Saturday 10 December 2016

اُس راہ پر



وہ تو دِل دِل پاکستان کی سفارشی پرچی تھی جو چل گئ ورنہ اتنی جلد اُسے دِلوں میں اینٹری کہاں مِلنی تھی ۔ وہ طیارہ جب ہوا میں پھٹ پڑا تھا تب ہم ٹین ایج میں داخل ہوچُکے تھے ۔ اس کچی عُمر میں جو کُچھ پکا کر کھلادیا جائے وہ ذائقہ زندگی بھر زبان سے چِپکا رہتا ہےاور اگر بندہ مُجھ جیسا خالی ڈبہ سا ذہن رکھتا ہو تو ٹین ایج میں پڑہے سُنے کلمے ٹن ٹنا ٹن عُمر بھر بجاتا پھِرتا ہے ۔ضیا صاحب کے دور کا اکلوتا پی ٹی وی جہاں پاپ میوزک کو عالمگیر ، شہکی تک محدود رکھا گیا تھا اور پھِر ایک طاقتور ولائیتی بیل "آپ جیسا کوئی میری زِندگی میں آئے تو بات بن جائے " والا بدیسی گانا گاتا ہماری ثقافتی دیوار اپنے سینگ پر اُٹھانے کو دوڑتا ہوا نظر آیا تو اُسے حدود و قیود اور اقدار کی نتھ ڈالے نازیہ زوہیب کی صورت میں اینٹری دی گئی تھی ۔ وائٹل سائنز کا بھی کُچھ ایسا ہی معاملہ رہا۔ جُنید جمشید اینڈ کمپنی دِنوں میں ہیرو بن گئے پر گانا بجانا بحرطور کام کنجروں کا ہی مانا جاتا رہا۔ اب ایسے میں آپ ہی بتائیے کہ سانولی سلونی سی محبوبہ  کی شڑنگ کرتی چوڑیوں پر مست ہوئے  ناچ 
لینے کے بعد بھی میں کیسے کہ دوں کہ پاپ سٹار جنُید میرا ہیرو ہوا کرتا تھا ؟
  2002 میں ایک اسلامی اخبار میں پڑھا انٹرویو جُنید سے میرے سچے پیار کا سبب بنا۔ اس انٹرویو میں تبدیلی رحمت کی بارش بنے بہار کے سندیسے لاتی نظر آئی تھی ۔ بِجلی کی طرح ایمان میرے وجود میں کڑکا اور میں نے اخبا ر میں چھپے اس انٹرویو کو رینگتی ہوئی رفتار میں گھنٹوں لگا کر اِن پیج میں نقل کیا ،اس کے بعد جے پیگ فارمیٹ میں کنورٹ کئے اپنے تمام دوستوں کو ای میل کر دیا۔ اس کے بعد اچھے کے لئے یہ ہوا کہ ہمارے جُنید بھائی نے نیکیوں کے اس میدان میں پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا اور بُرا یہ ہوگیا کہ رحمتوں بخششوں کے ماحول میں آگےکی بجائے ہم پیچھے کو بھاگ 
پڑے۔ جنید جمشید پربہت سے مُشکل وقت بھی آئے ۔ تنگ دستی کا خوف بھی دھمکانے آیا۔مگر  اللہ
کے ولی کا ارادہ مضبوط نکلا۔ اپنی سمجھ کے مُطابق نبی کے طریقے پر چلتا رہا بڑہتا رہا ، ہر پل چہرے سے پھوٹتا نور اور کانوں میں رس گھولتی ہوئی پیاری پیاری میٹھی باتیں سُننے کو مِلتیں۔  سلسلہ یونہی چلتا رہا اور پھِر دوہزار چودہ آگیا ۔ جُنید جمشید نے اپنی ہی  چُنی ہوئی راہ سے  ذرا ہٹ کر دھرنے والوں کا کھلم کھُلا ساتھ دے ڈالا ۔ اس کے بعد تجربہ کار لوگ میدان میں آئے ۔ ٹریکٹر والے خواجہ آصف غلاظتوں کی ٹرالیاں اُس پر اُلٹانے لگے ۔ مگر جواب میں خندہ پیشانی اور وہی خوش بیانی ۔ مگر پھِر کِسی کی نظر لگ گئی الفاظ کے چُناؤ میں معمولی سی لغزش پکڑ میں آگئی ۔

یہ مرحلہ شائد پُل صراط سے زیادہ خطرناک ہے بس پیر پھِسلنے کی دیر ہے اورنیچے پھیلی ہوئی  جذباتیت کی دلدل گرنے والے کو بخشتی  نہیں ہے ۔ جمشید ہاتھ جوڑے معافیاں مانگتا رہ گیا۔ مگر سُننے والا کوئی نہ تھا اس  حساسیت بھرے مرحلے پر تو اپنے بھی ساتھ چھوڑ گئے اور دوسری طرف حکومتی تیل بھی آگ لگانے والوں کو میسر تھا۔ عامری جادوگر جیو نیوز پر منتر پڑھ رہا تھا۔ یہ معاملہ اکیلا جُنید جمشید کو نہیں بھُگتنا پڑا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اُنہی دِنوں میں سلمان احمد کی توہین مذہب  ثابت کرتی وِڈیو بھی ریلیز کروائی گئی تھی ۔اس سے ذرا اور پیچھے چلئے طاہرلقادری کے ناموس رسالت پر دئے گئے لیکچر ز میں سے وہ حِصہ جسمیں ناموس رسالت پر حضرت امام ابو حنیفہ کا نقطہ نظر بیان کیا گیا۔ ایڈیٹ کر کے پھیلا یا گیا ۔ مذہبی جذباتیت کا سہار ا لیکر مخالفین کو دبانے کا یہ حربہ ہمارے معاشرے میں بہت بار اور بار بار استعمال ہوا ہے اور ناجانے کب تک ہوگا۔۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر امام ابو حنیفہ آج کےدور میں ہوتے تو اُن کے ساتھ ناجانے ہم کیا سلوک روا رکھتے ۔

 جُنید جمشید نے اپنی غلطی مانی ہاتھ جوڑے معافیاں مانگیں ۔ بہت اچھا کیا مگر میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جُنید کو اُس مرحلے پر سٹینڈ لینا چاہئے تھا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو شائد ناموس صحابہ کی خود ساختہ ڈیفی نیشن پر ہزاروں بے گُناہوں کے بہتے خون کو روکنے کا جواز بن پاتا۔


