Sunday 16 June 2013

نیکی سے دریا

وہ سڑک کِنارے بِکھرے ہوئےکھانے کے ڈبوں اور مشروبات کے ٹِن پیکس پر جھُکا ہوا تھا ۔سڑک پر اِکا دُکا گاڑیاں اور چند ایک سایئکلیں اپنےمُتعین کردہ  رستوں پر وقتِ مُقررہ میں پہنچنے کو بے چین نظر آتیں تھیں۔ اِس مشینی دور کے اوقات کار نو سے چھے میں ابھی قریباً آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ وہ اِرد گِرد کی دُنیا سے بے پرواہ اِن خالی ڈبوں کو سمیٹنے میں لگا تھا کہ اِک گاڑی اُس کے سامنے آکر رُکی ۔ وہ کھڑا ہوا  اور فورا سے گاڑی کی طرف  بڑہا ۔ کار کا شیشہ اُترا  ایک نیلی آنکھوں والی خوبصورت دوشیزہ نے پانچ یوروکا نوٹ اُس کی طرف  بڑہاتے  ہوئے اِلتجائیہ سے انداز میں  کہا" اگر تُم بھوکے ہو تو دُکان سے کُچھ لیکر کھالو"۔ اِس  آفر کا جواب نہ پاکر اپنی شرمندگی  چھُپاتے ہوئے معصوم گُڑیا کی سی شکل بنا کراُسنے       اپنی آفر  بڑہا تے ہوئے   سوال کیا "کیا تُمہیں مزید پیسے چاہیں؟"۔  " جی نہیں میرے لئے اِتنے پیسے ہی بہت ہیں ،آپ کا شُکریہ"  یہ کہتے ہوئے  اُس نے  نازک ہاتھوں سے نوٹ پکڑ لیا۔ کھِلے چہرے کے ساتھ نیلی آنکھوں والی نے ناٹ  ٹو مینش کہا اور  گاڑی گئیر میں ڈال دی ۔  داہنے ہاتھ  کی اُنگلیوں میں  نوٹ سے کھیلتے ہوئے اُس کی نظریں دور تک گاڑی کا تعاقب کرتی رہیں۔ گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی تو اُس نے بائیں ہاتھ کی اُنگلیاںاپنی لمبی زُلفوں  میں پھیریں ،  ایک نظراپنے جوتوں اور  اوور کوٹ پر ڈالی ۔     جمع شُدہ خالی ڈبوں سے ڈسٹ بِن کا پیٹ بھرا  اور سائکل پر سوار ہو کر اپنی راہ پر چل نِکلا

برخِلاف معمول وہ  آفس پندرہ مِنٹ لیٹ پہنچا ۔ اپنی  آرام دہ کُرسی پر بیٹھتے ہی اُس نے جیب سے پانچ یورو  کا نوٹ نِکالا اور میز پر رکھ دیا  ۔ کُچھ دیر بعد اُس نے اپنے کو ورکرز کی میٹنگ کا ل کی اور میز پر پڑے  پانچ یورو کا   مُکمل قِصہ بیان کرڈالا۔ "آپ نے اُس لڑکی سے یہ پیسے کیوں لئے ؟" بہت سی زبانوں  سے یہی اِ ک  سوال ایک ساتھ نِکلا ۔ مُسکراتے ہوئےاُسنے تمام  ساتھیوں پر ایک نظر ڈالی اور گویا ہوا۔"میں اُس لڑکی  کے دِل سے  بہتے نیکی کے جذبے پر شرمندگی کا پتھر نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔ میر ی خواہش ہے کہ اِس نیکی کا درست مصرف ہو میں نے اِس  5 یورو سے ایک اکاوئنٹ کھولنے  کا اِرادہ کیا ہے    جِس سے   دُنیا کے غُربت  زدہ عِلاقوں میں بھوک کا شِکار لوگوں کی مدد کی جا سکے مگر  یہ سب آپ کے تعاون سے مُمکن ہو سکے گا"۔

