Friday 29 November 2013

وہ دس دِن

مُسلسل اِنکار پر اُس نے مُجھے میری محبت کا واسطہ دے ڈالا ۔اِس جذباتی حملے نے میری ناں ہاں میں بدل دی۔ وہ اُسے میرے حوالے کرتے ہوئے  بولا "تو نے  بس یہی سمجھنا کہ تو کِسی اور کو نہیں مُجھے اپنا مہمان رکھ رہا ہے " ۔ میں نے نِسبتا چھوٹے ڈائیامیٹر کی دو عدد گالیوں سے  اُس کا مُنہ بند کیا۔ یہ میرا دوست جمیل تھا ۔اُس کا دیا ہوا واسطہ کِسی "جانو "کا نہیں بلکہ جانوروں سےمیری محبت کا تھا ۔وہ  چھوٹے ماموں  کی شادی پر دس دِن کے لئے ڈیرہ غازی خاں  جاتے ہوئے اپنا  ڈوڈو نامی کُتا  میرے حوالے کرگیا۔ میں نے ڈوڈو  سے   ہیلو ہائے کرتے ہوئے اُس کا تعارف ٹامی سے کروایا۔ ٹامی ، چِٹے سفید بالوں  والا  معصوم ،پیار ا سا ، ہمارا رشین کُتا۔ اپنی شے بھلے  ٹُٹے  پیڈل والی سائیکل ہی کیوں نہ ہو چنگی  لگتی  ہے  ،  ڈھلتی عمر والا ٹامی تو خیر ہم سب کا لاڈلا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری گلی والے اُسکی غُصیلی طبیعت سے اکثر نالاں رہتے تھے۔

ڈوڈو اور ٹامی کے دو چار گھنٹے ایک دوسرے سے چھیڑ خانی کرتے کھیلتے کودتے خوشگوارماحول میں گُزرتو گئے مگر اس دوران میں نے محسوس کیا کہ ڈوڈو کو پیار کرنے پر ٹامی کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ رات کے کھانے پر تو شیطان نے "پہلے میں " کا ایسا گھٹیا وار کیا  کہ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ رہے ۔ڈوڈو اپنی جوانی   پر اِتراتااور قد کاٹھ کا گھمنڈ  کرتا  ،پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھااور ہمارا ٹامی  حقوقِ ملکیت کِسی کو دینے پر راضی نہ ہوا۔ صُلح کی ہر کوشش ناکام  ہوئی باِلآخر ٹامی کو پِچھلے صحن مُنتقل کر کے فریقین میں حد بندی کرنی پڑی ۔"کُتا بڑی کُتی شے ہوتا ہے " سیانو ں کی یہ بات میں نے سُن رکھی تھی۔ مگر اِس شے کی گہرائی ،چوڑائی ، حُجم  ،سب  کُچھ مُجھے ڈوڈو نے ایک ہی دِن میں سمجھا دیا۔جمیل نے درست کہا تھا کہ میں دس دِنوں کے لئےمیں  اُسے ہی اپنا مہمان رکھ رہا ہوں۔ڈوڈوباِلُکل اُسی ساضِدی ، ہٹ دھرم اوربے ترتیبہ تھا ۔کِسی قائدے  قانون کو نہ ماننے والا۔  اُسے کھولنا مُشکل اور  باندھنا عذاب تھا۔نسل کا خالص ہونا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سُنانےکو تو جمیل ڈوڈو  کے ماںاور  باپ  دونوں کا شجرہ نصب سات پشتوں تک سُناتا تھا مگر حقیقت نہیں سب فسانے تھے۔پہچان رکھنے والے سب سمجھتے تھے کہ ڈوڈو کی ماں کے ساتھ کوئی بے نسلا "کُتی حرکت "کر گیا تھا  اور ڈوڈو۔۔۔۔

ٹامی کو پِچھلے صحن تک محدود کر دیا گیا اورڈوڈو کو اگلے صحن میں باندھا جانے لگا۔ ہمارے گھر کے سامنے پارک تھا۔  صبح کے وقت اور شام کو ٹامی کو اُس پارک تک لانے کے لئے گھر میں دفہ "کُتالیس" لگانی پڑتی تھی ۔یعنی یہ بات یقینی بنائی جاتی تھی کہ  دونوں کِسی صورت میں بھی ایک دوسرے کا مُنہ نہ دیکھنے پائیں۔ بصورتِ دیگر  اگلے دِن ڈاکڑ عبدلقدیر کو اپنے کلینک میں ایمرجنسی لگانی پڑجاتی ۔ڈاکٹر صاحب ہمارے عِلاقے کے مشہور ای این ٹی سپیشلسٹ تھے۔ڈاکٹر صاحب محلے میں" کناں آلا ڈاکٹر "کے نام سے جانے جاتے تھے"یہ پیارا سا  نام اِنسانی کانوں کے لئے  اُن کی گرانقدر خدمات کا  صِلہ نہیں تھا  بلکہ  اللہ کے عطا کردا  ا ُن کے اپنے    ہاتھی نما  کان اِس  خِطاب کا سبب بنے تھے ۔

میں اُن دِنوں میں سیکنڈ ایئر کا سٹوڈنٹ تھا۔ ہفتہ وار تعطیل جُمعے کو ہوتی تھی اور اُس ویک اینڈ پر کالج  کے دوستوں نے سینما میں رات کا شو  دیکھنے کا پروگرام بنایا۔  میرے دِل میں سینما درشن کی خواہش  کافی عرصے سے انگڑائیا ں لے رہی تھی، سو میں نے حامی بھرلی۔ اب مسئلہ گھر سے رات کو پھوٹنے کا تھا۔ کام بہت مُشکل تھا    اِک ذرا  سی  لغزش کچے پلستر کی طرح  کھال اُدھڑوا سکتی تھی۔ میں نے یہ رِسک لینے کا فیصلہ کیا۔چھوٹے بھائی کو دو سموسوں کا لالچ دیکر شریک جُرم کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ  اُن دوسموسوں میں سے ایک  پر میں نے ہی ہاتھ صاف کئے۔خیر  "بڑےبھائی کا بھتہ " کی   یہ روائیت توچلی آرہی ہے۔ رات نو بجے چھوٹے بھائی نے  سرکاری  کاغذوں میں  میری نیند پر دستخط کئے ، مہر لگائی اور سیل بند لفافہ  دروازے پر لٹکا  چھوڑا ۔ سبزی منڈی میں واقع بابر سینما ، میری پہلی سینما گردی ، مزید یہ کہ ہر دس مِنٹ بعد  ناچتے گاتے شان اور ریما ۔ بس یہی تھا میرے اُس ایڈونچر کا کُل حاصل ۔واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ کِتنے اچھے ہوتے ہیں وہ بچے جو بڑوں کی باتوں کو پلے باندھ لیتے ہیں خود سے تجربہ کر کے خوار نہیں ہوتے۔
لوٹ کے یہ بُدھو جب گلی کے نُکڑ پر پہنچا تو رات کے دو بج چُکے تھے۔ غالباً نومبر کا تیسرا   ہفتہ تھا۔ ہولے ہولے  سے چلتی ٹھنڈی ہوا موسم کو اچھا خاصاسرد کئے ہوئے تھی۔ رات  تو جیسے کالےسمند ر میں ڈوبی ہوئی ہو۔اِس فِلمی مِشن کا آخری مرحلہ سر پر آن پہنچا تھا۔اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی مُجھے مین گیٹ پر ڈوڈو کی موجودگی کا احساس ہوا۔ میں  پوری گلی کو فِلم کی کہانی سُنانے کا رِسک نہیں لے سکتا تھا لہذا میں اُلٹے قدموں واپس ہوا۔اب میرے پاس  پِچھلی گلی سے گھر پہنچنے کے سِوا اور کوئی  راستہ نہیں تھا۔ شام کے بعد اِس پتلی گلی میں تو جن بھوتوں کی محفل سجتی تھی ۔ اُس اندھیری رات  تو ایسے لگ رہا تھا   جیسے گلی میں چڑیلیں  بال بکھیرے لیٹی پڑی ہوں۔ بس ایک  غلط قدم پڑا اور بندہ چڑیل کے مُنہ میں۔ اب چڑیل کا مُنہ ہو یابِنا ڈھکن کے گٹر نتیجہ تو ایک ہی سا  ہوتا ہے۔ خیراللہ اللہ کر تا میں اپنے گھر تک پہنچ گیا۔ ٹامی کو آہستہ سے آواز دیکر اپنی موجودگی کا یقین دلایا۔ کُتا بھی اِنسان کی طرح بڑا جذباتی جانور ہے۔ اچانک سے  مِلی خوشخبر ی  پر بندے کی آنکھ کا پانی کنڈے کنارے توڑ کر بہنے لگتا ہے  اور کُتے کی زبان لگام   چھُڑا  ئے دوڑپڑتی ہے ۔ٹامی نے مُجھ پر احسان یہ کیا کہ اُسنے اُچھلتے کودتے ، بھونکتے ہوئے اپنا  والیم کم رکھا ۔ میں سالم کھال اور  ہڈیوںسمیت اپنے  کمرے  میں پہنچ گیااور میر ا یہ فِلمی سفر ختم ہوا۔

مُجھے رات سوتے سوتے چار بج گئے اور صُبح چھے ساڑھے چھ بجے  چھوٹے بھائی نے ڈوڈوکی سیرکا مضمون مُجھے سنانا شُروع کر دیا۔ میں سخت نیند میں تھا۔ میں نے چھوٹے بھائی کو صلواتیں سُناتے ہوئے یہ ڈیوٹی اس کے سُپرد  کر دی ۔میں تکیے کے سٹیشن سے نیند کے سگنل  لئے خواب کی ٹرانسمشن سے  مُنقطع ہوا رابطہ ابھی بحال کر نہ پایا  تھا  کہ چھوٹے بھائی  نے پھِر سے  مُجھے جھنجوڑتے ہوئے اُٹھایا"وہ  ۔ ۔وہ ڈوڈو قابو میں۔۔۔" اُس کی بات مُکمل نہ ہونے پائی تھی کہ ٹامی کی چیخنے کی آوازیں ۔۔۔۔ ہم سب گھر والے پِچھلے صحن کی طرف بھاگے۔ ڈوڈو نے ٹامی کو نیچے گِرارکھا تھا اور اپنے دانت اُس کی گردن میں گاڑ رکھے تھے۔وہ منظر اِنتہائی خوفناک تھا۔ بڑی مشکل سے ٹامی کو ظالم کے نرغے سے چھُڑوایا گیا۔اُس کی گردن کے سفید چمکتے بال لال ہوچُکے تھے ۔میں اور والد صاحب  زخمی ٹامی کو  فوراً سے انکل اصغر کے گھر لے گئے ۔ انکل والد صاحب کے بچپن کےدوست اور ویٹنری ڈاکڑ  ،اُن کے گھر تک پہنچنے میں مُشکل سے پندرہ منٹ لگتے تھے۔ ٹامی خطرے سے باہر تھا ۔گردن میں دو تین زخم  تھے   مگرزیادہ گہرے نہ تھے ۔ٹامی کی  مرہم پٹی کرا کے کوئی گھنٹے بعد ہم واپس گھرلوٹے تو سب گھر والوں نے سُکھ کا سانس لیا ۔تمام بزگانِ فیملی نے باری باری میری خوب"خاطر " کی۔ایک  کمینے کُتے نے میری گھر میں وہ   کُتے والی کروائی کہ بس  ۔وہ میرے سامنے ہوتا  تو میں اُسےگولی ماردیتا۔اِس  چار ٹانگوں والے بھگیاڑ نما کُتے کو نہیں بلکے دو ٹانگوں والے اُس گدھے کو جو پِچھلے سات دِنوں  سے شادیاں "چر" رہا تھا۔

بیچارہ زخمی ٹامی تو  خیر اُس دِن ایک ہارے ہوئے فوجی کی طرح  سر جھُکائے زیادہ تر  ایک کونے میں ہی بیٹھا رہا مگر  ڈوڈو  کے مزاج میں بھی بہت تبدیلی آگئی ۔ اُس نے خوامخواہ کی اکڑ اور اڑب پن کی روش ترک کر دی۔ اِسی طرح اگلے دو دِن بھی گُزر گئے ۔ جمیل جب  ڈوڈو کو لینے آیا تو ڈوڈو اُسے ایسا چِمٹا جیسے دس دن نہیں بلکے سالوں بعد اپنے مالک کی شکل دیکھ رہا ہو۔جمیل کو ڈوڈو کی کرتوت کا عِلم ہوا تو بیچارہ بہت شرمندہ ہوا۔ ڈوڈو کو اُس نے ٹھیک ٹھاک ڈانٹ پلائی۔ جمیل جب جانے لگا تو میں نے  ڈوڈو کو پیار کیا مگر اُس نے اپنا سر اوپر نہیں اُٹھایا۔  مین گیٹ سے باہر نِکلتے ہوئے  ڈوڈو  نے گردن گھُما   صحن کے ایک کونے میں  اپنے پنجوں کے درمیان زمین پر  سر رکھ کر لیٹے ٹامی کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو "ہوسکے تو مُجھے معاف کردینا"

