Friday 7 February 2014

میرا گھر، وہ پیارا گھر (حِصہ اول)

سال کا آخری مہینہ آتا ہے تو سات آسمانوں والااپنے چولہے کا برنر سلو کردیتا ہے اوردُنیا والے سوئی سے تلاش کی گئی گیس اپنے چولہوں میں تلاشنے لگتے ہیں۔ مگر اُن دِنوں  گیس نہیں بلکہ ہیٹرکی تلاش مُشکل ہوا کرتی تھی ۔وہ دِن لند ن سے لاہور تک اُڑتے جہاز پر بھی  بہت "بھاری "گُزرا کرتے تھے۔ہمارے  چھوٹےتایا بال  بچوں  بمعہ ہماری تائی  اماں کے  اپنے وطن جو آیا کرتے تھے۔اُس سال بھی اپنی قائم کردہ روائیت کے مُطابق ہماری تائی  نے  ہمیں مِلتے ساتھ ہی   پہلا سوال یہی  پوچھا  تھا،بیٹا پہچانا؟ ؟؟؟۔چھوٹا بھائی جھٹ سے بول پڑا ،آنٹی ہم تو آ پ کودور سے ہی پہچان لیتےہیں ۔تائی اماں  نے بڑے پیار سےاُسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا "اچھا!!بیٹا وہ کیسے؟؟"۔ وہ تو شُکر ہے ،عین موقع  پر چھوٹے کی تشریف پر کاٹی چُٹکی کام آگئی نہیں  تو  ہم پاکستانی بچوں کی  شرافت کا بھرم  کچی پنسل کے سِکے کی طرح ٹوٹ جاتا۔ چھوٹےتایا کی ہِمت کو سوسلام  کہ تھری اِن ون  بیگم کے ہوتے  ہوئے بھی وہ  دوسری، دوسری کی گردان کئے اپنی گِنتی غلط کرتے رہتے تھے۔ اُس روز  تایا کے قدم سے قدم مِلاتی تیکھے نین نقش والی گوری حسینہ پر نظر پڑی  تو ہمارا دِل  جھٹ سےاُسے اپنی دوسری تائی مان بیٹھا۔ گوری چمڑی کااپنے حلقہ رِشتہ داراں    میں شمولیت کے خیال نے  توجیسے  دماغ کی بتی  ہی جلا ڈالی  ۔ مگر یہ بتی ، اگربتی کی سی  خوشبودار دُھنی دیتے ہوئے  ہوا ہوگئی جب ایک ہٹے  کٹے انگریزسے آنکھیں ٹکرااچار ہوئیں۔


یہ لند ن میں رہتے ہمارے تایا کا ہمسایہ کپل تھا۔جو پاکستان کی سیر کی نیت باندھے 
 اپنے دو بچوں سمیت ہمارے درمیان موجود تھا۔ اگلی صبح بہت "مِنتوں مُرادوں "  کے بعد جھنگ سے لایا گیا ہمارا  اصیل مُرغا  اُن کی نذ ر ہوا۔  چار عدد جوان جہان مُرغ بیبیاں وِدھوا ہوئیں چھُری ہمارے دِل پر چلی مگر مُرغے کا خون دیکھ کر "ہاؤ کروئل دیز پیپل آر" کی آوازیں ہمارے سینے پر مونگ دلتی رہیں۔ہمیں کروول  کہتا  ،گیارہ بارہ سال کا یہ انگریز بچہ  مُجھ سے کوئی  سال ایک  چھوٹا ہی  تھا مگر قد میں مُجھ سے چوٹی  نِکالے ہوئے تھا۔اِن خاص مہمانوں کو دو دِن میں فیصل آباد کے مشہور آٹھ بازاروں سمیت  چند دیگر اہم مقامات دِکھائے گئے۔ ہمارے گاؤں میں گُزارا گیاتیسرا دِن ،حقیقی معنوں میں ایک یادگار دِن تھا۔۔ پگڈنڈیاں چھوڑے  سرسوں کے کھیتوں میں دیوانہ وار بھاگتے ، کِنو کے باغ   میں چھلانگیں لگا ئے ، پسند کا دانہ توڑتے  ہم  اور ہمارے مہمان ۔ اُس دِن تو سورج کی کِرنیں بھی جیسے شہد میں نہاتی آرہی تھیں ، چہار سو مِٹھاس بِکھری نظر آتی تھی۔ڈیرے پر  بڑی بڑی  کڑہائیوں میں بنتا گُڑ جِسکی گرم پت   سے  مُنہ جلتا ،مگر زبان  یہ  میٹھی جلن بار بار مانگے جاتی تھی ۔ گڈے کی  سواری    کے دئیے ہچکولوں  سے تو  اہلِ لندن ایسے محظوظ ہوئے کہ جیسے ڈزنی لینڈ کی رولر کوسٹر میں بیٹھے ہوں ۔ کچے رستے پر ایک لمبا چکر لگانے پر سر ہلا کر غُصہ دِکھاتے بیل  نے تھکاوٹ کا اظہار کیا مگر  سواریاں ونس مور، ونس مور کہتی سُنی گئیں۔