آج صُبح  کی میں نے اپنی ای میل چیک کی تو  یہ واقع پڑہنے کو مِلا  جِسے پڑہ کر مُجھے اپنا  کالج کا یار یاد آگیا۔ وہ کالج  کا پہلا دِن تھا  جب ایک دوجے کے نام سے ناآشنا  ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سینئیر سٹوڈنٹس  کے نوکیلے جُملوں  اور اُن کے ہاتھ میں پکڑی رنگیلے پانی کی سُرنجوں سے اپنی سفید شرٹیں  بچاتے ایک کلا س روم سے دوسری میں چھُپتے پھِررہے تھے ۔ اگلے دِن  اُس  لڑکے  کو اپنی کلاس ہی میں موجود پایا۔ پہلے دِن کا اِتفاقی ساتھ اور دوسرے دِن کا تعارف ہماری دوستی  کا باعث بنا  ۔ چند ہی دِنوں میں ہماری دوستی ایک ختم نہ ہونے والی موٹر وے پر چل نِکلی جِس پر کہیں کوئی سپیڈ بریکر  یا رُکاوٹ نہ تھی۔ وہ   فرنٹ سیٹس  پر بیٹھنے والا اُساتذہ سے سوال کرنے والا اپنے جواب سے سب کو لاجواب کرنے والا  ،دوسروں  کو  سوال کرنے پر اُکسانے والا اورچیلنج قبول کرنے والا لڑکا تھا جب کہ میں سدا کا بیک بنچر اپنے چھوٹے قد کے باوجود آخری سیٹوں پر دُبک کر بیٹھنے والا نکما  طالب عِلم ۔  اُس نیلے آسمان والے کے اپنے ہی رنگ ہیں جِس نے مُجھ جیسے اِنسان  کو دھکا لگا کر آگے چلانے کا کیا بندوبست کر رکھا تھا۔

وہ باغ کے اُس پھول کی طرح تھا جِس کی مُنفرد خوشبو سے مُتاثر ہوئے بغیر کوئی رہ نہیں پاتا. مُجھے یاد  پڑتا ہے،  غالباً ہماری  کالج لائف کا تیسرا مہینہ چل رہا تھا ہمارے آٹھ بازاروں کے شہر  کے ایک بازار میں بم دھماکہ ہواتھا۔ وہ  سہ پہر کا  وقت تھا ۔  دھماکے کی خبر مِلتے ہی  وہ   خون دینے ہسپتا ل پہنچ گیا تھا۔ اگلے روز کالج    کے لان میں ہم جیسے بہت سے محبانِ وطن یار دوست سر جوڑے بم دھماکے کے اثرات و محرکات کا باریک بینی سے تجزیہ کرتے رہے  ۔ اپنی کمزوریوں سے لیکر  یہودو نصارا کی سازشوں تک ہر نُقظہ زیر بحث رہا ۔ ہم نے  را سے لیکر  کے بی جی اور موساد  تک کا اپریشن  کر ڈالا ۔   مُلکی مُفاد   کے اِس اکٹھ میں    دردِ دِل  والی ہر آواز تڑپی  ۔مگر  وہ  ہمارے درمیان موجود نہیں تھا  ۔ اُس نے     دھماکے میں  جان بحق ہوجانے  والوں کا جنازہ پڑہنا اور زخمیوں کی تیمارداری کو  اِس قومی سلامتی کے اکٹھ سےزیادہ ضروری جانا۔ عملیت پسندی کی یہی عادت اُسے مُنفرد بنا دیتی تھی۔

بڑا مان تھا اُسے میری مُحبت پر بہت اِترا اِترا کر وہ چلتی تھی۔میں بھی اُس کےبہت  ناز نخرے اُٹھاتا رہا ۔اب سالوں سے میری بے وفائی پر آنسو بہاتی  گھر کے سٹور میں کھڑی ہے ۔  وہ پگلی کیا جانے کہ حضرتِ مرد محبت سے زیادہ حاصل کرنے اور اِستعمال کر نے کا رسیا ہوتا ہے۔ میں اِسی سہراب کی سائیکل پر کالج جایا کرتا تھا۔دِن چڑہے   وو کِتابیں کیرئیر میں دبائے  تیز تیز پیڈل مارتے  ہانپتے  کانپتے کالج پہنچنا  اور واپسی پر سیٹیا ں بجاتے ،گُنگُناتے کچھوے کی چال میں    بچیوں کے ٹانگے کے پییچھے  چلتے رہنا۔ اِدھر  نینوں سے نین لڑے  اور آنکھیں بول پڑیں اپنی زباں۔لمحوں  میں   سینکڑوں باتیں کہنا  اور بیسویوں جواب وصولنا  کبھی پیار میں بھرے کبھی جوتوں میں  لِپٹے۔قسم ہے میکملن کی ، جِس کی ایجاد کردہ  سواری میں جو مزہ ہے وہ کِسی جھنڈے والی گاڑی  میں  بھی نہیں۔ بس ٹانگے میں بچیاں ذرا  لِفٹ کروانے والی ہونی چاہیں۔ میری  اِن  چلتی پھِرتی پریم کہانیوں میں روزانہ  اِک وِلن بھی اینٹری مارا کرتا تھا۔ بس ایک جانی پہچانی آواز "یار سائیکل روکیں" اور  یہیں پر فِلم کی ریل کٹ جاتی ۔ وہ    کالج سے واپسی پر میرا  ہمسفر ہوتا تھا۔ سائیکل کے پیچھے کیرئیر پر بیٹھے کبھی اُس کی نظر کِسی پریشان  حال بُڑہیا پر پڑ جاتی تو کبھی  کو ئی  تھکاہوا مُسافر یا  کوئی   بُڈھا    پیدل چلتا نظر آجاتا  اگر ایسا کچھ نہیں  تو  روڈ کے کنارے پڑا کوئی پتھر  اُس کی نظروں کو پا لیتا  جِسے ہٹانا  قومی فریضہ ٹھہرتا۔ مُجھے ناچاہتے ہوئے بھی اُس کی اِن نیکیوں میں ایک مِڈل مین کا کردار ادا کرنا پڑتا تھا۔

