ووٹر نے مُجھے  بتایا تھا  کہ وہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ آج کے دن  ووٹ ڈالنے نِکلا ہے۔ 

ہم لوگ تو دھاندلیوں اور ڈرامے بازیوں کے عادی ہوچُکے ہیں دھاندلی ہوتی ہے اور ہر بار بڑی مہارت سےہوتی ہے۔ مگر ہماری سیاست میں شامل ہوئی یہ نئی  کلاس ہی زیادہ مضطرب نظر آتی ہے لمبی لائنوں میں لگے گھنٹوں کی خواری کاٹ کر ووٹ ڈالنے والے آج اپنے ووٹ کا حساب مانگتے ہیں ۔ 

ہماری سیاست میں میچورٹی  ابھی نہیں آئی ہے اور ناں ہی ہمارے سیاست دان اِتنے وثنری ہوئے  کہ بدلے ہوئے زمانے کا ادراک کر سکیں ۔ بیسویں ترمیم کرنے والے سینئیر سیاست دانوں نے الیکشن کو قابل قبول بنانے کے لئے اپنے تئیں اچھا قدم اُتھایا مگر میرے خیال میں وہ نیک نیتی پر مبنی نہیں تھا۔ زمانہ بہت آگے چلا گیا ہے آج  اٹھارہ سال کابچہ بہت سے سوال کرتا ہے اور فوری جواب مانگتا ہے۔ اُسے جمہوی تسلسل اور ٹرم پوری کرنے کا لالی پاپ دیکر سُلایا نہیں جاسکتا۔جب ان الیکشن میں پہلی بار نادرہ کارڈ اِستعمال کئے گئے اور الیکشن سے پہلے میگنیٹک انک کے ذریعے ہر ووٹ کا ریکارڈ رکھنے کی نوید سُنائی گئی تو مانگنے والے اپنا حساب مانگنے میں حق بجانب ہیں۔ آئین یا قانون کےپیچھے چھُپنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ آئیں اور قانون میں درج بہت کچھ اِس قوم کو نہیں مِل رہا مگر یہی آئین بڑےکرداروں کے لئے جمہوری روایات کی دھجیاں اُڑانے پر مکمل خاموش ۔ ذِمہ دار کون؟؟؟میرے خیال میں تو ہماری سیاست کےوہی تجربہ کار لوگ جو اپنے سوئس اکاؤنٹس کو بچانے کے لئے پانچ سال جنگ لڑتے نظر آئے اور وہ جو تیسری بار خوبصورت شیروانی پہننے کی خاطر دینے دلانے میں بہت آگے تک نِکل گئے۔
 4
حکمران نیک ہو تو شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں،اگر شریف ہو تو انقلاب اور تبدیلی ایک ساتھ مارچ کرتے ہیں.
 5
آج باہر سے آئے ایک مہمان کو ہسپتال لیکر جانا پڑا پولیو کا قطرہ پلوانے واسطے. اب ایسی ایمبیرسنگ سچویشن کو بندہ کیا کہے؟ قطرہ قطرہ بنا شرم کا سمندر
 6
اس نے کہا بہت خطرہ ہے
میں نے کہا ابے کس کو خطرہ ہے
بولا ہماری جمہوریت کو جی 
میں کچھ نہ بولا بس سوچنے لگا وہ جو ہمارے ہاں ہے وہ جمہوریت ہے یا بذات خود ایک خطرہ.

 7
استعفی چیز کیا ہے آپ میری حکومت لیجئے
بس ایک بار آئین کا کہا مان لیجئے
اس ڈی چوک میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجئے
مانا کہ ہم کو تو نہیں جمہوریت کا پاس 
لیکن یہ کیا کہ فوج کا احسان لیجئے
استعفی چیز کیا ہے آپ میری حکومت لیجئے
بس ایک بار آئین کا کہا مان لیجئے
میاں محمد نواز شریف


Monday 28 July 2014

آج تو میرا روزہ ہے

تیزی سے رقص کرتی ہوئی اُنگلیاں رُکیں ،ہتھیلیاں کی بورڈ  پر ایسے گِریں جیسے تھک ٹوٹ 

کر جِسم بستر پر گِرتا ہے۔اُس نے کُرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے جسم  کوڈھیلا چھوڑ دیا۔ چند 

سیکنڈز بعد  بند آنکھیں کھولتے ہوئے  اپنی میز کے دائیں کونے کو چھوتے ستون پر لگی گھڑی 

پر نظر ڈالی ۔دونوں سوئیاں اُفقی سیدھ پر،جیسے ہشاش بشاش سپاہی کھڑاک سے سلیوٹ مارنے 