Friday 2 December 2016

جھننگوی اور جمہوری چڑیا

لال رنگ سے بھری ایک شیشی لہرا لہرا دنیا کو دکھا تا ہوا بلونگڑہ  بلاول جمہوریت کا ٹیسٹ ٹیوب بے بی بن سکتا ہے اور جدہ میں ہوئی  عقل داڑ ھ کی دررد کا حال سنا سنا  خاندانِ جلال جمہورا پیدا  ہو سکتا ہے تو پھر مُجھے کوئی بتائے، جھنگ کے ایک جھنگوی کی  جیت پر کلیجہ پھاڑ   دینے والے نوحے کیوں لکھے اور سنائے جارہے ہیں؟ سوہنی ہیر کی سرزمین  پر" تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا "والا کارگر اور آزمودہ اصول ہمیں  جھنگوی کے بدل سے  انتڑیوں میں سوجن کی کر رہا ہے۔.ذرا  سا ذہن پر زور دیجئے اور  یادکیجئے  کہ یہاں کتنے لیڈر مارے گئے. حق نواز سے لیکر دنیا کو ایک سیٹ کی طاقت سمجھانے اور جمالی جی کو ایک ووٹ پر وزیراعظم بنانے  والا اعظم طارق تک  ایک لمبی فہرست آپ کو یاد آجائے گی. جن کا غم غلط کرنے کو مغرور سروں سے بھری پنجاب اسمبلی میں  چھوٹی سی  پگ والا ایک مولوی  آبیٹھے تو اس میں کیا برا ہے. اس پنجاب اسمبلی ،جس میں رسہ گیر ,ٹھگ بدمعاش. چالباز لٹیرے  ,فصلی بٹیرے اور  لاہور وفیصل آباد کے مانے تانے  مالشیوں کی بھرمار ہے  وہاں  عوام کے " جذبات '" کی  ( غلط یا سہی خواہ کسی بھی حوالے سے ہو) ترجمانی کرتا ہوا آن بیٹھے تو چہرے پر مسکراہٹ لائے  اپنئ ہی زبان میں  اسے جی آیاں نوں آکھئے. آپ پنجاب اسمبلی پر ایک طائرانہ  سی نظر دوڑائیے اور  بتائیے کہ یہاں آٹے دال کے بھاؤ بتانے والے کتنے اور مونچھوں کو تاؤ دینے والوں کی تعداد کیا. شاید کہ جواب دیتے ہوئے  آٹے میں نمک کی مثال بھی شرما جائے
میرے لئے البتہ فکر کی بات ہے تو یہ کہ ہماری سوچ گراموفون بجتی  ڈسک کی طرح تیس سال سے اسی ایک جگہ پر ہی کیوں اٹکی پڑی ہے. ہم کیوں سمجھ نہیں پائے  کہ انسانی سوچ کو دنیا ڈیجیٹل دور سے بھی کہیں آگے  بہت  آگےلے جاچکی ہے اور ہم  ابھی تک جمہوریت کے کچے پکےپہلےدوسرے سبق رٹنے میں ہی لگے پڑے.وہ  سنہری چڑیا  جسے ہم جمہوریت کا نام دیتے ہیں ساری دنیا میں انڈے دیتی  اپنی  نسل بڑھاتی  ہے وہ  ہمارے ہاں زور لگا لگاتھک  ٹوٹ کر ہاری ہوئی ناکام کیوں نظر آتی ہے. اس سوال پر غور کیجئے اور بار بار کیجئے تاکہ عقل کے بند دریچے کھُلنے کا کہیں سے کوئی سبب  بن پائے  . دوسو سال سے کمشنر ڈی سی تحصیل دار سے تھانے دار سنتری تک اکڑ فوں دکھاتی سب کو دباتی ہوئی  انتظامیہ کے ذریعے   کنٹرول ہوتا یہ خطہ گذشتہ آٹھ سال سے گڈ گورننس کی مالا پہنے دوڑتا پھرتا ہوا دکھایا ، بتایا اور سمجھایا جا رہا  ہے۔ اسی گُڈ گورنس کی  مالا ہمارے  دانشور جپھتے چلے آرہے ہیں. دانشوروں کے بنے بنائے پیکٹوں میں بند خوابوں کی ریڈی میڈ تعبیر تو خیر وہی جانیں ہمارے خیال میں تو پچھلے آٹھ سالوں  جمہوریت کی دال گلنے کو ہلکی آنچ پر رکھنے کا تردد بھی کِسی نے نہ کیا۔ مگر بنا حرارت دیئے چولہے پر چڑہائی دال میں ڈوئی ہلانے  والے باورچی دانشور بہت سے مِل جاتے ہیں ۔


 وہی فرسودو سا بے روح، گنجا نظام جِس کی چندیا پر جمہوریت کندہ کئے  چلایا جارہا ہے ۔ ڈِسٹرکٹ گورنمنٹ کی جگہ لایا ہوا لوکل باڈی سسٹم آٹھ سال ہونے پر بھی قائم نہ ہوسکا۔ مگر گُڈ گورننس پر اُنگلی اُٹھانے سے جمہیوریت کے انگوٹھے میں درد کی ٹیسیں اُٹھنے لگتی ہیں۔ ہمارے دانشور بھائیوں  کے قلم تھری ناٹ تھری کی گولی بنے چیڑ پھاڑ کرنے لگتے ہیں  ۔ مُجھے اس سے غرض نہیں اور نہ ہی کِسی قسم کی کوئی پریشانی  کہ ہماری سیاست کے میدان کھیلتے نظر آتے  تمام کے تمام کھلا ڑی  اندھے کیوں ہے  ہیں ۔ سوچنے پر مگر یہ بات دِل چیرتی ہے  کہ اندھوں کے ہوتے کرکٹ میچ پر ماہرانہ رائے دینے کے لئے کِسی دیدہ ور کی ضرورت بحرحال ہوتی ہے۔ مگر افسوس کہ ہمیں مبصر بھی مِلے تو  اندھے ہوئے پڑے ۔
 جھنگ میں  ہوئے ضِمنی الیکشن میں ایک جھنگوی کی جیت پر جمہوریت کو پڑتی گالی سے  شُروع ہوئی بات کہاں سے کہاں  جا نِکلی ۔ عرض کرنا فقط یہ چاہ رہا ہوں کہ وہ جمہوری چڑیا تو دُنیا بھر میں انڈے دیتی پھِرتی ہے اُسی سنہری چِڑیا کے انڈے  ہمارے ہاں گھونسلے میں نہیں بلکہ سانپ کی پٹاری میں سنبھالے جاتے رہے ہیں اور گالی کھاتی  بیچاری معصوم  سی چڑیا ہے ۔ آپ ان پٹاری کے سانپوں سے اپنی چڑیا کے انڈے بچا لیجئے اور خود کو سکون میں جانیے ، رہی بات جھنگوی کی جیت کی تو  اِس  جیسے چھوٹے موٹے کیڑوں کو جمہوری چڑیاں مِنٹوں میں صاف کردیں گی۔  مگردانشوروں سے بھری  اس دُنیا میں   میری سُنتا ہی کون ہے ۔

