Friday 2 March 2012

DIFFAA-E-PAKSTAN AUR KALI BILLI by Dohra hai


سردیوں کی اندھیری رات تھی میں اِک میدان میں تنہا ٹھٹھرا ہواسہما بیٹھا تھا حیران و پریشان تھا کہ یہاں کیسے پہنچا۔ اس کھلے میدان کے کناروں پر لگے درختوں کے پتوں سے ہوا خوب چھیڑ خانی کر رہی تھی پتوں کی سر سراہٹ ماحول کو مزید خوف ناک بنا رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے تیزجھونکے میرے بدن میں سوسو چھید کر کے گُزرتے تھے۔ستا روں سے بھرا کھُلا آسمان شبنم کی پھوار پھونک کر موسم کو مزید یخ کررہا تھا۔ آسمان پر ٹمٹماتے ہوئے ستارے شائد مُجھے آنے والےکِسی خطرے کا سِگنل دے رہے تھے۔ اس وسیع میدان کےبالکُل  وسط میںستر،اسی کے قریب قبریں تھیں۔شدید سردی اور خوف نے میرے بدن کو ساکت کردیا تھا۔ اچانک مُجھے  ان قبروں میں سے مردے نکلتے ہوئے نظر  آئےاور ساتھ ہی میدان میں کُچھ روشنی  بھی پھیل گئ   ، ان مُردوں نے سفید چادریں اوڑھی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے نارمل سائز سے نسبتا بڑے تھے، شکلیںکُچھ بگڑی ہوئ محسوس ہوتی تھیں۔ بہت سوں کے سروں اور چھاتیوں پر بچھو چِمٹے ہوئے تھےچند ایک سانپوں کی جکڑ میں تھے۔یہ سانپ اوربچھو وقفے وقفے سےانہیں کاٹتے تھے جس پر وہ زور دار چیخ  مارتے تھے۔یہ مردے بہت سی ٹولیاں بنا کرکھڑے ہوگئے ۔ یہ چند منٹ آپس میں سرگوشی کرتے اور پھر اِن میں سے ایک اونچی آواز میںکُچھ بولنا شروع  کردیتاجیسے کوئی  تقریر کررہا ہو،تمام ٹولوں کی نْقل وحرکت ایک ہی سی تھی ۔ان کی تقریروں کی اور چیخوں کے شور نے چند لمحوں پہلے سائیں سائیں کرتے میدان کو  اِک مچھلی منڈی میں تبدیل کردیا تھا۔ گو کہ اِن کی شکلیں بِگڑی ہوئی تھیں ،پھر بھی نہ جانے کیوں مُجھے یہ محسوس ہونے لگا جیسے ان چہروں سے میری کُچھ شناسائی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کُچھ ہی دیر میں میرا تمام خوف اُڑن چھو ہو گیا اور میں اِن کی حرکات و سکنات  کے مُشاہدے میںمُکمل طور پر کھو گیا۔ یکایک میری نظر اِک اژدہے پر پڑی جو بڑی تیزی سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ میرا دھیان اس کی طرف جانے تک  بہت دیرہو چُکی تھی اور وہ مُجھ پرچھلانگ لگا چُکا تھا۔