مُجھے آج بھی وہ دس دن یاد آتے ہیں تو سوچتا ہوں  اپنی غلطیوں سے، بہتر کل کے لئے جانور بھی جینا سیکھ جاتا ہے ۔  مگر  انا کےسخت خول میں بُغض و عناد کی کنکریاں جمع کئے بیٹھا اِنسان انہی نفرت  کی کنکریوں کے اثاثے کو سینے سے لگائے اپنی ساری زِندگی بِتا دیتا ہے ۔

 سچ کہ گئے تھےبا با  بُلھے شاہ" بازی لے گئے کُتے"






Sunday 10 November 2013

سبز باغ کی سبزی

دو گھنٹوں سے جاری  کامیاب مذاق رات اپنے  آخری مرحلے میں داخل ہو چُکے تھے۔ حکیم اللہ محسود اپنے لاڈلے جرمن شیفرڈ کے بالوں میں پیار سے  ہاتھ پھیرتے ہوئے مُشترکہ اعلامیہ  پر دستخط  کرنے ہی  کو تھاکہ دڑ  ۔۔دڈ۔ دڑ۔دڑ۔ ڈرون طیارے کی آواز نے سب  تلپٹ کرڈالا  ۔مگر  اگلا منظر  ڈرون سے زیادہ ڈرونا  تھا،غضبناک ہوتی ہوئی بیگم میرے سر پر کھڑی تھی ۔ گھبراہٹ میں آنکھیں ملنے کی بجائے بےاختیار میرے مُنہ سے نِکلا "بیگم اِتحاد ہوگیا"۔ میں متوقع حملے سے پہلے خو د کو لحاف کی پناہ میں دے چُکا تھا۔ "ارے او اِتحاد بین الپارٹیز کےٹھیکیدار کُچھ گھر والوں کی  فِکر بھی ہے ،کھِڑکی کے ٹوٹے  شیشے سے آتی ٹھنڈی ہو ا میں بچے ساری رات ٹھٹھرتے رہے مگر تُم دِن  کے گیار ہ  بجے  خراٹے لیتے  ہمسائیوں کے کتے کی نیند بھی حرام کئے ہوئے ہو۔"  تاریخی واقعات و القابات سے لیس  بیگم کا  خِطاب کوئی سو اگیارہ مِنٹ تک جاری رہا ۔جِس کی تفصیل عام کرنا ہر گِز ہر گِز مُلکی مفاد میں نہیں۔ چند سیکنڈکی خاموشی کے بعد  بیگم کی آواز پھِر سے گونجی "پندرہ مِنٹ سے سبزی والا  گلا پھاڑ پھاڑ ہلکان ہو رہا ہے مگر تُمہیں  اپنی سیاست کے سوا کاہے کی ہوش " میں نے جھلا کر لحاف  پرے  پھینکتے ہوئے  کہا "پَچھلے تیرہ مِنٹ  سے تو میں تُمہارے تابڑ توڑ حملوں سے بچ رہا  ہوں اب تُمہاری طرف سے جنگ بندی ہوتو   آگے کے لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے "۔میں نے سلیپر پہنے اور  سبزی لینے چل پڑا۔


سبزی والا   سائیکل کی کاٹھی پر بیٹھا پیڈل مارنے ہی کو تھا  کہ اُسے روکتے ہوئے میں نے پوچھا ۔ "ہاں بھئی  یہ مٹر کِس طرح لگائے ہیں  ؟"180 روپے کِلو جی " وہ  سائیکل  سے اُترتے ہوئے بولا۔   میں نے اپنا غُصہ سبزی فروش پر نِکالتے  ہوئے   اللہ کے غضب  کو اُسی کے مخصوص کر دیا۔ اُس نے جھٹ سے  عُذر پیش کیا  "بس کیا  کریں جی، پٹرول ہی بہت مہنگا  ہوگیا ہے جی"۔ میں نے اُس کی  پھٹیچر سائیکلی پر نظریں گاڑتے ہوئے کہا"یہ مِرزا دور کی سایئکل میں بھلا تُم پٹرول ڈالتے کہاں سے ہو"۔  وہ بھی ڈیل کارنیگی کا شاگرد   نِکلا کہنے لگا کہ پٹرول تو اب ہماری قوم کی رگوں میں دوڑتا ہے  صاحب ۔ بس  تھوڑی سی تپش مِلنے کی دیر ہے بندہ آگ کا گولا  بن جاتا ہے ۔ میں نے اُسکے جواب کو نظر انداز کرتے ہوئے ۔ ٹماٹروں کا ریٹ پوچھا  تو جواب مِلا 160 روپے  کِلو ۔  میں نےایک دو ٹماٹر اُٹھا  کر دیکھے "ارے یہ گلے سڑے ٹماٹر  تو کِسی کو مارتے ہوئے بھی شرم آئے" اُس نے جواب دئے بغیر کندھے  میں لٹکتے  تھیلے میں سے چمکتا ہو ا ٹماٹر نِکال کر اپنی ران پر کُچھ ایسے رگڑا کہ مُجھے خانصاحب کی  جوانی یاد آگئی ۔جب وہ  نئی گیند  ران  پررگڑتے   میچ کا  اپنا پہلا سپیل پھینکتے تھے اور  ہمارے کانوں میں اِفتخار احمد کی آواز  رس گھولتی تھی۔ "عِمران ٹو گواسکر  اینڈ  ہی بولڈ ہیِم""220 روپے کِلو جی " کم بخت کی بھدی آواز نے میری سُنہری   یادوں کی بنتی ڈوری کو مکڑی کے جال  کی طرح بِنا احساس کئے توڑ ڈالا۔ میں نے خشمگیں نظروں سے سبزی فروش کو دیکھا اور سائیکل کے  کیرئیر پر پڑی ٹوکری سے ہوا مُنقطع تعلق پھِر سے باندھا ۔ "یار یہ  سُرخی پاؤڈر لگائے کشمیری ناری کی طرح چمکتی سبزی کا کیا   ریٹ ہے  ؟"۔ وہ اپنا مُنہ میرے کان کے قریب لاتے ہوئے بڑے  رازدارنہ اندازمیں بولا " 106 روپے ٍ12پیسے "۔ میں نے حیرت سے پوچھا "بھائی یہ   سبزی کا ریٹ  بتا رہے ہو  کہ ڈالر کا ؟" اُس  کے مُنہ میں بھی جیسے  جواب تیار تھا نِکلنے کو" باؤ جی یہ سبزی کھانے والا ڈالروں میں ہی کھیلتا ہے۔ میں نےسپن باؤلر کی طرح ہاتھ میں شلجم گھُماتے ہوئے جواب دیا" میاں  ہمارا  بھلا فارن کرنسی سے کیا  لینا دینا  ڈالروں میں  تو   بس تُمہارے یہ گونگلوہی  کھیلتے ہیں" اب کی بار اُس نے جواب میں گُلزار کی شاعری کا سہارا لیا۔

ہم نے دیکھی ہے اِن آنکھوں میں شلجموں کی مہکتی خوشبو

ہاتھ سے چھوکے اِنہیں رِشتوں کا اِلزام  نہ دو

شلجم کو شلجم ہی رہنے دو سیاست کا نامِ بدنام نہ دو

اُس کے جواب  کی  داد دئے بغیر میں رہ نہ سکا، مگر وہ اپنی سائیکل پر سوار ہوچُکا تھا۔  میں نے  اُسے پھِر سے روکتے ہوئے  آلو پیاز کے ریٹ   بھی پوچھ لئے ۔ وہ میری ہتھیلی پر دو ہری مرچیں پکڑاتے ہوئے بولا " باؤ جی بُرا مت منانا  آپ اور میرے جیسے مُنہ رکھنے والوں کے لئے جو دال والا  مُحاورہ  بنا ہوا ہے نہ اُس میں اب آلو اور پیاز کا  اِضافہ بھی ہو چُکا ہے ۔ آپ اِن مرچوں  کی چٹنی پر ہی گُزارا کرو جی "۔سبزی والا اپنی چاں چوں کرتی سائیکل پر  اگلی منزل کو چل دیا اور میں  ہتھیلی پر دو  ہری مرچیں سجائےسوچنے لگا کہ ہمارے آج کے حُکمران اپنے ہزاروں مربع میل پر پھیلے سبز باغ میں ہمارے لئے آلو مٹر ٹماٹر بھلے ہی نہ لگائیں  مگر اپنے سیاسی مُرشد کی یاد میں کم ازکم گنڈے (پیاز) تو گڈ لیں۔۔  

Saturday 12 October 2013

چن ماہی اُستاد

جعفر حُسین کوئی عام بندہ نہیں ہے آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا ، اُستاد کا خطاب ہمیشہ قابلیت کی بُنیاد پر دیا جاتا ہے ۔ وہ اِک گھنا پیڑہے جِس کی چھاؤں میں ہزاروں لوگ بیٹھ کر "سُکھ چین "محسوس کرتے ہیں۔ اِس درخت کے نیچے عِلم کی اپر کِنال بہتی ہے ۔ دید ہ زیب رنگوں کے پتے آپ کو اِ س پیٹر  کی شاخوں پر نظر آئیں گے۔ہر پتہ دوسرے سے زیادہ خوبصورت  محسوس ہوگا۔ آپ اس درخت پر  چڑھ بھی  سکتے ہیں ۔آپ ایک ہاتھ سے ٹہنی سے لٹکتے ہوئے دوسرے سے پھل توڑ کر کھا ئیں  پھِر چھلانگ کر دوسری شاخ پکڑیں اُس کا پھل ٹیسٹ  کریں ۔اگر پہلا میٹھا تھا تو دوسرا کھٹا میٹھا ہوگا تیسرا ۔۔۔۔ آپ اِسی انداز  چھلانگتے جائیں۔ اگر آپ ایک ہاتھ میں  ٹہنی تھامنے اور دوسرے سے پھل چبانے  کا ہُنر نہیں جانتے تو آپ بالکُل ناکارہ ہیں۔ آپ  کو اپنا ٹویٹر اکاونٹ  فوراً سے پہلے بند کر دینا چاہے۔ آپ اِس درخت کے گِرے ہوئے  پھل کی چاٹ  بنا سکتے ہیں آپ کو کِسی چارٹ مصالحے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ بہت سے بلاگریہی چارٹ اپنی "دُکانوں" میں بیچتے ہیں۔شجرِ جعفر کی سوکھی ٹہنیاں تیلیاں بنانے کے کام آتی ہیں جو بغیر مصالحے کے  آگ لگا نےکی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ اس درخت کو کاٹیں اِسکی لکڑی اپنے ساتھ لے جائیں جعفر کبھی مائنڈ نہیں کر ے گا ۔ اِس انمول لکٹری  سے آپ کو ہر چیز بنانے کی اِجازت ہے مگر آپ کو بلا بنانے کی ہرگِز اِجازت نہیں ہے ایسا کرنے والا جعفر کے عتاب (جِسے وہ مزاح کا نام دیتا ہے )سے بچ نہیں سکتا  ۔ ایسا کیوں  ہے ؟ یہ سوال  نئی نسل کے بچوں کواکثر ستاتا ہے  آج میں اِس راز سے پردہ اُٹھاتا ہوں۔

