Monday 13 February 2012

JUNGLE MAIN BANDAR NACHA by Dohra hai



جنگل میں بندر ناچا کس نے دیکھا
جنگل میں بندر کبھی نہیں ناچتا یہ شرفِ سادگی کہ جس پر قربان جانے کو بھی دِل نہیں چاہتا  مور کے حصے میں آ تی ہے۔ اک مسحور کر دینے والے مظاہرکےبعد نہ نعرہ نہ کوئی تالی نہ واہ واہ۔ بھلا بندر اتناسادہ کہاں وہ تو جنگل میں تگنی کا ناچ نچاتا ہے شیر کوبھی ہاتھی کو بھی بھالو کو بھی اور اپنے خالو کو بھی۔ناچتا تو وہ ادھر شہرمیں آکر ہے خوب مجمع لگا کرہر طرف سے تالیاں واہ واہ ویلِیں ۔ بندر کا بھی فاِئدہ اور بندر نچانے والے کا بھی اور خوش ہوئے عوام۔ڈارون کی تھیوری بھلے ہی انسانوں پر درست ہو نہ ہو ہمارےسیاسی پنڈتوں پر مکمل فِٹ بیٹھتی ہے۔یہ بھی اپنا ناچ اورکرتب خوب مہارت سےدکھاتے ہیں۔ناچ کے وقت کا بڑی زیرک نظری سے تعین کرتے ہییں۔ کب کتنا کہاں کیسےاور کیوں واہ راےواہ کیا کہنے کیا کہنے ہر طرف سے تالیاں نعروں القابات کی برسات ہو پڑتی ہے ۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے مائ باپ سے ہی تو سیکھا ہے۔ بندر بانٹ میں تو انہیں ملکہ حاصل ہے۔ اس خوبصورتی سے بندر بانٹ کرتے ہیں کہ ان کی مہارت پر سبحان اللہ کہے بغیر رہا نہیں جاتا۔ پپنجاب اور مرکز کی ایسی بانٹ کہ عوام بیچاری کو سمجھنے میں اتنے سال لگیں کہ جس میں وہ نئے میلہ مویشی تک کا سفرتقریبا مکمل کر لیں۔ان کی بندر بانٹ تو اس قدر ایڈوانس ہو چکی ہے کہ جنگل سے ان کے بھائِی بھی جدید تھیوریاں سیکھنے انہی کے پاس آتے ہیں۔                                                                                                                                                ہمارے ایک سیاسی کرتا دھرتا جو کہ اب تو ایک مہان کا درجہ پا چکے ہیں اس کرتب بازی میں بلا شرکتِ غیرے پہلے پائیدان پرہیں۔ناچ کے وقت کا تعین کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے خواہ اس کے لیے اک دہاِئی تک کسی نخلستان میں ہی بٹھنا پڑے اور پھر درست موقِع کا تعین اورنت نئے کمالات کا اضافہ واہ کویئ مقابل نہیں دور تک۔کسی پچھلے جنم میں یقیناِ اِن کی شیرسے کوئی محلے داری رہی ہو گی۔ جو خود کو شیر کہنا اور کہلوانا ان کا من بھاتا مشغلہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ غیر جانبدار مبصرین اور لکھاری انہیں اِک بلی سے زیادہ کا  درجہ نہیں دیتےہیں ۔ویسےبات کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ اِن میں بلی کے بہت سی صفات پائی جاتی ہیں۔ مثلابلی کو پنجرے میں بند کر دیا جائے تو اُس کا دم گھٹنے لگتا ہے،اِن کے ساتھ بھیِ کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے۔  بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنا مشکل ہے تو ان کے گلے میں اُصول باندھےرکھنا آسان نہیں۔ البتہ بوقت ِ ضرورت من پسند اُصولوں کا پٹہ گلے میں باندھنا انہیں خوب آتاہے۔ بلی نو سو چوہے کھا کر حج پر جاتی ہے یہ نو سو ارب یا عرب کھا کر (جو جلدی ہضم ہو جاءے سب چلتا ہے)۔