Wednesday 25 September 2013

میرا کانکورڈ جہاز

یہ بہت سال پُرانی بات ہے میرے والد سرکاری دورے پر چند ماہ امریکہ گُزار کر واپس آئے تو ہم بچوں کے لئے بہت سے کھلونے اورچاکلیٹس بھی لائے۔ اِن کھلونوں میں میرے لئے لمبی نوکیلی چونچ والا چِٹا سفید کانکورڈ جہاز بھی تھا۔ بٹن آن کرنے پراُسکی  لا ل اور نیلی لائٹیں ٹِمٹما نے لگتیں ،وہ ہولے ہولے  سے  چلتا   ہوا  یکد م سے کڑاکے دار آواز کے ساتھ رفتار پکٹرتا تومیں اپنا دِل تھا م لیتا  کہ کہیں  سچ میں اُڑ ہی نہ جائے اور میں دیکھتا رہ  جاؤں ۔ اُس امریکی تحفے کو پاکر میں خود کو دُنیا کا خوش قِسمت ترین بچہ سمجھنے لگاتھا ۔ میں نے والد صاحب کے بٹوےسے بنجمن فرینکلن کی تصوریر والے نوٹ نِکلتے  بھی پہلی بار دیکھے تھے  ۔ والد صاحب نے مُجھے بتایا کہ امریکہ میں ڈالر کی کرنسی چلتی ہے اور یہ کہ تقریبا 14  پاکستانی روپوں کے بدلے ایک امریکی ڈالر مِلتا ہے ۔

امریکہ کی کہانیاںسُنتے ، ڈِزنی ورلڈ کی تصوریں  دیکھتے اور سب سے بڑہ کر اپنے کھلونوں سے کھیلتے اُس رات نیند 
ہم بچوں کے  قریب بھی نہ پھڑکی ۔رت جگے کے باوجود  اگلے دِن میں وقت سے کافی پہلے سکول پہنچ گیا ۔ میرا کانکورڈ طیارہ بھی ہمراہ تھا۔ کلاس  روم میں جو جو لڑکا داخل ہوتا جاتا میں شوخی بگھیرتے ہوئے اُسے اپنا جہاز چلا کر دِکھاتا اورسینہ تان کر  بتاتا " یہ جہاز امریکہ سے میرے ابو لائے  ہیں تُمیں پتا ہے کہ ایک امریکی ڈالر کے بدلے   14 پاکستانی روپے دینے پڑتے ہیں"۔کانکورڈ جہاز نے اپنی جاذب ِ نظر ڈیزائن اور کارکردگی سے میرے سب ہم جماعتوں  کو مرعوب کیا۔

ہمارے سکول کے کالے سیاہ  نوٹس بورڈ پر سفید چاک سے سات آٹھ خاص خاص خبریں روزانہ  لِکھی جاتی تھیں۔ جِن میں دوچار پاکستان کے مُتعلق ہوتیں ، دو تین بین اقوامی حالات پر اور آخری خبر کھیلوں کی جاری کِسی ایکٹی وِٹی کے بارے میں ہوتی تھی۔  میری  یہ عادت تھی کہ آدھی چھُٹی کے بعد  میں پانی والی ٹینکی سے ٹوٹی کو مُنہ لگائے پانی پیتا ہوا  کلاس روم میں آتا تھا اُسی رستے میں  نوٹس بورڈ  بھی پڑتا تھا اور یوں خاص خاص خبروں پربھی نظر پڑ جاتی  تھی۔ عمران خان کا اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہاسپٹل بنانے کا اعلان، سِکھ محافظوں کے ہاتھوں اِندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت میں سِکھوں کا بے دردی سے قتلِ عام، یہ سب خبریں میں نے  وہیں سے پڑہیں ،اِسی طرح اِک  دُبلا پتلالڑکا جِس نے اپنے پہلے تین ٹیسٹ میچوں میں  مسلسل سنچریوں کا رِیکارڈ بنایا   ،وہ  نام  اظہرلدین بھی  میں نے اِسی کالے بورڈ کی بدولت جانا تھا۔