Saturday 8 October 2016

انڈر ایٹین

اس نے سگریٹ سلگا کر پہلا کش لگایا تو مجھے اپنے بدن میں جھرجھری سی محسوس ہونے لگی. میں نے ناپسندیدگی کا اظہار ہاتھ سے سگریٹ کا دھواں  تو جیسے  زور سے پرے دھکیلتے ہوئے کیا اور پھر گھورتے ہوئے اس سے پوچھا. عمر کتنی ہے تمہاری ؟ اُس نے  معصوم سی آنکھیں گھما کر دوسری طرف پھیر لیں۔ بڑے سکون سے نے دوسرا کش لیا.کچھ دیر پھیپھڑوں میں زہر سنبھالے رکھا اور پھر آہستہ آہستہ منہ سے دھویں کے دائرے بناتا ہوا بولا. میری زندگی کوئی شیلا کی جوانی تھوڑا ہے صاحب کہ کتنی گزری ، حساب رکھوں. ہم کو تو بس دنوں کا وزن , چڑہتے سانسوں کی ڈوری میں باندھے اٹھانا ہے.دیہاڑیوں میں جینا اور مرجانا ہے. سگریٹ ختم کرتے ہی ٹرک پر سے مزید ایک بوری اس نے اپنی پیٹھ پر لادی اور چل پڑا میں اسے دور تک سیڑہیوں پرچڑھتادیکھتا رہا.یہ اسکا تیسری منزل پرسیمنٹ کی بوری اٹھائے لیجانے کا گیارہوں چکر تھا جو میں گن سکا .اس عمارت پر اوپر تک نظر دوڑائی مزلیں اسکی بھی گیارہ ہی تھیں .یہ لگژری اپارٹمنٹ ہیں جو ابھی تعمیر ہو رہے ہیں. اگلے چند ماہ میں یہ عمارت اشرافیہ کا مسکن ہوگی .مہنگے سکولوں میں پڑہتے بچے ماں باپ سے چھپ کر یہاں سگریٹ نوشی بھی فرمائیں گے.شیلاؤں کی جوانیوں کے الاؤ کے گرد رقص کرتے بھی دیکھے جائیں گے. اس وقت بھی یہ پندرہ، سولہ سالہ بچہ اپنے کاندھوں پر زندگی کا بوجھ دیہاڑیوں میں بانٹے اٹھا رہا ہوگا.
جسے میں انڈر ایٹین ہونے پر سگریٹ نوشی کا لیکچر دینا چاہ رہا تھا وہ مجھے تلخ حقائق کا سبق پڑہا گیا.

Tuesday 21 June 2016

علی فریزئر بیسٹ آف تھری

عظیم باکسر محمد علی اور جو فریزییر اپنی پہلی باؤٹ سے پہلے تک اچھے دوست رہے۔ محمد علی کے ٹائٹل چھینتےہوئے جب امریکہ میں پابندی لگا دی گئی تو جو فریزئز نے محمد علی کی نا صرف حمائت کی بلکہ پابندی کے حکومتی فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پابندی اُٹھا لئے جانے کے بعد محمد علی اور جو فریزئر کی باکسنگ فائٹ کا راستہ ہموار ہوا۔ اُس وقت فریزئر عالمی چیمپئن تھا اور محمد علی حکومت سے اپنی جوانی کے قیمتی ساڑھے تین سال برباد کئے جانے پر شدید برہم۔ وہ باکسنگ مُقابلے سے پہلے ہی آگ کا مُکہ بنے ہوئے تھے ۔ اُنہوں نے وائٹ کموینٹی کے ساتھ  ساتھ جو فریزئر کو بھی لتاڑ ڈالا۔ اُسے انکل ٹام کا نمائندہ قرار دیا۔ امریکہ کی بلیک کمیونٹی محمد علی کے ساتھ کھڑی تھی نتیجتاً فریزئر کالا ہونے کے باوجود گوروں کا بن کر رہ گیا ۔اُسے اپنے اور بچوں کے لئےسرکاری  سیکیورٹی لینی پڑی۔ جو فریزئر اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ محمد علی نے مُجھے اپنوں سے دور کردیا مگر اُسکی  اس حرکت  سے مُجھے اپنی تمامتر صلاحیتوں کو مجتمع کرنے کا موقع مِل گیا۔ یہی وجہ تھی کہ فائٹ آف دی سنچری کے نام سے جانی جاتی باؤٹ کا نتیجہ یونیمس ڈیسزن  کی صورت جو فریزئر کے حق میں نِکلا۔ محمد علی  ہارنے کی صورت میں جو کو خود سے بڑا باکسر مان لینے کی بات کہ چُکے تھے مگر اُنہوں نے اپنی ہار کے فیصلے کووائٹ مینز ڈیسیزن کا نام دے 
دیا۔





جو اور علی کی دوسری باؤٹ سے پہلے بھی محمد علی نے فریزئر پر اپنی زبان سے نکلتے تیروں  کی بارش کردی  ۔ یہ ایک نان ٹائٹل فائٹ تھی کیونکہ فریزیر اپنا ٹائٹل جارج فورمین سے ناک آؤٹ ہوکر گنوا بیٹھے تھے ۔ اس دوسری فائٹ میں محمد علی نے فریزئر سے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا اس بار بھی نتیجہ یو نینمس ڈسییزن کی صورت ہی برامد ہوا۔
دونوں باکسرز کی تیسری فائٹ تھریلا ان منیلا کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ یہاں بھی سے پری فائٹ پریس کانفرنس میں محمد علی کی زبان ایسی چلی کہ فریزئر  چھُپنے کو  کونے کھُدرے ڈھونڈتے رہ گئے ۔ علی نے فریزئر کو دوسری ٹائپ کا نیگرو کہا ، بدصورت اور غبی کہا اورگوریلا کے نام سے پُکار۔ علی فائٹ سے پہلے ہاتھ میں ایک گوریلا باوا پکڑے ہوتا اور ہر کِسی سے کہتا آئی ول کِل دِس گوریلا ان منیلا ۔ علی کی زبان چلتی  تو چلتی ہے جاتی اُس کے آگے بند باندھنے والا کوئی نہ ہوتا۔.
یہ مقابلہ باکسنگ کی تاریخ کا خطرنا ک ترین مُقابلے کےطور پر یاد کیا جاتا ہے۔اس مُقابلے میں علی ہیوی ویٹ چیمپئن تھا جبکہ فریزئر چئلجر۔ علی نے خلاف توقع پہلے راؤنڈ سے ہی جارحانہ انداز اپنایا فریزئر بھی نہ تھکنے والا تھا اور نہ ہی ڈرنے والا۔ فریزئر جھُک کر علی کے اندر آنے کی جگہ بناتا رہا اور تاکہ اپنا خطرناک ہُک استعمال کرے اور محمد علی لگاتار اپر کٹس لگاتا رہا۔ دونوں اطراف سے مُکے تھے کہ برسات کی بارش کی طرح موسلا دھار اور تھمنے کا نام نہ لیتےتھے۔ آخری راؤنڈ ز تک پہنچتے پہنچتے یہ مُقابلہ تو ایسا منظر پیش کرنےلگا جیسے موت کا فرشتہ رنگ کی رسیوں پر بیٹھا بس کِسی ایک باکسر کے گِرنے کا منتظر ہو ۔ منیلا کا گرم مرطوب موسم ہال میں شدید حبس ، سانس لینا دشوار مگر دونوں اطراف سے تابڑ توڑ حملے، ان حالات میں رِنگ کا منظر باکسنگ سے زیادہ دو سپر پاورز کی جنگ کا سا بن چُکا تھا۔ فریزئر کی دائیں آنکھ تقریبا بند ہوچُکی تھی اور چودہویں راؤنڈ کے اختتام پر تو بائیں آنکھ بھی بُری طرح زخمی ہوچُکی تھی ۔ پندرہویں اور آخری راؤنڈ کے شروع ہونے سے پہلے فریزیر کی حالت دیکھتے ہوئے اُسکے ٹرینر نے فریزئز سے فائٹ روکنے کی بات کی مگر فریزئر لڑنے پر بضد تھا راؤنڈ سٹارٹ ہونے سے بیس سیکنڈ پہلے فریزئز کے ڈاکٹر نے اپنے باکسر کی حالت دیکھتے ہوئے فائٹ رکوا دی ۔ دوسری طرف علی آخری راؤنڈ لڑنے کا سٹیمنا نہ رکھتا تھا ۔ اگر آخری راؤنڈ لڑا جاتا تو نتیجہ مُخلتف بھی ہوسکتا تھا۔ علی نے بعد میں فریزئر کو اپنا سب سے مضبوط مقابل قراد دیا۔
جیت کےبعد علی نے فریز ئیر  کے بیٹے کو اپنے کمرے میں بُلایا اور فائٹ سے پہلے کی ہوئی لفظی لڑائی پر معذرت کی ۔ مگر فریزئر نے جواب دیا معذرت کرنی ہے تو مُجھ سے کرے میرے بیٹے سے نہیں۔ 1996 میں علی نے جب اولمپکس مشعل روشن کی تو فریزئر کا کہنا تھا میرا بس چلے تو علی کو اسی آگ میں دھکا دے دوں۔ محمد علی نے سن دوہزار تین میں ایک اخباری مضمون میں فریزئر سے ایک بار پھِر سے اپنی سابقہ زبان درازی پر معذرت کی مگر اس بار بھی فریزئر کا جواب وہی تھا جو اُس نے اپنے بیٹے کو دیا تھا۔
اپنی موت سے دو سال پہلے یعنی دو ہزار نو میں فریزئر نے ایک انٹرویو میں کہا میرے دل میں علی کے مُتعلق کِسی قِسم کی کوئی رنجش باقی نہیں رہی ۔فریزئر کینسر کے باعث دوہزار گیارہ میں اس دُنیا سے رخصت ہوئے ۔ محمد علی نے اُن کی آخری رسومات میں شرکت کی اور اُنہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔



