Saturday 10 December 2016

اُس راہ پر



وہ تو دِل دِل پاکستان کی سفارشی پرچی تھی جو چل گئ ورنہ اتنی جلد اُسے دِلوں میں اینٹری کہاں مِلنی تھی ۔ وہ طیارہ جب ہوا میں پھٹ پڑا تھا تب ہم ٹین ایج میں داخل ہوچُکے تھے ۔ اس کچی عُمر میں جو کُچھ پکا کر کھلادیا جائے وہ ذائقہ زندگی بھر زبان سے چِپکا رہتا ہےاور اگر بندہ مُجھ جیسا خالی ڈبہ سا ذہن رکھتا ہو تو ٹین ایج میں پڑہے سُنے کلمے ٹن ٹنا ٹن عُمر بھر بجاتا پھِرتا ہے ۔ضیا صاحب کے دور کا اکلوتا پی ٹی وی جہاں پاپ میوزک کو عالمگیر ، شہکی تک محدود رکھا گیا تھا اور پھِر ایک طاقتور ولائیتی بیل "آپ جیسا کوئی میری زِندگی میں آئے تو بات بن جائے " والا بدیسی گانا گاتا ہماری ثقافتی دیوار اپنے سینگ پر اُٹھانے کو دوڑتا ہوا نظر آیا تو اُسے حدود و قیود اور اقدار کی نتھ ڈالے نازیہ زوہیب کی صورت میں اینٹری دی گئی تھی ۔ وائٹل سائنز کا بھی کُچھ ایسا ہی معاملہ رہا۔ جُنید جمشید اینڈ کمپنی دِنوں میں ہیرو بن گئے پر گانا بجانا بحرطور کام کنجروں کا ہی مانا جاتا رہا۔ اب ایسے میں آپ ہی بتائیے کہ سانولی سلونی سی محبوبہ  کی شڑنگ کرتی چوڑیوں پر مست ہوئے  ناچ 
لینے کے بعد بھی میں کیسے کہ دوں کہ پاپ سٹار جنُید میرا ہیرو ہوا کرتا تھا ؟
  2002 میں ایک اسلامی اخبار میں پڑھا انٹرویو جُنید سے میرے سچے پیار کا سبب بنا۔ اس انٹرویو میں تبدیلی رحمت کی بارش بنے بہار کے سندیسے لاتی نظر آئی تھی ۔ بِجلی کی طرح ایمان میرے وجود میں کڑکا اور میں نے اخبا ر میں چھپے اس انٹرویو کو رینگتی ہوئی رفتار میں گھنٹوں لگا کر اِن پیج میں نقل کیا ،اس کے بعد جے پیگ فارمیٹ میں کنورٹ کئے اپنے تمام دوستوں کو ای میل کر دیا۔ اس کے بعد اچھے کے لئے یہ ہوا کہ ہمارے جُنید بھائی نے نیکیوں کے اس میدان میں پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا اور بُرا یہ ہوگیا کہ رحمتوں بخششوں کے ماحول میں آگےکی بجائے ہم پیچھے کو بھاگ 
پڑے۔ جنید جمشید پربہت سے مُشکل وقت بھی آئے ۔ تنگ دستی کا خوف بھی دھمکانے آیا۔مگر  اللہ
کے ولی کا ارادہ مضبوط نکلا۔ اپنی سمجھ کے مُطابق نبی کے طریقے پر چلتا رہا بڑہتا رہا ، ہر پل چہرے سے پھوٹتا نور اور کانوں میں رس گھولتی ہوئی پیاری پیاری میٹھی باتیں سُننے کو مِلتیں۔  سلسلہ یونہی چلتا رہا اور پھِر دوہزار چودہ آگیا ۔ جُنید جمشید نے اپنی ہی  چُنی ہوئی راہ سے  ذرا ہٹ کر دھرنے والوں کا کھلم کھُلا ساتھ دے ڈالا ۔ اس کے بعد تجربہ کار لوگ میدان میں آئے ۔ ٹریکٹر والے خواجہ آصف غلاظتوں کی ٹرالیاں اُس پر اُلٹانے لگے ۔ مگر جواب میں خندہ پیشانی اور وہی خوش بیانی ۔ مگر پھِر کِسی کی نظر لگ گئی الفاظ کے چُناؤ میں معمولی سی لغزش پکڑ میں آگئی ۔

یہ مرحلہ شائد پُل صراط سے زیادہ خطرناک ہے بس پیر پھِسلنے کی دیر ہے اورنیچے پھیلی ہوئی  جذباتیت کی دلدل گرنے والے کو بخشتی  نہیں ہے ۔ جمشید ہاتھ جوڑے معافیاں مانگتا رہ گیا۔ مگر سُننے والا کوئی نہ تھا اس  حساسیت بھرے مرحلے پر تو اپنے بھی ساتھ چھوڑ گئے اور دوسری طرف حکومتی تیل بھی آگ لگانے والوں کو میسر تھا۔ عامری جادوگر جیو نیوز پر منتر پڑھ رہا تھا۔ یہ معاملہ اکیلا جُنید جمشید کو نہیں بھُگتنا پڑا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو اُنہی دِنوں میں سلمان احمد کی توہین مذہب  ثابت کرتی وِڈیو بھی ریلیز کروائی گئی تھی ۔اس سے ذرا اور پیچھے چلئے طاہرلقادری کے ناموس رسالت پر دئے گئے لیکچر ز میں سے وہ حِصہ جسمیں ناموس رسالت پر حضرت امام ابو حنیفہ کا نقطہ نظر بیان کیا گیا۔ ایڈیٹ کر کے پھیلا یا گیا ۔ مذہبی جذباتیت کا سہار ا لیکر مخالفین کو دبانے کا یہ حربہ ہمارے معاشرے میں بہت بار اور بار بار استعمال ہوا ہے اور ناجانے کب تک ہوگا۔۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر امام ابو حنیفہ آج کےدور میں ہوتے تو اُن کے ساتھ ناجانے ہم کیا سلوک روا رکھتے ۔

 جُنید جمشید نے اپنی غلطی مانی ہاتھ جوڑے معافیاں مانگیں ۔ بہت اچھا کیا مگر میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جُنید کو اُس مرحلے پر سٹینڈ لینا چاہئے تھا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو شائد ناموس صحابہ کی خود ساختہ ڈیفی نیشن پر ہزاروں بے گُناہوں کے بہتے خون کو روکنے کا جواز بن پاتا۔


No comments:

Post a Comment