Saturday 12 October 2013

چن ماہی اُستاد

جعفر حُسین کوئی عام بندہ نہیں ہے آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا ، اُستاد کا خطاب ہمیشہ قابلیت کی بُنیاد پر دیا جاتا ہے ۔ وہ اِک گھنا پیڑہے جِس کی چھاؤں میں ہزاروں لوگ بیٹھ کر "سُکھ چین "محسوس کرتے ہیں۔ اِس درخت کے نیچے عِلم کی اپر کِنال بہتی ہے ۔ دید ہ زیب رنگوں کے پتے آپ کو اِ س پیٹر  کی شاخوں پر نظر آئیں گے۔ہر پتہ دوسرے سے زیادہ خوبصورت  محسوس ہوگا۔ آپ اس درخت پر  چڑھ بھی  سکتے ہیں ۔آپ ایک ہاتھ سے ٹہنی سے لٹکتے ہوئے دوسرے سے پھل توڑ کر کھا ئیں  پھِر چھلانگ کر دوسری شاخ پکڑیں اُس کا پھل ٹیسٹ  کریں ۔اگر پہلا میٹھا تھا تو دوسرا کھٹا میٹھا ہوگا تیسرا ۔۔۔۔ آپ اِسی انداز  چھلانگتے جائیں۔ اگر آپ ایک ہاتھ میں  ٹہنی تھامنے اور دوسرے سے پھل چبانے  کا ہُنر نہیں جانتے تو آپ بالکُل ناکارہ ہیں۔ آپ  کو اپنا ٹویٹر اکاونٹ  فوراً سے پہلے بند کر دینا چاہے۔ آپ اِس درخت کے گِرے ہوئے  پھل کی چاٹ  بنا سکتے ہیں آپ کو کِسی چارٹ مصالحے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ بہت سے بلاگریہی چارٹ اپنی "دُکانوں" میں بیچتے ہیں۔شجرِ جعفر کی سوکھی ٹہنیاں تیلیاں بنانے کے کام آتی ہیں جو بغیر مصالحے کے  آگ لگا نےکی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ اس درخت کو کاٹیں اِسکی لکڑی اپنے ساتھ لے جائیں جعفر کبھی مائنڈ نہیں کر ے گا ۔ اِس انمول لکٹری  سے آپ کو ہر چیز بنانے کی اِجازت ہے مگر آپ کو بلا بنانے کی ہرگِز اِجازت نہیں ہے ایسا کرنے والا جعفر کے عتاب (جِسے وہ مزاح کا نام دیتا ہے )سے بچ نہیں سکتا  ۔ ایسا کیوں  ہے ؟ یہ سوال  نئی نسل کے بچوں کواکثر ستاتا ہے  آج میں اِس راز سے پردہ اُٹھاتا ہوں۔

جعفر اور میں پہلی جماعت میں ایک ہی کلاس میں پڑہتے   تھے۔ہمارے سکول کے پرنسپل سر سجاد ہِٹلر کی پوتی کے ہمسائے رہ چُکےتھے ۔ اُنہیں یہودیوں سے زیادہ نالائقوں سے نفرت تھی۔وہ روزانہ اِملا کا ٹیسٹ لیتے تھے۔ اُن کا ڈنڈا پڑتے ہی  بچہ اِسقدر زور سے چیختا کہ لائن میں کھڑے تین بچوں کا موتر آؤٹ ہوجاتا  ۔جعفر ہمارے ساتھ روز اِسی موتر والی لائن میں کھڑاہوا کرتاتھا۔ مگر ایک دِن  عجب واقعہ ہوا ،اُسکے صِفرے کا سِرا نیچے کی طرف کُچھ زیادہ ہی سِرک گیا۔ جِسے سر سجاد نے نو پڑہنے ہوئے  مارے خوشی کے جعفر  کو چوم لیا ۔بس اُس دِن کے بعد جعفر نے مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔وہ ہر امتحان اور ٹیسٹ میں اول آنے لگا ۔ جعفر کی چُمیوں سے گالیں پھولتی گئیں اور ہم ہاتھوں پر بدبختی کی لکیریں بنواتے رہ گئے۔وقت یوں ہی گُزرتا گیا۔ 