کو ہو۔ شام کے چھے بج گئے ،یہ سوچ کر اُس کے کندھے مزید ڈھلک گئے۔ کرسی کو پیچھے 

دھکیل  کر اُسنے کھڑکی کی بلائنڈز اُٹھائیں مارگلہ کی پہاڑیوں پر نئے نکور سبز کپڑے پہنے  

ہوئے درختوں سے سورج سرگوشی کرتا نظر آیا۔ گیت گاتے رقص کرتے ہوئے یہ 

پیڑبھی  اُس کے لبوں پر مُسکراہٹ نہ لا سکے۔اِس ہوا بند ہا ل  میں درختوں کے  گیتوں 

کے میٹھے بول اندر آ بھی تو نہ سکتے تھے اور پھِر اُسکا تھکا ہوا ذہن کل کی پریزنٹیشن میں گُم تھا 

۔ اُس نے ہال میں نظر دوڑائی تمام ورک سٹیشن خالی تھے ،مگر آخری کُرسی پر بیٹھی شگفتہ پر 

نظر پڑتے ہی اُسکا چہرہ کھِل اُٹھا۔گھریلو سی  لڑکی کی طرح  اپنے بالوں کو  ماتھے  تک دوپٹے 

میں چھُپائے   ،نظریں نیچی جیسے پیر سے ملے پیر  کے بِنا پالش ناخنوں پر جمی  ہوں۔ ایک ہاتھ 

میں موبائل  دوسرے  ہاتھ کی مُٹھی نیم  بند جیسے  اُنگلیوں پر کوئی وظیفہ کر رہی ہو۔ اُسکے 

معصوم چہرے پر بڑی بڑ ی آنکھیں غضب ڈھانے کو  کافی تھیں ۔ "آپ  ابھی گئی نہیں"؟   

یہ سوال سُن کر شگفتہ چونکی  اور گھبراہٹ پر قابو پاتے  ہوئے بولی "جی ابو کا اِنتظار کر رہی 

ہوں  آج کُچھ لیٹ ہوگئے ہیں سات بجے تک  آئیں گے"۔ وہ لمبے ڈگ بھرتا ہوا شگفتہ 

کے  پاس  آپہنچا ۔  پِچھلے تین دِنوں سے وہ    شگفتہ سے بات کرنے کا موقع  ڈھونڈ رہا تھا ۔ 


بہار کی  تازہ کلی  جیسی شگفتہ کو اپنا پہلا آفس جوائین کئےہوئے 

آج تیسرا  دِن ہی توتھا۔ وہ  آفس  میں کھِلی اِس نئی کلی کا ایسے انٹرویو  لینے لگا جیسے  کسی 

میٹری مونیل سائٹ میں اشتہار لگاناہو۔یہ  کام بھی تو ضروری تھا اگلے دن اپنے کولیگز پر رعب 

جھاڑنے کو مال مصالحہ بھی توچاہئے تھا۔دِلپشوری  کے کھیل کا  ایک الگ سا  ہی سواد  ہوتا 

ہے ۔ یہ کھیل بھی ٹیم ورک  سے کھیلا جاتا ہے   ، آپس میں لمبے پاس دیکر بڑی محنت سے 

پوزیشن بنائی جاتی ہے مگر  فتح   کا جشن بس گول   کرنے والا  ہی مناتا ہے  ۔چند  مِنٹو ں 

کے انٹرویو  سے اُسے مخالف  کھلاڑی کی کمزویوں اور خوبیوں کا اچھا خاصا مواد مِل گیا ۔ ایک 

ماہر کھلاڑی  کی طرح مُخالف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالےوہ اپنے کھیل  کے 

جوہر دِکھانے لگا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کا ایم بی اے ، اِسلامک سے ایم ایس اور پھر تین 

 پرومشنز  کے ساتھ آٹھ سالہ   شاندار جاب ایکسپرئنس  ۔ یہ سب کُچھ گِناتے ہوئے اُس 

 نے شگفتہ کو ہر مُمکن تعاون  کی یقین دہانی بھی کرا ڈالی۔اُسکی طرف سے شیریں جملوں 

کے  لچھے دار حملے    اجنبیتکے حفاظتی خو ل  پرہونے لگے ۔لڑکی کا حفاظتی خو ل 

توڑنا ہی  تو اصل کمال ہوتا ہے اور اِس کام میں نعیم کالج لائف سے بڑا فنکار  مانا جاتا تھا۔ اپنے 