Saturday 11 June 2016

دِلوں کا بادشاہ

یہ ڈنگ ڈانگ ببل کے زمانے سے بہت پہلےکی بات ہے   اُن دِنوں چیونگم چار آنے  میں  مل جایا  کرتی تھی اور یہ بلی نہیں بلکہ کِسی کھیل  یا کھلاڑی کی تصویر میں لپٹی ہوا کرتی تھی۔ میری عمر غالبا نو یا دس سال ہوگی  ،ایسے ہی چیونگم سے ریپر اُتارا   ہاتھ جو تصویر لگی وہ کرکٹ کے میدان کی تھی ۔ ایسا کم ہی ہوا کہ گیند بلے کی جھلک میری توجہ کھینچ نہ لے۔ مگر نہیں اُس دن میری نظر یں دوست کی ببل گم سے نکلے ریپر پر جم گئیں اور میں نے اُس کے ہاتھ آئی تصویر اُچک لی۔ اگلے دِن وہ  والد صاحب کے موٹر سائکل کے موبل آئل کی  آنکھ والے ٹاپے پر سکا چ ٹیپ کا سہارا لئے اپنے تئیں بڑی  نفاست سے لگا دی گئی  ۔ جب موسمی چوٹیں کھاتی کھاتی  سکاچ ٹیپ آخری سانسوں پرآتی  تو اُس  کی بدلی کر دی جاتی اور مُنی سی  تصویر کا اصل ہر ممکن طور محفوظ رکھا جاتا۔ یہ اسی انداز میں  کئی سال چلتا رہا۔




بچپن میں  ابا جی کی زبانی  ایک قِصہ ہر بار بار جھوم جھوم کر ہم سُنا  کرتے تھے۔ داستان گوئی  میں بل کھایا  ہوا  میٹھا  کریم رو ل کا سا مزا ہو جیسے  ۔ ایک بارہ سالہ بچہ جِس نے اپنی نئی سائیکل چوری کا بدلہ لینے کی ٹھانی  اور پھر بنتی گئی ایک جاندار کہانی ۔وہ بچہ بڑا ہو کر ابا کی موٹر سائیکل کےٹاپے پر ہمارے ہیرو  کے روپ بنے  آن پہنچا ۔ابا کی کہانی نے محمد علی سےہمارا  رِشتہ کُچھ یوں جوڑا کہ  دِل میں اُسکے  لئے لینٹر کی چھت ڈلا  کمرہ تعمیر ہوگیا۔  کُچھ عرصے بعد  اخبار جہاں کے  فرنٹ پیچ پر محمد علی کی ایک تصویر چھپی دیکھی  ۔وہی  مخصوص  کالی دھاری والی سفید نیکر  میں ڈیل ڈول    والا  ہمارا  ہیرو ،مگر    جِسم میں پیوست    ہوئے تیر  مُجھے نہیں معلوم  ڈرامائی سی وہ صورت  کیا صورت حال بیان کرنا چاہ رہی تھی   مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ وہ آدھ درجن تیر  مُجھے اپنے   دِل  کے آر پار ہوتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔ (ایسکوئر  میگزین میں یہ تصویر اُنیس سو اٹھاسٹھ  میں  چھپی  تھی جب محمد علی سے اُس کے اعزازات ویت نام وار میں شرکت نہ کرنے پر چھینے جا چُکے تھے )  ۔ 
 