جعفر کی اگلی اینٹری دسویں کے بعد ہوئی ۔جعفر کو اخبار پڑہنے کا بہت شوق تھا۔  ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صُبح سویرے  ہاکر  کا پھینکا ہوا اخبار جعفر کی موجودگی میں زمین پر گِر پائے۔وہ اخبار کھولتا بانی اخبار حمید نظامی کے نام سے شُروع کرتا اور آخر صفحے کی آخری  لائین تک  اخبار کا ایک ایک لفظ چاٹتا ۔ اِس کے بعد ہمارے  کچے ذہنوں میں پورے کا پورا  اخبار اُنڈیلنے کی کوشش کرتا ۔ہم جعفر کے عِلم سے بہت مُتاثر ہوتے تھے۔ ہمیں جعفر ہی سے  "حالات حاجرہ  "کی تمام خبریں  مِلتی تھیں۔ بھٹو  غدارِ وطن تھا ، بھٹو نہ  ہوتا تو ایسٹ اور ویسٹ پاکستان بھارت کو بھون کر کھاجاتے ۔ واصف علی نثواری مسٹر ٹین پرسنٹ کیسے بنا۔ زرداری کے گھوڑے سیب کا مربہ شوق سے کھاتے ہیں یا گاجر کا۔ زرداری کی کُتی کِس سیاست دان کے کُتے سے پریگننٹ  ہوئی ۔ ضیاالحق نے پاکستان فوج کو دُنیا کی بہترین فوج  کیسے بنا یا ہے۔ نواز شریف کی  موٹر وے  مُلک میں اِتنی خوشحالی لائے گی کہ گورے ہمارے کُتے نہلانےکے لئے ترلے کریں گے اور ہم اُنہیں اکڑ کر جواب دیا کریں گے  "ڈاگز  آر الاوڈ بٹ وائٹس آر ناٹ"۔بینظیر کے حکومت دو سال مزید چل گئ تو مینارِ پاکستان پر امریکی جھنڈا لہرائے گا اور یہودیوں کا اسلام آباد پر قبضہ۔ ۔بینظیر کے معاشقوں پر تو جعفر کی زبانی کہانی سُننے کا الگ ہی مزہ ہوتا تھا۔دِل چاہتا تھا کہ بس وہ بولتا جائے  اور ہم م م م مزے۔۔۔ جعفراخبار پڑہ پڑہ  پورا سیاست دان بن چکا تھا۔ مِتھن چکروتی کا ہئیر سٹائل بنائے  ، کرائے کی رے بین  پہنے ، اپنی نیلے رنگ کی کاواساکی پر  گردن میں اِتفاق مارکہ سریہ ڈالے جعفر جب گُزرتا تو  مُجھ سمیت  محلے کے بہتیرے  لوگ اُس کے  دابے  میں آجاتے ۔

جعفر کے کرکٹ سے تعلق پر تو " میں ہوں شاہد آفریدی "سے بھی بڑی فِلم بن سکتی ہے۔اس وقت بس اِتنا ہی جاننے پر اِکتفا کیجئے کہ جعفر کا کرکٹ سے لگاؤ عِشق کی حد تک تھا۔محلے کے بچوں سے دو دو روپے اکٹھے کر کے بلا خریدا گیا۔ جعفر صاحب ہمیشہ پہلی باری اپنی رکھتے تھے۔جعفر کی کمزوری یارکر تھا ۔ جب کبھی یارکر پڑتا تو پیپسی کے ڈالے کھڑاک سے گِرتے۔مگر اگلے ہی لمحے ہمیں جعفر امپائیر کی طرف بھاگتا  ہوا نظر آتا ۔ "اللہ دی قسمے نو بال سی اوئے انیاں نو چیک کرلیا کر " بس کیا تھا، ساری شام بچے بالنگ کرا کرا  ڈی ہایڈریٹ ہوتے رہتے  اور جعفر میاں اپنی  بیٹنگ کے جوہر،  مور کے  ناچ کی طرح دِکھاتے رہتے۔ ۔محلے کے بچوں کو آگے لگا کر جعفر نے خود کو مُستقبل کا ماجدخان سمجھنا شُروع کردیا۔مگر خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اللہ نے بچوں کی سُن لی اِک دِن ساتھ والے محلے سے اِک دُبلا پتلا مگر چھے فُٹ کا بچہ ہمارے کھیل میں شامل ہوا۔اُس نے پہلی ہی گیندپر  پیپسی کے ڈالے کھٹرکاڈالے  ۔جعفر نے یہاں بھی نو بال ٹیکنیک اِستعمال کی ۔ اُس لڑکے نے بڑی شان سے جعفر کو دوبارہ کھیلنے کی دعوت دی اور نو بال چیک کرنے  کے لئے تین امپائر لگادئیے ۔ اگلی گیند پر بھی نتیجہ وہی آیا اور یوں ہماری مُستقبل کے ماجد خان سے جان خلاصی ہوئی۔جعفر  کُچھ عرصے بعد دُبئی چلا گیا اور" اُستاد" بن گیا۔تاریخ اُس نِجات دہندہ باؤلر کے بارے  میں بالکُل خاموش ہے۔ اُس کےبارے میں میں صِرف اتنا جان سکا کہ وہ ہمارے شہر کے مہنگے ترین سکول میں پڑہتا تھا۔ ہاں ایک اور بات یاد آئی وہ دو  چار دفعہ کے ایف سی برگر کھاتا ہوا بھی دیکھا گیا تھا ۔