اُس  دِن کی خاص خاص خبروں میں سب سے اوپر یہ خبر لگی تھی" ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے  کی قدر میں اِضافہ" ایک ڈالر تیرہ روپے کا ہوگیا۔ یہ خبر پڑہ کر مُجھے معلوم ہوا کہ امریکی ڈالر اور روپےکے مابین کوئی گیند بلےکا سا کھیل بھی جاری ہے۔ میں کلاس روم  میں واپس پہنچا ۔ اپنے بستے سے لال ورقوں  والی رف کاپی نِکالی  13 کو 15 سے ضرب دی۔ پھِر بڑے پیار سے اپنے جہاز کو بستے سے نِکالا وہ ویسے کا ویسا  تھا جیسا کہ صبح سکول آتے ہوئے تھا مگر نہ جانے کیوں مُجھے اُس کی قدرکُچھ کم کم سی محسوس ہونے لگی۔ اُس دِن شام کو صحن میں اپنے جہاز سے کھیلتے ہوئے میں نے والد صاحب سے ڈالر اور اپنے جہاز کی  قدر میں ہوتی کمی کا ذِکر کیا۔ والد  صاحب نے میری بات پر ہنستے ہوئے جواب دیا  "بیٹا ہمار ا روپیہ مضبوط ہوگا تو ہم سب مضبوط ہوں گے  اِتنے مضبوط کہ میں تُمہیں اِس طرح کے  کئی جہاز   اور بہت سے کھلونے لے دوں گا"۔ والد کی بات مُجھے ایسی  سمجھ آئی کہ اگلی صُبح آنکھ کھُلنے تک میں مُختلف ماڈلز کے دو ڈھائی  سو جہازوں کا مالک بن چُکا تھا۔

یہ سادہ  دو ر کی بات ہے جب اپر مِڈل کلا س حتی کہ اپر کلاس گھرانے شام ڈھلتے ہی اپنے گھروں  کے صحنوں یا چھتوں پر سیدھی  لائن میں بہت سی چارپائیاںسجا لیتے تھے ۔ بس اِک پنکھے کے تین پروں  کے زورِ گردشی پورا  خاندان بخوشی رات بِتا لیتا تھا۔ اُس وقت قوم کو اے سی وے سی کی لت نہیں پڑی تھی ۔ اِسی لئے  آئی پی پیز کی کِسی کہانی  کا جنم بھی نہ ہوا تھا۔

میں آج اپنے ڈھائی سو جہازوں والا خواب یاد کرتا ہو ں تو ہنسی بھی نہیں آتی۔ مُقابلے کے سمندر میں ہماری کشتی  دور تک کہیں دِکھائی نہیں دیتی۔یہ کشتی بیچاری مُقابلہ کرے بھی تو کیا۔ مچھیروں کے جال کا بادبان باندھے  اپنی  کشتی سے بھلا کاہے کی اُمیدلگانی ۔  ہم تو  سمندری لہروں کے  تھپیڑوں  سے رحم ہی  مانگ سکتے ہیں اور بس۔ ۔۔۔تھپڑ ہمیں دس کا پڑے یا ایک سو دس کا ہم اٹھارہ کروڑ کو   گال ہٹانے کا اختیار نہیں  بلکہ دوسراآگے کرنے کا حُکم ہے، سوائے اپنے چند بڑوں کے  جو ڈالروں کا سائبان تانے اپنی جیبیں بنجمن فرینکلن کے نوٹوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ جِن کے بچے تحفے میں اُڑنے والے جہاز لیتے ہیں۔

ڈالر کے آج کے ریٹ نے قوم کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا  اور مُجھے چھٹی جماعت کا اپنا " جہاز ی" قِصہ 

10 comments:

  1. مہنگائی نہیں ہوئی نخرے اور چسکے کنٹرول سے باہر ہو گئے ہیں۔

    ReplyDelete
  2. جس زر کو قاضی الحاجات کہا گیا تھا وہ غالبا ڈالر ہی تھا۔ میرے خیال میں اشیائے تعیش کی غیر ضروری درآمد سے بھی روپے پر بوجھ پڑتا ہے

    ReplyDelete
  3. میرے بہنوئی نواز لیگ کے بڑے حامی تھے۔۔۔ لیکن کل انہوں نے اعتراف کیا کہ جو توقعات انہوں نے لگائی تھیں۔۔۔ وہ خام خیالی تھی۔۔۔ اور وہ بڑے ڈِس اپوائنٹ ہوئے ہیں نواز شریف کی پالیسیوں سے۔۔۔ ایک طرف مستقل لیے جانے والے قرضے اور پھر ڈالر ویلیو۔۔۔ اللہ ہی حافظ ہے پاکستان کا۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. Sb ka almost yehi haal hua hy . . . .