اگلے دِن ہمارے خاص مہمانوں نے لاہور کے لئے رختِ سفر باندھا۔ اپنے جنمی دستاویز پر لاہوری ٹھپے کی خاطراُنہوں نے چار دن مُختص کر رکھے تھے اور اِس کے بعد اُنہیں   بھارت یاترا کے لئےاُڑان بھرنی تھی۔صُبح ناشتے کے بعدسیڑھیوں  سے  اُترتے  ہوئے اُس لڑکے میں بغاوت کے کُچھ جراثیم نظر آنے لگے۔ لڑکے کے  والدین  نے معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے  مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ معاملہ کُچھ یوں تھا کہ ہمیں کروؤل کہنے والا  وہ مہاتما بُدھ  اپنے  والدین کا ہمسفر بننے سے انکاری تھا۔ وہ اپنے ہمسائے  دوستوں (میرے کزنز) کےساتھ رہنے اور اُنہی کے ساتھ لندن  واپسی کا ارادہ رکھتا تھا۔ اِن مُذاکرات کا نتیجہ اُس لڑکے  ہی کے حق میں برآمد ہوتا دیکھا تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ محض چند لمحوں کے  لئے خود کو اُس لڑکے کی جگہ تصور کیا تو اپنے چہرے کو لال و لال پایا ۔ اُس انگریز لڑکے کا نام پیٹرک  تھا ۔ وہ اگلے تین ہفتوں تک ہمارے ساتھ رہا۔

ہماری گلی کے مکینوں میں   سوتر منڈی کے سیٹھوں کی اکثریت تھی۔شائد کِسی پیر 
سوتر شاہ کی دعا کا اثر تھا  کہ سیٹھوں کا تیار کردہ سوتر تجوریاں دھن سے بھرےچلا جاتا تھا ۔ چند ایک گھرانے ریل بازا ر کے سنیاروں  کے بھی تھے جو کہ دعوی کرتے تھے " ہم زیورات کی واپسی پر کاٹ نہیں لیتے"  اب سادہ لوح  خریداروں کو کون سمجھائے کہ مگر مچھ کہ طرح نگلنے والوں کو بھلا" کاٹ لینے" کی کیا ضرورت پڑے۔۔۔بشمول ہمارے،  گلی کے دو گھرانوں سے "وے کِتاباں کھول تے کُجھ پڑہ  مر وی لے " جیسی آوازیں سُننے کومِلا کرتی تھیں ۔ اس قِسم کی آوازیں نِشانی ہوتی ہیں  نان کاروباری مڈل کلاس گھرانوں کی۔کاروباری گھرانوں میں تو سِلسلہ کوہِ تعلمیہ میں میڑک کی سند 8611 میٹر بلند تصور کی جاتی ہے ۔ ادھر بچے نے کےٹو سر  کی، اُسے مُبارک دیتے ہوئے دُکان کی راہ دِکھلا دی گئی۔مگر  ہم جیسے مِڈل کلاسیوں  کو "پڑہو گے لکھو کے تو بنو کے نواب " طرز کی  لوریاں دے دے  سُلایا جاتا ہے۔اِن گھرانوں کے بچے جب سر اُٹھا کر آسمان کو دیکھتے ہیں تو رب سے اور کچھ نہیں بس  اچھے  نمبر مانگتے ہیں۔ امتحان میں حاصل کئے  اچھے نمبر ہی سُکھی زِندگی کی ضمانت ہوتے ہیں۔۔اُس کے نمبر؟اِس کے نمبر؟   تُمہارے نمبر ؟کِتنے نمبر ؟ کہاں ہیں نمبر؟کیوں نہیں آئے نمبر؟؟؟؟ ۔ بچے کے نمبر نہ ہوئے سٹاک مارکیٹ کے خریدے ہوئے  شیئر ہوگئے جِنہیں  ماں باپ ہر وقت بڑہتا ہی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ میرے کم امتحانی نمبروں پر ابا  یہی کہا کرتے  تھے "اگلی بار تُم نے اپنی حالت نہ بدلی تو  بازار میں ریڑھی  لگوا دوں گا"۔ مُجھے اُن دِنوں گولی ، مچھی ، امبلی چورن والی ریڑھی بہت فیسینیٹ کیا کرتی تھی۔ ہر بار میرا رِزلٹ کارڈ لفظ بنے میری خواہش بیان کرتا ۔ مگر سچ بات ہے کہ حُکمران خواہ گھر کا  ہو یا  مُلک کا بس بیانات دینے پر ہی یقین رکھتا ہے۔

