Saturday 24 March 2012

JOO TUM NAI KAHA FAIZ NAI JOO FARMAYA HAI by Dohra Hai


 میںبہت دیر سے کِسی گہری سوچ میں گُم گھر کی بالکنی میں کھڑا  تھا اتنی گہری کہ،  ڈوبنے کا خوف محسوس ہونے  لگا بس وہیں سے میں نے واپسی کی راہ لی اور کُچھ لکھنے لکھانے کا موڈ بنا کرسٹڈی ٹیبل پر آبیٹھا ۔ میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور مُکمل توجہ کاغذ قلم پر مرکوز کرنے کی ٹھانی ابھی غالباًَ دوسری سطر بھی مُکمل نہ ہونے پائی کہ میز پر اِک کھٹکا ہوا ۔میں نے نظریں اُٹھائیں تو ٹیبل کی دوسری طرف ایک دراز قد شخص ٹانگ پر ٹانگ چڑہائےکُرسی پر بیٹھا نظر آیا۔اُس کا ایک ہاتھ کُرسی کی ٹیک کے پیچھے تھا تو دوسرا میز پر اپنی اُنگلیوں سے کھیلتا ہوا ۔وہ خاکی ٹی شرٹ اور جینز پینٹ پہنے ہوئے تھا۔ اُس کا رنگ ہلکی آنچ پر بھُنے ہوءے گندم کے دانوں کی مانند تھا مُنہ بھرا ہوا ،چوڑے شانے، اور موٹے ہونٹ ۔ اُس کی بڑی مونچھیں اوپر کے ہونٹوں کو چھُپائے ہوئے تھیں۔ اُس کی کالی آنکھوں میں بلا کا اعتماد تھا۔وہ  روب دار بھاری آواز میںمُجھ سے مُخاطب ہوا۔ کیا لکھ رہے ہو اور کیوں۔اُس کا اس طرح سے سوال پوچھنا مُجھے بہت بُرا لگا ۔کُچھ توقف کے بعد میں نے  جواب دیا سیاسی حالات پر ایک آرٹیکل لکھ رہا ہوں اور جہاں تک کیوں کی بات ہے تو میں قلم سے جہاد کرنے کا قائل ہوں۔ میرا یہ جواب سُن کر وہ کھِلکھِلا کر ہنس پڑا جیسے کِسی ننھے بچے کی معصوم سی بڑھک سُنی ہو ۔ کُچھ دیر قہقہے لگانے کے بعد وہ یکدم سنجیدہ ہوکر بولا۔کیا جہاد کرو گے اور کِس سے۔ کِتنے لوگ تُمہیں پڑہیں گے پچاس ، سو دویا دوسو اُن میں سے بھی اکثریت کالم ختم ہونے سے پہلے بھُلا کر آگے چل پڑے گی۔ اور اِدھر تُم خود کو۔۔۔۔۔۔ اُسکی بات سُن کرمیں لاجواب ہو گیا اور نظریں جھُکائے دل ہی دل میںشرمندگی محسوس کرنے لگا۔اپنی شرمساری چھپاتے ہوئے میں نے کہا کہ لکھنا ایک اچھا مشغلہ ہے  اور یوں خود کا کتھارسز بھی ہوجاتا ہے۔میری بات مُکمل ہو نے سے پہلے ہی اُس نے سوال کر ڈالا اُس سے کیا تُمہارا اور تُمہارے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔میں نے نظریں اُٹھائے بغیر نفی میں سر ہلا دیا۔

وہ کُچھ دیر مُجھ پر نظریں جمائے،  خاموش رہا اور پھر گویا ہوا۔ تُم ایک پرائیویٹ ادارے میں اِک بے توقیری کی نوکری کررہے ہو، تُمہاری تنخواہ کے دو حصے کرائے میں، ایک حصہ بلوں میں جاتا ہے اور باقی ایک حصے سے تم اپنا کچن اور دیگر ضرویات کھینچ تان کر پوری کرتے ہو۔ تیس دِن کا یہ سرکل مانگ تانگ کر ہی مُکمل ہوتا ہے۔ ابھی تو تمہارے بچے چھوٹے ہیں اُنکی سکولنگ کا  اِک بنیادی بوجھ بھی تُم پر نہیں پڑا ہے۔ اُس کی رعب دار آواز میں بتدریج اِک گرج پیدا ہوتی گئی۔ میں اُسکی اس تقریر کے دوران مُکمل خاموشی اختیار کئے رہا۔ اُسنے مزید کہا ۔تمہارے بچے بھی مہنگے ترین سکولوں میں پڑھ سکتے ہیں اچھی انگریزی بول سکتے ہیں، آج کی دُنیا کی تمام آسا ئشیں جو کہ اب انسانی زندگی کی ضرورت بن چُکی ہیں اُن ک دسترس میں آسکتی ہیں۔مگر اس کے لئے تُمہیں محنت کرنا ہوگی۔ میں تُمہیں راستہ بتاتا جاوءں گا اور تم رستے پر چل کر وہ مُقام اور خوشیاں حاصل کرپاو گے جن کا اس وقت تُم  تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اُس کی یہ بات سن کر میرے اندر اِک نئی امنگ نے انگڑائی لی اور مِیں کُرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا ۔ میں نے بہت آہستگی سے پوچھا مُجھے کیا کرنا ہوگا۔ اُس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مُسکراہٹ آئی اور وہ بولا تمہیں ہمارے اشارے سمجھنے ہوں گے ۔ ہم تمہیں سگنل دیا کریں گے اور تُم اُن سگنلز کو لفظوں میں ڈھالو گے۔ ہماری مدح سرائی کے لئے ہر وقت کوشاں رہو گے۔ ہم اپنی قوم کی بہتری کے لئے جو کڑوے ٹیکے لگاتےہیں، تمہیں اپنی تحریرمیںوہ مٹھاس لانی ہو گی جو اِس کڑواہٹ کو ذہن سے زائل کرے۔ اپنی ڈیمانڈ بتاتے ہوئے اُسکی توجہ میرے چہرے کے تاثرات پر تھی۔ اُس نے مزید کہا کہ ایک بات میں تُم پر واضح کرتا  جاوءں کہ ہمارےدفتر کے باہر تُم سے ہزار درجے بہتر لکھاری ، آشیر باد ک تمنا  دِل میں لئے لائن بنائے کھڑے رہتے ہیں۔ لیکن میں تُمہیں موقع دینا چاہتا ہوں تُمہارے نا گُفتہ بہ حالات دیکھ کر مُجھےتُم پر ترس آتا ہے اور تُمہارے اندر پائی جانے والی معصومیت کُچھ حد تک میرے دِل کو اچھی لگتی  ہے۔

