Friday 11 May 2012

AJAB PREM KIE GHAZABNAK FILMI KAHANI by Dohr Hai


عجب پریم  کی غضبناک فِلمی کہانی
پریم کہانی میں اِک لڑکاہوتا ہے اِک لڑکی ہوتی ہے
کبھی دونوں ہستے ہیں کبھی دونوں روتے ہیں
(فِلم      پریم کہانی       گائیک   لتا ،کِشور     1975    )
ہر کہانی کی  طرح اِ س فِلمی  پریم کہانی میں ہنسنا بھی ہے رونا بھی ۔روماننٹک سین بھی ہیں ،رو ٹھنا  اور منانا بھی ہے پیار بھرے گیت بھی ہیں  سدا ساتھ  نِبھانے  کے وعدے بھی ہیں۔ مگر   لڑکا  لڑکی نہیں ہیں بلکہ کیریکٹرز ہیں  جو بدلتے جاتے ہیں  مگر پریم کہانی بغیر کسی بریک کے اپنا سفر جاری رکھتی ہےبالکل کِسی سو پ سیریز کی طرح۔ اس فلم کے گانے  ہندی فِلموں  سےجبکہ ڈائیلاگز پنچابی فلموں سے لئے گئے ہیں ۔ایکشن  اور سِسپنس  پورے کا پورا ہالی وُدڈ  کی فِلموں سے چُرایا گیا ہے۔ فِلم کی کہانی حالات نے لِکھی ہے۔اس کا   تخلیق کار وہدائت کار ایکشن اور ہارر موویز بنا نے کا  ماسڑ ہے۔ "سیکنڈ ورلڈ وار کے  جاپانی پٹاخے" "ایرانی بدمعاشں اور معصوم اسرائلی" "اعراق کے  میزائلوں میں نِنجا ٹر ٹلز" کیوبا دی چھوٹا ڈان" "کابلی چھتر اور ویت نامی لِتر" جیسی مشہور فلمیں اِسی نے بنائی ہیں ۔  البتہ"  عجب پریم  کی غضبناک فِلمی کہانی"
اِس کی واحد  لو سٹوری ہے  ۔ اس سٹوری کی  خاص بات یہ ہے کہ نہ اِس کی دُم ہے نہ سر اور اصل میں یہی اسکا عجبی وصف ہے۔ پریمی کا رول ڈائریکٹرنے   خوداپنے لئے رکھا ہےجبکہ ہمارے مُلک کی اشرافیہ اُس کی پریمیکا ہوتی ہے، اور عوام ایکسڑا زکے رول میں گانوں کے دوران ناچتے گاتے دیکھی جاسکتی ہے۔اس اُمید پر کہ شائد اُنہیں بھی کبھی کوئی اچھا رول مِل جائےرول نہیں تو ویزہ۔۔۔
پریم  کہانی کا آغاز 1950 میں لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے ہوا۔ پریمی اور پریمیکا کی یہ پہلی باضابطہ مُلاقات تھی بس یوں  کہیئے کہ آنکھیں دو سے چار ہوئیں  اور پہلی ہی نظر میں پیار ہو گیا۔
 پیار ہوا اقرار ہوا ہے پیا ر سے پھِر کیوں ڈرتا ہے  دِل
کہتا  ہے دِل رستہ مُشکل معلوم نہیں ہے کہاں منزل
(فلم –  شِری 420، میوزک – شنکر جے شکن ، گائیک­­  منا ڈے اور لتا جی)
دِل  نے رستہ مُشکل ہونے کی پیشین گوئی بالکُل درست کی تھی اور منز ل ہماری ابھی تک  نامعلوم ہی ہے۔ بحرحا ل  نئے نئے پیار کا یہ سِلسلہ کِسی پہلے پیار کی طرح   بتدریج بڑہتا   ہی گیا ہم سیٹو اور سینٹو کے ممبر  بھی  بن گئے اور ایوب خان کے دور تک  پیار کی یہ بیل سٹیچو آف لبرٹی چڑہتی   ہوئی نظر آنے لگی بس پھر  کیا تھا "شریکا ں  نوں اگ لگ گئی"1965میں بھارت نے پاکستان پر حملہ  کردیا۔۔ ہم اپنے شریکوں سے خوب جِگرے سے لڑےاِس اُمید پر کہ ہمارا پریمی مدد کو ضرور پہنچے گا، لتا جی   کی مدھُر آواز ہمارے  انتظار کی کیفیت خوب  بیان کرتی ہے۔ "آئے گا اا، آئے  گا ااآئےگاااا، آئے گاا، آنے واالا آئے گا" مگر نہ وہ آیا نہ اُس کا بحری بیڑہ ۔1971میں ہم آدھا مُلک گنوا  بیٹھے مگر پریم کے اس بندھن پر اِک خراش بھی نہ آنے دی۔