بلی کو چھچھڑوں کے خواب آتے ہیں اور اِنہیں باربار وزیراعظم بننے کے ۔جب بلی کو گھر سے باہر ہی چھحھڑے میسر آنے لگیں تو وہ اپنے مالک کو پہچاننے سے معزرت کر لیتی ہے اِسی طرح اِنہوں نے بھی اپنے مالک یعنی سفید ہاتھی کو پہچاننے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اسی لئے وہ سفید ہاتھی یہ کہتے پایا جاتا ہے کہ ہماری بلی ہمیں ہی میاوِءں۔ ویسے انہیں احتیاط کا مشورہ ضرور دینا چاہئے کہیں یہ نہ ہو کہ یہ  محاورہ مشہور ہو جائےکہ بندر چلا بلی کی چال اپنی بھی بھول گیا                     
ذکر ہوا ہے سفید ہاتھی کا تو کچھ تعارف بھی ہوتا جائے یہ دشمن اناج کا تو ہے ہی البتہ پنگےلیتا ہے بڑے بڑے بعض دفعہ اپنے سائز سے بھی بڑے۔یہ اپنےدکھانے والے دانتوں سے بھی کیا خوب کام لیتا ہے۔ سِیاسی بندر سُدھانے کاکام اُنہیں گود میں کھلانے کاکام۔اسی لئے توہمارا ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی نہ کرنے میں ترقی کر رہا ہے۔نتیجتہً عوام کے مقدرمیں لکھا گیا ہے  گھاس کھانا وہ بھی اس ہاتھی کے پاوءں تلے روندی ہوئی گھاس۔                                                                                 
نہ جانے بنرروں کی کونسی قسم ہے کہ جس میں ملکہ کے کسی حادثے میں مرنے کی صورت میں اُسکے پتی کو مہاراشٹر پتی بنا دیا جاتا ہےاور اُسے وہ بھی حاصل ہو جاتی ہے جسکے لئے اِٹلی کا وزیراعظم جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔بندروں کی زبان میں جسےکچھ یوں بیان کیا جاسکتاہےکہ سیاسی ناچ دکھانےکے لِئے لنگوٹ تک اُتار دینے کی مکمل آزادی۔ہمارے یہاں سیاسی بندروں کی بہت وسیع ورائٹی موجود ہے موٹی موٹی توندوںاور لمبی داڑھیوں والےسیاسی بندر کہ جنہیں اس فن میں اُستادی کی اسناد مل چکی ہیں انکے پیٹ میں پلاٹ ڈیزل پٹرول سب کچھ خوبصورتی سے سما جاتا ہے مگر مجال ہے کہ فنِِِ سیاسی ناچ میں ذرا سا بھی جھول آنے دیا ہواستادِ محترم نے ۔ سمندرپاربیٹھ کر ٹیلیفون کی تاریں چھیڑنے والےکا ذکرکئے بغیر تمام بات ایسے ہی مزا ہے کہ جیسے کھیر کھائ جائے بغیر شکر کے۔ موصوف مجمع گرم رکھنے میں کوئ ثانی نہیں رکھتے۔ان کے گلے میں وہ طاقت اورساز ہے جو کہ کسی گائےکے تنومند بچھڑے کے گلے مِیں بھی نہیں۔مداری کے بندر ناچ مِیں کچھ کردار کتے کا بھی ہوتا ہے ہماری سیاست میں بھی ان کا اچھا خاصا کردار موجود ہے مگر بد قسمتی سےیہ سب دھوبی کے ہیں۔                 
                                                                                                                   
                                                                      
                                                                                             
                                                                                            

1 comment:

  1. Wah ji wah. Kia chakka mara hay aap nay.
    Lagay raho munna bhai.

    ReplyDelete