جب ہماری مسیں  بھیگیں تب ہمیں محمد علی کے پوسٹر کا شوق چُرایا۔ بس اُڑنے کو پروں کی کمی تھی ورنہ پیروں کو ہم نے ہر جگہ بھگا مارا  ۔ اُنیس سو چورانوے میں بی بی سی والوں نے  سپورٹس کیلنڈر کے لئے درخواستیں طلب کیں ہم نے بھی  لیٹر لکھ  دیا اور یوں ہمیں سا ل 1994  کا  سپورٹس کیلنڈر مِل گیا۔ کوئی اُنگلی پکڑائے توہم پورا بازو پکڑ ا کرتے ہیں ۔ بی بی سی کو ہم نے محمد علی کے پوسٹر کی درخواست کے ساتھ "جُگاڑلگائی  "انگریزی میں  خط لکھ مارا    مگر افسوس اُن کا جواب انتظار  کی پہاڑیوں میں راستہ  ہی نہ بنا پایا۔ کمپیوٹرکے نام سے اس نئی  مشین کا رابطہ جب بذریعہ ٹیلفون  کی تار کے کوہ کاف کی رنگینیوں سے ہوا تو  انٹرنیٹ اور  ملٹی میڈیا کے نام سے نئی اصطلاحات  نے  جنم لیا۔ اس جادونگری کا  سلطان بنے ہم نے پہلا حکم محمد علی کے وال پیپر کی تلاش کا ہی دیا تھا۔ سن دوہزار ایک  میں  چھوٹا بھائی پڑہنے  باہر گیا  محمدعلی کی پوسٹر کی  ہماری خواہش اُسی نے گیارہ ڈالر میں پوری کی۔
رِنگ میں  رقص کرتے اُسکے پیر وں سے امریکی کالوں کے دلوں کی دھڑکن بندھ جاتی تھی  اور ہم مُسلمان اُس کے ہاتھوں پر بندھے خمیر لگے آٹے کی طرح پھولے نظر آتے ہوئے    دستانوں پر ایمان کی حد تک یقین لے آئے تھے ۔ مُخالف کے مُنہ پر پڑتا ایک ایک مُکا ہمیں  اپنی عظمت رفتہ   کی  یاد دلاتا اور  جب مُکے کھاتا  ہو ا مخالف  ادھ موا ہوئے دھڑا م  تختے پر  گِرتا تو  عالی عالی عالی (علی علی) کے نعروں سے ہال گونج اُٹھتا  اور  بے  رنگے ٹیلی وژن    لگائے بیٹھے ہم پاکستانیوں کو  اسلام کی نشاط ثانیہ گھروں کے دروازوں پر دستک دیتی محسوس ہونے لگتی۔ مگر افسوس انیس سو اسی میں لیری ہومز  محمدعلی کی  ساری محنت  اور ہماری   باندھی تمام اُمیدوں پر پانی پھیر گیا۔ دو اکتوبر انیس کو اسی کے دن ہوئی اُس باؤٹ سے چند لمحے پہلے تک  اٹھتیس سالہ ہمارا ہیرو مُخالف کو کچا چبا جانے کو بے چین نظر آتا تھا وہی حربے جو محمد علی ہمیشہ سے ہی مُخالف   کو نفسیاتی شکست دینے کیلئے  استعمال کیا  کرتا تھا ۔  اُس روز کی مُکے بازی میں   کھیل تو ہوا مگر تتلی کا سارقص اور شہد کی مکھی کا ڈنگ کہیں بھی نظر نہ آیا۔ دکھتا بھی کیسے ،اُس کے ڈاکٹر نے تھائی رائڈ گلینڈز ڈس آرڈر  کے لئے  "تھائی رولر" دوا   تجویز کی تھی ۔ محمد علی بھی اپنے وقت کا بادشاہ تھا  اس ظالم دوا کو  طاقت بخش سمجھتے ہوئے ڈوز ڈبل کر بیٹھا    ۔ اس دوا کے دُگنے استعمال سے محمد علی رنگ میں بلڈ پریشر کا ٹائم بم تھا۔ کِسی وقت بھی پھٹ سکتا تھا۔کبھی نہ ہمت ہارنے والا محمد علی دسویں راونڈ  میں ہار گیا ۔ اُس  روز پاکستان  میں محمدعلی کی شِکست  پر لوگ ایسے غمگین نظر آئے جیسے ایک بار پھِر سے ڈھاکہ فال غم دیکھ رہے ہوں
ماچس کی ڈبیا کے چاروں ا  طراف رسی لِپٹی  ہو جیسےدور سے  کُچھ ایسا ہی دکھتا ہے اور  اِسی رِنگ کے اندر پڑتے مُکے فلک پر جمے ستاروں  کے مقامات تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں ۔ باکسنگ رِنگ کو محمد علی نے بہت سے  یادگار مُقابلے دئیے جِنہیں دُنیا بھر میں دیکھا گیا  اور یاد رکھا گیامگر ایسا بھی نہیں کہ دُنیا بھر کی توجہ حاصل کرلینے والے مُقابلے صِرف محمد علی  کا خا صہ تھے  ۔ امریکن باکسر جو لوئس اور جرمن باکسر  کے درمیان ہوئے ری میچ  نے بھی دُنیا بھر کی توجہ حاصل کی تھی ۔ یہ غالبا محمد علی کی پیدائش سے  ایک سال پہلے کی بات ہے  ا،یورپ اور امریکہ میں اس مُقابلےکو لائیو ریڈیو پر نشر کیا گیا  تھا۔اس مُقابلے سے قبل جرمن اپنی نسلی تفاخر اور پہلی جیت   کے سر پر  ہار کا تصور بھی نہ کرتے تھے۔ وہ فائٹ محض دو   منٹ چالیس سیکنڈز میں جو لوئس کی کامیابی پر ختم ہوئی ۔ محمد علی کے مُکے کی طاقت کا بہت ذکر کیا جاتا ہے مگر مائک ٹائسن  کو یاد  کر لیجئے ۔ مہنگے ترین ٹکٹ خریدنے والے شائقین ابھی سیٹوں پر بیٹھ بھی نہ پاتے تھےاور دیو ہیکل چیلنجر اُسکے قدموں میں گِرا نظر آتا تھا۔ محمد علی کا اصل اعزاز تین بارعا لمی  ٹائٹل واپس لینے کا ہےبظاہر ناممکن نظر آتی  یہ چوٹی  ہولی فیلڈ بھی سر کر چُکا ہے۔  اب یہاں پرسوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ  پھر اکثریتی دُنیا کی نظر میں  محمد علی ہی گریٹسٹ کیوں ؟


محمد علی نے  مُکوں کے  زور پر زیر کرنے والے کھیل میں تِتلی کا سا رقص متعارف کروایا ۔باکسنگ کے کھیل میں رسیوں  پر جانا موت کو دعوت دینے کے مُترادف سمجھا جاتا ہےمگر  محمد علی نے جارج فورمین سے فائٹ میں اس کھیل کو نئی جہت عطا کی۔ وہ لوگ جو باکسنگ کا ایک راؤنڈ دیکھ نہیں پاتے محمد علی کی فائٹ کالمحہ لمحہ اپنی آنکھوں میں محفوظ کرنے کوبے تاب پائے جاتے تھے۔ اُس نے اپنی جنگ محض رِنگ کے اندر  ہی نہیں لڑی ،مُکے سے زیادہ اُس کی زبان طاقت پرواز رکھتی تھی وہ اپنی زبان سے مُخالفین کو رِنگ اور رِنگ سے باہر چِت کردیا کرتا تھا ۔ وہ   زمانے کے خداؤں سے ٹکرا کر بھی نا  گھبرایا ۔ یہی محمد علی کی اصل  خوبی تھی جو اُسے دیگران پر فوقیت عطا کرتی ہے۔
وہ کروڑوں نہیں اربوں  دِلوں پر راج کرتا ہوا اس دُنیا سے رُخصت ہوگیا حقیقی معنوں میں وہ دِلوں کا بادشاہ کہلایا ۔ ایسے بادشاہ کِسی دھونس ،جبر ،ظلم ،تلوار ، سازش اور اگر جدید دور کا  لفظ بولا جائے تو  دھاندلی کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ ہر آنے والے کواپنی جگہ چھوڑ کر یہاں سے چلے جانا ہے۔  شاہی کُرسی خالی کئے محمد علی بھی چلا گیا ۔اب کوئی اور کروڑوں دِلوں کا بادشاہ بنے اس کُرسی پر براجمان ہوگا مگر شائد میری موت اپنے بادشاہ کو یاد کرتے کرتے ہی ہوجائےگی۔  
   