امریکہ کی بانہوں میں جھومنے میں ہی ہمیں اپنی بقا نظر آتی رہی۔
"ہم دونوں مِل کے کاغذ پےدِل کے چِٹھی لکھیں گے جواب آئے گا"
(فِلم     تُمہاری قسم          گائک مکیش، آشا          1978)
ہم دونوں ملکر  کِسی   کاغذی دِل پر  چِٹھی  بھی لکھتے تھے مگر شائد ایڈریس   کی غلطی کر جاتے تھے کیونکہ ہمیں جواب آئی ایم  ایف یا ورلڈ بینک سے ہی  آتاتھا۔
جینئس بھُٹؤدور اقرار و  انکار ، کبھی ہاں کبھی نہ  کی کش مکش میں بُھٹو سمیت ہی بیت گیا
اقرار کرنا مُشکل ہے انکار کرنا مُشکل ہے محبوب سے مُحبت کا اظہارکرنا مُشکل ہے
ہو کِتنا مُشکِل ہے دیکھو اِس دُنیا میں دِل لگانا ہو یارا دِل لگانا
 (فِلم    اگنی شاکسی،    گائیک ایلکا ،    1996 )
اور پھِر ضیاء صاحب کے دور  کا آغاز نئے  سِرے سے اسلامی  ایجاب و قبول  سے ہوا
" تو مُجھے قبول میں تُجھےقبول ،
اس بات کاخُدا گواہ ، خُدا گواہ"
یہ کیفیت   ضیا ء صاحب کی رحلت تک برقرار رہی۔
  زندگی  تو بے وفا ہے ایک دِن ٹُھکرائے گی موت محبوبہ  ہےاپنے  ساتھ لیکر جائے گی
مرکے جینے کی ادا جو دُنیا کو سِکھلائے گا،وہ مُقدر کا سکندر جانِ من کہلائے گا
(مُقدر کا سِکندر       گائک مُحمد رفیع (سیڈموڈ) 1978 )
ضیا  صاحب  مُقدر کا سِکند ر تو نہ بن پائے مگر اس پوری قوم پر سکندر کا  مقدر  بننا لازم  ٹھہرا ۔اس  کے بعد محترمہ بینظیر  کا پہلا دور آتا ہے جِنہوں نے ضیاء صاحب کا اسلامی نکاح گول   کرتے ہو ئے کہانی کے  ٹیمپو کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کی۔ پھِر نواز شریف  اپنے پہلے دور سمیت وارد ہوئے ،گلف وار 1 جب  عوام صدام کے پوسٹر خریدتی  نہیں تھکتی تھی تو حکمران امریکہ کے گلے لگے لوً   ڈانس کرتے ہی پائے گئے،
تیری میری پریم کہانی کِتابوں  میں کِتابوں میں ، کِتابوں میں بھی نہ مِلے گی
تیرے میرے پیار کی خوشبو گُلابوں میں گُلابوں  میں، گُلابوں میں بھی نہ مِلے گی
 (فِلم   پِگھلتا آسمان، گائک   کِشور لتا       1985  )
ارے صاحب  کِتاب کِتاب ہوتی ہے کوئی عطاءالحق قاسمی صاحب کا  اخبار میں چھپنے والا  کالم نہیں جو  اُن میں ایسی  واہیات پریم کہانیاں لکھی جائیں۔
اس کے بعد پریمی  نے پریمکا سے مُنہ موڑ لیا  اور پریمیکا  بیچاری "غم کے آنسو "کے والیم ہی نکالتی  رہی " لمبی جُدائی چار دِنا ں دا پیار اور ربا بڑی لمبی جُدائی "  بالآخر  پریمی  کے دِل میں  پریمیکا کی یاد پھِر سے اُمڈ آئی ۔ جب 11 -9کے بعد  اُسے خیال آیا   کہ اُسکی پریمیکا پر   دہشت گرد  ڈورے ڈال رہے ہیں تو وہ   اِدھر  جنگلیوں کی طرح بھاگتا آیا
"چاہے کوئی مُجھے جنگلی کہے کہنے دو جی کہتا رہے ہم پیار کے طوفانوں میں گھِرے ہیں ہم کیا کریں یا اا ھو"