جعفر اور میں پہلی جماعت میں ایک ہی کلاس میں پڑہتے   تھے۔ہمارے سکول کے پرنسپل سر سجاد ہِٹلر کی پوتی کے ہمسائے رہ چُکےتھے ۔ اُنہیں یہودیوں سے زیادہ نالائقوں سے نفرت تھی۔وہ روزانہ اِملا کا ٹیسٹ لیتے تھے۔ اُن کا ڈنڈا پڑتے ہی  بچہ اِسقدر زور سے چیختا کہ لائن میں کھڑے تین بچوں کا موتر آؤٹ ہوجاتا  ۔جعفر ہمارے ساتھ روز اِسی موتر والی لائن میں کھڑاہوا کرتاتھا۔ مگر ایک دِن  عجب واقعہ ہوا ،اُسکے صِفرے کا سِرا نیچے کی طرف کُچھ زیادہ ہی سِرک گیا۔ جِسے سر سجاد نے نو پڑہنے ہوئے  مارے خوشی کے جعفر  کو چوم لیا ۔بس اُس دِن کے بعد جعفر نے مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔وہ ہر امتحان اور ٹیسٹ میں اول آنے لگا ۔ جعفر کی چُمیوں سے گالیں پھولتی گئیں اور ہم ہاتھوں پر بدبختی کی لکیریں بنواتے رہ گئے۔وقت یوں ہی گُزرتا گیا۔ 

جعفر کی اگلی اینٹری دسویں کے بعد ہوئی ۔جعفر کو اخبار پڑہنے کا بہت شوق تھا۔  ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صُبح سویرے  ہاکر  کا پھینکا ہوا اخبار جعفر کی موجودگی میں زمین پر گِر پائے۔وہ اخبار کھولتا بانی اخبار حمید نظامی کے نام سے شُروع کرتا اور آخر صفحے کی آخری  لائین تک  اخبار کا ایک ایک لفظ چاٹتا ۔ اِس کے بعد ہمارے  کچے ذہنوں میں پورے کا پورا  اخبار اُنڈیلنے کی کوشش کرتا ۔ہم جعفر کے عِلم سے بہت مُتاثر ہوتے تھے۔ ہمیں جعفر ہی سے  "حالات حاجرہ  "کی تمام خبریں  مِلتی تھیں۔ بھٹو  غدارِ وطن تھا ، بھٹو نہ  ہوتا تو ایسٹ اور ویسٹ پاکستان بھارت کو بھون کر کھاجاتے ۔ واصف علی نثواری مسٹر ٹین پرسنٹ کیسے بنا۔ زرداری کے گھوڑے سیب کا مربہ شوق سے کھاتے ہیں یا گاجر کا۔ زرداری کی کُتی کِس سیاست دان کے کُتے سے پریگننٹ  ہوئی ۔ ضیاالحق نے پاکستان فوج کو دُنیا کی بہترین فوج  کیسے بنا یا ہے۔ نواز شریف کی  موٹر وے  مُلک میں اِتنی خوشحالی لائے گی کہ گورے ہمارے کُتے نہلانےکے لئے ترلے کریں گے اور ہم اُنہیں اکڑ کر جواب دیا کریں گے  "ڈاگز  آر الاوڈ بٹ وائٹس آر ناٹ"۔بینظیر کے حکومت دو سال مزید چل گئ تو مینارِ پاکستان پر امریکی جھنڈا لہرائے گا اور یہودیوں کا اسلام آباد پر قبضہ۔ ۔بینظیر کے معاشقوں پر تو جعفر کی زبانی کہانی سُننے کا الگ ہی مزہ ہوتا تھا۔دِل چاہتا تھا کہ بس وہ بولتا جائے  اور ہم م م م مزے۔۔۔ جعفراخبار پڑہ پڑہ  پورا سیاست دان بن چکا تھا۔ مِتھن چکروتی کا ہئیر سٹائل بنائے  ، کرائے کی رے بین  پہنے ، اپنی نیلے رنگ کی کاواساکی پر  گردن میں اِتفاق مارکہ سریہ ڈالے جعفر جب گُزرتا تو  مُجھ سمیت  محلے کے بہتیرے  لوگ اُس کے  دابے  میں آجاتے ۔

جعفر کے کرکٹ سے تعلق پر تو " میں ہوں شاہد آفریدی "سے بھی بڑی فِلم بن سکتی ہے۔اس وقت بس اِتنا ہی جاننے پر اِکتفا کیجئے کہ جعفر کا کرکٹ سے لگاؤ عِشق کی حد تک تھا۔محلے کے بچوں سے دو دو روپے اکٹھے کر کے بلا خریدا گیا۔ جعفر صاحب ہمیشہ پہلی باری اپنی رکھتے تھے۔جعفر کی کمزوری یارکر تھا ۔ جب کبھی یارکر پڑتا تو پیپسی کے ڈالے کھڑاک سے گِرتے۔مگر اگلے ہی لمحے ہمیں جعفر امپائیر کی طرف بھاگتا  ہوا نظر آتا ۔ "اللہ دی قسمے نو بال سی اوئے انیاں نو چیک کرلیا کر " بس کیا تھا، ساری شام بچے بالنگ کرا کرا  ڈی ہایڈریٹ ہوتے رہتے  اور جعفر میاں اپنی  بیٹنگ کے جوہر،  مور کے  ناچ کی طرح دِکھاتے رہتے۔ ۔محلے کے بچوں کو آگے لگا کر جعفر نے خود کو مُستقبل کا ماجدخان سمجھنا شُروع کردیا۔مگر خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اللہ نے بچوں کی سُن لی اِک دِن ساتھ والے محلے سے اِک دُبلا پتلا مگر چھے فُٹ کا بچہ ہمارے کھیل میں شامل ہوا۔اُس نے پہلی ہی گیندپر  پیپسی کے ڈالے کھٹرکاڈالے  ۔جعفر نے یہاں بھی نو بال ٹیکنیک اِستعمال کی ۔ اُس لڑکے نے بڑی شان سے جعفر کو دوبارہ کھیلنے کی دعوت دی اور نو بال چیک کرنے  کے لئے تین امپائر لگادئیے ۔ اگلی گیند پر بھی نتیجہ وہی آیا اور یوں ہماری مُستقبل کے ماجد خان سے جان خلاصی ہوئی۔جعفر  کُچھ عرصے بعد دُبئی چلا گیا اور" اُستاد" بن گیا۔تاریخ اُس نِجات دہندہ باؤلر کے بارے  میں بالکُل خاموش ہے۔ اُس کےبارے میں میں صِرف اتنا جان سکا کہ وہ ہمارے شہر کے مہنگے ترین سکول میں پڑہتا تھا۔ ہاں ایک اور بات یاد آئی وہ دو  چار دفعہ کے ایف سی برگر کھاتا ہوا بھی دیکھا گیا تھا ۔

اب آپ  اُستاد کی پوسٹ ایک بار پھِر پڑہیں ۔

 "انقلابیے، جن کے باوا آدم جنرل پاشا اور شو بوائے ، حضرت عمران خاں مدظلہ العالی تھے۔ جو پچھلے ہزاروں سال سے پاکستان میں انصاف لانے کے لیے کھجل ہوتے پھررہے تھے"

حق مہر میں ان کو اتنا کچھ مل گیا کہ بال نقل بمطابق اصل اور پہاڑ پر ایک چھوٹی سی کُٹیا ، جھونگے میں مِل گئی ۔

۔ "ہم جیسے نمانے کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ برگر کا برگر اور پیپسی کی پیپسی کی کردے۔"


اُستاد جی کا فرمانا ہے کہ رائے کا اِختلاف کِسی  بھی معاشرے کی بڑہوتری کے لئے دودھ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اب یہ تو اُستاد جی کا فلسفہ ہی بتائے گا کہ اِس اِختلاف کے  بیان واسطے " پیڑی رن " کا سا انداز ہماری بڑہوتری میں کِتنا سود مندو مددگار  ثابت ہوگا؟  دو سال سے جاری برگری بچوں کی عِمران  پرستی نے سمندر جیسے گہرے ہمارے اُستاد جی کو اُبال  کر رکھ دیا۔ مُجھے بتایا جائے کہ مُجھ سا کوڑہ مغز  جِسے پِچھلے تیس سال  سے  قائد ثانی، پاکستان بچانے والا، شیر شاہ سوری ، غریبوں کا  ہمدرد ۔ جمہوریت کا علمبردار  ٹائیپ  نعرے  چٹوائے جار ہے ہیں  ، بدہضمی ہونے کی صورت میں اُلٹی کہاں کرے ،  رائیوند کے پِچھواڑے میں؟؟َ؟ 

اس عمر میں بھی ان کے ٹشن دیکھ کے ایسا لگتاہے جیسے کسی ہالی ووڈ فلم کی شوٹنگ پر پہنچے ہوں،عائلہ پابی انتہائی پیار سے انہیں پانی کی بوتل پیش کررہی ہیں" "


باقی بہت سی باتیں پھِر کبھی سہی۔


Wednesday 25 September 2013

میرا کانکورڈ جہاز

یہ بہت سال پُرانی بات ہے میرے والد سرکاری دورے پر چند ماہ امریکہ گُزار کر واپس آئے تو ہم بچوں کے لئے بہت سے کھلونے اورچاکلیٹس بھی لائے۔ اِن کھلونوں میں میرے لئے لمبی نوکیلی چونچ والا چِٹا سفید کانکورڈ جہاز بھی تھا۔ بٹن آن کرنے پراُسکی  لا ل اور نیلی لائٹیں ٹِمٹما نے لگتیں ،وہ ہولے ہولے  سے  چلتا   ہوا  یکد م سے کڑاکے دار آواز کے ساتھ رفتار پکٹرتا تومیں اپنا دِل تھا م لیتا  کہ کہیں  سچ میں اُڑ ہی نہ جائے اور میں دیکھتا رہ  جاؤں ۔ اُس امریکی تحفے کو پاکر میں خود کو دُنیا کا خوش قِسمت ترین بچہ سمجھنے لگاتھا ۔ میں نے والد صاحب کے بٹوےسے بنجمن فرینکلن کی تصوریر والے نوٹ نِکلتے  بھی پہلی بار دیکھے تھے  ۔ والد صاحب نے مُجھے بتایا کہ امریکہ میں ڈالر کی کرنسی چلتی ہے اور یہ کہ تقریبا 14  پاکستانی روپوں کے بدلے ایک امریکی ڈالر مِلتا ہے ۔

امریکہ کی کہانیاںسُنتے ، ڈِزنی ورلڈ کی تصوریں  دیکھتے اور سب سے بڑہ کر اپنے کھلونوں سے کھیلتے اُس رات نیند 
ہم بچوں کے  قریب بھی نہ پھڑکی ۔رت جگے کے باوجود  اگلے دِن میں وقت سے کافی پہلے سکول پہنچ گیا ۔ میرا کانکورڈ طیارہ بھی ہمراہ تھا۔ کلاس  روم میں جو جو لڑکا داخل ہوتا جاتا میں شوخی بگھیرتے ہوئے اُسے اپنا جہاز چلا کر دِکھاتا اورسینہ تان کر  بتاتا " یہ جہاز امریکہ سے میرے ابو لائے  ہیں تُمیں پتا ہے کہ ایک امریکی ڈالر کے بدلے   14 پاکستانی روپے دینے پڑتے ہیں"۔کانکورڈ جہاز نے اپنی جاذب ِ نظر ڈیزائن اور کارکردگی سے میرے سب ہم جماعتوں  کو مرعوب کیا۔

ہمارے سکول کے کالے سیاہ  نوٹس بورڈ پر سفید چاک سے سات آٹھ خاص خاص خبریں روزانہ  لِکھی جاتی تھیں۔ جِن میں دوچار پاکستان کے مُتعلق ہوتیں ، دو تین بین اقوامی حالات پر اور آخری خبر کھیلوں کی جاری کِسی ایکٹی وِٹی کے بارے میں ہوتی تھی۔  میری  یہ عادت تھی کہ آدھی چھُٹی کے بعد  میں پانی والی ٹینکی سے ٹوٹی کو مُنہ لگائے پانی پیتا ہوا  کلاس روم میں آتا تھا اُسی رستے میں  نوٹس بورڈ  بھی پڑتا تھا اور یوں خاص خاص خبروں پربھی نظر پڑ جاتی  تھی۔ عمران خان کا اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہاسپٹل بنانے کا اعلان، سِکھ محافظوں کے ہاتھوں اِندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت میں سِکھوں کا بے دردی سے قتلِ عام، یہ سب خبریں میں نے  وہیں سے پڑہیں ،اِسی طرح اِک  دُبلا پتلالڑکا جِس نے اپنے پہلے تین ٹیسٹ میچوں میں  مسلسل سنچریوں کا رِیکارڈ بنایا   ،وہ  نام  اظہرلدین بھی  میں نے اِسی کالے بورڈ کی بدولت جانا تھا۔

