Saturday 16 June 2012

ہائے ری بیجاری ہاکی اور کپتان کی ٹیم



ہمار ا قومی کھیل ہے ایک مرتبہ پھِرآئی سی یو وارڈ میں داخل کر لیا گیا ہے  سُننے میں آرہا ہے کہ زرداردی صاحب وزارتِ کھیل کی بجائے ہاکی  وزارتِ صحت کے حوالے کرنے کا سوچ رہے ہیں اور بہت جلد اِس بارے میں  صدارتی فرمان بھی جاری ہو جانے کی شُنید ہے۔ویسے ہمارے مُلک میں سُننے کو کُچھ بھی مِل  سکتا ہے اور ہونے کو کُچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ہاکی  کی گِرتی ہوئی  صحت پر  ہروہ پاکِستانی پریشان ہوتا ہے  جِسکی یادوں کے آڈیو ریکارڈ  خانے میں وہ آوازیں تواتر کے ساتھ محفوظ ہوتی رہی ہیں"حسن سردار ڈی میں ، ایک کھلاڑی کو ڈاج، دوسرے کو  دیا اور  گیند گول میں"  اور پھِر وہ   دور گیا  اب تو ہاکی کے ہمارے تمام خلیل خان مصنوعی ٹرف پر گو ل کرنے کی بجائے فاختائیں اُڑا تے نظر آتے ہیں۔

ہم تو پِچھلے  پندرہ سالوں سے کوئی پچیس تیس  پلیئرز ہی کو دیکھ رہے ہیں  جو ریٹائرمنٹ  کا اعلان کرتے ہیں اور پھِر  تین چار سال بعد ہری وردی پہنے  ہاکی گراونڈ  میں اللہ اکبر کا نعرہ بُلند کرتے نظر آتے ہیں۔ان پلئرز  کو جب ہاکی میں پیسہ نظرنہ  آیااور نہ کوئی جام شُہرت  نصیب ہوا تو ایجاد کی والدہ سے اُنہوں نے لیا  اِک مشورہ ۔اپنی ہاکیوں کے ہُک کو ایک کُنڈا تصور  کرتے ہوئےیورپی لیگز  میں کُنڈے فِٹ  کرنا شروع کر دئیے  کبھی ڈچ لیگ کبھی جرمن لیگ  ، سپینش لیگ اور اب توایک اور آگئی ہے غیر قانونی  بھارتی لیگ   جِس میں پاکِستان کے پانچ  پلئیرز نے  فیڈریشن  کی اجازت کے بغیر شِرکت کی نتیجتاً  فیڈریشن نے اُن پر پابند ی کا اعلان کردیا ۔ اور نئے لڑکوں  کے ساتھ ٹیم ملائشیا چلی گئی اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سزا یافتگان کی ہوئی واپسی   پھِر، نظر آئیں گے  لندن اولمپکس میں  یہی پلئرزپھِر۔اِس پھِر کی زیر کبھی پیش بن 
کر آن پڑی اوپر تو پھِر۔۔۔۔

پاکِستان  ہاکی سے تو اِن پلئیرز کو کو ئی سروکار  نہیں ہے ۔ گرین شرٹش تو یہ  صِرف  اولمپئینز بننے کے لئے  پہنی رکھتے ہیں ۔ہاکی کے ناقدین کہتے ہیں کہ  گراس روٹ لیول پر ہاکی  پھر سے شُروع کئے بغیر ہاکی میں بہتری کی توقع کرنا   خام خیالی ہے۔ اب بھلا  ان سمجھ داروں کو کون سمجھائے  کہ گراس کو لیول کرنا  کوئی آسان کام نہیں ہے اورپھِر خوامخواہ میں یہ کام کیا کیوں جائے جب گراس پر ہاکی کا دور گُزرے عشرے بیت گئےہیں۔بعض ناقدین کا  کہنا ہے کہ ہاکی کو سیاست کھاگئی ہے ۔یہاں پر بھی سیاست؟؟؟ یہ کلموئی سیاست بھلا دیمک کی کونسی قِسم ہے  کہ جو ہر چیز کو کھاجاتی ہے۔ جِس  اِدارے  کا بھی رُخ کرو پتہ چلتا ہے سیاست کھاگئی  بس ہر طرف ڈھانچے ہی ڈھانچے کھڑے ہیں  اندر سے ہر چیز کھوکھلی ہو چُکی ہے اور سُننے کو یہی مِلتا ہے  کہ سیاست کھاگئی ۔کِسی جرمن پیسٹسائد کمپنی نے بھی اس سیاسی  دیمک  کا  کوئی سپرے   تیار نہیں کیا ، ہاں البتہ ہٹلر  کُچھ دیر اور زِندہ رہتا تو شائد اس طرف کُچھ پیش رفت ہوتی  ۔ میں نے  اہلِ 
دانش سے سُن رکھا ہے کہ جمہوریت کا عِلاج مزید جمہوریت ہوتی ہے ۔ اِس فارمولے کو اگر سیاست پر  اِستعمال کیا جائے تو پھر سیاست کا عِلاج بھی مزید سیاست ہوئی  مطلب مزید سیاسی پارٹیاں مزید نئے چہرے ، مزید  سیاسی نمائندے ،مزید۔۔۔۔۔ میری اِن دیمکانہ باتوں پر اہلِ عِلم لوگ تو لاحول پڑہتے ہیں پر میں بھی کیا کروں مُجھے کِسی پیر صاحب کی بددُعا لگی ہوئی کہ بس اِسی طرح  کی باتیں سوجھتی ہیں۔