ہماری کلاس کی اکثریت اُس کی گرویدہ تھی مگر   کُچھ لڑکے   اُس کی اِنتہا کو چھوتی آئیدئلزم  اور اصول پرستی سے عاجز تھے۔     اپنے آئڈیل اِزم  ہی  کے  باعث اُس نے سلیکٹو سٹڈی کے خِلاف  کلا س میں اپنا سخت موقف بیان کیا اُس کا کہنا تھا کہ  اساتذہ کا   کا م تعلیم دینا اور ہمارا تعلیم  سے اِستفادہ کرنا ہے   یہ نمبرز کی دوڑ میں میں شامل ہوکر  سیلیکٹور سٹڈی اپنے  فرض سے  ناِانصافی ہے  ۔ قِصہ مُختصر نہ وہ کِسی کو اپنی بات سمجھا سکا اور نہ کوئی اُسے۔ اِک دِن پرنسپل کے  آفس کے قریب سے گُزرتے ہوئے میں نے اُس سےکہا ۔ یہ جوانگریزی کا لفظ پرنسپل ہے نہ بڑا بھاری  ہے  ۔اِس  سجےسجائے کمرےمیں  جو  اِک  رعب دار   اور سخت طبیعت  والا شخص بیٹھا ہے  نہ وہ پرنسپل صاحب کہلاتا ہےاِن  کی عِزت کرنا ہماری مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی ۔ اِسی طرح کا ایک   پرنسپل تیرے اور میرے اندر بھی بیٹھا  ہے  جو ہم پر اِسی طرح رعب چلاتا ہے  ۔ مگر اُس کی سننا  نہ ہماری مجبوری ہے اور نہ ضرورت ۔ ۔ اپنے اندر بیٹھے  کے بنائے  گئے پرنسپل کی ہر وقت ماننا کہیں کی عقلمندی نہیں  ۔ اِس دُنیا میں جیت جانے والے کو سب ہار پہناتے ہیں  مگر  ہار کی تو  کوئی ماں بھی نہیں ہوتی جو دلاسہ دینے کو آئے ۔اُس نے جواب دیا کہ  اِنسان یا زِندگی جیتا ہے یا گُزارتا ہے  اور  میں زِندگی جینا چاہتا ہوں ۔زِندگی میں جیت زورآور کی ہی نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو پہاڑوں کے سینے کبھی بھی چیرے نہ جاتے۔ حقیقی جیت  ہمیشہ زور لگانے والے کی ہی ہوتی  ہے

 امتحانات کے نتیجے میں  وہ چند نمبر کم ہونے کی وجہ سے انجنئرنگ یونیوسٹی میں داخلہ حاصل نہ کر پایا۔اُس نے اپنے ضمیر کی آواز کو دبنے سے بچا لیا مگر  اپنے والد صاحب کے چھِتروں سے خود کو نہ بچا سکا ۔ اُس کے والد صاحب  اپنے قابل بچے  کو انجنئیر بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ایک سرکاری مُلازم جو رِشوت لینے کو حرام سمجھے   ساری عُمر  گھر کی دال روٹی چلانے میں گُزارے اور اپنے جیسوں کی کوٹھیاں بنتا دیکھے۔وہ  اپنی خواہشات کی پوٹلی  اولاد  کے سر پر لادنے کے سِوا بھلا کر  بھی کیا سکتا ہے۔ ۔ والد صاحب کا رویہ اُس کے ساتھ دِن بدن سخت ہوتا گیا۔  والد کے حُکم پر اُس نے دوبارہ پرچے دینے کا اِرادہ ترک کردیا ۔اورسر  جھُکائے ہر حُکم کی تعمیل کرتا رہا۔ اُنہی کے حُکم پر نا چاہتے ہوئے بھی اُس نے بی کام میں داخلہ لے  لیا۔اُسکی  ماں جو کہ ایک سکول ٹیچر تھی   نے اپنے بیٹے کو ہِمت نہ ہارنے اور صبر اور شُکر کی تلقین ۔ یہ غالباً ماں کی تربیت کا اثر تھا کہ میں نے اُس کی آنکھوں میں کبھی مایوسی نہیں دیکھی ۔بی کام  کی کلاسز لینے کے دوران وہ اپنے طور پر باپ کے خواہش کی تکمیل کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔  سات آٹھ ماہ بعد ایک اعلی تعلیمی اِدارے میں  اُس نے اینٹری ٹیسٹ دیا اور  اُسے وظیفےپر  انجئرنگ میں داخلہ مِل گیا۔ چار سال بعد   اُس نے اپنے باپ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرڈالا۔