اُس  دِن کی خاص خاص خبروں میں سب سے اوپر یہ خبر لگی تھی" ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے  کی قدر میں اِضافہ" ایک ڈالر تیرہ روپے کا ہوگیا۔ یہ خبر پڑہ کر مُجھے معلوم ہوا کہ امریکی ڈالر اور روپےکے مابین کوئی گیند بلےکا سا کھیل بھی جاری ہے۔ میں کلاس روم  میں واپس پہنچا ۔ اپنے بستے سے لال ورقوں  والی رف کاپی نِکالی  13 کو 15 سے ضرب دی۔ پھِر بڑے پیار سے اپنے جہاز کو بستے سے نِکالا وہ ویسے کا ویسا  تھا جیسا کہ صبح سکول آتے ہوئے تھا مگر نہ جانے کیوں مُجھے اُس کی قدرکُچھ کم کم سی محسوس ہونے لگی۔ اُس دِن شام کو صحن میں اپنے جہاز سے کھیلتے ہوئے میں نے والد صاحب سے ڈالر اور اپنے جہاز کی  قدر میں ہوتی کمی کا ذِکر کیا۔ والد  صاحب نے میری بات پر ہنستے ہوئے جواب دیا  "بیٹا ہمار ا روپیہ مضبوط ہوگا تو ہم سب مضبوط ہوں گے  اِتنے مضبوط کہ میں تُمہیں اِس طرح کے  کئی جہاز   اور بہت سے کھلونے لے دوں گا"۔ والد کی بات مُجھے ایسی  سمجھ آئی کہ اگلی صُبح آنکھ کھُلنے تک میں مُختلف ماڈلز کے دو ڈھائی  سو جہازوں کا مالک بن چُکا تھا۔

یہ سادہ  دو ر کی بات ہے جب اپر مِڈل کلا س حتی کہ اپر کلاس گھرانے شام ڈھلتے ہی اپنے گھروں  کے صحنوں یا چھتوں پر سیدھی  لائن میں بہت سی چارپائیاںسجا لیتے تھے ۔ بس اِک پنکھے کے تین پروں  کے زورِ گردشی پورا  خاندان بخوشی رات بِتا لیتا تھا۔ اُس وقت قوم کو اے سی وے سی کی لت نہیں پڑی تھی ۔ اِسی لئے  آئی پی پیز کی کِسی کہانی  کا جنم بھی نہ ہوا تھا۔

میں آج اپنے ڈھائی سو جہازوں والا خواب یاد کرتا ہو ں تو ہنسی بھی نہیں آتی۔ مُقابلے کے سمندر میں ہماری کشتی  دور تک کہیں دِکھائی نہیں دیتی۔یہ کشتی بیچاری مُقابلہ کرے بھی تو کیا۔ مچھیروں کے جال کا بادبان باندھے  اپنی  کشتی سے بھلا کاہے کی اُمیدلگانی ۔  ہم تو  سمندری لہروں کے  تھپیڑوں  سے رحم ہی  مانگ سکتے ہیں اور بس۔ ۔۔۔تھپڑ ہمیں دس کا پڑے یا ایک سو دس کا ہم اٹھارہ کروڑ کو   گال ہٹانے کا اختیار نہیں  بلکہ دوسراآگے کرنے کا حُکم ہے، سوائے اپنے چند بڑوں کے  جو ڈالروں کا سائبان تانے اپنی جیبیں بنجمن فرینکلن کے نوٹوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جِن کے بچے تحفے میں اُڑنے والے جہاز لیتے ہیں۔

ڈالر کے آج کے ریٹ نے قوم کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا  اور مُجھے چھٹی جماعت کا اپنا " جہاز ی" قِصہ 

Tuesday 17 September 2013

میری فیس بُک بک (II)

Posted on ….. September 15.2013

چوتھی  جماعت کی معاشرتی علوم کا وہ سبق مُجھے آج بھی یاد ہے جِسے پڑہ کر میں پاکستان کے قیام کا مقصد اپنی اصل روح کے ساتھ سمجھنے لگاتھا۔ فلسفہ ءِ پاکستان پر ایمان لانے کے بعد میرے دِل میں وطنِ پاک کی  محبت  قدرے تیزی سے بڑہنے لگی۔ کرکٹ کی پچ پر بنائے گئے سکوروں کا مُقابلہ ہو یا ہاکی میں کئے گولوں کا بس پاکستان کو بھارت سے آگے دیکھنا ایمان کا حِصہ بن ٹھہرا۔ کھیل کی بات تو ایک طرف عِلمی مُباحثے سے لیکر آپس میں ہوئی کِسی جنگ کا حالِ بیان کرتے وقت بھی پاکستان کو بھارت سے برتر ثابت کرنے سے ہی  دِل کو سکون مِلتا رہا۔ بس یوں سمجھئے کہ زِندگی کے ہر میدان اپنا حریف بھارت ہی نظر آتا تھا۔

پِچھلے کُچھ دِنوں سے میں چوتھی جماعت کا پڑہا وہ سبق پھِر دہرانے لگا ہوں  جِس میں لِکھا تھا کہ ہندوں کے ہاں جِس کی لاٹھی اُسکی بھینس کا قانون رائیچ تھا ۔ ہندو چانکیہ کی سیاسی فِکر کا پیروکار تھا۔چوتھی جماعت  کی کِتاب میں لِکھی یہ سب باتیں یاد کرتے ہوئے میرے ذہن میں قاتل جتوئی لڑکے کی وِکٹری بناتی تصویر گھومنے لگتی ہے۔ بھارت میں اِک لڑکی سے ہوئی بد فعلی پر لاٹھی کا قانون ماننے والا پورا مُلک جاگ اُٹھا اور ظالم کو سزا تک پہنچا ڈالا۔ اِس کے آگے میں کُچھ نہں لِکھ سکتا اپنی پانچ سالہ بچی کے مُتعلق کُچھ بھی لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔



Posted on ….. September 12 .2013

چند سال پہلے ایک فون ریکارڈنگ اِنٹرنیٹ پر سُننے کا اِتفاق ہوا تھا جِس میں کال کرنے والے کو دوسری جانب

  سے بِناسانس لئے ننگی گالیاں دی جاتی رہیں۔ گالیاں دینے والا ایک بڑا نام تھا دہائیوں سے اخباری کاغذ کالے  

کرنے والانذیر ناجی۔ کُچھ اِسی انداز میں ایک دو  لائیو ٹیوی پروگرامز میں حسن نِثار کی زبان بھی لگامیں تُڑاتی 

 دیکھی اور سُنی گئی۔ شراب شے ہی ایسی ہے اِنسان میں موجود تھوڑی بہت عقل مت بھی مار ڈالتی ہے۔ 


دو صحافی "پہلوانوں "کی کُشتی میں کِسی حرام پانی کا اثر شامل نہ تھا۔ زیرو پوائنٹ کے نام سے 
پانچ جِلدوں  کے ہر دوسرے  صفحے  پر صبر کی تلقین کرنے والا بذات خود  زیرو پوائنٹ 
لئے نظر آیا۔ خود کو عظمت کے معمار سمجھتے ہوئے قوم کو سیدھی لکیر پر چلانے کے دعویدار 
 بس  اِک شیطانی ٹکر سے خاک میں ایسے ملے جیسے  عظمت کی علامت سمجھی جانے والی دو بلند 
عمارتوں کو جہازکی ٹکر  نے زمین بوس کرڈالا تھا۔

کِسی بڑی سیاسی شخصیت  کے گھر کی مُرغی انڈہ دے ڈالے تو انڈے کے فرائی ہوکر مُنہ میں 

جانے تک ٹیوی پر بریکنگ نیوز کا نہ تھمنے والا طوفان عزتیں اُڑاتا نظر آتا ہے ۔ ہر واقع کی من و عن رپورٹنگ کا دعوی کرنے
والا میڈیا اِس واقعے پر مُکمل طور پر خاموش نظر آیا؟؟؟؟؟؟؟



Sunday 4 August 2013

میری فیس بک بک

1   posted August 03 2013
وہ دُبئی کے راستے چھپتی چھُپاتی ہمارے ہاں پہنچتی ۔ ہم دس روپے کا نذرانہ دے کر اُسے حاصل کرتے  اور بڑے ادب سے سائنس کی شیطانی ایجادات کا مِلا پ   کراتے ہوئے اِک نئی دُنیا میں کُچھ یوں گُم ہوجاتے جیسے مندر میں بیٹھا پُجاری   اپنی مورتیوں میں۔ ہماری یہ پوجا پاٹ اگلے تین گھنٹے تک جاری رہتی  اور اس پوجا کے دوران سُنے "بھجن "ہماری روحوں  کی غذا بنتے۔ مگر ناجانے کیوں اِس خوش خوراکی  سے ہماری روحیں بد شکلی  سی ہونے لگیں ۔ ہمارے سیانے اِس شیطانی کام سے ہمیں یہ کہتے منع کرتے رہے  کہ تصویر بنانے والا ۔ بیچنے والا  دِیکھنے  والا سب گُناہ گار ہیں۔ اب اِن سیانوں کو بھلا کون سمجھائے کہ  دِل کو بادشاہ بنا لینے والے ساری عُمر  اِس کمبخت دِل کی غُلامی کرتےہوئے ہی زِندگی  گُزارتے ہیں۔
اِک دِن قریب ہی سے کِسی کو مدھور آواز میں کہتے سُنا۔ "بڑہتی رہے یہ روشنی چلتا رہے یہ کاروان  اور پھِر سارے اُس کی آواز میں آواز مِلائے گانے لگے "دِل دِل پاکستان جان جان پاکستان"۔پھر تو بس اِک سِلسلہ ہی چل نِکلا۔بہت سے لونڈے  گلے میں گِٹار ڈالے بالوں کی پونیاں بنائے اِس  "جنون" کا حِصہ بن گئے۔ جب  لِپسٹک لگانے والےاِک  لونڈےنے  گِٹار کے ساتھ اپنی پُرانی جینز کو یاد کیا   تو ہمارے دور کی نسل جھوم اُٹھی ۔ہمارے ہاں کا  ہر "راجہ پاکِستانی"ایسے  لہک لہک کر یہ گانا  گاتا جیسے خاص اُسی پر لِکھا گیا ہو۔"پُرانی جینز اور گٹار"
پھِر اُنہیں ہدائیت نصیب ہوئی اور یہ دونوں اہل سیانہ کی صف میں شامل ہوگئے۔ اِس رمضان یہ  حضرات ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہِدائیت کی راہ ہمیں دِکھلاتے ہیں۔ہمارے معاشرے کو بُرائیوں سے پاک کرنے کی  سعی  میں لگے پڑے ہیں۔ ۔مُجھ جیسا بے ہدائیتا تو شائد اُن کی باتوں سے کنی کتراتا ہوا پھر سے ہندی فِلموں کے  الاؤکے گرِد چکر لگانے لگے گا۔مگر بہت سے  شریف النفس سمجھ شعور رکھنے والے یقیناً   اپنا گِٹار توڑ کر راہ ہِدائت کے مُسافر بن جائیں گے ۔ مگر  وہ   ڈھائی سو میں آتی لنڈے کی پُرانی جینز  کی جگہ دس بیس ہزار کے جے جے کے سوٹ بھلاکیسے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
2   Posted on July 22 2013

ڈھول والا گلیوں میں ڈھول بجاتا جاتا اورلوگوں کو جگاتا جاتا۔ یوں سحری کی تیاری کا آغاز ہوجاتا ۔ جب مسجد کے قاری صاحب لاؤڈ سپیکر میں اعلان کرتے "اللہ کے پیارو،  روزے دارو سحری کا وقت ختم ہونے  میں ایک گھنٹہ باقی رہ گیا ہے۔۔۔۔۔  "تو جیسے گھر کی بیبوں میں بِجلی سی بھر جاتی، چولہوں پر چڑہی ہانڈیوں میں ڈ وئیاں تیز تیز چلنے لگتیں، تھپ تھپ  پراٹھےتیار ہونے کی آوازیں آنے لگتیں ۔  گھروں کے صحن ، برآمدوں میں پڑی چارپائیوں پرمرد  بیٹھے سحری کھاتے نظر آتے۔ قُرب جوار کی مساجد سے بچوں کی نعتیں پڑہنے کی آوازوں سے پیدا ہوتی گونچ، جیسے چاروں طرف سے اللہ کی  رحمتیں نازل ہو رہی ہوں۔ اِک عجب سماں ہوتا تھا الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
یہ وہ دور تھا جب ہم نے رمضان کو رامادان کہنا نہیں سیکھا تھا۔رات کے ا،س پہر لکڑی کے ڈبے میں لگی پِکچر ٹیوبیں ایسی بےسُدہ پڑی نظر آتی تھیں جیسے تماشہ دِکھاناہی  بھول چُکی ہوں۔۔ اکثر گھروں میں تو اِن لکڑی کےڈبوں پر کپڑا ڈلا ہوتا تھا۔ مگر پھِر ٹی وی کی یہ سکرینیں لکڑی کےڈبوں سے باہر آگئیں اور پلاسٹک کے سلم فریموں سے ہوتی ہوئی آج کے دور میں سمارٹ ٹی وی کہلانے لگیں ۔ٹی وی سمارٹ ہوئے تو اِس کو چلانے والے اوور سمارٹ ۔ عامر لیاقت حُسین اور اُس قبیلے کے اوور سمارٹ لوگوں نے ہمارے رمضان کو نیلام گھر بنا ڈالا ہے۔نیلام گھر۔ کاش وہ ڈھول والا پھِر سے۔۔۔۔۔                         



