Sunday 4 August 2013

میری فیس بک بک

1   posted August 03 2013
وہ دُبئی کے راستے چھپتی چھُپاتی ہمارے ہاں پہنچتی ۔ ہم دس روپے کا نذرانہ دے کر اُسے حاصل کرتے  اور بڑے ادب سے سائنس کی شیطانی ایجادات کا مِلا پ   کراتے ہوئے اِک نئی دُنیا میں کُچھ یوں گُم ہوجاتے جیسے مندر میں بیٹھا پُجاری   اپنی مورتیوں میں۔ ہماری یہ پوجا پاٹ اگلے تین گھنٹے تک جاری رہتی  اور اس پوجا کے دوران سُنے "بھجن "ہماری روحوں  کی غذا بنتے۔ مگر ناجانے کیوں اِس خوش خوراکی  سے ہماری روحیں بد شکلی  سی ہونے لگیں ۔ ہمارے سیانے اِس شیطانی کام سے ہمیں یہ کہتے منع کرتے رہے  کہ تصویر بنانے والا ۔ بیچنے والا  دِیکھنے  والا سب گُناہ گار ہیں۔ اب اِن سیانوں کو بھلا کون سمجھائے کہ  دِل کو بادشاہ بنا لینے والے ساری عُمر  اِس کمبخت دِل کی غُلامی کرتےہوئے ہی زِندگی  گُزارتے ہیں۔
اِک دِن قریب ہی سے کِسی کو مدھور آواز میں کہتے سُنا۔ "بڑہتی رہے یہ روشنی چلتا رہے یہ کاروان  اور پھِر سارے اُس کی آواز میں آواز مِلائے گانے لگے "دِل دِل پاکستان جان جان پاکستان"۔پھر تو بس اِک سِلسلہ ہی چل نِکلا۔بہت سے لونڈے  گلے میں گِٹار ڈالے بالوں کی پونیاں بنائے اِس  "جنون" کا حِصہ بن گئے۔ جب  لِپسٹک لگانے والےاِک  لونڈےنے  گِٹار کے ساتھ اپنی پُرانی جینز کو یاد کیا   تو ہمارے دور کی نسل جھوم اُٹھی ۔ہمارے ہاں کا  ہر "راجہ پاکِستانی"ایسے  لہک لہک کر یہ گانا  گاتا جیسے خاص اُسی پر لِکھا گیا ہو۔"پُرانی جینز اور گٹار"
پھِر اُنہیں ہدائیت نصیب ہوئی اور یہ دونوں اہل سیانہ کی صف میں شامل ہوگئے۔ اِس رمضان یہ  حضرات ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہِدائیت کی راہ ہمیں دِکھلاتے ہیں۔ہمارے معاشرے کو بُرائیوں سے پاک کرنے کی  سعی  میں لگے پڑے ہیں۔ ۔مُجھ جیسا بے ہدائیتا تو شائد اُن کی باتوں سے کنی کتراتا ہوا پھر سے ہندی فِلموں کے  الاؤکے گرِد چکر لگانے لگے گا۔مگر بہت سے  شریف النفس سمجھ شعور رکھنے والے یقیناً   اپنا گِٹار توڑ کر راہ ہِدائت کے مُسافر بن جائیں گے ۔ مگر  وہ   ڈھائی سو میں آتی لنڈے کی پُرانی جینز  کی جگہ دس بیس ہزار کے جے جے کے سوٹ بھلاکیسے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
2   Posted on July 22 2013

ڈھول والا گلیوں میں ڈھول بجاتا جاتا اورلوگوں کو جگاتا جاتا۔ یوں سحری کی تیاری کا آغاز ہوجاتا ۔ جب مسجد کے قاری صاحب لاؤڈ سپیکر میں اعلان کرتے "اللہ کے پیارو،  روزے دارو سحری کا وقت ختم ہونے  میں ایک گھنٹہ باقی رہ گیا ہے۔۔۔۔۔  "تو جیسے گھر کی بیبوں میں بِجلی سی بھر جاتی، چولہوں پر چڑہی ہانڈیوں میں ڈ وئیاں تیز تیز چلنے لگتیں، تھپ تھپ  پراٹھےتیار ہونے کی آوازیں آنے لگتیں ۔  گھروں کے صحن ، برآمدوں میں پڑی چارپائیوں پرمرد  بیٹھے سحری کھاتے نظر آتے۔ قُرب جوار کی مساجد سے بچوں کی نعتیں پڑہنے کی آوازوں سے پیدا ہوتی گونچ، جیسے چاروں طرف سے اللہ کی  رحمتیں نازل ہو رہی ہوں۔ اِک عجب سماں ہوتا تھا الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
یہ وہ دور تھا جب ہم نے رمضان کو رامادان کہنا نہیں سیکھا تھا۔رات کے ا،س پہر لکڑی کے ڈبے میں لگی پِکچر ٹیوبیں ایسی بےسُدہ پڑی نظر آتی تھیں جیسے تماشہ دِکھاناہی  بھول چُکی ہوں۔۔ اکثر گھروں میں تو اِن لکڑی کےڈبوں پر کپڑا ڈلا ہوتا تھا۔ مگر پھِر ٹی وی کی یہ سکرینیں لکڑی کےڈبوں سے باہر آگئیں اور پلاسٹک کے سلم فریموں سے ہوتی ہوئی آج کے دور میں سمارٹ ٹی وی کہلانے لگیں ۔ٹی وی سمارٹ ہوئے تو اِس کو چلانے والے اوور سمارٹ ۔ عامر لیاقت حُسین اور اُس قبیلے کے اوور سمارٹ لوگوں نے ہمارے رمضان کو نیلام گھر بنا ڈالا ہے۔نیلام گھر۔ کاش وہ ڈھول والا پھِر سے۔۔۔۔۔                         



5 comments:

  1. فیس بُک کی سٹیٹسیں تو ہفتہ دو ہفتے میں اوجھل ہوجاتی ہیں، لیکن اُن کو بلاگ پوسٹ بنانا امر کردیتا ہے۔
    زبردست خیالات ہیں جناب۔

    ReplyDelete
  2. سادہ سی زبان میں خوب لکھا ہے ۔ اللہ کرے جو موضوع ہیں ان کی بھی سمجھ میں آ جائے

    ReplyDelete
  3. Refreshed old memories and merged it with present circumstances.

    Sarwataj.wordpress.com

    ReplyDelete
  4. خالد حمید5 August 2013 at 23:24

    سہی کہا۔۔۔۔۔۔۔ کاش کہ پھر وہی دور لوٹ آئے۔
    لیکن ہمیں پتہ ہے کہ یہ ناممکن ہے۔

    ReplyDelete
  5. چھا گئے ہیں آپ کافی دن پہلے پڑھا تھا تبصرہ کرنے کا موقع آج ملا.

    ReplyDelete