 

Monday 23 May 2016

خان صاحب

آئیے آئیے خان صاحب کیسے ہیں آپ
ماڑا اب تو ام کو  خان نہ بولا کر۔ امارا نام تو  بدنام کر کے رکھ چھوڑا  تیرے کپتان خان نیازی نے ۔امارے نام کو جو کیا سو کیا قوم کا جینا بی ارام کر چوڑا     
چاردن سکون کی نیند نئیں سونے دیتا،قسم سے سب کے لئے  کالی کھانسی بنا پڑا اے کم بخت ۔
جی خان جی چھوڑئے آپ ،آتے ہی سیاست پر شُروع ہوگئے اپنی سُنائیے؟
 خا ک سناؤں یار، سیاست کی مارا ماری نے کاروبار کا بٹا بٹھا دیا اے، ادھر مر مر دو قدم آگے دھکیلو۔ یہ بندہ خندق کھودے رستہ روکے کڑا اوتا۔ خُدا کی قسم ایسے لیڈر سے تو گدھا اچا ، چھاؤں میں کھڑا کرو تو خود بی سکون کرتا دوجوں کو بھی کرنے دیتا۔ 
تمارے خان کو تو کہیں بس گھاس نظر آنے کی دیر ہے  دُم سے لیپٹ کر سیدھا مُنہ میں ڈالتا اور شوردوسروں پر مچاتا۔
خان صاحب چھوڑئے بھی اس کلموئی سیاست کو  کوئی اور بات کر یں۔
لو اب ماری بات سُننے کی بھی تکلیف ہوتی تُم کو .امارا کاروبار برباد ہوا پڑا اور اب اسے پیٹنے کو پانامہ ڈھول مِل اے ۔اب گلی محلے کرپشن  کرپشن گاتا پھِرتا اے۔
ادر تو بھینس کو دونمبری ٹیکہ نہ لگے اگلی  دودھ نئیں دیتا، بات کرتا کرپشن کی۔ ادر سب مُنہ کھُلے پڑے  بس سائز دیکو اور   ڈالتے جاؤ  ڈالتے جاؤ ، کام اوتا جائے گا۔سب چور اے ادر ، اتساب کرنے کا شوق اے تو سب کے ناڑے میں ہاتھ ڈالو۔ مگر نئیں ایک بندے سے شوق پورا اوتا ان کا ۔ جب سب کرپٹ اے تو سب کو پکڑو۔ نسوار چور سے لے کر ٹینک چور تک سب کو  ۔ 
خانصاحب یہ آج آپ پر سیاست کا بھوت کچی شراب کا سا نشہ بنے  چڑہا پڑا ہے ۔اب بس بھی کردیجئے ، بچوں کی سُنائیے ؟
 ام  نے بس کیا ، حالات کا گُسا تو خیر نکالنا ای تا۔ایک تو سورج نے بی اپنی پراڈکشن بڑھا کے سالانہ  سُپر سیل لگا چوڑی اے ۔ ایک دم سے پارا دس  ڈگری اوپر اور ہماری سیل نیچےسے نیچے۔اماری دال گلنے کو نئی  آرہی  اور اُدر سورج لوہا پگ لاتا پھررہا اے۔ کاروباری رولے  ہیں کے شیطان کی آنت سے لمبے ختم اونے کا نام نئیں لیتے۔
اچھا مُجھے بتائیےاتنی گرمی میں آپ آ کہاں سے رہے ہیں؟
ایک ب  غیرت کو مِلنے گیا تا
خُدا کی قسم وہ ام کو مل جاتا تو آج ام اُس کی  کھوپڑی کی چوٹی  سے گولی اندر کرتا  سارا گند ا خون بائر  آجاتا
کیا ہوگیا خان جی ؟
ارے کُچھ نہ پوچھو بے شرم رشوت مانگتا ہے بلیک میل کرتا ہے
بس ام نے بھی سوچ لیا اے ۔ اُس کو گولی مارے گا اور سب کے سامنے مارے گا ۔ دوزخ کا ٹکٹ اُس کے   ہاتھ میں  تھمائے گا اور خود  پانسی کا پندا   ہار سمج کر پہنے گا۔
اس کے بعد کوئی جرات نہیں کرے گا فراڈ کرنے کی
خان صاحب آج تو لگتا ہے آپ نے چپلی کباب کی جگہ گولہ بارود کباب سے ناشتہ کیا ہے ۔ یہ مشروب  میں تھوڑی اور برف ڈال لیجئے اورغُصہ تھوک دیجئے ، کیوں اپنا خون جلا تے ہیں ۔ یہاں کا تو سارا سسٹم ہی کرپٹ ہے کِس کس کو گولی ماریں گے اور کہاں کہاں گولیاں چلاتے پھِریں گے۔
پر یار پوسٹ کا بی تو  کوئی مقام ، کُچھ رُتبہ ہوتا تھوڑی بہت شرم ہوتی اے ۔کمشنر انکم ٹیکس ہوکر چور بازیاں کرتا ہے بے غیرت  ، سبق سکھاؤں گا اُسے ایسا کہ اس کُرسی پر بیٹھنے سے پہلے ہر اگلا آنے والا دس بار سوچے گا۔
خان صاحب تو پھِر کیوں نہ مل کر ہم  سبق سکھا دیں؟
کس کو؟
سب سے معتبر کُرسی پر سب سے زیادہ بار بیٹھنے والے کو اور پھِر شائد وہی کُچھ ہونے لگے  جیسا  آپ نے کہا
ماڑاااا  ایک بات  بتا تو امارا دوست اے کے امران خان کا؟



Saturday 2 April 2016

جانے کہاں گئے وہ دن


"میں ڈرتا ورتا کِسی سے نہیں " ۔کپتان میری پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے بولا اپنی  لینتھ بنا کے رکھ   اور اس درندے سے  ہر گز ڈرنا نہیں۔کلائی کے زور پر دائیں سے بائیں ہاتھ میں گیند گھماتے ہوئے میرا جواب اسی  تاریخی جُملے میں  تھا ۔ چوتھی گیند گگلی  تھی  جو بیلز چھیڑ تی  گُزری ۔ پہلی تین گیندیں باؤنڈری پار نہ کر گئی ہوتیں  تو  آج ہم  جذباتی  حرارت  سے چلتے پنکھوں  سے لُطف اُٹھا رہےہوتے۔کیا کیجئےاس تقدیر کا جِس  نے ہمارے لئے بے نامی کی خاک اور ہمارے ٹریڈ مارک جُملے کو  مُلکوں مُلکوں پھِرتی  شہرت لکھ ڈالی ۔

کھلنڈرے تو ہم  ،شائد پُشتوں سے چلے آرہے ہیں ۔ دادا آل انڈیا  گولڈ میڈلسٹ اُن کےچھوٹےبھائی پنجاب گولڈ میڈلسٹ ایتھلیٹ۔ نمایاں کامیابیوں کا یہ سلسلہ تایا، ابا اور چاچا سے ہوتا  ہوا ہم تک  تھپکیوں اور دلاسوں کی صورت ہی بچ   رہا۔دوش ہمارا بھی نہیں اِس موئی کرکٹ نے نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے  کام کے۔