Sunday 16 June 2013

نیکی سے دریا

وہ سڑک کِنارے بِکھرے ہوئےکھانے کے ڈبوں اور مشروبات کے ٹِن پیکس پر جھُکا ہوا تھا ۔سڑک پر اِکا دُکا گاڑیاں اور چند ایک سایئکلیں اپنےمُتعین کردہ  رستوں پر وقتِ مُقررہ میں پہنچنے کو بے چین نظر آتیں تھیں۔ اِس مشینی دور کے اوقات کار نو سے چھے میں ابھی قریباً آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ وہ اِرد گِرد کی دُنیا سے بے پرواہ اِن خالی ڈبوں کو سمیٹنے میں لگا تھا کہ اِک گاڑی اُس کے سامنے آکر رُکی ۔ وہ کھڑا ہوا  اور فورا سے گاڑی کی طرف  بڑہا ۔ کار کا شیشہ اُترا  ایک نیلی آنکھوں والی خوبصورت دوشیزہ نے پانچ یوروکا نوٹ اُس کی طرف  بڑہاتے  ہوئے اِلتجائیہ سے انداز میں  کہا" اگر تُم بھوکے ہو تو دُکان سے کُچھ لیکر کھالو"۔ اِس  آفر کا جواب نہ پاکر اپنی شرمندگی  چھُپاتے ہوئے معصوم گُڑیا کی سی شکل بنا کراُسنے       اپنی آفر  بڑہا تے ہوئے   سوال کیا "کیا تُمہیں مزید پیسے چاہیں؟"۔  " جی نہیں میرے لئے اِتنے پیسے ہی بہت ہیں ،آپ کا شُکریہ"  یہ کہتے ہوئے  اُس نے  نازک ہاتھوں سے نوٹ پکڑ لیا۔ کھِلے چہرے کے ساتھ نیلی آنکھوں والی نے ناٹ  ٹو مینش کہا اور  گاڑی گئیر میں ڈال دی ۔  داہنے ہاتھ  کی اُنگلیوں میں  نوٹ سے کھیلتے ہوئے اُس کی نظریں دور تک گاڑی کا تعاقب کرتی رہیں۔ گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی تو اُس نے بائیں ہاتھ کی اُنگلیاںاپنی لمبی زُلفوں  میں پھیریں ،  ایک نظراپنے جوتوں اور  اوور کوٹ پر ڈالی ۔     جمع شُدہ خالی ڈبوں سے ڈسٹ بِن کا پیٹ بھرا  اور سائکل پر سوار ہو کر اپنی راہ پر چل نِکلا

برخِلاف معمول وہ  آفس پندرہ مِنٹ لیٹ پہنچا ۔ اپنی  آرام دہ کُرسی پر بیٹھتے ہی اُس نے جیب سے پانچ یورو  کا نوٹ نِکالا اور میز پر رکھ دیا  ۔ کُچھ دیر بعد اُس نے اپنے کو ورکرز کی میٹنگ کا ل کی اور میز پر پڑے  پانچ یورو کا   مُکمل قِصہ بیان کرڈالا۔ "آپ نے اُس لڑکی سے یہ پیسے کیوں لئے ؟" بہت سی زبانوں  سے یہی اِ ک  سوال ایک ساتھ نِکلا ۔ مُسکراتے ہوئےاُسنے تمام  ساتھیوں پر ایک نظر ڈالی اور گویا ہوا۔"میں اُس لڑکی  کے دِل سے  بہتے نیکی کے جذبے پر شرمندگی کا پتھر نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔ میر ی خواہش ہے کہ اِس نیکی کا درست مصرف ہو میں نے اِس  5 یورو سے ایک اکاوئنٹ کھولنے  کا اِرادہ کیا ہے    جِس سے   دُنیا کے غُربت  زدہ عِلاقوں میں بھوک کا شِکار لوگوں کی مدد کی جا سکے مگر  یہ سب آپ کے تعاون سے مُمکن ہو سکے گا"۔

آج صُبح  کی میں نے اپنی ای میل چیک کی تو  یہ واقع پڑہنے کو مِلا  جِسے پڑہ کر مُجھے اپنا  کالج کا یار یاد آگیا۔ وہ کالج  کا پہلا دِن تھا  جب ایک دوجے کے نام سے ناآشنا  ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سینئیر سٹوڈنٹس  کے نوکیلے جُملوں  اور اُن کے ہاتھ میں پکڑی رنگیلے پانی کی سُرنجوں سے اپنی سفید شرٹیں  بچاتے ایک کلا س روم سے دوسری میں چھُپتے پھِررہے تھے ۔ اگلے دِن  اُس  لڑکے  کو اپنی کلاس ہی میں موجود پایا۔ پہلے دِن کا اِتفاقی ساتھ اور دوسرے دِن کا تعارف ہماری دوستی  کا باعث بنا  ۔ چند ہی دِنوں میں ہماری دوستی ایک ختم نہ ہونے والی موٹر وے پر چل نِکلی جِس پر کہیں کوئی سپیڈ بریکر  یا رُکاوٹ نہ تھی۔ وہ   فرنٹ سیٹس  پر بیٹھنے والا اُساتذہ سے سوال کرنے والا اپنے جواب سے سب کو لاجواب کرنے والا  ،دوسروں  کو  سوال کرنے پر اُکسانے والا اورچیلنج قبول کرنے والا لڑکا تھا جب کہ میں سدا کا بیک بنچر اپنے چھوٹے قد کے باوجود آخری سیٹوں پر دُبک کر بیٹھنے والا نکما  طالب عِلم ۔  اُس نیلے آسمان والے کے اپنے ہی رنگ ہیں جِس نے مُجھ جیسے اِنسان  کو دھکا لگا کر آگے چلانے کا کیا بندوبست کر رکھا تھا۔

وہ باغ کے اُس پھول کی طرح تھا جِس کی مُنفرد خوشبو سے مُتاثر ہوئے بغیر کوئی رہ نہیں پاتا. مُجھے یاد  پڑتا ہے،  غالباً ہماری  کالج لائف کا تیسرا مہینہ چل رہا تھا ہمارے آٹھ بازاروں کے شہر  کے ایک بازار میں بم دھماکہ ہواتھا۔ وہ  سہ پہر کا  وقت تھا ۔  دھماکے کی خبر مِلتے ہی  وہ   خون دینے ہسپتا ل پہنچ گیا تھا۔ اگلے روز کالج    کے لان میں ہم جیسے بہت سے محبانِ وطن یار دوست سر جوڑے بم دھماکے کے اثرات و محرکات کا باریک بینی سے تجزیہ کرتے رہے  ۔ اپنی کمزوریوں سے لیکر  یہودو نصارا کی سازشوں تک ہر نُقظہ زیر بحث رہا ۔ ہم نے  را سے لیکر  کے بی جی اور موساد  تک کا اپریشن  کر ڈالا ۔   مُلکی مُفاد   کے اِس اکٹھ میں    دردِ دِل  والی ہر آواز تڑپی  ۔مگر  وہ  ہمارے درمیان موجود نہیں تھا  ۔ اُس نے     دھماکے میں  جان بحق ہوجانے  والوں کا جنازہ پڑہنا اور زخمیوں کی تیمارداری کو  اِس قومی سلامتی کے اکٹھ سےزیادہ ضروری جانا۔ عملیت پسندی کی یہی عادت اُسے مُنفرد بنا دیتی تھی۔

بڑا مان تھا اُسے میری مُحبت پر بہت اِترا اِترا کر وہ چلتی تھی۔میں بھی اُس کےبہت  ناز نخرے اُٹھاتا رہا ۔اب سالوں سے میری بے وفائی پر آنسو بہاتی  گھر کے سٹور میں کھڑی ہے ۔  وہ پگلی کیا جانے کہ حضرتِ مرد محبت سے زیادہ حاصل کرنے اور اِستعمال کر نے کا رسیا ہوتا ہے۔ میں اِسی سہراب کی سائیکل پر کالج جایا کرتا تھا۔دِن چڑہے   وو کِتابیں کیرئیر میں دبائے  تیز تیز پیڈل مارتے  ہانپتے  کانپتے کالج پہنچنا  اور واپسی پر سیٹیا ں بجاتے ،گُنگُناتے کچھوے کی چال میں    بچیوں کے ٹانگے کے پییچھے  چلتے رہنا۔ اِدھر  نینوں سے نین لڑے  اور آنکھیں بول پڑیں اپنی زباں۔لمحوں  میں   سینکڑوں باتیں کہنا  اور بیسویوں جواب وصولنا  کبھی پیار میں بھرے کبھی جوتوں میں  لِپٹے۔قسم ہے میکملن کی ، جِس کی ایجاد کردہ  سواری میں جو مزہ ہے وہ کِسی جھنڈے والی گاڑی  میں  بھی نہیں۔ بس ٹانگے میں بچیاں ذرا  لِفٹ کروانے والی ہونی چاہیں۔ میری  اِن  چلتی پھِرتی پریم کہانیوں میں روزانہ  اِک وِلن بھی اینٹری مارا کرتا تھا۔ بس ایک جانی پہچانی آواز "یار سائیکل روکیں" اور  یہیں پر فِلم کی ریل کٹ جاتی ۔ وہ    کالج سے واپسی پر میرا  ہمسفر ہوتا تھا۔ سائیکل کے پیچھے کیرئیر پر بیٹھے کبھی اُس کی نظر کِسی پریشان  حال بُڑہیا پر پڑ جاتی تو کبھی  کو ئی  تھکاہوا مُسافر یا  کوئی   بُڈھا    پیدل چلتا نظر آجاتا  اگر ایسا کچھ نہیں  تو  روڈ کے کنارے پڑا کوئی پتھر  اُس کی نظروں کو پا لیتا  جِسے ہٹانا  قومی فریضہ ٹھہرتا۔ مُجھے ناچاہتے ہوئے بھی اُس کی اِن نیکیوں میں ایک مِڈل مین کا کردار ادا کرنا پڑتا تھا۔

ہماری کلاس کی اکثریت اُس کی گرویدہ تھی مگر   کُچھ لڑکے   اُس کی اِنتہا کو چھوتی آئیدئلزم  اور اصول پرستی سے عاجز تھے۔     اپنے آئڈیل اِزم  ہی  کے  باعث اُس نے سلیکٹو سٹڈی کے خِلاف  کلا س میں اپنا سخت موقف بیان کیا اُس کا کہنا تھا کہ  اساتذہ کا   کا م تعلیم دینا اور ہمارا تعلیم  سے اِستفادہ کرنا ہے   یہ نمبرز کی دوڑ میں میں شامل ہوکر  سیلیکٹور سٹڈی اپنے  فرض سے  ناِانصافی ہے  ۔ قِصہ مُختصر نہ وہ کِسی کو اپنی بات سمجھا سکا اور نہ کوئی اُسے۔ اِک دِن پرنسپل کے  آفس کے قریب سے گُزرتے ہوئے میں نے اُس سےکہا ۔ یہ جوانگریزی کا لفظ پرنسپل ہے نہ بڑا بھاری  ہے  ۔اِس  سجےسجائے کمرےمیں  جو  اِک  رعب دار   اور سخت طبیعت  والا شخص بیٹھا ہے  نہ وہ پرنسپل صاحب کہلاتا ہےاِن  کی عِزت کرنا ہماری مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی ۔ اِسی طرح کا ایک   پرنسپل تیرے اور میرے اندر بھی بیٹھا  ہے  جو ہم پر اِسی طرح رعب چلاتا ہے  ۔ مگر اُس کی سننا  نہ ہماری مجبوری ہے اور نہ ضرورت ۔ ۔ اپنے اندر بیٹھے  کے بنائے  گئے پرنسپل کی ہر وقت ماننا کہیں کی عقلمندی نہیں  ۔ اِس دُنیا میں جیت جانے والے کو سب ہار پہناتے ہیں  مگر  ہار کی تو  کوئی ماں بھی نہیں ہوتی جو دلاسہ دینے کو آئے ۔اُس نے جواب دیا کہ  اِنسان یا زِندگی جیتا ہے یا گُزارتا ہے  اور  میں زِندگی جینا چاہتا ہوں ۔زِندگی میں جیت زورآور کی ہی نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو پہاڑوں کے سینے کبھی بھی چیرے نہ جاتے۔ حقیقی جیت  ہمیشہ زور لگانے والے کی ہی ہوتی  ہے