      Delete
  4. بہت اچھے جی بہت اچھے
    ہم نے اکنامکس پڑھی اور افسوس ہوتا ہے کہ کیوں باہر سے پڑھی اگر پڑھنی ہی تھی تو پاکستان کی کسی یونیورسٹی سے پڑھی ہوتی جہاں سمجھنے کی بجائے رٹے مارتے اور عیاشی کرتے۔ ایک ایک حکومتی پالیسی پر ہنسی آتی ہے اور رونا آتا ہے کہ یار ان میں مجھ کوڑھ مغز سی سمجھ بھی نہیں
    ذرا جلدی جلدی لکھا کریں ہمیں انتظار رہتا ہے آپ کی تحریر کا :)

    ReplyDelete
  5. خوب لکھا ہے ۔ ہماری حالت کا سبب ہم خود ہیں ۔ جب میں نے 1962ء میں ملازمت شروع کی تو کیا جنرل کیا سیکریٹری سب اپنے اپنے بائیسائکلوں پر دفتر آتے جاتے تھے ۔ جنہوں نے دوپہر بعد دیر تک بیٹھنا ہوتا تھا وہ ٹفن کیریئر بھی بائیسائکل کے ساتھ لٹکائے ہوتے یا اس کیلئے محفوظ کلِپ بائیسائکل پر لگوایا ہوتا تھا ۔ اب ادھر لڑکا افسر بنتا ہے اور کار خریدنے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے ۔ پہلے شادیوں میں پلاؤ زردہ اور ایک سالن ہوتا تھا اور زمین پر دریاں بچھا کر بیٹھ کے کھاتے تھے ۔ منگنی میں گھر کے چند بزرگ ہوتے تھے یا صرف زبانی طے ہو جاتی تھی ۔ آج کل جو کچھ ہوتا ہے اس کے اخراجات جمع کر کے حساب لگا لیجئے کہ روپیہ اتنا سستا کیوں ہو گیا ہے ۔ نومبر 1967ء میں میری شادی ہوئی تو میری ماہانہ تنخواہ 800 روپیہ تھی اور میں امیر لوگوں میں شمار ہوتا تھا

    ReplyDelete
  6. چودہ سال سے بھوکے شیر کی آمد ہے، کہ رن کانپ رہا ہے :ڈ
    میرا خیال ہے یہ یکایک مہنگائی اور کرنسی کی تنزلی دراصل مشرف دور میں روپے کی قدر مصنوعی طریقے سے باندھے رکھنے سے آئی ہے۔
    باقی اکنامکس کرنے والے جانیں، ہمیں کیا۔ ہم تو جتنے کا پٹرول پہلے ڈلواتے تھے اُتنے کا ہی اب بھی ڈلوانا ہے۔۔۔۔ چاہے لیٹرز کم کیوں نہ ہوں۔

    ReplyDelete
  7. ایک کھلونے کے ذکر میں پوری پاکستانی تاریخ بیان کردی ہے کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں پہنچ چکے ہیں۔
    بہت ہی اچھا لکھا ہے۔ میرے خیال میں اس وقت کوئی اردو بلاگر آپ سے اچھا نہیں لکھ رہا۔۔۔

    ReplyDelete
  8. یہاں مشرقی لندن مسجد کے پاس جہاں میرا دفتر ہے اس علاقے کو منی بنگلادیش بھی کہا جاتا ہے کہ بنگلادیش کے بعد سب سے زیادہ بنگالی یہیں آباد ہیں. آتے جاتے اکثر بنگالی ٹکا کا ریٹ نظر آ جاتا ہے تو سوچنے لگتا ہوں کہ ٹکا اتنا مظبوط ہو گیا ہے کہ اب کس منہ سے کسی کو دو ٹکے کے آدمی کا طعنہ دوں.
    باقی اپنی یاداشت تو ہے 1996 کی جب پہلی بار سنا کہ ڈالر 25 کا ہو گیا ہے بس اس کے بعد سے یہ ترقی کبھی نہ رکی.

    ReplyDelete
  9. والد کی بات مُجھے ایسی سمجھ آئی کہ اگلی صُبح آنکھ کھُلنے تک میں مُختلف ماڈلز کے دو ڈھائی سو جہازوں کا مالک بن چُکا تھا
    کتنی معصومیت سے کڑوا سچ سمجھایا، کمال لکھا

    ReplyDelete