کرکٹ ہمارا خاندانی کھیل ہرگِزنہ تھا مگرجذبات کے اظہار  کو نئی جہت دینے کا ذریعہ ضرور بنا۔  یہ وہ دور تھا جب دادا ابا کے ریڈیوپررواں تبصرہ سُنا جایا کرتا تھا۔ ہرکوئی آتے جاتےسکور پوچھتا جاتا اورلا ل پیلا ہوکراخلاقی حدود کےخم دیتےہوئے نت  نئے جملے سے ٹیم کو نوازتا اور چل پڑتا۔  ہم  نے کرکٹ  اور  "گولم  گول گلوچ "کی آنکھ مچولی    میں ہی آنکھ کھولی ۔ وہ جُمعہ بھی یاد ہے،جب  قبضےکےڈرسے غسل خانے میں سب سے پہلے جا گھُسا تھا میں۔یک دم سے صحن میں روائتی صلواتیں ایک کورس کی صورت نازل ہوتی محسوس ہوئیں ۔ گھبرا کر میں نے کھونٹی سے بندھی ڈوری کھینچ کر دروازہ معمولی سا سرکایا ، ایک آنکھ باہر نکال کر پوچھا "ارے کیا ہواااااا" تایا زاد نے جواب دیا "تیرے فیورٹ میانداد نے کیچ چھوڑ دیا۔ بس یہی ہوا۔" میں نے پھِر سے رسی کھینچ کر کھونٹی پر چڑہائی ہاتھ میں پکڑا ڈول واپس بالٹی میں اُنڈیلا اور دونوں ہاتھ اُٹھا کر رب سے مدد چاہی ۔ معصوم بچے کی پُکار بِنا واسطے کے سیدھی عرش  پر پہنچی ۔یاد رہے یہ وہی میچ تھا جِسکا اختتام لاسٹ بال کمنگ اپ فور رنز ریکوائرڈ پر ہوا تھا۔بس پھِر کیا تھا روٹھی ہوئی فتح ایسی مانی کہ ہم لوگ ہرزہ سرائی کرنا ہی بھول گئے۔ 


ہماری  مماں کو چھپکلی سے ایسی کراہت آتی  کہ نظر پڑتے ہی چیخ مارتیں اور  کرکٹ  سے ایسی الرجی  کہ نام  سُنتے ہی   ہمیں مارتی تھیں۔ ٹی وی پر میچ دیکھنے کی اجازت  پر سو درخواستوں میں سےایک کا جواب ملتا تھا وہ بھی انکارمیں ۔خوش نصیبی تھی ہماری،1987 کے مارچ میں ہم لاہور نانکے گھرچھٹیاں منا رہے تھے انہی دنوں پاک بھارت سیریزبھی جاری تھی ۔ مکمل آزادی اورسکون سے وہ میچز ہم نے نانا ابا کے ساتھ بیٹھ کرٹی وی پردیکھے۔ مذہبی  اینڈ سے خیرو برکت کا سپیل کرواتے رہنے  کی ذمہ داری ہم نے نانی اماں کو سونپ رکھی تھی ۔ وہ بتائے گئے کھلاڑی کا نام لے کر آئت الکرسی  پڑ ھ پڑھ پھونکتی  جاتیں اورکھیلنے والے   کا بلا رنز اُگلتا جاتا ۔ آخری   ٹیسٹ تک   پہنچتے    پہنچتے تو ہماری نانی بھی اس کھیل میں دلچسپی لینے لگی تھیں ۔
بنگلورکی پِچ تو شائد  کشمیر میں استعمال ہوتے بارود سے تیار کی گئی تھی۔تین دِنوں میں ہی کھیل کی آخری اننگز چل پڑی تھی ۔ کم بخت چوتھا دن کھلاڑیوں کےآرام کا  ہو ا کرتا تھا ۔ اُن کےاُس دن کےآرام نے ہمارا جینا حرام کئے رکھا ۔ تمام دن گھڑی کی سوئی ہماری اُئی اُئی کراتی  چلتی رہی ۔اگلے دن  میچ کے آغاز پرہی نانی اماں ٹی وی پر دم درود پھونکتی ہوئی کہتی جاتیں " یا اللہ ہمارا  بِلا دشمن کا ہر کیچ پکڑ لے  آمین  " ہمار ا  بلا"   سلیم یوسف تھے جو وِکٹوں سے ایسے جُڑے بیٹھے تھے جیسے شکار کے انتظار میں بِلا بیٹھا ہو۔ دُعائیں رنگ لا رہی تھیں مگرسُنیل گواسکر بڑی ڈھٹائی سے   جیت کی ہماری آرزو  کورنز کی دیوار میں چُنتے چلے  جا رہے تھے ۔اُدھر بلیک  اینڈ وائٹ وردی والے امپائروں کی اُنگلیاں کالی ماتا نے پتھر کی بنا رکھی تھیں ۔اللہ کے حکم سے بندشوں کا توڑ ہوتا گیا ، بند قفل کھُلتے گئے اور پھردلوں کی دھڑکنیں تیزہوتی چلی گئیں ۔نواں کھلاڑی آؤٹ ہونے کے فوراً بعد راجر بنی نے توصیف کوچھکا لگا دیا، ہمارے دِل نے تو جیسے مزید دھڑکنے سے ہی معذرت کر لی ۔ آخر کار نانی کی   دُعا  قبول ہوئی   اور ہمارے بِلے نے راجر بنی کا کیچ پکڑ کریہ اعصابی جنگ  سولہ رنز سے اپنے نام کر لی