 امتحانات کے نتیجے میں  وہ چند نمبر کم ہونے کی وجہ سے انجنئرنگ یونیوسٹی میں داخلہ حاصل نہ کر پایا۔اُس نے اپنے ضمیر کی آواز کو دبنے سے بچا لیا مگر  اپنے والد صاحب کے چھِتروں سے خود کو نہ بچا سکا ۔ اُس کے والد صاحب  اپنے قابل بچے  کو انجنئیر بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ایک سرکاری مُلازم جو رِشوت لینے کو حرام سمجھے   ساری عُمر  گھر کی دال روٹی چلانے میں گُزارے اور اپنے جیسوں کی کوٹھیاں بنتا دیکھے۔وہ  اپنی خواہشات کی پوٹلی  اولاد  کے سر پر لادنے کے سِوا بھلا کر  بھی کیا سکتا ہے۔ ۔ والد صاحب کا رویہ اُس کے ساتھ دِن بدن سخت ہوتا گیا۔  والد کے حُکم پر اُس نے دوبارہ پرچے دینے کا اِرادہ ترک کردیا ۔اورسر  جھُکائے ہر حُکم کی تعمیل کرتا رہا۔ اُنہی کے حُکم پر نا چاہتے ہوئے بھی اُس نے بی کام میں داخلہ لے  لیا۔اُسکی  ماں جو کہ ایک سکول ٹیچر تھی   نے اپنے بیٹے کو ہِمت نہ ہارنے اور صبر اور شُکر کی تلقین ۔ یہ غالباً ماں کی تربیت کا اثر تھا کہ میں نے اُس کی آنکھوں میں کبھی مایوسی نہیں دیکھی ۔بی کام  کی کلاسز لینے کے دوران وہ اپنے طور پر باپ کے خواہش کی تکمیل کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔  سات آٹھ ماہ بعد ایک اعلی تعلیمی اِدارے میں  اُس نے اینٹری ٹیسٹ دیا اور  اُسے وظیفےپر  انجئرنگ میں داخلہ مِل گیا۔ چار سال بعد   اُس نے اپنے باپ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرڈالا۔

اعلیٰ  اِدارے کی تعلیمی ڈِگری کے سبب اُسے بہت جلد سرکاری جاب بھی آفر ہوگئی ۔ مُجھے یاد ہے وہ دِن جب  وہ  مٹھائی کا ڈبہ لئے  یہ خوشی کی خبر  دینے میرے گھر آیا تھا۔وہ  بہت ایکسائٹڈ نظر آرہا تھا ۔ ویسے کا ویسا ہی تو تھا  وہ ۔زِندگی گُزارنے والا  نہیں بلکہ جینے والا۔ہمیشہ مُثبت سوچنے والا کِسی سے کوئی شکائت نہ کرنے والا ، اپنے اندر بیٹھے  کے  بنائے گئے پرنسپلز کو نہ توڑنے والا، دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والا۔اُس نے بڑے جذبے کے ساتھ سرکاری نوکری جائن کی۔اِس  کینسر زدہ سِسٹم کو یکسر بدل ڈالنے کے عزم کے ساتھ کبھی ہار نہ ماننے  کا اِرادہ کئے ۔مُجھے نہیں معلوم کہ وہ اپنی سرکاری نوکری میں کیا کچھ تبدیل کر پایا۔ میں تو بس اِتنا جانتا ہوں کہ  اپنی نوکری کے تیسرے سال اُس نے جاب سے  اِستعفی دے دیا۔ کِسی سے  کوئی گِلا کئے بغیر ، اپنوں  کو گالی دئے بغیر،اِس سسٹم پر لا عِلاج ہونے کا ٹھپہ لگائے بغیر وہ خاموشی سے امریکہ چلا گیا۔

میرا اُس سےرابطہ  خط و کِتابت کے ذریعے قائم رہا۔ میں اپنی زِندگی کے رونے  ، اُسے لِکھتا تو  اُس کا پیار بھرا  اور ہِمت نندھاتا ہوا جواب  موصول پاتا ۔  خط کی چند سطریں پڑہتے ہی میرے اندر کی تمام گندگی اُبل پڑتی ۔ ٹِپ ٹِپ کرتے آنسو  کاغذ پر گرِتے  اور میں سکون سا محسوس کرنے لگتا ۔ اُس کی لِکھی باتوں سے میرے اندر اپنی بقا کی جنگ لڑنے کا پھِر سے حوصلہ پیدا ہو جاتا۔ اُس کی تحریر میں اپنے وطن اور اپنوں کے لئے آج  وہی پیار وہی  تڑپ محسوس ہوتی۔میں اُسکا خط اپنے سرہانے رکھتا ،کئی بار پڑہتا۔اُسکے لِکھے حروف کی خوشبو محسوس کرتا   ۔ خط پر گِرے اپنے آنسو گِنتا اور سو جاتا۔مگر اِس  تیزی سے ہوتی اِنسانی ترقی نے میرا یہ قیمتی اثاثہ مُجھ سے چھین  لیااور  خط کی جگہ ای میل نے لے لی۔ آج صُبح ای میل میں  میرے یار نے مُجھے اپنا پانچ یورو  والا قصہ لِکھ بھیجا  ۔وہ آجکل  ولندیزیوں کے شہر ایمسٹرڈیم میں  اِک  ملٹی نینشنل کمپنی میں اعلٰی عُہدے پر فائز ہے ۔

وہ دھرتی کبھی بھی بانجھ نہیں ہو سکتی جہاں  میرے یار جیسے سپوت پیدا ہوتے ہوں۔ جو  نیکی کر کے دریا میں ڈالتے نہیں  بلکہ نیکی سے دریا بنا ڈالتے ہیں۔اللہ سے دُعا ہے کہ ہمارا سِسٹم کم ازکم اِتنا بہتر ہوجائے  کہ میری دھرتی کے یہ انمول پُتر اپنی دھرتی چھوڑ کر باہر نہ  جائیں۔(آمین)





Sunday 7 April 2013

محض اِک چنگاری


آج چاچا ڈیوڈ بہت دِنوں کے بعد دفتر آیا تھا ۔دِن بھر کی غیر معمولی مصروفیت کے سبب رسمی سلام دُعا کے عِلاوہ اُس سے کوئی بات نہ ہوئی۔  مگر شام کو پلک کے دو جھپکوں سےپہلے گھر پہنچنے  کی تمنا دِل میں لئے  میرے قدم حرکت میں آئے تو چاچا ڈیوڈ سے ٹاکر ا ہوگیا۔ میں نے نظر اُٹھائے بغیر الوداعی سلام کیا ۔جواب میں اُسکی مخصوص دُعا "مولا تینؤ خوش رکھے پُتر"کانوں سےٹکرائی ۔ میں نے جب سے یہ آفس جوائن کیا ہے اُس ستر کو پہنچے بزرگ  کو  یہی دُعا دیتے سُنا  ہے۔اپنائیت بھرے انداز میں  کہا گیا  یہ دُعائیہ کلمہ بِجلی کی سی تیزی سے کانوں کے رستے دِل   پر اثر کرتا جاتا ہے ۔ مگر آج یہ دُعا محض ایک رسمی سی کاروائی  کی طرح بے جان سی محسوس ہوئی  جو پردہ سماعت سے  ٹکراتے ہی مُردہ ہوگئی۔میرے قدم  اپنی جگہ جم گئے میں نے گردن گھُما کر چاچا کی طرف دیکھا  ۔ ہمیشہ   چمکتی آنکھوں میں  آج پہلی بار مُجھے خوف اور مایوسی نظر آئی۔وہ  جوزف کالونی کے واقعہ کے بعد لاہور چلا گیا  اور ایسٹر اپنی بیٹی کے پاس جوزف کالونی ہی  میں گُزار کر آیا تھا۔ میں  نے حالات کے بارے دریافت کیا تو وہ محتا ط  انداز اپنے دِل کی بات کہنے لگا۔ اُسے تسلی دینے کی خاطرمیں نےمذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے  کے موضوع پر  دسویں جماعت میں رٹی ہوئی تقریر  بنا کِسی فُل سٹاپ کے کر ڈالی  ۔وہ دیوار پر وزن ڈالے کھڑا ،سر کو معمولی جُنبش دیتا میر ی  تقریر سُنتا رہا اور پھِر بولا"پُت تیر ی ہر گل بجا  ،  بے شک سارے وادے کاٹے پورے ہوجاندے نے۔پر  دِلاں تے لگے زخماں دا  کی کریئے ؟ ظالم دے گل پیندا پھندا ہی اِناںزخماں دا مرہم ہونداے۔ ساڈے زخماں تے مرہم خبرے کون رکھے گا تے کدوں رکھے گا؟؟۔ "چاچے کا کہنا تھا  کہ میں نے اپنی اولاد کو پیٹ پر پتھر باندھ کر اعلٰی تعلیم دلوائی ۔ اُن کی بہتر تربیت کی ۔ ہمارے گھر اذا ن کی آواز پر گانا تو دور کی بات ٹی وی بھی بند کر دیا جاتا ہے ۔مگر ہائے  رے بد نصیبی کہ آج بھی ہم مشکوک و  غیر محفوظ ہیں ۔دلائل   میں رنگی میرے مُنہ سے برآمد ہوتی  تسلیاں مُجھے کمزور محسوس ہونے لگیں  تو میں نے گھر جانے کی اِجازت لی۔.
تیسرے فلور سے نییچے اُترتے وقت سیڑھیوں پر رکھا ہر قدم مُجھے  معاشرتی  اِقدار کی تنزلی کا اِشارہ دیتا رہا۔مُجھے سکول کا اپنا پہلا دِن یاد آنے لگا۔آنٹی مقبول کی اُنگلی پکڑے میں وی آئی پی پروٹوکول اینجوائے کرتا پورے سکول سے مُتعارف ہوا تھا۔آنٹی مقبول ہمارے ہمسائے میں کرائے کے مکان میں  رہتی تھیں اور اُس سکول کی ہید مِسٹریس تھیں۔سکول کا پہلے دِن کا یہ بمباسٹک تجربہ میرے حافظے  میں جلد ہی دھندلا گیا مگر آنٹی مقبول کے گلے کا لاکٹ ذہن پر اپنا گہرا نقش چھوڑ گیا۔بہت سالوں بعد صلیب اور صلیب سے جُڑی جنگوں سے تعارف ہوا تو میں یہ معمہ حل کر پایا کہ آنٹی مقبول کے گھر آنے پر کیوں چائے کے برتن خصوصی طور پر کلمہ پڑہ  کر دُھلائے جاتے تھے۔
فوارے والی گراونڈ سے میری بچپن کی یاری ہے۔ دس گیارہ سال کی عُمر سے گرمیوں کی چھُٹیوں کے ساتھ ہی  گلی کے بچے صُبح روشنی ہوتے ہی ست ربڑی گیند اور بلا لئے گراونڈ پہنچ جاتے تھے۔ گراونڈ کے وسط میں لگا  فوارہ توہم نے  شاذو نادر ہی چلتے دیکھا مگر گراونڈ سے جُڑی یادیں  فوارے کی سی پھوار کی طرح ہمیشہ خوشگوار احساس پیدا کرتی ہیں۔ سوائے وہ ایک اُداس کردینے والا واقعہ جب ایک گیا رہ بارہ  سالہ بچے سے دوران کھیل مُسلمانی ک ٹیسٹ پاس کرنے کا مُطالبہ ہوا۔کرکٹ کے خمار میں گِرفتار وہ بچہ مذہب کی دیوار پھلانگ کر خود کو مُسلمان ظاہر کر تا رہا مگر کلمہ سُنانے کا ٹیسٹ پاس نہ کر سکا۔شرمندگی اور ذِلت کا احساس سمیٹے سر جھُکائے آہستہ آہستہ میدان چھوڑ کر جاتا ہوا  وہ لڑکا آج تک  میں بھول نہیں پایا۔میں بچوں کی ا ِس حرکت کو معصومیت کے  نام پر یقیناً بھول جاتا مگر  چند سالوں  بعد 1997نڑ والا روڈ  ،فیصل آباد ،پر واقع  عیسائیوں کی بستی کو جلا ڈالنے کے جہاد  میں اِنہی بچوں کی جوانیاں اپنا حِصہ ڈالتی نظر آئیں ۔اُس وقت کی شہباز گورنمنٹ  کی پولیس نے  دو دِن کے کرفیو اور سخت سکیورٹی  کے زور پر معاملات کو کنڑول میں کر لیا تھا۔
وہ ستائسویں رمضان کا دِن تھا جب یونس نے اِسلام قبول کرنے کا  اعلان کیا تھا۔ یونس ہماری گلی کا خاکروب تھا۔ دو دِن  بعد اُس نے عید گا ہ میں ہمارے ساتھ نماز عید بھی ادا کی تھی ۔ مگر اُسے کِسی نے گلے نہیں لگایا تھا۔ بلکہ دور کھڑے ہوکر محلے کے کُچھ لوگ    اُس کی  ہوشیاریوں اور ڈرامے بازیوں کو یاد کرتے ہوئے    اُس کا تمسخر اُڑاتے ،قہقے لگاتے نظر آئے۔ اپنے اندر کبھی نہ جھانکنے والے  دوسروں کے دِلوں کو اخباری سُرخیوں کی طرح پڑھ ڈالتے ہیں"فٹا فٹ"۔ یوسف کے قبول اِسلام کی جب اخبار میں سُرخی لگی ۔  تو میں نے بہت  سو ں کو مٹھائیاں بانٹتے دیکھا۔ اِقبا ل سٹیڈیم فیصل آباد کی اگلی سیڑھیوں میں بھی اِنہی شناسا چہروں سے مُلاقات ہوئی تھی  اُس ٹیسٹ میچ میں   اِنہی لوگوں سےباونڈری پر فیلڈنگ کرتےیوسف کو  گِرے ہوئے گٹھیا القابات مِلتے رہے اور وہ تماشایئوں کی حرکتوں کو اِگنور کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یوسف باؤنڈری پر آنے سے ٖ کترانے لگا۔میچ کے بعد یوسف نے تماشائیوں کے سلوک پر  اعتراض بھی کیا ۔ مگر چند سالوں بعد یوسف مُسلمان  ہوگیا ۔ اُس کے دِل میں اِسلام کا چراغ  روشن کرنے والے  ہم ہی میں سے ہیں مگر ہم سے بِالُکل نہیں ۔ وہ اللہ سے ڈرنے والے اور خلقِ خدا سے محُبت کرنے والے بزرگ تھے جو ہم میں سے ہونے کے باوجود ہم جیسے نہیں ہیں۔ ہمار ے نبی آخری نبی ہیں اور اُن  کا لایا دین ، دینِ برحق ۔ہمیں اپنے دین پر  فخرہے  ۔فخر ہے۔ مگر  فخر جب غرور بن جائے تو کُچھ نہیں بچتا ۔ ما سِوائے اِک جڑ کٹا درخت جِسے  محض اِک چنگاری سورج کی جنبش سے پہلے   ہوا  میں  اُڑا دیتی ہے ۔