میں نے اِک زور دار چیخ ماری اوراگلا سین کچھ اسطرح سے ہے کہ میں اپنے کمرے میں بستر پر پایا جاتا ہوں ۔وہ بھی اِس حالت میں کہ پلنگ کے ساتھ ٹیک لگاءے ہوءے تھا، ہیٹر فُل سپیڈ میں آن تھا ۔ ٹیوب لائٹ جل رہی تھی اور ٹی وی سکرین پر کوئی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ گھڑی تین بجانے ہی کو تھی ۔حواس کُچھ بحال ہوءے تو سمجھ میں آیا کہ خواب میں دیکھے ہوئے چہروں سے میری شناسائی انہی نیوز چینلز ہی کے ذریعے ہوئی ہے۔ تب مُجھے خیال آیا کہ میری الیکٹرانک میڈیا سے نفرت اس خواب کی وجہ ہوگی۔مگرکھوج لگا نے پر کھُرا اُس تقریر تک جا پہنچا کہ جِسے سُنتے سُنتے میری آنکھ لگ گئی تھی۔ یہ مولانا یعقوب صاحب  کی تقریر تھی کہ جِسمیں وہ میڈیا کا قبرستان بنانے کی دھمکی دے رہے تھے، مولانا کا تعلق حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ سے ہے۔ دھمکیاں دینا ایک پریشر ٹیکٹک ہے اور ہر جماعت ایسا کرتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں نے ان کی دھمکی کو اِتنی سنجیدگی سے کیوں لیا ۔ جواب کی تلاش میں، وقت کی پٹڑی پر ریورس گئر لگا کرمیں ذرا  پیچھے کو چلا تو زندگی کی  گاڑی نے کالج لائف کے سٹاپ پر جا کر بریک لگادی۔یہ وہ زمانہ تھا  جب ہم لشکرِطیبہ والوں کا مُجلہ، فارغ پیریڈ کے دوران کالج کے لان میںاپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر  پڑہا  کرتے تھے۔ جِس کے پچھلے صفحے پر تحریر ہوتا تھا کہ اسے پڑھنا ، پڑھانا اور آگے پھیلانا باعث ثواب پے۔کوئی شک نہیں کہ اسمیں دین کی بہت اچھی اور مُفید معلومات ہوتی تھیں۔ مگر اس مُجلے میں ہمسایہ مُلک کے کافروں کا ذکر کچھ ایسے انداز میں کیا جاتا تھا جس سے صرف دشمنی خریدی اور نفرت بیچی جاسکتی ہے۔ تصویر، ٹی وی اورڈش کی کسی طور بھی مذھب میںاجازت مُمکن نہیں اس مُجلے میں یہ تصورایک حُکم کے طور پربڑے تواتر کے ساتھ صادر کیا جاتا تھا ۔ٹی وی سیٹ توڑنے کی سلسلہ وار کہانی شائع ہوتی تھی آلہ بصری کو جہنم واصل کرنے کی باقائدہ ترغیب دی جاتی تھی ۔  ٹی وی قبرستان میں دفناءے ہوءے سیٹس کا باقائدہ ِرکارڈ بھی رکھا جاتا تھا۔ یہ لوگ اُس قبرستان میں  اب کبھی فا تحۃ کہنے بھی نہیں گئے ویسے بھی فاتحہ خوانی ان کے مسلک میںجائز تصور نہیں کی جاتی۔ اب یہ اُسی ٹی وی پراپنے لئے ٹائم مانگتے ہیں یا پھر اِک نئے قبرستان کی دھمکی دیتے ہیں۔ سچ کہا ہے کِسی نے۔بدلتا ہےآسماں  رنگ کیسے کیسے۔
دفاع پاکستان قونصل میں اک جماعت جو کہ ماضی میں عشقِ صحابہ کی دعویدار رہی ہے۔عشق توفقط  پیار، ایثارو قُربانی کا اِک خوبصورت درس ہے۔ اور صحابہ جیسی عظیم ہستیوں سے دعوہ عشق سے اچھی  اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ نبی صلاۃ و سلام کے تربیت یافتہ ساتھیوں نے اپنے نام اور وجود کو اللہ کے دین کے لئے وقف کردیااُن سے افضل  بھلا کون ۔ مگر اس جماعت محض رقابت  کی پتنگیں اُڑائیں،طعن و تشنیع کے کھینچے مارے،نفرت کے پیچ لگائے، اختلافی مسائل کی چرخی سے لمبی لمبی ڈوریں دیں نتیجتا  اپنی خود کی گُڈیاںبھی بو کاٹا ہوئیں اور تعصب کا مانجھہ لگی ہوئی ڈور پورے ملک میں گُنجل گُنجل ہوکر پھیل گئِ جو اب بھی کسی کی گردن کاٹتی ہے تو کسی کو پیروں میں پھنس کر اُوندھے مُنہ گِراتی ہے۔
