Saturday 5 January 2013

کرسمس کا کیک


میں روزانہ دس بجے  کے قریب اپنی دُکان  پر پہنچتا تواُسے اپنے ہتھیاروں سے لیس دُکان کے باہر کھڑا پاتا۔ وہ اِک سِپاہی کےسے  انداز میں مُجھے سلیوٹ ٹھوکتا اور دُکان کھول کر اگلے پندرہ بیس  مِنٹ میں اپنے حِصے کا کام کرتے ہوئے اگلی دُکان کا رُخ کرتا ۔اِس بڑی مارکیٹ   کے دُکاندار اُسکی   تنی ہوئی گردن اور دو گزی زبان   کو "چوہڑیاں دی آکڑ "کا نام دیتے اور اُسےبمشکل برداشت کرتے تھے۔وہ مارکیٹ میں   چوڑا مائکل کے نام سے  یاد کیا جاتا اور مائکل اوئے کے نام سے بُلایا جاتا تھا۔ غالِباً پوری مارکیٹ میں واحد میں ہی تھا  جو  اُسے پورےنام جارج مائکل سے  پُکارتا  تھا ۔ شائد اِس  کی وجہ یہ تھی کہ  مُجھے اُس کی" صِفت  " "چوہڑیاں  دی  آکڑ" سے کبھی واسطہ نہ پڑاتھا۔
اِس  لعن تعن اور  گالم گلوچ     رویے سے جب خاطر خوا ہ  نتائیج  نہ  نِکلے  تو  ساتھی دُکانداروں  نے  مارکیٹ کی صفائی سُتھرائی  اور  جارج مائیکل  سے تمام معاملات میرے حوالے کر دئیے ۔اُسے لاتوں   کی زبان سمجھانے والوں کو میں  کوشش کے باوجودکبھی قائل نہ کر سکا کہ  جانورں سے بھی بد تر ماحول میں رہنے والے وجود  کے اندر ،اِنسان فقط  مردم شُماری کے کا م آسکتا ہے ۔ ایسےحیوانی  وجود میں موجود علیل اِنسا ن کو   صِرف  پیار کی پُکار ہی تندرستی عطا کر سکتی ہے ۔ اِنسان کی روح کی غذا صرف پیار  کے بول ہیں ،صِرف پیار۔۔۔ جارج مائیکل ہر شام میری دُکان  پر ایک   کپ چائے  کے لئے  بھی آتا تھا۔ میں الیکٹرک  کیتلی سے  چائے بنا  کر  اپنے اِستعمال کے لئے رکھے اِمپورٹیڈ   ٹی سیٹ کی پِرچ پیالی  میں  بمع چمچ اِک سلیقے  سے اُسے پیش کرتا۔ وہ محض اِس ایک کپ چائے  کی خِدمت پر  مُجھ سے اِسقدر خوش تھا   کہ اپنی طرف سے ہر مُمکن کوشش کرتا تھا کہ  صفائی  کے  معاملے میں مُجھے شکائت  کا موقع نہ دے۔ وہ بچپن سے ہی  نشہ کا عادی ہو گیا تھا۔ اُس کی یہ عادت   مسائل  کا باعث بھی بنتی تھی مگر میں اُسکی  اس عادت کو  اُونٹ کی سواری  میں کوہان تصور کرتے ہوئے نظرا انداز کر دیتا تھا۔  ۔ مُجھے نہیں معلوم کہ وہ کِس کِس  قِسم کا نشہ کرتا تھا البتہ اپنی آنکھوں سے  میں نے اُسے کوئی دیسی قِسم کا کھانسی کا شربت  ایک ہی سانس میں  غٹا غٹ پیتے دیکھا تھا۔
اُس سال 24 دِسمبر  کو   میرا  ایک کرسچین  دوست ایک عدد کیک سمیت مُلاقات  کے لئے  حاضر ہوا۔اب یہ تحفہ  تو دوست کی محبت  تھی مگر  اُس روز میرا کیک کھانے کا   بالکُل  موڈ  نہ  ہوا۔  میں اُن دِنوں اِس شہر میں میں بِنا فیملی کے خالص چھڑوں کی سی زِندگی گُزار رہا تھا ۔ میں نے دُکان بند  کرتے ہوئے  خوبصورتی سے پیک ہوا وہ کرسمس کیک جارج مائیکل  کو  گِفٹ  کر دیا ۔ اِس تحفے  کو  ہاتھوں میں  لیتے وقت   اُس  نے ایسی  تشکر بھری نظروں سے مُجھے دیکھا جیسے  میں  اِنسانی شکل میں کوئی مسیحا ہو ں جو اُسے اِک نئی زِندگی اِک نیا نام عطا کر رہا  ہے ۔وہ  میرے سامنے کُرسی پر بیٹھ گیا  اور اپنی زِندگی کے  دُکھ پھرولنے لگا ۔  اپنی ماں کے  جلدی چلے جانے کا دُکھ ۔ سوتیلی ماں کے ظالمانہ سلوک کی کہانی ۔ سرکاری محکمے میں کلرک  باپ      کی بےحِسی    کی داستان جِس نے  بارہ  سالہ بچے کو گھر سے نِکال دیا۔ چھٹی  کلاس میں سکول چھُٹ جانے کا ملال۔بھیڑئے    کی طرح   کمزور  کی بوٹیاں  نوچنے والی بازاری دُنیا کی سڑکوں  پر  گُزری  لمبی  ٍراتوںمیں تڑپا دینے والی بھوک۔ شادی کے تیسرے مہینے      بیگم  کے اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ جانے کی ٹریجڈی ۔ میں اُس کی لائف میں ہونے والی ٹریجیدیز میں بالکُل کوئی دِلچسی نہ رکھتا تھا   اور اِس دوران کلائی پر بندھی گھڑی کی سوئیوں   کو گھور  گھور کر تیز چلانے  کی ناکام  کوشش کرتا رہا  ۔مگر اُسکی  زبان  ایک ایگزاسٹ فین کی طرح نان سٹاپ چلتی جارہی تھی  غالباً    اُس کےاندر کا  گھُٹ  کر مرتا ہوا اِنسان پہلی  مرتبہ   چیخ چیخ کر  تازہ ہوا مانگ رہا تھا۔
کُچھ تازگی  محسوس کرتا جارج مائیکل چند  دِن ہی مزید جی  سکا۔ نئے سال کا سورج دیکھنے سے پہلے ہی   اُس کی جھبیس ستائیس سالہ  زِندگی  کی ڈوری  ٹوٹ  گئی ۔ وہ یکم  جنوری  1998 کی صبح ،قبرستان کے  گیٹ کے داہنے طرف لگے نیِم  کے پیٹر  تلے مُردہ حالت میں پایا  گیا۔ اُسکی  موت   کِسی  دیسی کھانسی کے شربت سےہوئی ؟  کوئی زیریلی شراب؟ یاپھِر  معاشرتی نا ہمواریاں اُس  کی قاتل  تھیں؟  یہ سوال کِسی نے  نہ اُٹھایا  بس اللہ  کی مرضی والا کلیہ  لگا کر مِٹی ڈال دی گئی۔ مُجھے اُس کی موت کی خبر ایک دِن بعد مِلی  ۔ میں نے اپنی ریوالونگ چئیرکو اِدھر اُدھر  گھُما کر  بس ڈھائی تین  منٹ   تک ہی اُس کے مرنے کا افسوس  کیا۔اِ س مصروف دُنیا میں بیکار  کے کاموں  کے لئے  وقت بچتا ہی کہاں ہے ۔بچپن میں پیارے نبی کی پیاری باتیں  پڑہنے کا موقع مِلا تھا  اگر میں اُن پیاری باتوں  کو مشعل ِ راہ بناتاتو کم ازکم مائیکل   کی قبر پر ایک عدد پھول رکھنے تو ضرورجاتا۔مگر میں تو  بچپن ہی سے ہر میدان میں تینتیس نمبر لینے والا   ہوں کہ جسِ نے چونتییسویں  کی کبھی  آرزو بھی  نہ کی۔بچپن میں مولوی صاحب نے ایک بات ذہن نشین کروا  دی تھی کہ  نبی سے عشق کا دعویٰ ہی  پاسنگ مارکس دلوا دیتا ہے  ۔میرے لئے تو بس یہی تینتیس نمبر ہی کافی ہیں۔
آج بہت سالوں بعد نا جانے کیوں  میرا جارج مائکل سے معافی  مانگنے  کو دِل کررہا ہے ۔ اپنی چالاکیوں  کی معافی ۔ میں  نے اُسے  ہمیشہ اپنے  اِمپورٹڈ سیٹ  میں علیحدہ سے رکھے پِرچ پیالی  میں چائے دی   ۔وہ میری  اِس  چالاکی  کو کبھی نہ سمجھ  سکا  اور  میری اِنسانیت دوستی  کے گیت گا تا رہا ۔میں نے ہمیشہ  اُس کے غلیظ  کپڑوں اور میلے کُچیلے جِسم  سے گھِن محسوس  کی   اور نہ ہی میرے دِل  میں اُس  گنوار کے لئے کوئی نیک جذبات تھےمگر وہ مُجھے  غریب  و لاچار لوگوں کا دِلی  ہمدرد  ہی سمجھتا رہا۔
میں جب بھی کوئی پبلک ٹائیلٹ  اِستعمال کرتا  ہوں تو دیواروں پر لِکھے غلیظ فِقرے  پڑھ کر  مُجھے مائکل  کی یاد ضرور آتی ہے جِس  نے ہمیشہ اِس بات  کو یقینی  بنایا تھا   کہ دیواروں  پر کچھ  بھی لکھا   نہ جائے۔مگر وہ  اِک بے ہنگم سے کٹے گتے پر  اُس کی اپنی ٹوٹی  پھوٹی لِکھائی میں لِکھا ہو ا  اِک شعر جو بیرونی  دروازے  کی چوکٹھ پر   ہمیشہ لٹکا  رہا۔
میری غُربت نے اُڑایا  ہے میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھُپا رکھے ہیں


                 

15 comments:

  1. یہ دنیا بڑی چالاک ہے جی، جتنے ہم آپ ہیں اس سے زیادہ، اس بات کا اندازہ صرف یہیں سے لگالو، کہ آپ نے اسکے ساتھ بقول صرف اچھا سلوک کرنے کا تاثر دیا، اور اگلا الو بنا پھر، تو مطلب یہی ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں کرتے۔ دنیا بڑی چول ہے

    ReplyDelete
  2. بہت عمدہ لکھا ہے۔

    ReplyDelete
  3. دنیا تو دنیا ہے جناب۔۔۔۔۔ہم روزانہ ایک دکھانے والا چہرہ باہر لے جاتے ہیں ،اور اندر والا چھپا چھپا کر سنبھال کر رکھتے ہیں

    ReplyDelete
  4. مذہب کی سپرٹ تو محبت ہی ہے باقی ہم اس میں سے وہی برآمد کرتے ہیں جو کچھ ہم خود ہوتے ہیں یعنی ہمارا مزاج

    ReplyDelete
  5. ھمارے معاشرے کے کڑوے سچ سے بھرپور زبردست تحریر
    ایم سپیچ لیس

    ReplyDelete
  6. بہترین۔۔۔ بہت اعلیٰ تحریر۔۔۔

    ReplyDelete
  7. بچپن میں مولوی صاحب نے ایک بات ذہن نشین کروا دی تھی کہ نبی سے عشق کا دعویٰ ہی پاسنگ مارکس دلوا دیتا ہے ۔بس یہی میرے لئے کافی ہے
    ۔
    ۔
    ۔
    مولوی کی ڈھیر ساری باتوں میں کیا یہی بات ہی آک کو یاد رہ گئی تھی،؟
    آپکے مائکل کے ساتھ دوغلے پن کا ذمہ دار بھی شائد مولوی ہی ہوگا۔
    مذہب کے ساتھ اور مذہبی لوگوں پر طنز آج کل ہمارے رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔
    لیکن یہ جاہل مولوی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے بچے کو سدھارنے اور دم کرنے جاتے ہیں۔
    مولوی کی ہر چیز غلط ،اسکا طرش تعلیم غلط، اوسکے بات کا طریقہ غلط،اسکی تبیت کا انداز غلط،لیکن اگر ٹھیک اور صحیح ہے تو بس ہمارا نکاح ار میردے کا جنازہ۔

    ساری زندگی مولوی کی غیبت ہی کرتا رہتا ہے لیکن جب اسکی روح گھسیٹ لی جاتی ہے تو اسی مولوی کے پیچھے بھاگتے ہیں، سالے کو نہانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا،یہ طریقہ بھی مولوی ہی بتاتا ہے۔


    ان باتوں کیلئے معذرت خواہ ہوں لیکن آجکل اردو بلاگز پر مولوی کی غیبیت کچھ زیادہ ہی دیکھ رہا ہوں۔

    ReplyDelete
  8. اب تو واقعی پبلک ٹوائلٹ آرٹ کی طرف بھی دھیان جایا کرے گا جو ہمارے ہاں بہت اعلیٰ معیار کا ہے۔۔۔ :)

    ReplyDelete
  9. درویش خُراسانی@
    نہیں جناب مولوی کی یہ بات بھی یاد ہے کہ میرے اپنے مذہب و مسلک کے علاوہ باقی سب کافر ہیں اور ان کی گردنیں کاٹناجہاد ہے۔

    ReplyDelete
  10. چلیں آپکو احساس تو ہوا نا دیر سے ہی سہی لیکن باقی باجماعت بے حسوں کا کیا کیا جاۓ؟

    ReplyDelete
  11. درویش خُراسانی صاحب ایسے مواقع پر جب مولوی کا ذکر آتا ہے تو اس سے مراد آپ کی گلی محلے کی مسجد کا مولوی نہیں ہوتا بلکہ لفظ مولوی بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر لفظ مولوی کے استعمال سے مراد وہ سوچ ہوتی ہے جو دنیا کے سامنے اسلام کو مسخ کر کے پیش کرتی ہے۔
    امید ہے کہ تسلی ہوگئی ہوگی
    (-;

    ReplyDelete
    Replies
    1. نا ہی مولوی نے اپنے مسلک کے علاوہ کے قتل کا فتوی دیا ہے اور نا ہی کسی اسلام مسخ سوچ کو مولوی کا نام دینا مناسب ہے۔

      اتنا ہی شوق ہے ت کسی دوسرئے نام سے انکو یاد کیا کرو،مولوی ،ملا نام ایک عروف شخصیت کا نام ہوتا ہے،لھذا یہ نام استعمال نہ کیا جائے۔

      Delete
  12. ہمیں ہمارے دوغلے پن کا احساس دلاتی ایک زندہ تحریر۔ زبردست ہے جناب۔

    ReplyDelete
  13. awesome !!! awesome !! awesome
    fantastic,brilliant,beautiful and whatever in favor could be used to support your this article is less !! it is one that retained my attention throughout !!! and i think every reader feels like he/she was there him/herself in the story !!!
    well-done @ Dohrahai

    ReplyDelete