Sunday 17 February 2013

جمہوریت یا جمہوری تماشا




18 فروری 2008 کو قوم نے اپنے نمائندوں کا اِنتخاب کیا تھا۔کھِلتے گُلاب ،مہکتی بہار  اور مُسکراتے ہوئے سورج نے ہر طرف رنگ تو بکھیرے  ہی ہوئے 

تھے مگر سیاسی میدان کی گرما گرمی نے اِس دِن کی غضبناکی میں دُگنا چُگنا اِضافہ کر دیا۔  میں شیر کی تصویروں سے سجی گاڑی میں اپنے کزن کے  ساتھ پولنگ 

سٹیشن تک گیا تھا۔اُس وقت تک پولنگ سٹیشن پرزیادہ رش نہیں ہوا تھا۔ میرے کزن نے ووٹ ڈالا مگر میں مُشرف کے اِس این آر او زدہ الیکشن کا حِصہ نہ بننے کا 

پہلے سے ہی فیصلہ کر چُکا تھا۔ بقیہ دِن اخبار پڑہتے ،ٹی وی دیکھتے اور  لذیذ کھانوں کے ساتھ سیاست پر چسکور ی گفتکو  کرتے گُزرا۔میں ٹی وی پر جمہوریت کے حق  

میں کئے گئے سیاسی تبصرے سُنتا رہا اور جھومتا رہا۔مثلا! "پاکِستان میں دو پارٹی سِسٹم رواج پا چُکا ہے" "پاکِستانی ووٹرزبہت باشعور ہو چُکے"۔پاکِستان میں مضبوط ہوتی 

جمہوریت اور فروغ پاتے جمہوری کلچر کے مُثبت اِشارے دِل کو بہت بھانے لگے۔  جمہوریت کی دھمال ڈالتا ہوا میرا ذہین اِس بات کو قطعی طور پر نظر انداز کر 

تا رہاکہ میری بیگم تمام دِن اپنی مرضی کے مُطابق ووٹ کاحق اِستعمال کرنے کی خواہش ظاہر کرتی رہی مگرمیں اُس پر اپنی مرضی مُسلط کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

قائد اعظم  نے نہ جانے کِن مُسلمانوں کا خون کِس لیبارٹری سے چیک کروایا تھا ،جِس کے مُطابق جمہوریت مُسلمانوں کے خون میں شامل ہے۔


میری چسکوری فِطرت نے مُجھے  ہمیشہ مجبور کیا کہ میں اپنے گھر سے قریب مین روڈ پر دہی بھلے کی  ریڑھی پررالیں ٹپکاتے ہوئے  ہر دوسرے تیسرے دِن حاضری دوں۔

جب تک میں فیصل آبادمیں  رہا یہ سِلسلہ اِسی طرح چلتا رہا  ۔پچھلے دِنوں  فیصل آباد کا چکر لگا تو میں اُس دہی بھلے کی ریڑی پر پیٹ کا چسکا بھرنے پہنچ گیا۔ بہت کُچھ 

بدل گیا تھا اِرد گِرد کا ماحول بھی اور دہی بھلے  والا بھی ۔اُس سادہ سی ریڑھی کی جگہ برقی قمقموں سے سجے سٹال نے لے لی تھی ۔  مُجھے نہ تو اِس بدلے ماحول  میں 

کوئی کشش محسوس ہوئی اورنہ  ہی دہی بھلوں  کی پلیٹ نے وہ پہلے کا سا مزہ دیا۔رات کا وقت تھا اور رش بالکُل بھی نہ تھا۔میں نے اپنا چسکا پورا کرنے کی دہی بھلے 

والے سے  سیاست کا موضوع چھیڑ دیا۔ جناب نے مُجھے سیاست پر اچھا خاصہ لیکچر دے ڈالا جِس کا  اِختتام اِن الفاظ پر تھا "وڈی بُرائی دی جگہ چھوٹی بُرائی دا اِنتخاب 

ہی بہتر ہے "۔ اُس کا یہ جواب مُجھے بیس سال پیچھے لے گیا۔جب اِسی جگہ پر اِسی  کے باپ نے یہ "چھوٹی بُرائی تھیوری "میٹرک میں پڑہتے ہوئے اِک بچے کو سمجھائی 

تھی۔میں کافی دیر تک وہیں بیٹھا یہ سوچتا رہا کہ پِچھلے بیس سال میں کیا کُچھ  بدلا اور کیا کُچھ جوں کا توں ہی رکھ دیا گیا۔ مگر کب تک کے لئے؟؟؟


تُم آنے والے الیکشن میں کس پارٹی کو ووٹ دو گے؟ یہ سوال جب میں نے اپنے ایک اچھے خاصے پڑہے لِکھے دوست سے کیا تو اُس کا جواب تھا :"اُسی پارٹی کو 

جِسے  2008 کے الیکشن میں ذِمہ داری سونپی تھی ۔اپنے اِس جواب کی وضاحت میں بتانے والے نے  بتایا  " ہماری گلی کی ٹوٹی سڑک نئی بنا دی گئی ہے ۔ محلے کا 

کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا بندوبست کر دیا گیاہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ میرے بچے کا برتھ سرٹیفیکیٹ میری منشا کے عین مُطابق 2 سال کم کرکے تیار 

حالت میں میرے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے اب اِس سے بڑھ کر مُجھے اور کیا چاہئے؟ "بس یہی ہے ہماری جمہوریت کی پانچ سالہ پرفارمنس ۔ہماری پانچ سالہ جیتی 

جاگتی جمہوریت نے لوکل باڈیز سطح کے کام قانون ساز نمائندوں کے حوالے کئے رکھےہم پر ڈیڑہ سو سالہ کمشنری نظام مسلط رکھااور اِسی کو جمہوریت کا  نام دیاجا تا رہا ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ آج بھی  
ہمارا قانون ساز نمائندہ ڈیولپمنٹ فنڈ کے سر پر اپنی کارکردگی منواتا ہوا نظر آتا ہے ۔


پِچھلے دِنوں لاہور میں چلنے والی بس سروس کو دیکھ کر حقیقی معنوں میں خوشی محسوس ہوئی  مگر اِس بس کو اِنقلابی رنگ دینے کے لئے میر ے ہی دئے گئے ٹیکس 

کے سر پر جِس طرح سے پبلسٹی کی گئی وہ لمحہ فِکریہ ہے۔ کب تک ہمارے ہاں اِنقلاب سڑکوں ہی کے راستے آتا رہے گا۔ فِکری انقلاب کی طرف قدم کب اُٹھائے 

جائیں گے؟؟۔کہ جِس سے ہمارا ووٹر بِنا خوف اور لالچ کے سوچ میں آزاد ہوگا ۔ یہ  آزادی ہی ہمیں بالغ نظر بنا سکتی ہے ۔نہیں تو جمہوریت کے نام پر جمہوری 

تماشے یوں ہی چلتے رہیں گے۔


Saturday 2 February 2013

آدھا جھوٹ کا ایک سال



میرے تخیل نے جب بھی اُڑان بھرنے کے لئے پر تولے تو اُن کا وزن چند چھٹانکوں سے  زیادہ نہ نِکلا ۔کوشش در کوشش سے تولے ،ماشوں میں  اِضافہ تو ہوا مگر 

تخیل کاشوق ِ پرواز اِنہی ٹوٹے پھوٹے  اور بےوزن پروں میں ہی دم توڑتاگیا  ۔  مجبوراً   مُجھے  یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑا کہ یہ کم بخت میرا تخیل بھی حقیقی زِندگی کا 

آئینہ دار  ہے۔۔۔میر ی حقیقی زِندگی کی مثال اُس سرکاری دفتر کے آفس بوائے کی سی ہے  جو کہ صاحب کے روم کے باہر بیٹھا اکثر خوابِ اخروٹ کے مزے 

لیتا دِکھائی دیتا ہے .ایک کپ چائے کے لئے نیند میں خلل آنے پر مُنہ بسورتا ہوا کِچن کا رُخ کرتا ہے اور ایک عدد سینہ ساڑ قِسم کی  کالی چائے کا کپ طلبگار 

کی خِدمت میں دے مارتا ہے۔


 میں تخیل کے پرواز کا شوق تو پورا نہ کرپایا  مگر اپنا خیالی انڈےاُبالنے کا شوق ابھی تک پالے ہوئے ہوں۔انڈوں کا یہ خیالی کاروبار کِسی شیخ چلی کی صحبت کا  اثر 

نہیں ہے بلکہ یہ انتخاب میں نے اپنی سہل پسندی کی عادت کے باعث خود ہی فرمایا ہے ۔ایک تو دماغ میں اُبل اُبل کر یہ انڈے خود ہی پک جاتے ہیں   اور میرے تخیل 

کو دوام  بخشنے کا باعث بنتے ہیں ۔دوسری بات یہ کہ اگر  کُچھ کرنے کو دِل نہ چاہے تو بِنا کِسی جھنجٹ کے توڑ کر پھینکنا بھی آسان کام ہے۔ جہاں تک مُجھے یاد پڑتا ہے خیالی انڈے 