ہمارے گھر کا مین گیٹ لکڑی کا تھا جِس کے درمیان میں ایک چھوٹا سا دروازہ بھی تھا   ۔ اِک  بارہ سال کا  بچہ بھی اُس چھوٹے دروازے سے سر کو ہلکا سا  خم دے کر ہی گھر کے اندر داخل ہوتا تھا۔  بائیں طرف بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ  تنگ سی سیڑھیاں اوپرگیلری کو جاتی تھیں۔ گیراج کے اوپر بنی یہ لمبی گیلری گیسٹ روم کے طور اِستعمال ہوتی یا پھِر ہمارے قبضے میں رہتی ۔ ہم نے پیٹرک کے  ساتھ اُن تین ہفتوں میں  وہاں خوب اُدھم مچایا ۔ اُچھل کود میں وہ ہم سے بھی آگے تھا۔ جو کام ہم سالوں میں نہ کرسکے اُسے نے دو ہفتوں میں کردیا۔یعنی  کمرے کے بیڈ  اور ایک عدد صوفہ سیٹ   کی" دھلائی  "۔ بیڈ اورصوفہ کے ہاتھ پاؤں ٹوٹنے کی خبر   والدہ کو ہوئی ، اور ہمیں  مزیدارلزیذ، چٹخارے دار،اُردو پنجابی مِکس ڈانٹ کھانی پڑی۔ اپنی بھی اور  اُس  انگریزی دان کے حِصے کی بھی  ۔ہمارے لندن پلٹ کزنز بھی  ایک قِسم کے انگریز بابو  ہی تھے۔ پاکستان سے اُنہیں نہ کوئی دِلچسپی تھی اور نہ  لگاؤ۔ ٹوٹی پھوٹی اُردو بول کر ہم پر احسان کرتے تھے۔پانی کی جگہ بس پیپسی کو ہی مُنہ لگائے رکھتے تھے۔ وہ دِن عید کا ہوتا تھا یا پھِر کِسی مامے چاچے کی شادی کا جب ہمیں دن میں دو بوتلیں نصیب  ہو جاتی ہوں۔ مگر یہ  لوگ تھے کہ  بوتل پر بوتل  چڑہائی جاتے تھے ۔ اِسی لئے ہم دِل جلوں نے اِن کانام "سزائے کالا پانی" رکھ دیا تھا۔بحرحال اُس ولیتی پارٹی کے ساتھ گیلری میں گُزرے  وہ دِن خوب رہے تھے۔گیلری کے عین نیچے گیراج تھا،جِسے گاڑی  شاذو ناذر  ہی نصیب ہوئی۔میری پیدائش سے پہلے تک اس گیراج میں ایک عدد بھینس باندھی جاتی تھی۔ ہمارے گھر کے اِس ڈبل ڈیکر  نما حِصے کے اوپر  ایک  گارے مِٹی سے بنا کچا کمرہ بھی تھا جوکہ سٹور کے طور پر اِستعمال ہوتا تھا  یا پھِر رمضان کے  آخری عشرے  ،ہماری دادی  اُسی کچے کمرے میں اعتکاف  بیٹھتی تھیں۔۔ اس  کمرے کی بڑی تاریخی حیثیت بھی ہے کیوں کہ یہاں  ایوب خان  کا قصیدہ لِکھنے والا شاعر چند دن روپوش رہاتھا۔

بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ باد
آج بھی ہم پر جاری ہے
کالی صدیوں کی بیداد
صدر  ایوب زِ ندہ باد
بیس روپیہ من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر، سہگل ،آدم جی
بنے ہیں بِرلا اور ٹاٹا
مُلک کے دُشمن کہلاتے ہیں
جب ہم کرتے ہیں فریاد
صدر ایوب زِندہ باد


ابا بتاتے ہیں کہ تُمہارے  بڑے تایا نے حبیب جالب صاحب کو اِس قدر راز داری سے گھر میں چھُپایا تھا کہ  تُمہاری دادی  کے عِلاوہ کِسی تیسرے کو  بھنک تک نہ پڑی تھی۔ ہمارے بڑے تایا   نے زِندگی میں ہمیشہ دلیرانہ اور بڑے  فیصلے کئے۔یہ غالباً اُس دور کی بات ہے جب فاطمہ جِناح کی پُکار پر پوری قوم صف بند تھی ۔مگر گرجدار آواز میں عزیز ہم وطنو کہنے والوں کے عزیز تو چند ایک ہی ہوتے  ہیں   اور باقی  سب ٹھہرے بھیڑ اور بکریاں۔
جاری  ہے۔۔۔۔