سیاست کے آسمان سے ہمارے کپتان جی کے ستارے کی چمک نے ہم تک پہنچنے میں سولہ سال لگائے۔کپتان جی  میرے مزید سیاست کے فلسفے کی اِک روشن مِثال ہیں۔ مگر کُچھ عرصے سے اُنہوں نے اپنی پارٹی کو  ایک  ہاکی  طرز کی سیاسی لیگ میں بدلنا شُروع کر دیا ہے۔اُنہوں نے اپنی جماعت میں بہت سے ہاکی پلئرز نما سیاست دان اکٹھے  کر لئے ہیں۔ یہ  سب سیاست دان بھی ہاکی پلئرز کی طرح اپنے کُنڈے مُختلف لیگوں میں اٹکائی رکھتے ہیں  کبھی  نون لیگ کبھی  ق لیگ کبھی  فلانی لیگ اور اب عِمران لیگ ۔۔خان صاحب کرکٹ کے بہت  بڑے پلئر رہ چُکے ہیں اور یقیناً   وہ ایک گیند پر تین وکٹیں لینے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ مگر اُن کو  ہاکی کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اِن کے یہ نئے ساتھی سیاست کو ہاکی کی طرح کھیلتے ہیں۔یعنی گیند لیکر ڈربل کرتے ہوئے بھاگنا ، دائیں دِکھا کر بائیں نِکلنا، صرِف خود گول کرنے کی کوشش کرنا، اپنے  ہی پلئیر کو جان بوجھ کر  غلط پاس دینا  ، جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر نا وغیرہ ، وغیرہ۔ اللہ کی پناہ ایسے سیاسی پلئرز سے  یہ تو بھاگتے  بھاگتے کِسی کے پیر میں گیند مار دیتے ہیں اور اگر امپائر کی نظریں کُچھ کمزوری دِکھائے تو  کِسی کے گھُٹنے میں ہاکی دے مارنے سے بھی نہیں چوکتے۔ خُد نخوستہ  اگر امپائر کی نظروں میں یہ حرکت آجائے تو مُڑ کر ایسے  معصومانہ انداز دیکھتے  ہیں جیسےجناب  ابھی ابھی تو بیت ُاللہ کے سات چکر پورے کر کے آئیں ہیں۔بھئی میری  رائے میں تو  اِن سیاسی کھلاڑیوں کو سمجھنے کے لئے  خان صاحب کو ہاکی میں  مہارت چاہئے۔ خان صاحب  کو تاحال ہاکی کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں  ہے مگر  اُن کا یہ نعرہ "نوے دِنوں میں کرپشن ختم کردوں گا " ہاکی بورڈ کی قوم کو دی ہوئیں تسلیوں سے کافی مماثلت رکھتا ہے ۔ جو  ہر گُزرنے والے ٹورنامنٹ پر بس ایک اعلان کر دیتے ہیں کہ  اگلے ٹورنامنٹ میں ہماری ٹیم وِکڑی سٹینڈ پر ضرور پہنچے  گی۔

یہ رام کہانی بیان کر نے کا میرا  مقصد  کپتان جی کویہ  باور کروانا ہے کہ اُن کے نئے ساتھیوں میں سے اکژ  چھاوں کے ساتھی  ہیں ،کڑی دھوپ کے ہمسفر بالکل بھی نہیں ہیں۔ یہ لوگ زیادہ    سے زیادہ چاندنی رات تک ساتھ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اندھیرے سے پہلے ہی یہ لوگ غائب ہونے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ کِسی کوٹھڑی کا اندھیرا اور اُس کے اندر موجود مچھر بڑے بڑوں کو ہیجڑہ بنا دیتے ہیں۔ خد ا نہ کرے کہ ہمارے کپتان پر وہ وقت   آئے۔ 

2 comments:

  1. خاں صاحب کی نیت بھی درست ہے۔ کام کرنے والے بھی ہیں لیکن ان کے اتالیقوں کے ان کے گرد جو بھیڑ اکٹھی کردی ہے وہ ان کا وہی حال کرے گی جو ستتر میں بھٹو کا ہوا تھا۔

    ReplyDelete
  2. ہاکی جب تک عام آدمی کا کھیل رہی پاکستان کا نام بہت اُونچا رہا جب پی پی پی کی پہلی حکومت نے اسے 1970 کی دہائی میں اجارہ داری کا غلام بنایا اُس وقت سے اس کا تنزل شروع ہوا ۔ اب تو چور اُچکا چوہدری تے لُنڈی رَن بھردان ہے

    ReplyDelete