Sunday 9 September 2012

کلچ،ایکسیلیٹر اور بریک


میں جب پہلی بار موٹر سائکل کو چلانے کے اِرادے سے اِس پر سوار ہواتو میرے ایک کزن نے چند مِنٹ پر مُحیط ایک لیکچر دیا ۔ جِس کا آغاز کلچ کے تعارف ، اہمیت  اورمقصد سے ہواپھر ایکسیلیٹر کے  مُتعلق بتایا تیسرے نمبر پر گئر کا تعارف و استعمال اورسب سے آخر میں  بریک کی افادیت پر روشنی ڈالی گئی۔ ایک اہم بات یہ بھی بتائی گئی کہ کلچ اور ایکسیلیٹر کے اِستعمال کے لئے ایک خاص قِسم کی مہارت اور توجہ  درکار ہوتی ہے اس بارے میں معمولی سی لغزش کِسی بڑے نُقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اِس  پانچ سات منٹ کے لیکچر کے بعد میں نے اپنی  تمام تر  توانائیاں یکجا کرتے ہوئے  کلچ دبایا   بائک گئر میں ڈالی پھِر ایکسیلیٹر اور کلچ میں موزوں ربط پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ میر ی یہ  عملی  کوشش  موٹربائک   کو باِلکُل پسند نہ آئی اور جوابی کاروائی میں اُس نے مُجھے   یوں نیچے گِرایا جیسے  ایک چالاک اور تجربہ کا رگھوڑا اناڑی سوار کو اپنی پیٹھ سے نیچے  گِرا تا بلکہ پھینکتا ہے۔

اِسکے چند سالوں بعد جب ہماری  مسجد کے قاری صاحب نے  مُجھ سے موٹر سائکل سیکھنے کی   خواہش ظاہر کی  تو میں نے فوراً  حامی بھرتے ہوئے خود کو مِلا ہوا   وہی لیکچر  پاس اون کر دیا ۔ قاری صاحب  جیسےہی اِس لرننگ  مِشن پر نِکلنے لگے تو  اُن کی ہمت بندہانے کے لئے میں بھی ساتھ ہو لیا۔ ہمارے قاری صاحب اعصابی طور پر بہت مضبوط ثابت ہوئے اُنہوں نے بڑے اعتماد  کے  ساتھ بائک کو گئر میں ڈالا  کلچ اور ایکسیلیڑ میں موزوں ربط پیدا کیا  اور پھر  چل سو چل   ،بات    پانچ مِنٹوں میں چوتھے گئر تک جاپہنچی   جبکہ سپیڈ و میٹر پر سوئی ساٹھ کے ہندسے کو چھونے لگی کہ ا اچانک مُجھے ایوب زرعی ترقیاتی اِدارہ فیصل آباد کی بیرونی دیوار اپنے قریب آتی نظر آئی  ۔ میں نے قاری صاحب  سے سپیڈ سلو کرنے کی درخواست کی جِسکا جواب جناب نے ایک سوال کہ صورت میں دیا  "یار سپیڈ آہستہ کیسے کرنی ہے" تب جا کر مُجھے یاد آیا  کہ   ڈرائیونگ بابت دیئے گئے لیکچر  میں بریک  کا  حِصہ تو میں سہوا چھو ڑ ہی گیا تھا۔بس پھر کیا تھا دوزخ کے داروغے ہاتھ پھیلائے مجھے اپنی طرف بُلاتے صاف نظر آنے لگے ۔ اُس دوران یقینا ہمارے قاری صاحب حوروں ک  کا نظارہ کر رہے ہوں گے بس  اِنہی حوروں میں سے کسِی  ایک حور کو دیکھ کر قاری صاحب جذباتی ہوگئے اور  فُل کلچ دبا بیٹھے    یوں صِراط مُسقیم سے تھوڑ ا سا بھٹکےاور موٹر سائکل سڑک سے نیچے  کھُلے گراؤنڈ میں جاپہنچی۔ قُدرت نے ہم پر احسان یہ  کیا   کہ اُس وقت  گراؤنڈ میں گھُٹنے  گھُٹنے  تک بارش کا پانی  جمع تھا۔