 پہلے شو  کی کامیابی کے  احساس سے اُس کے چہرے پر طمانیت نظر آنے لگی۔اِسی دوران 

اُس نے شگفتہکو چائے پکوڑوں کی آفر بھی کر ڈالی ۔مگر اگلے ہی  لمحے وہ سر جھٹکتا ہوا فورا  

سے اپنی آستینیں چڑہانے لگا ۔ عصر کی  نماز کےچھُٹنے کا سوچ کر چہرے پر طمانیت کی جگہ پشیمانی 

کےتاثراتچھاگئے۔بہت  کم ہوا کہ اُس کی نما ز قضا ہو اور عصر کی نماز تو وہ  ہمیشہ  

وقت پر ہی ادا کرتا تھا ۔ اپنی ٹائی کی ناٹ کھولتے ہوئےاُس نے ندیم کو  زور سے آواز دی۔ ندیم 

فوٹو کاپئر مشین پردھڑادھڑ  سیٹ بناتا   ہوااپنا کام ختم کرنے کی جلدی میں تھا۔  وہ  آیا جی 

نعیم صاحب کہتا ہوا اُس کے پاس پہنچا۔   ندیم  کے ہاتھ میں پیسے پکڑاتے ہوئےوہ بولا 

"یار ندیم  چاچے کرمو کو میں نے  گاڑی پر کپڑا مارنے   نیچےبھیجا ہے تو بھاگتا  جا اور گرما گرم 

تین کپ چائے اور   آدھ کلو پکوڑے لے آ،جا شاباش منٹ مار " ندیم نفی میں سر ہلاتے 

ہوئےجواب دیا"نہیں سر جی آج تو میرا روزہ ہے"جھٹ  سے ندیم کے اِنکار پر اپنی ناگواری  

چھپاتے ہوئے  نعیم بولا "او چھوڑ یار روزےکا کیا ہے توکل پھر رکھ  لینا   ابھی جا چائے 

پکوڑ  ےلیکر آ"۔دوسری بار  ندیم  کا اِنکار قدرےسخت الفاظ میں تھا۔لڑکی کے سامنے 

ایسی خفت     وہ بھی ایک فوٹو کاپئر آپریٹر سے، جِسکی  نعیم    کو ہر گِزتوقع نہ تھی۔حقارت  بھری 

نظروں سے ندیم کی طرف  دیکھتے  اُسے نے طنز یہ انداز میں  بولا"پہلے اپنا قبلہ درست کرلے پھر روزے 

کےبارے میں سوچنا  ، جب ایمان ہی نہ ہو تو روزہ کِس کام کا"۔۔ ندیم جواب دینے کی 

بجائے ہاتھ میں پکڑے پیسے نعیم کے مُنہ پر  پھینکتا ہوا   بڑی تیزی سے باہر  کی طرف نِکل گیا ۔ 

ندیم کو آوازیں دیکر   چاچا کرمو روکتا رہا جو اِس دوران ہال میں پہنچ چُکا تھا۔

 ندیم غُصے میں تیزی سے سیڑہیاں اُتر کر بِلڈنگ سے باہر آگیا۔ اُسکا  دماغ لاوے کی طرح اُبل 

رہا تھا  ۔ باہر سڑک پر آکر اُسمیں چلنے کی ہمت بھی  نہ رہی تھی۔ وہ   کُچھ دیر  بُت 

بنا کھڑا رہا  اورپھِر آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا   ہوااپنے راستے کو ہو لیا ۔غُصے میں دانت دبائے  دائیں 

ہاتھ  سے مُکا بنائے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا جاتا اور نعیم  صاحب کوجی بھر کی  گالیاں  

دئے جا رہا تھا  ۔ ندیم نے پکا فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یہ نوکر ی چھوڑ دے گا۔ وہ   راستے  

میں آتی مسجدکے پاس ہی پہنچا  تھا  اذان کی آواز آنے لگی ۔  وہ سر اُٹھا کر  مسجد کے  اونچے 

مینار پر لگے لاؤڈ سپیکر کی طرف دیکھنے لگا۔پیچھے سے  کِسی نے ندیم کے کندھے پر ہاتھ رکھا  

۔ لمبی سفید داڑھی  نورانی  چہر ہ  ، یہ چاچا کرمو تھے۔ انہوں نے ندیم کو گلے لگایا اور 