اب آپ  اُستاد کی پوسٹ ایک بار پھِر پڑہیں ۔

 "انقلابیے، جن کے باوا آدم جنرل پاشا اور شو بوائے ، حضرت عمران خاں مدظلہ العالی تھے۔ جو پچھلے ہزاروں سال سے پاکستان میں انصاف لانے کے لیے کھجل ہوتے پھررہے تھے"

حق مہر میں ان کو اتنا کچھ مل گیا کہ بال نقل بمطابق اصل اور پہاڑ پر ایک چھوٹی سی کُٹیا ، جھونگے میں مِل گئی ۔

۔ "ہم جیسے نمانے کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ برگر کا برگر اور پیپسی کی پیپسی کی کردے۔"


اُستاد جی کا فرمانا ہے کہ رائے کا اِختلاف کِسی  بھی معاشرے کی بڑہوتری کے لئے دودھ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اب یہ تو اُستاد جی کا فلسفہ ہی بتائے گا کہ اِس اِختلاف کے  بیان واسطے " پیڑی رن " کا سا انداز ہماری بڑہوتری میں کِتنا سود مندو مددگار  ثابت ہوگا؟  دو سال سے جاری برگری بچوں کی عِمران  پرستی نے سمندر جیسے گہرے ہمارے اُستاد جی کو اُبال  کر رکھ دیا۔ مُجھے بتایا جائے کہ مُجھ سا کوڑہ مغز  جِسے پِچھلے تیس سال  سے  قائد ثانی، پاکستان بچانے والا، شیر شاہ سوری ، غریبوں کا  ہمدرد ۔ جمہوریت کا علمبردار  ٹائیپ  نعرے  چٹوائے جار ہے ہیں  ، بدہضمی ہونے کی صورت میں اُلٹی کہاں کرے ،  رائیوند کے پِچھواڑے میں؟؟َ؟ 

اس عمر میں بھی ان کے ٹشن دیکھ کے ایسا لگتاہے جیسے کسی ہالی ووڈ فلم کی شوٹنگ پر پہنچے ہوں،عائلہ پابی انتہائی پیار سے انہیں پانی کی بوتل پیش کررہی ہیں" "


باقی بہت سی باتیں پھِر کبھی سہی۔


22 comments:

  1. اہاہہاہاہاہاا۔۔۔ ایتھے رکھ۔۔ شژادیا۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اوو یسسس!!
      دیٹ استاد از یو آل رائٹ...
      بٹ ویری ویل رٹن...

      Aurangzeb, Mahwish

      Delete
  2. ہاہاہاہا
    یار اے کیہڑے کمے لگے ہو تسی
    استاد جی کا حق ہے جو مرضی لکھیں۔
    افسوس تو ہمیں پڑھ کر ہوا لیکن کیا کر سکتے ہیں استاد کے سامنے شاگردوں کی کیا مجال

    ReplyDelete
  3. ہاہاہااہاہا
    بہت اعلی یار
    بحر حال پھر بھی استاد استاد ای اے۔
    ایسی اعلی "لفاظی"تحریرپر استاد تو آپ کی چمیاں لے لیں گے۔
    اچھی تحریک ہے۔
    آجکل نہ تو پڑھنے کو دل کرتا ہے۔
    اور نہ لکھنے کو۔
    استاد اور آپ کی تحریر "کُھب" کر پڑھی۔