اعلیٰ  اِدارے کی تعلیمی ڈِگری کے سبب اُسے بہت جلد سرکاری جاب بھی آفر ہوگئی ۔ مُجھے یاد ہے وہ دِن جب  وہ  مٹھائی کا ڈبہ لئے  یہ خوشی کی خبر  دینے میرے گھر آیا تھا۔وہ  بہت ایکسائٹڈ نظر آرہا تھا ۔ ویسے کا ویسا ہی تو تھا  وہ ۔زِندگی گُزارنے والا  نہیں بلکہ جینے والا۔ہمیشہ مُثبت سوچنے والا کِسی سے کوئی شکائت نہ کرنے والا ، اپنے اندر بیٹھے  کے  بنائے گئے پرنسپلز کو نہ توڑنے والا، دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والا۔اُس نے بڑے جذبے کے ساتھ سرکاری نوکری جائن کی۔اِس  کینسر زدہ سِسٹم کو یکسر بدل ڈالنے کے عزم کے ساتھ کبھی ہار نہ ماننے  کا اِرادہ کئے ۔مُجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنی سرکاری نوکری میں کیا کچھ تبدیل کر پایا۔ میں تو بس اِتنا جانتا ہوں کہ  اپنی نوکری کے تیسرے سال اُس نے جاب سے  اِستعفی دے دیا۔ کِسی سے  کوئی گِلا کئے بغیر ، اپنوں  کو گالی دئے بغیر،اِس سسٹم پر لا عِلاج ہونے کا ٹھپہ لگائے بغیر وہ خاموشی سے امریکہ چلا گیا۔

میرا اُس سےرابطہ  خط و کِتابت کے ذریعے قائم رہا۔ میں اپنی زِندگی کے رونے  ، اُسے لِکھتا تو  اُس کا پیار بھرا  اور ہِمت نندھاتا ہوا جواب  موصول پاتا ۔  خط کی چند سطریں پڑہتے ہی میرے اندر کی تمام گندگی اُبل پڑتی ۔ ٹِپ ٹِپ کرتے آنسو  کاغذ پر گرِتے  اور میں سکون سا محسوس کرنے لگتا ۔ اُس کی لِکھی باتوں سے میرے اندر اپنی بقا کی جنگ لڑنے کا پھِر سے حوصلہ پیدا ہو جاتا۔ اُس کی تحریر میں اپنے وطن اور اپنوں کے لئے آج  وہی پیار وہی  تڑپ محسوس ہوتی۔میں اُسکا خط اپنے سرہانے رکھتا ،کئی بار پڑہتا۔اُسکے لِکھے حروف کی خوشبو محسوس کرتا   ۔ خط پر گِرے اپنے آنسو گِنتا اور سو جاتا۔مگر اِس  تیزی سے ہوتی اِنسانی ترقی نے میرا یہ قیمتی اثاثہ مُجھ سے چھین  لیااور  خط کی جگہ ای میل نے لے لی۔ آج صُبح ای میل میں  میرے یار نے مُجھے اپنا پانچ یورو  والا قصہ لِکھ بھیجا  ۔وہ آجکل  ولندیزیوں کے شہر ایمسٹرڈیم میں  اِک  ملٹی نینشنل کمپنی میں اعلٰی عُہدے پر فائز ہے ۔

وہ دھرتی کبھی بھی بانجھ نہیں ہو سکتی جہاں  میرے یار جیسے سپوت پیدا ہوتے ہوں۔ جو  نیکی کر کے دریا میں ڈالتے نہیں  بلکہ نیکی سے دریا بنا ڈالتے ہیں۔اللہ سے دُعا ہے کہ ہمارا سِسٹم کم ازکم اِتنا بہتر ہوجائے  کہ میری دھرتی کے یہ انمول پُتر اپنی دھرتی چھوڑ کر باہر نہ  جائیں۔(آمین)