  ورلڈ کپ 1987 ، وہ پہلا موقع تھا جب تمام ٹیموں کے میچز ہمیں ٹی وی پربراہ راست دیکھنے کو ملے، کُل مِلا کے ستائس میچ تھے۔گھر پرعائد پابندیوں کا توڑ ہم نے یہ نکالا کہ بہت سے میچز بی جی (پرنانی ) کے گھر دیکھنے چلے جاتے۔ ہم سکول سے سیدھا بی جی کےگھر  پہنچ جاتے۔ ہمارے  پہنچنے سے چند منٹ پہلے مُلازم دروازہ کھول دیا کرتا تھا۔ اک لمبی سی گلی تھی جِسمیں داخل ہونے پر اناراور امرود کادرخت جھُک کر آنے والے کا  استقبال کر تے ۔ یہ پتلی گلی وسیع صحن میں لے جاتی تھی، جسکے بائیں  ہاتھ کیاریوں میں لگی موسمی سبزیاں جن پر  بانس کے فریم کا سہارا لئے  انگور کی بیل چھت بنائے ہوئےتھی ۔صحن کے دائیں طرف برآمدہ تھا، جِسمیں میں رکھا قدم لال فرش پر پڑتا۔رتا لال ،چمکتا  ہوا شیشہ ، چہرہ دیکھنا کیا پڑہنا بھی مُمکن ہو جیسے۔  ملازمین کو دن میں تین بار پوچا لگانے کے احکامات سختی سے جاری کئے گئے تھے۔پوچا لگنے کے دوران مکمل طور پر کرفیو لگ جایا کرتا، خلاف ورزی کرنے و الا بی جی کے خوف سے ہی مرجایا کرتا تھا۔ بس وردی کی ہی کمی تھی ورنہ کِسی مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر سے کم نہ تھیں ہماری بی جی ۔وہ کرکٹ  کی اتنی  شائق تھیں کہ میچ  والے دن ٹی وی اُن کے پلنگ کے بالکل ساتھ جُڑا ہوتا تھا۔پاکستان کے میچ کی تو بات ہی الگ ہے۔ جیسے ہی ٹیم پر مُشکلات کے بادل چھاتے بی جی کے دونوں ہاتھوں کی گرفت تسبیح پر مضبو ط ہوجاتی ۔ مخالف ٹیم کی بیٹنگ کے دوران ہرکھلاڑی کے آؤٹ ہونےپر وہ نوافل کی منت مانگتیں ، دو ، چار ،چھے یا آٹھ؟؟ ؟ تعداد  کھلاڑی کے سابقہ ریکارڈ سے مشروط ہوا کرتی تھی۔بی جی میچ کے دوران میری نان سٹاپ رننگ کمنٹری بھی  بڑے شوق سے سُنا کرتی تھیں۔انہیں کے ہاں دیکھا  پاکستان اور ویسٹ انڈیز کا میچ جس میں عبدلقادر نے سیکنڈ لاسٹ بال پرچھکا لگا کر میچ  کا پانسا بدلا تھا ۔ ہار کرگراؤنڈ میں لیٹے ویوین رچررڈزجیسے فولادی انسان کی آنکھوں میں تہرتے آنسو بھلانا آج بھی مُشکل ہے ۔ بڑی  روائت پسند ، زندہ دِل اور نہائت وضع دارخاتون تھیں ہماری بی جی ۔ گھرواپسی پر مُجھے ایک روپیہ ملا کرتا تھا۔  یہی دستور تھا بی جی کا ، وہ اپنے بچوں کے ہاتھ پر ہمیشہ  کُچھ رکھ کرہی رُخصت کیا کرتی تھیں ۔

اِس ورلڈ کپ میں ایک میچ ہمارے شہر فیصل آباد میں بھی ہوا۔ آج بھی دِل سے دُعا نکلتی ہے اپنے اُس دوست کے لئے جو لنچ ٹائم پر اپنے بڑے بھائی سے بہانہ کئے اسٹیڈیم سے نکلا اور سیدھا ہمارے گھرآپہنچا۔ ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا "لے پکڑاور جا کر لےاپنا  شوق دیدار پورا"۔ بس ٹکٹ  کا ہاتھ میں آنا تھا، میں نے دائیں دیکھا  نہ بائیں سیدھا اقبال اسٹیڈیم  پہنچ کر ہی اپنی چھوٹی سی سائکلی کی بریک لگائی ۔ اسٹیڈیم کا منظر میر ے تصورات سے یکسر مختلف نکلا، ا ندرجانےکو ہوتی دھکم پیل  دیکھ کردل ڈوبنے سا لگا۔ ایک پولیس والا چلا یا  " مُنہ چُکدے نیں تے آجاندے میچ ویکھن سارے شہر دے مفت خورے"۔ اصل پریشانی  یہ تھی کہ  یہاں پہنچنے سے پہلے میرے مفُت خورے ہونے کی مخبری ہوئی پڑی تھی ۔میں نے اللہ کا نام لیکر حالات کا مُقابلہ کرنے کی ٹھانی اوراپنی جگہ پرقدم جمائے رکھے۔ پولیس کی لاٹھی اندھی تو ہوتی ہے مگر بے آواز ہر گِز نہیں ، یہی سبق لئے لنگڑاتے ہوئے گھرکی راہ لینی پڑی۔ گراؤنڈ کے باہرجو میرے ساتھ ہوئی اُس سے کہیں بڑھ کر سلوک ہماری ٹیم نے معصوم سری لنکنز کے ساتھ  کیا۔۔اُس دور میں پولیس کی مار کھانے کی نسبت تین سو رنز کھالینے کے طعنے سُننا  زیادہ  ذلت آمیز ہوا کرتا تھا۔ تین سو سے بس تین ہی رنز کم بنائے تھے  ہماری ٹیم نے ۔ 113 رنز سے ملی اس جیت پر اتراتے ہوئے ہمارے کِسی کھلاڑی نے سری لنکا کی ٹیم کے بارے میں  حقارت بھرے الفاظ بول دئے ۔  پھر کیا تھا ہمارے گلے خُشک ہوگئے آنکھوں سے پانی بہہ نِکلا مگر خُدا نے ہماری گریہ زاری نہ سُنی اور ورلڈ کپ سیمی فائنل کے 18 رنز ہم سے نہ بن پائے ۔اللہ  بڑے بول کو پسند نہیں فرماتا ۔ اِسی بڑے بول کی وجہ سے ہماری ٹیم  سیمی فائنل سمیت  مسلسل اگلے نو میچ ہاری تھی۔اُس سیمی فائنل کی ہار پرتو تکلیف سے ہمار ے کلیجے  کٹ ہی جاتے مگر اللہ نے فرنگیوں کو فرشتہ بنا کر بھیجا ۔ بھارت دوسرا سیمی فائنل فرنگیوں سے ہارا تو ہمارے سینوں میں ٹھنڈ پڑ گئی۔

بی جی 1990  اکتوبر میں اللہ  کو پیاری ہوگئیں    ، 1992 میں  زندہ ہوتیں تو یقنا اپنی بیٹی اور اُن کی اولادوں کے ساتھ کرکٹ کی سب سے بڑی خوشی مناتیں۔ ہماری نانی اماں کا
    کرکٹ سے لگاؤ بڑھتا گیا،وہ اخبارمیں کرکٹ کی خبریں، تبصرے اور تجزئے باقائدگی سے پڑہنے لگیں۔1996 میں ہم نے مِلکر  ٹیم کا ایک کمبی نیشن تیار کیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میانداد کو اپنی اوریجنل پوزیشن  ٹو ڈاؤن پربھیجا جانا چاہئے۔ مگر نانی اماں نے تو میانداد کی پلئنگ الیون میں جگہ  پرہی سوالیہ نشان لگا دیا۔ اُن کے خیال میں میانداد  اب  رن ریٹ کو ساتھ لے کر چلنے کے قابل نہیں رہا ۔ اُس کی ٹھُک ٹھُک سےلوور مِڈل آرڈر پرپریشر بنتا جاتا ہے۔ انڈیا پاکستان  ہوئے میچ کے دوران ہمارے ٹی وی لاونج میں ایسا ہی تناؤ رہا جیسا ہارتی ہوئی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں ہوا کرتا ہے ۔وہ تو بہت سالوں بعد میں سمجھ پایا کہ نانی اماں کی کرکٹنگ سینس مُجھ سے اِتنی ہی بہتر ہے جِتنی دھونی کی  کپتانی  آفریدی سے۔