اِسی طرح جب ہمارے  والد نے پہلی بارگاڑی خریدی تو  وہ غالباً اُس گاڑی  کا ہمارے گھر میں تیسرا دِن تھا ۔ میں اپنے جذبات کو  بریک نہ لگا سکا  اور اپنے چھوٹے بھائیوں پر کُچھ رعب جمانے کے چکر میں  پورچ میں کھڑی گاڑی کو سٹارٹ کئے گئر میں ڈال بیٹھا ۔ مگر جیسے  ہی میں نے کلچ چھوڑا   تو گاڑی دو عدد جھٹکے کھاتی ہوئی  ادھ کھُلے مین گیٹ میں جا لگی  ۔گاڑی کے بمپر  پر  ایک عدد ڈینٹ پڑا  جو کہ اگلے کئی سال تک میر امُنہ چڑہاتا رہا۔ اِس واقعے کے فوراً  بعد  میرے  والد  نے مجھ پر اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے پر بین لگا دیا۔ یہ سخت ترین   فیصلہ  سُنتے ہی میرے دِماغ نے سے جو توانائی حرارت بن کر  خارج ہو ئی اُسے میں نے بغیر کلچ دبائے ایکسیلٹر دیتے ہوئے زبان کے رستے  اِن الفاظ میں  ہوائی لہروں کے سپرد کیا"ٹھیک ہے اب گاڑی میں تب ہی چلاؤں گا جب وہ میری اپنی ہوگی "۔  اِس بات کو سترہ سال بیت چُکے ہیں  ۔ والد صاحب  کی گاڑی کا کلچ پھِر کبھی دبا یا  نہیں اور اپنی اب تک خرید پایا نہیں۔

اپنی ہی زِندگی سے جُڑے کلچ بریک  سے سجے یہ واقعات نہ جانے کیوں سِتمبر کے آغاز  ہی  میں مُجھے یاد آنے لگے۔ ایسا ہی موسم تھا یہی مہینہ اور لگ بھگ یہی تاریخیں مگر اُس وقت کو بیتے پورے سینتالیس سال ہو چلے ہیں جب ہمارے "موروثی دُشمن " نے ہم پر رات کے  اندھیرے  میں حملہ کیا تھا۔
اِس جنگ کے جُڑے کُچھ واقعات بتاتے ہوئے گوہر ایوب  فرماتے ہیں ۔ ہندُستان کے حملے کے جواب میں  ہم نے کھیم کرن کے مقام پر حملے کا ایک  منصوبہ بنایا تھا  جِس کی منظوری جنرل ایوب خان نے خود دی تھی اور وہ اِس  آپریشن بارے میں بہت پُر اُمید تھے۔ کھیم کرن (قصور سے ملحقہ عِلاقہ) کے مُحاظ  پر ہم پیش قدمی کر رہے تھے ۔ایک نہر کے پُل پر سے گزرتے ہوئے ایک ڈرائیور نے کلچ دبا دیااور ٹینک وہیں پھنس گیا ۔ پُل مزید بوجھ برداشت نہ کر سکا اور ٹوٹ گیا  ہمیں پُل مُرمت کرتے ہوئے چھتیس گھنٹے لگ گئے فیلڈ مارشل بار بار  پُل کی مُرمت بارے میں پوچھتے رہے مگر اِس دوران ہندُستان  والوں  نے دریا جِتنی بڑی  مادھو پور نہر کو توڑ کر پورے عِلاقے میں سیلاب کی سی کیفیت پیدا کر دی   ۔ ہم وہا ں بُری طرح پھنس گئے اور یو ں یہ جنگ 11 ستمبر ہی کو ختم ہوگئی۔ الطاف گوہر  نے بھی اپنی کِتاب " فوجی راج کے دس سال "میں  اِ س واقعے کو تفصیل سے بیان کیاہے ۔

6 comments:

  1. کیا بات ہے آپ کی، کلچ گئر اور بریک سب تو ہر بندے کی ذندگی کا حصہ ہیں تقریبا، مگر ان پر لکھنا آپ ہی کے ذمہ رہا، پھر آپ نے انکو ہندوستان کے ساتھ جنگ کے ساتھ جوڑ دیا، ہیں جی، مطلب کلچ و گئر جنگ کے ہروانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں

    ReplyDelete
  2. یار یہ نمبر کیوں آتے ہیں نام سے پہلے تبصرے میں؟؟
    کیا خوب کلچ دبایا ہے آپ نے بہرحال:)

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں اگر اِن نمبروں کی حقیقت بتانے لائق ہوتا تو اب تک آدھی دُنیا فتح کر چُکا ہوتا اور آدھی آپ کے واسطے چھوڑ دیتا

      Delete
    2. ویسے ابھی ابھی مُجھے نمبروں کی حقیقت سمجھ آئی ہے یہ دراصل یہ تاریخ آرہی ہے جِس دِن آپ نے کومنٹ کیا ہے۔ اب رہی آدہی دُنیا فتح کی بات۔ اب بہت رات ہوگئی ہے صُبح سوچیں گے۔

      Delete
  3. اعلی جناب
    واقعی زندگی ان تین ہتھیاروں سے ہی چلتی ہے۔
    کلچ ایکسلیٹر بریک۔
    بہت خوب

    ReplyDelete
  4. چست جملے لکھے ہیں۔ عمدہ۔
    یہ پل والا واقعہ میرے لیے نیا ہے۔
    پہلے کبھی سننےیا پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

    ReplyDelete