اُس نے پانی کا گلاس اُٹھا یا ایک گھونٹ پانی پیا اور میرے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھتے ہوئے اِک چُٹکی بجائی اور مُجھے اپنی طرف متوجہ کر کے بولا۔ دراصل تمہیں ہماری خُفیہ طاقت کا اندازہ نہیں ہے ۔ آج جوتمہیں صحافت کے بڑے بڑے نام نظر آرہے ہیں جہنیں تم سنتے بھی ہو اور پڑہتے بھی ہواور اُن کی بات من و عن تسلیم بھی کرتے ہو۔ اِن میں سے اکژ ہمارے لگائے ہوے پودے ہیں ۔اِن کی آبیاری ہم نے کی ہے انہیں ایسے سیاست دان بھی ہم ہی نےبنا کر دئے ہیں جنہوں نے اِن کے لئے لفافہ فیکٹریاں لگائیں۔ مگر اب یہ خود کو بہت بڑا سمجھنے لگ پڑے ہیں  اب تو سیاست دان بھی اِن کی دُکانوں میں اپنا پروڈکٹ بیچنے  کیلئے منتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔ ہم تمہیں بھی یہاں تک پہنچا سکتے ہیں۔ تُمہاری کمزور تحریر کو طاقت کے ٹیکے لگانا ہمارا کام ہے۔تُمہای پھیکی ہنڈیا میں بارہ مثالوں کا تڑکا  ہم لگائیں گے۔ تُمہارے لکھے ہوئے باغ کو گُل و گُلزار ہم کریں گے۔ تمیں اتنا پاپولر کردیں گے کہ لوگ تمہیں شوق سے پڑہیں گے بھی اورتمہاری شکل ٹی وی پر دیکھ کر چینل نہیں 
بدلیں گے۔ میری طرف سے تمہیں کھُلی آفر ہے اب فیصلہ تُمہارے ہاتھ میں ہے۔میں تمہیں کُچھ وقت دیتا ہوں سوچنے کے لئے ۔

اُسکی بات ختم ہونے پر میں نے اپنی دونوں کہنیاں میز رکھیں دُعائیہ سائن بناتے ہوئےاپنا سر نیچے جُھکا لیا ، میری نظریں
  ہاتھ کی لکیروں پر ٹھہر گئیں اور میں پھِر سے گہری سوچ میں کھو گیا ۔میں صحافت کے بڑے ناموں کے مُتعلق سوچنے لگا۔ وہ نام جنہیں ہم نظریات ک امین خیال کرتے ہیں جن کی فہم و فراست سے مسُتفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بھلا ایسا کیوں ہے کہ ۔ کِسی کا  عرفان فقط ایک ہی در کی صداقت دِکھانے تک ہی محدود ہے، اِک قاسمی کو ہم  نے محض قسمیں کھاتے، گُنگُناتے، سیٹیاں بچاتے بس اِک ہی گانا گاتے سُنا ہے " گنگا نہایا بس ایک ہی شیر باقی سب ہیر پھیر " ، اِک نذیر کو ہم نےبس ہاں جی اور ناں جی کےدرمیان ٹوِسٹ کرتے ہی پایا ہے۔ کوئی سیاست کا عبدلقادر بن کر اپنی لیگ بریک میں کبھی کبھار گُگلی  پھینکتا نظر آتا ہےتو کوئی میر ٹی وی پر صحافت کا سُلطان راہی بنے گردن ہلاتا بڑھکیں مارتا دیکھا جاتا ہے۔اِک ڈاکٹر صحافت کی مُقدس گائے کو اپنا کر دودھ  بھرے تھن کو چِمٹا ہے۔ وہ عسکری قوتوں کا مدح سرا  باریش قلندر بھی جسکے کاروبارِٹھیکیداری کا بھانڈا بھی اِک پیٹی بھائی نے اپنے کالم میں پھوڑ دیا۔ مُجھے ابنِ انشا کا کہا یاد آنے لگا۔" اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے  جو تم نے کہا فیض نے جو فرمایا ہے، سب مایا ہے" صحافت کے ہر بڑے نام نے اس مایا سے اشنان فرمایا ہے۔ تو پھر میں ۔۔ ۔۔ اور میرے بچے۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میں نے اِک جھٹکے سے اپنا سر اُوپر اُٹھایا ، مگر میرے سامنے والی کُرسی خالی تھی میری نظروں نے اُس کا تعاقب کرنے کی کوشش کی مگر وہ کہیں نہ تھا۔ لیکن ایک چِٹ ٹیبل پر پڑی تھی جِس پر لکھا تھا کہ تُم انتہائی سُست انسان ہو سوچنے میں بہت زیادہ وقت لیتے ہو، تُم ہمارےلئے کِسی کام کے نہیں۔

No comments:

Post a Comment