    ReplyDelete
  4. بہت اعلی ۔۔ ویسےمیتھن چکروتی والی بات پر ۔۔ میتھن بُرا مان سکتا ہے ۔۔

    ReplyDelete
  5. ہاہاہاہاہاہا
    اور پھر سے
    ہاہاہاہاہاہاہا
    جناب جواب آں غزل لائقِ تحسین ہے۔

    ReplyDelete
  6. کیا کہنے

    ReplyDelete
  7. واہ واہ۔۔۔ مزا آگیا۔۔۔۔

    ReplyDelete
  8. نامعلوم افراد سے گذارش ہے کہ اتنا مزا آگیا ہے تو تھوڑا سا ہمیں بھی دے دیں۔

    ReplyDelete
  9. Ustaad jee mein keya,ay te rola ey pay gaya,hahahaha

    ReplyDelete
  10. یار ویسے دونوں تحاریر ایک دن پڑھ کر مزہ آیا ہے- ورنہ استاد کی تحریر پڑھ کر تو دل اوکھا ہی ہوتا تھا :)

    ReplyDelete
  11. اعلیٰ... ویسے استاد کی ایسی تعریف شاہ کے بعد .... مزہ دوبالا ہو گیا...

    ReplyDelete
  12. پرانے شعرا کے پاس اگر بلاگ ہوتا تو شائد ہم بہت سی اچھی شاعری سے محروم رہ جاتے کیونکہ بچپن سے ایک دوسرے بارے پالا ہوا زیادہ تر ساڑ انہوں نے بلاگ پر ہی نکال دیا کرنا تھا اور شاعری پر اتنی محنت نہیں کرنی تھی - جعفر حسین اب واقعتاً ایسا درخت بن چکا ہے کہ جس کے پاس کھڑے ہو کہ زور زور سے بولنے پر بھی لوگ آپ پر توجہ دیتے ہیں -

    ReplyDelete
  13. جعفر حسین تو مزاح کا گھنٹہ گھر ہے ۔ اس کا تعلق آٹھ بازاروں کے شہر کے بھلے کسی بھی "بازار" سے ہو لیکن ہر بازار والے کو جعفر حسین کے گھڑیال سے وقت ملانا ہی پڑتا ہے۔ جب کبھی ہماری جعفر حسین سے ملاقات ہوئی تو کوشش کریں گے کہ اس کے گھڑیال کی سوئیوں کو 10 بج کر 10 منٹ سے دائیں بائیں کر دیں ۔

    ReplyDelete
  14. یہ تو استاد کی مشہوری ہو رہی ہے۔ تنقید اسی پر ہوتی ہے جس کا کام نظر آتا ہے

    ReplyDelete
  15. لنگوٹیے کا فنڈا

    یعنی گھر والے کے دند نہیں گنتے :)

    ReplyDelete
  16. ہاہاہاہا۔۔۔۔۔
    مجھے تو لگ را کہ اب بلاگنگ میں وی انقلاب آیا کہ آیا ؛ڈ

    ReplyDelete
  17. بہت اعلیٰ تحریر ۔۔ پڑھ کر مزا آیا

    ReplyDelete

  18. جھ سا کوڑہ مغز جِسے پِچھلے تیس سال سے قائد ثانی، پاکستان بچانے والا، شیر شاہ سوری ، غریبوں کا ہمدرد ۔ جمہوریت کا علمبردار ٹائیپ نعرے چٹوائے جار ہے ہیں ، بدہضمی ہونے کی صورت میں اُلٹی کہاں کرے ، رائیوند کے پِچھواڑے میں؟
    یہ الٹی اُستاد پر کرنے کی نوبت کیوں آئی کبھی اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیجیے گا۔

    ReplyDelete
  19. آدھی تو باقاعدہ جنگ پلاسی چل پڑی میں نے تیان ہی نہیں دیا.

    ReplyDelete
  20. Kia aap k in column ko hum apni Website todayspoint.com pe post kr sakty hain?.
    Please tell at 03346090998

    ReplyDelete
  21. ہاھاہاھا ہاھاہاھا
    آپ نے تو استادکی لے ہی لی کلاس
    آج ہمیں پتہ چلا استاد برگروں سے اتنا الرجک کیوں ہیں...
    ویسے استاد کا بلاگ پر مزاح میں اپنا مقام ہے....
    جواب آ غزل بہت عمدہ

    ReplyDelete