اُبالنے کا  شوق مُجھے بلوغت کی پیچیدہ زِندگی میں قدم رکھنے سے پہلے سے  ہے۔جب میں اپنی دادی اماں سے روپیہ دو روپیہ لیکر رگلی میں  بِکتی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں خرید 

لاتا تھا اوراُنہیں غُسل خانے   میں  سیمنٹ کےبنے  بڑے سےباتھ ٹب میں ڈال کر اُن کے بڑے ہونے کا اِنتظار کر تا تھا۔وہ مچھلیاں چند دِن بعد مرنے سے پہلے 

میرے نام ہزاروں انڈے وصیت کر جاتی تھیں۔ میں آج بھی اُنہی انڈوں  کو   خیالوں میں لئے  جی رہا ہوں۔


میرے دور کی جینریشن نے وی سی آر کے توسط سے تعلیم تو خیر حاصل نہ کی  مگر  تربیت کو خوب  گلے لگایا۔ایک دور تھا جب  ایک رات کے لئے وی سی آر کرائے 

پر لایا جاتا اور بغیر کسی بریک کے چار چار فِلمیں ہضم کی جاتیں۔بعض اوقات چلتے چلتے وی سی آر  کے ہیڈ میں کچرہ آنے سے فِلم سے فِلم بینوں کا رابطہ مُنقطہ ہو جاتا 

ایسےمیں ہیڈ صاف کرنے کی ضرورت پڑتی تھی۔ میری تخیلاتی دُنیا  میں بھی انڈے اُبال  قِسم کےخیالات فِلمی انداز میں ہر دم چلتےرہتےہیں۔مگر بعض اوقات ہیڈ میں کچرہ آجانے 

کے باعث ہیڈ کی صفائی نا گزیر ہو جاتی ہے بس اِس صفائی کی خاطر میں  قلم اُٹھاتا ہوں اور کُچھ لِکھ ڈالتا ہوں۔

میں نے جب بھی لِکھا خود ہی پڑھا اور کُچھ دِنوں بعد پھاڑ کر پھینک دیا۔پِچھلے سال فروری میں میرے ایک قریبی دوست کے ہاتھ میر ی ایک تحریر لگ گئی ۔ 

جناب میرا وہ قیمتی کاغذ لے اُڑے ۔ اگلے دِن میں اپنی پُرانی سی سکوٹری پر   وہ کاغذ لینے اُن کے گھر جا پہنچا۔ موصوف نے وہ "قیمتی اثاثہ" میرے ہاتھ میں دیتے 

ہوئے ایک عدد مشورہ دے ڈالا۔"یار  یہ جوتُم فضول قِسم کی بکواس لِکھنے میں وقت برباد کرتے ہواِس س کہیں  بہتر ہے کہ اپنی اِس گند ی ہوتی  سکوٹری کو پانی و کپڑا   

مار کر صاف کر لیا کرو"۔ واپسی پر گھر جاتے ہوئے میری پھٹیچری گاڑی نے اِتنا دھواں نہیں مارا ہوگاجِتنی میرے مُنہ سے اُن کے لئے دھواں دار القابات برآمد ۔ 

بس پھِر میں نے ضِد میں آکر اپنا بلاگ بنا ڈالا۔مگر یہ میرے  محترم دوست کا بڑا پن ہے  کہ اُس نے اپنی کہی بات  کو انا کا مسئلہ نہ بنایا بلکہ وہ بلاگ پر تشریف 

بھی لاتے ہیں اور مُفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ بڑے لوگ ہمیشہ بڑے دِل والے ہوتے ہیں۔


ہمارے معاشرے میں ہر طرف سچ ہی سچ بِکھرا ہوا ہے ہر چینل اور اخبار سچ کےاصولوں پر قائم اور  ہر کوئی سچ بول رہا ہے  اور بیچ  رہا ہے ۔ بڑا سخت مُقابلہ ہے 

اِس میدان میں ۔اِسی لئے  میں نے جھوٹ کا اِنتخاب کیا اور اپنا بلاگ جھوٹ سے  شُروع  کیا ہے  آدھے جھوٹ سے ۔ یہ تجربہ کامیاب رہا تو پورا جھوٹ بولنا بھی 

شُروع کیا جاسکتا ہے۔


میں خصوصی طور شُکریہ ادا کرنا چاہوں گا اپنے دیرینہ دوست  جعفر حُسین کا جِس نے   میری بھرپور  راہمنائی کی ۔وہ واقعی اُستاد کہلائے جانے کا حق دار ہے۔

شیخوں کی کنجوسی کے مُتعلق ہزار قِصے مشہور ہیں ۔ مگر میرے ایک شیخ  دوست ہیں ۔ وہ  مُجھے بِنا پیکج  لمبے لمبےفون کرتے ہیں اور اپنی پریکٹیکل  دُنیا  کے  قیمتی تجربات مُجھ 

حقیر سے شئیر کرتےہوئے   ہمیشہ میری راہنمائی و حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔میں اُن کا شُکریہ ادا کرنا  ضروری سمجھتا ہوں۔

میں تمام ریڈرز اور ساتھی بلاگرز کا بھی مشکور  ہوں جِن کے قیمتی کومنٹس  میری تربیت اور فِکری بلوغت کا   باعث بن رہے ہیں ۔آپ   دوستوں کا ساتھ رہا 

تو یہ سِلسلہ چلتا رہے گا۔(اِنشاللہ)          


Wednesday 23 January 2013

مارچوں کا مِرچی مزہ



میاں نواز شریف کےپہلے دورِ حکومت  میں محترمہ بینظیر بھُٹونے حکومت سےرِشتہ ء عداوت نِبھانے کی خاطر لانگ مارچ کیا تھا جِس میں فاروق لغاری مرحوم نے 

بینظیر بھُٹو پر  کئے گئے کے وار  خود پر سہے۔  ڈی ایس پی کے چلائے گئے ڈنڈے جناب لغاری صاحب کے ہاتھ میں صدارتی کُرسی کی لکیر بنا گئے ۔ اُس  لانگ مارچ 

کو روکنے کے لئے حکومت وقت کی میڈیا ٹیم نے اچھوتا انداز اپنایا ۔ کُچھ عرصے پہلے جیتے گئے کرکٹ ورلڈ کپ  فائنل کی بال ٹو بال رِکارڈنگ چلا دی گئ ۔ اور یوں 

دِن بھر  کپتان  جی کی فری میں مشہوری ہوتی رہی۔ میاں صاحب بھی کمال کے شریف اِنسان ہیں ۔ یہ چھوٹے موٹے لوگوں  کو خود ہی ہیرو بناتے ہیں ۔مگر جیسے 

ہی اُن کے ہاتھ میں سیاسی کُلہاڑا دیکھتے ہیں تو اُنہں خوف محسوس ہونے لگتا ہے ،اور پھِر میاں صاحب اُس کُلہاڑے کو ٹھوکریں مار مار اپنے پاؤں ۔۔۔۔۔


االلہ تعالی جنت میں قاضی صاحب کو بُلند درجات عطافرمائے  آمین۔  اُن جیسا سادہ، پُرخلوص ، محنتی اور ڈٹ جانے والا اِنسان شائد ہی ہماری سیاست کو پھِر کبھی 


نصیب ہو۔ اُنکا بینظیر حکومت کے خِلاف کیا گیا لانگ مارچ بھُلائے نہیں بھولتا۔ بے نظیر کی حکومت اگست 1996 میں اُن کے مُنہ بولے بھائی فاروق لغاری نے 

ختم کر دی۔ اِس  موقع پر قاضی صاحب نے  کرپشن کے خِلاف شدید آواز اُٹھائی اور آرٹیکل 62 63 پر عمل درآمد کرنے کے لئے عملی  اِقدامات پر زور دیا۔ یہ 

قاضی صاحب ہی کی کاوش تھی کی عوام  آرٹیکل 62 63  اور اِس کے مقصد سے واقف ہوئے ۔ اِس سےپہلے  تو ہماری جنتاآرٹیکل 6263 کو نیوخان کی بس کا نمبر 

ہی سمجھتی تھی۔ قاضی  صاحب  نے پہلے احتساب پھِر اِنتخاب کا نعرہ لگاتے ہوئے عوا م کو الیکشن کے بائکاٹ کا مشورہ دیا۔ قاضی حسین اپنی سادگی کی وجہ سے  

شائد یہ بھول گئے کہ اِنہی الیکشنوں کے بہانے ہی یہ غریب عوام پورا  مہینہ پیٹ بھر کر دیگی چاول کھاتی ہے اپنی گلیا ں پکی کرواتی ہے وہ بھلا  اِس  نعمت  سے 

کیسے مُنہ پھیر سکتی تھی ۔رمضان کے بابرکت مہینے کے آخری عشرے میں یہ الیکشن بخیریت ہوگئے۔ ٹرن آؤٹ کُچھ کم رہا جِس کی وجہ جنابِ صدر  فاروق لغاری  

نے پاکستان ٹیوی پر اِنٹرویو دیتے ہوئے یہ بیان فرمائی "بہت سے لوگ تو اعتکاف میں  بیٹھ گئے ہیں اِسی لئے  ٹرن آؤٹ میں کمی محسوس ہورہی ہے"۔جناب صدر 

کی اِس موشگافی پر سٹوڈیو میں بیٹھے تمام جی حضوریوں  نے  اُنہیں دِل کھول کر داد دی۔



اسلام آباد میں کئے گئے حالیہ مارچ کو مُنفرد تو خیر قادری صاحب کی ست رنگی شخصیت نے ہی بنا  ڈالا مگر یہ ایک حقیقت ہے  کہ اِس قدر بڑے پیمانے پر اور اِتنا 

مُنظم  پروٹسٹ ہماری تاریخ میں  اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔اپنے معٹقدین  کو  سیاسی مقاسد کے لئے بطور ہتھیار اِستعمال کرنا  بِلاشُبہ ایک خطرناک طرزِ عمل 

ہے  ۔ اس ڈالی گئی روائت  کی ہر صاحب نظر نے مُخالفت  کی ہے۔حتی کہ بعض حلقوں کی طرف سے  اُن  معتقدین کو "دولے شاہ کی چوہیاں  " تک لِکھا گیا۔یہ 

سب اِلزام درست مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئےکہ ہمارےسیاسی جمہوری نظام میں کُچھ بنیادی کمزوریاں ہیں جِس کے باعث  رائے دہندگان میں 

بلوغت کا عمل جمود کا شِکا ر ہے جِس کی وجہ  پارٹیوں کا  کمزور اور شخصیات کا طاقتور ہونا ہے ۔ ایک جماعت اِسلامی کو چھوڑ کر ہر پارٹی  اِسی ڈگر پر چل رہی ہے۔

طاہرلقادری پر لگائے گئے اِلزام سُن  کر نا جانے کیوں مُجھے  گاؤں  کے چوہدری کی کہانی یاد آجاتی ہے جِس میں چوہدری اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم دلواتا ہے اور اُس 

کے پاس ہونے پر خوشیاں مناتا ہے۔  لوگوں  سے مُبارکبادیں وصول کرتا  ہے ۔لیکن جب گاؤ ں کےکمی کی بیٹی کو اچھے  کالج میں داخلہ مِل جاتا ہے تو  چوہدری  

کو  اُس لڑکی  کی ماں کا لوز کیریکٹر یاد آنے لگتا ہے اور اُسے سماجی اور مذہبی اِقدار خطرے میں نظر آنے لگتی ہیں۔



ہماری سیاست میں  یو ٹرن لینے کی روائیت تو بہت پُرانی ہے ۔قادری صاحب کی دو اُنگلیوں کے  بنائے گئے نِشان کو حاضرین نے وِکٹری کی علامت سمجھا تھا 

درحقیقت وہ ہماری سیاست میں اِک جدید  اِصطلاح" وی  ٹرن  "کے اِضافے کو ظاہر  کر  رہی تھیں۔ اس مُقدس ایونٹ   کو زرداری صاحب نےاپنے شاطرانہ انداز 

میں خوب ہینڈل کیا اوراپنا سیاسی  منتر جنتر پڑہ  کر   اِس لانگ مارچ کو "لانگ مِرچ  "میں بدل ڈالا۔ اب زرداری  صاحب اِس  لانگ مِرچ کی  مدد سے آنے والے 

سیاسی میلے  میں اپنے  مُخالفین کے کانوں سے دھواں نِکالنے کا کرتب بھی دِکھا سکتے ہیں۔