(فِلم    جنگلی        گائیک مُحمد رفیع           1961   )
اور اِدھر پریمیکا  مشرف کی شکل اختیار کئے ہوئے تھی   جو پہلے سے ہی بوبی بنے   تیار بیٹھی تھی۔اُس نے  فوراً آنے والے کو یہ کہتے ہوئے گلے لگا لیا
"ہم تم اِک کمرے میں بند ہو ں اور چابی کھو جائے"
(فِلم      بوبی               گائک     مُکیش، لتا          1973)
 مشرف صاحب کا  دانہ پانی بھی اِس مُلک  سے ختم ہوا مگر اُس بند کمرے کی چابی ابھی تک نہ مِل سکی جسمیں  پیار کے جدید عہدوپیماں ہوئے ۔ آج بھی ساری قوم  اُس بند کمرے کے رومانس کو بُھگت رہی ہے۔ ہماری موجودہ حکومت  نے اس تسلسل کو من و عن قائم رکھاہے ۔
کہانی میں کُچھ عرصے پہلے ایک ٹوسٹ بھی آیا جب ریمنڈ جی ڈیوس جی  کے واقعے کے بعد ہماری فوج کے ایک ادارے نے  اعلان بغاوت کُچھ یوں کیا
"یہ جو مُحبت ہے یہ اُن کا ہے کام محبوب کا جو بس لیتے ہوئے نام مر جائیں مِٹ جائیں
ہو جائیں بدنام رہنے دو چھوڑو بھی جانے دو یار ہم نہ کریں گے پیار"
مگر سچ بات ہے کہ پہلے پیار میں جادوئی اثر ہے اِک بار ہوجائے تو پھر۔۔۔ کُچھ ہی عرصے بعد وہی لوگ  ریمنڈ جی پر اپنا پیار نچھاور  کیا اور  کٹی  پتنگ کا اگلا گیت  گاتے ہوئےاُسے گھر کی راہ دِکھائی۔
پیار دیوانہ ہوتا ہے مستانہ ہوتا ہے ہر خوشی سے ہر غم سے بیگانہ ہوتا ہے۔
شمع کہے پروانے  سے پرے چلا جا میری طرح جل جائے  گا یہاں نہیں آ
وہ نہیں سُنتا اُسکو جل جانا ہوتاہے، ہر خوشی سے ہر غم سے بیگانہ ہوتا ہے
پریم کی یہ فِلمی ٹرین پھر سے اپنی پٹری پر  بمع لو سینز کے چل نِکلی ۔ مگر دو مئی 2011 کی اِک اندھیری رات  کوپریمی نے شائد زیادہ پی لی تھی  اور اُس نے  پریمیکا سے کچھ بڑھ کر چاہنے کی کوشش کی پریمیکا نے خاموش  رہنے میں ہی عافیت جانی ۔ جُدا جُدا کر کے وہ اندھیری رات بیتی ۔ پریمیکا پریمی کی کژت شراب نوشی کی  عادت سے باخبر تھی ۔ اُس نے اپنے دِل کو سمجھایا کہ" مُحبت اورجنگ میں سب جائیز ہے "" جب پیار کیا تو ڈرنا کیا" اور خاموشی میں ہی عافیت جا نی ۔ مگر سلالہ چیک پوسٹ کی   اُس رات جب چاند  ہر طرف اپنی روشنی پھیلائے ہوئے تھا  ،دونوں معمول کے مُطابق پر روماننٹک باتوں میں مشغول تھے کہ  پریمی  پر پھِر  جنوں طاری ہوا اور و ہ عشق  کے تمام تر آداب  کی حدود پھلانگ کر اس تعلق  کے تصور پر شب خون مار بیٹھا، اور اس انتہائی صبر  آزما، یک طرفہ اور مطلب پرستی  پر مبنی پیار کے کھیل کا خود ہی خون کر بیٹھا۔
اس واقعے کے بعد پریمیکا  بِالکُل ہی ٹوٹ کر رہ گئی۔اُس کاپیار ویار سے دِل باِلکُل  اُچاٹ ہو گیا۔ اُس پر یہ بات روزِ روشن  کی طرح عیاں ہوگئی کہ اُسکا پریمی ایک عیاش ، درندہ صفت اور ہوس کا پجاری ہے۔  اُسے اپنی پِچھلی  زِندگی  پر بہت افسوس  ہونے لگا۔مگر اب ہو بھی کیا سکتا تھا۔ اُس نے خود کو سنھبالنے کی کوشش کی ، مگر  ہائے رے قِسمت  اب گُزرے وقت پر پشیمانی کے عِلاوہ آنے والے وقت کے لئے کُچھ کرنابھی تھا۔ مگر اُسے تو انڈین فلمیں دیکھنے اور اس پریم پوجا کے علاوہ کُچھ آتا  ہی نہ تھا ۔ اُس نے آج تک جوکُچھ بھی  کمایا وہ اِسی  جھوٹےپیار ہی کی دین تو تھی۔ اُس نے ہمت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر اُسکے اندر ہی کے کُچھ خانوں سے  ہمت توڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔   نہ جانے کیوں اُسکو خواب آنے لگےکہ   وہ بدقماش پریمی اپنی غلطی پر بہت نادم ہے (خواب)
"اچھا کہو  چاہے بُرا کہو، سچا کہو چاہے  جھوٹا کہو ، ہم کو سب قبول ہم سے بھول ہوگئی ہم کو معافی دئی دو "
(فِلم    رام بلرام              گائک کِشور     1980)
 کُچھ مزید وقت گُزرا تو اُسے  خیال آیا کہ بجٹ بھی بنا نا ہے مسئلے مسائل بہت زیادہ ہیں اوپر سے فوجی خرچے بھی کنٹرول سے باہر ہیں ۔ بس کیا ہوگا  اور کیسے ہو گا کی سوچ اُسے پریشان کرنےلگی اور نہ جانے کیوں اُسے لگنے لگا کہ وہ جیسا بھی تھا اُسکا واحد آسرا  تھا۔
"ہم تمہیں چاہتے ہیں  ایسے مرنے والا کوئی زندگی چاہتا  ہوجیسے"
(فِلم         قُربانی          گائیک    منہر اُدہاس ، کنچن     1980   )
دُنیا کی  یہ فلاپ ترین لو سٹوری فی الحال اِسی  حالت میں لٹکی کھڑی ہے ۔ آگے کیا ہوتا ہے وہ تو نظر ہی آرہا ہے مگر ایک بات طے ہے کہ عوام اس غلاظت  بھری سٹوری کو پریم  رنگی ماننے کے لئے بالکُل بھی  تیار نہیں ہیں۔ وہ اس  ناپاک کھیل سے تنگ آچُکے ہیں  اور  اِس  تعلق کا خاتمہ چاہتے ہیں  ۔ اب عوام کو بھی آگے آنا چاہئے اور اپنا ایکسٹرا کا رول ختم کرتے ہوئے۔ اپنا رول ڈائریکٹ ادا کرنا چاہئے  ۔ عوام  ساری کہانی کا کچھ اچھے   اور سلیقہ مندانداز میں اینڈ لتا جی کے گانے سے  کُچھ یوں کر سکتے ہیں
 "نہ تمُ بے وفا ہو نہ ہم بے وفا ہیں مگر کیا کریں اپنی راہیں جُدا ہیں"
(فِلم       اِک کلی مُسکائی             گائک لتاجی       1968)
 اگر اینڈ سین میں کُچھ  سختی پید اکرنی مطلوب ہو تو ایک ہی بار کُچھ مردانہ آواز نِکا ل  کریہ  کہا جا سکتا ہے
"اب تیرے بِن جی لیں ہم زہرزندگی کا پی لیں گے ہم "
یہ  ایک نہ چھُپنے والا سچ ہے کہ زندگی کا زہر اِتنا کڑو ا   نہیں ہو  سکتا جتنی اس ملعون پریم کہانی سے مِلنے والا شہد کڑوا تھا۔ آخر میں  ایک بات سیاق و سباق سے ذرا ہٹ کر کرتا جاؤں۔ حضرت آدم اور اماں ھوا کا جنت سے نکالے جانے  کا واقعہ  اگر یاد کریں   تو کُچھ یوں ہے کہ شیطان کے ورغلانے پر اُنہوں نے ایک گندم کے دانہ نُما پھل کھالیا اور سزا کے طور پر  اُن کے ستر کھُل گئے اور وہ جنت نکالے گئے۔ہمارا امریکہ سے  پُر جوش تعلقات  کا آغازبھی    اُونٹوں پر لدی   تھینک یو امریکہ کے الفاظ سے سجی ہوئی  اُن  گندم کی بوریوں سے ہی ہوا جِن کو کھانے کے بعد ہم ننگے ہوتے گئے اور  دُنیا میں ایک عزت دار مقام سےدور تیسری دُنیا کے تیسرے درجے تک جا پہنچے۔