بولے۔" پُتر نفس کے گھوڑے کو  ضبط کی لگام پہنانے کا نام  ہی تو روزہ ہے۔ہوس اور 

  دکھاوے   کےجنون نے اِنسان کو اندھا کر دیا ہے۔  جیسے   خوبصورت نظر آتی  نائلون 

کی چادر  پر بارش کا پانی   پھسلتا جا تا ہے   ایسے ہی  برتر  اور بہتر  نظر  آنے 

 کے خبط کا مارا   ،               رب دے سوہنیاں بندیاں دی بات ککھ سمجھ نہیں  پاتا۔ 

میرے چاند سے بچے اللہ تجھے ہر

میدان میں کامیاب کرے میں نماز پڑہ کر تیرے حق میں دُعا کروں گا تو روزہ کھول کر  

سے میرے لئے  دُعا کرنا۔"  چاچا کرمو   ندیم  کا دائیاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں 

دبائے   اُسے تلقین کرتے ہوئے مسجد  کو چل دیئے۔ ندیم  اپنیجگہ کھڑا سوچنے لگا  کہ چا چا 

کرموکِتنے نیک اِنسان ہیں ،میں  اِس   ایسٹر پر چاچا کرمو کے لئےخاص طور پر  دُعا  کروں گا خُدا وند 

ہم  سب کو چاچا کرمو جیسا نیک بنا دے۔ 

Sunday 22 June 2014

بولتی تصویریں






اس بچی کی عمر لگ بھک پانچ سال ہے میں نے اِسے ایک بڑے چوک میں پنسلیں 


 بیچتے دیکھا. دس روپے کا ایک بال پوائنٹ. ہر آتی جاتی گاڑی والا حیران و پریشان ، اس 

 بچی کی طرف دیکھتا تھاکوئی اِ س سے سوال کرتا تو وہ فورا سے اگلی گاڑی کی طرف بھاگ کھڑی 

 ہوتی ۔ اشارے پر ایک پولیس وین رُکی ,اُس وین میں  بیٹھے 

اِک وردی والے نے بچی کو بڑے پیار سے اپنے پاس بُلا کر پوچھا "کس کتے کے بچے نے 

تمهارے ہاتھ میں بیچنے کویہ پنسلیں پکڑائی ہیں"؟ بچی جواب دینے کی بجائے  فورا ً سےڈر کر   

آگے کو  بھاگ پڑی. پولیس والے کی  دی ہوئی گالی اس رشتےکو پڑی جس کا آج عالمی دن منایا 

جارہا ہے  یعنی "فادرز ڈے"(. 15-06-2014)یا پھر پورے معاشرے کو جس کا حصہ 

میں بھی ہوں. 

آپ ان تصویروں کو  غور سے دیکھئے،   پس منظر میں آپ کو بڑی بڑی کرینیں نظر 

آرہی ہوں گی. یہ ہیوی  مشینری میٹرو بس کے لئے  ایک بهت بڑا فلائی 

اوور بنانے کا کام کررہی ہے.اسلام آباد کی اس میٹروبس  پر چوبیس ارب روپے کی خطیر  رقم 

 خرچ   کی جا رہی ہے۔  یہ  اسلام آباد 

کا مصروف ترین چوک پشاور موڑ ہے چند مہینوں بعد غالبا اِسی چوک میں انقلابی نعرے

سُنے جائیں گےاور فتح کے ہار پہنےاعلی مرتبت  شخصیات   میٹرو  بس دوڑانے  کا فیتہ کاٹیں گے ۔


مگر یہ بچی آپ کو یہاں نظر نہیں  آئے گی بلکہ اپنے باپ کی بےغیرتی(بظاہر )اور معاشرے 

کی بےحِسی کے باعث، ہاتھ میں چند پنسلیں لئے کِسی اور چوک میں گُزرتی گاڑیوں کے شیشے 

کھڑکاتی دس دس روپے کی پنسلیں بیچتی پھِرے گی۔

   میں بھی کُچھ زیادہ  ہی منفی انداز میں سوچنے لگا ہوں  ۔اِس بچی کی زندگی  بہتر رُخ بھی  اختیار 

کرسکتی ہے۔شائد وہ چوک میں پنسلیں بیچنے کی بجائے   کِسی سریہ والےسیمِنٹ والے یا پھر 

کِسی کنٹریکٹر  کے دودھ پیتے بچوں  کے پیمپر بدلنے اور کھلونے سنبھالنے کی مزدوری کرتی نظر 

آئے۔


نوٹ:                    یہ تحریرمیں نےمورخہ 15-06-2014 فیس بُک اکاؤنٹ پر پوسٹ 
کی تھی اور پھر چند سائٹس اور پیجز پر کاپی پیسٹ ہوتے دیکھی۔