اپنے بات کو تقویت دینے کے لئے میں اپنے ایک خوبرو دوست کا واقعہ بیان کرتا جاوءں، جس پر آغاز جوانی میں اِک مذہبی بھوت سوار ہوگیا۔ وہ بھوت اُسے مدرسے لے اُڑا ، اُس کی تعلیم کا آغاز صرف و نحو کی کلاس سے ہوا۔ اُستاد محترم نے پہلے دِن صرف و نحو کی تعریف بیان کی مکمل کورس کا ذکر کیا اور اس موضوع پر لکھی ہوئی اعلی ترین کتاب کا تعارف کروایا۔ دوسرے دن اُسے بتایا گیا کہ یہ کِتاب ایک اہلِ تشیع نے لکھی ہے۔محترم دوست دِل ہی دِل میںمُعلم کی فراخ دِلی اور اعلی ظرفی سے بہت مُتاژر ہوا۔ تیسرے دِن کلاس میں اُستادِ محترم نے پہلے سے تیار کردہ نوٹس بمع سوال وجواب لکھوائے۔ اک سوال تھا کہ یہ کتاب اِک  اہل تشیع عالم نے لکھی ہے اس بارے آپ کی کیا راءے ہے؟ اس سوال کاجو جواب لکھوایا گیا وہ کُچھ یوں تھا۔"اگر آپ کو کِسی گندی نالے میں قیمتی ہیرا پڑا نظر آئے تو کیا آپ اُٹھائیں گے یا نہیں"۔ گندی نالی کے گندے جواب کو سُن کر موصوف پر مذہبی بھوت کی گرفت کُچھ ڈھیلی ہوئی جس کا بھرپور فائدہ ایک دُنیاوی جن نے خوب اُٹھایا اور ساتویں دِن اُس بھوت کو شکستِ فاش دیتے ہوےمحترم دوست کو واپس دُنیا داری کی راہ دِکھا ئی۔
ہہاں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ وہ دور تھا کہ جب ہمارے یہاں کسی بلیک واٹر نامی تنظیم کا کوئی وجود نہ تھا بلکہ یہ تمام کیا دھرا تنگ نظری کی اُس بلیک کیٹ کا تھا جو کئی بار ہماری ترقی کا راستہ کاٹ چُکی ہے اور ہر سو اپنی نحوست کے اژرات اب تک پھیلا رہی ہے۔ اگر ہمیں پاکستان کا دفاع مضبوط کرنا ہے تو ہمیں اِس کالی بِلی کو مار بھگانا ہو گا۔تب ہی ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیرحد تک مضبوط ہوگااور ترقی کی منزل ہماری دسترس میں آئے گی۔ جنرل ضیاءالحق نے پاکستان میں اسلامائزیشن کے ہائِ پوٹینسی انجیکشن لگا ئےبہت اچھا کیا ۔ مگر اس کے سائد ایفیکٹس خطرناک بیماریوں کی صورت میںنمودار ہوئے ۔ جس کا مُجھے پہلی بار احساس انیس سو نواسی میں ہوا جب پاکستان میں ساوءتھ ایشین گیمز پہلی بار مُنعقد ہوئیں۔ بینظیر بھُٹو اُس وقت وزیر اعظم تھیں۔ ان گیمز کی ابتدائیہ تقریب میں سکول کی ننھی معصوم بچیوں نے بہت خوبصورت پرفارمنس پیش کی ۔ جس پر ہمارے مُلک کے مولوی حضرات کو بُخار ہوگیا مگر پیرا سٹا مول خود لینے کی بجائے اُنہوں نے قوم کے منہ میں دینی شُروع کر دی۔
اقبال نے اپنے فلسفے اور فِکر کی بُنیاد پر ہمیں آگاہی دی"جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی" ۔ مگر ہم نے جواپنے تجربے سے سیکھا وہ اِس سے ذرا  مُختلف ہے۔" جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے تبلیغی جماعت اور شامل ہو دیں سیاست میں تو بن جاتا ہےمولانا فضل الرحمان"حضرت اقبال کا کہاغلط نہیں ہے ۔ درحقیقت ہماری کیمیا گری میں ہی  کوئی نُقص رہ گیا ہے جو نتائج بہتر نہیں آتے ورنہ دین کو سیا ست سے الگ کرنا تو ہے ہی بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔ 
ہم نے سُنا تھا کہ مُلا کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت اس سےبالکُل  مُختلف نِِکلی مُلا کو ہم نے جی ایچ کیو اور آب پارہ تک بھی دوڑتے دیکھا بلکہ اگر موقع ملے تو امریکہ تک میراتھان لگانے سے بھی نہیں کتراتا ۔ سمارٹ مگر پھر بھی نہیں ہوتا  البتہ کبھی کبھار اوور سمارٹ بننے کی کوشش ضرور کرتا 

1 comment:

  1. your efforts are worth full to praise ... u give very smart n sharp cuts to the society and the extremists elements....

    I suggest you to write in a flow (that u do) but ascend them in order to feel the continuity..... n details.

    ReplyDelete