Thursday 15 November 2012

اے سُپر مین ہٹاں تے نئیں وِکدا



اِک کنگلے کالے  افریقی کے گھر پیدا ہونے والے بدیسی صدر کی شان میں صفحے کالے ہوتے دیکھے تو میرے دِل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ کیوں نہ اپنی دھرتی کے حقیقی ہیرواور رئیس الاعظم کی اولادِ اصغر کی شان ِبیان میں کُچھ قصیدہ نِگاری کا فرض ادا کرتا  جاؤں۔ جناب کی سحر انگیزذات مُبارکہ  کے اس مفلوک لحال  اور پِسی ہوئی  عوا م پر  اسقدر احسانات ہیں کہ جِن کا قرض رہتی دُنیا تک اُتارنا کسی طور بھی مُمکِن   نہیں ہے   ۔ آپ کی عظمت کا اِس سے بڑا اور کیا ثبوت ہے کہ چند سال پہلے آپ کو پنجاب کا شیر کہا جاتا تھا مگر آج جنگل کا بادشاہ بھی شہباز کی کھال پہنے نظر آتا ہے۔

قُربان جاؤں  آپ کے صوفیانہ انداز زِندگی پر کہ مئی جون کی گرمی میں بھی آپ کو جُھگی میں بیٹھے پنکھا جھلتے دیکھا جاتا رہا۔ مگر جب ڈینگی افواج نے حملہ کیا تویہ درویش اِک جری سپہ سالارکے روپ میں نظر آیا۔ ہر گلی ہر موڑ ہر دُکان پر ڈینگی سپرے اُٹھائے "شہباز ریمبو دی ڈینگی کِلر "حقیقت میں  ڈینگی کی موت ثابت ہوا ۔ اِس عظیم اِنسان  کی  برق رفتاری  سے ہسپتالوں میں  آنیا جانیاں دیکھ کر یقین ہو گیا کہ جناب کی شکل میں سُپر مین کا حقیقی جنم ہو ا ہے۔  ہمارے سری لنکن بھائی تو  اِس سُپر مین  کے حصول کے لئےمِنتے ترلے کرتے نظر آتے ہیں اب بھلا اِن بھائیوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ  "اے سپر مین ہٹاں تے نئیں وِکدا"۔ ہمارااہلیان ِ سرِی لنکا  کو ایک  آزمودہ  مشورہ ہے  کہ  اِس سپر مین  کی آدھ پیجی  تصاویر اپنے مُلک کے تمام اخبارات میں چند دِن لگا ئیں  اور پھِر دیکھئے گا اس کا اثر۔۔۔۔ بھلے ہی موسمی حالات کا بہت فرق ہو پھِر بھی    یقینا  ڈینگی مچھر آپ سے دور ہوگا رہنے پر مجبور۔

عدلِ جہانگیری کے قِصے تو ہم نے سُن رکھے تھے مگراپنی آنکھوں سے  حقیقی عدل  بٹیا رانی کے کیس میں آپ ہی کے ہاتھوں  ہوتے دیکھا  ۔ کِس طرح آپ نے  رِشتے کی نزاکت کو بالے کی طاق پر رکھتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ہائے  میں جب بھی بِٹیا رانی کے سرتاج کی  "اُتھاں گُزاری آئی رات "کے  بارے میں سوچتا ہوں تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

آپ کے دانش سکول   سرسید  احمد خان کے مُحمڈن اورئنٹل کالج سے بڑا اِنقلاب لائیں گے۔ جب دانش سکول کے بچے بڑے ہوکر  اپنی عِلمی صلاحیت  و قابلیت کے بل بوتے پرمسندِ صدارت پر براجمان ہوں گےتو ۔۔ہائے رے ککھ نہ روےایس قلم دا۔۔۔اومِٹی پاؤ جی ۔ ہاں تو میں کہ رہا تھا   کہ آپ کے دُشمن ایک آمر کو دس بار باوردی مُنتخب کر نے کی خواہش کا اِظہار  کر سکتے ہیں   تو آ پ کی مُحبت میں گِرفتار   اور احسانوں تلے دبی  یہ غریب عوام   سے آپ کی اگلی  پانچ نسلوں کو بھی  مُنتخب کرنے کا  حق  کوئی مائی کا لال نہیں چھین سکتا۔ جب کھُلا تضادکھُلے عام دِکھائی دیتا ہے تو  موروثیت  سرعام کیوں  چل نہیں  سکتی ۔ مُفت میں ببیچے ہوئے چھوٹے کمپیوٹر   اور بدلے میں نوجوانوں کے دِل ، کِسی سمندری تبدیلی سے کہیں بہتر اِنقلاب ہے  جو حقیقت  میں اب آچُکا ہے  ۔آپ نے جمہوریت کی اِس بے لگام  اور سرکش گھوڑی کو کمشنری نظام کا ایسا چابک مارا کہ   یہ  گھوڑی  اپنے شہزادے  کو بمع اہل و ایال ،پیٹھ پر بٹھائے نئی نویلی سڑکوں اور بِنا سریے کے بنے عالیشان   پُلوں پر سرپٹ دوڑتی نظر آتی ہے۔

ہمارا لیڈر   وہ شہباز ہے جو تندی بادِ مُخالف سے نہ گھبرایا اور نہ ہی  اُس نے اُنچی اُڑان کا جھنجھٹ  پالا بلکہ  اِک کرشمہ کر دکھایا اِس تُندی کو بادِ صبا میں بدل دینے کا کرشمہ۔اِس مردِ آہن نےتنِ تنہا    اِک تباہی پھیلانے والے سونامی کو  اپنی دھرتی کے پنج دریاوں میں غرق کر  کے  جواں مردی و شجاعت کی اعلی ترین مثال قائم کرتے ہوئےاپنا نام گِنس بُک  میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کروا  لیا ہے۔( والیم 2012 صفحہ نمبر 303پر ٹی شرٹیں بدلنے  اور روٹیاں پکانے والے رِیکارڈ سے نِچلی لائن پر  آپ شہباز صاحب  کے ریکارڈ کی تفصیل مُلاحظہ کر سکتے ہیں)

خادمِ  اعلی کی دریا دِلی اور سخاوت کا مُنہ بولتا ثبوت روز کے اخبارات ہیں غریب لِکھاریوں اور مفلوک الحال اخبارات کے لئے مُختص کردہ  فنڈ   ہے جو کہ لاکھوں گھروں کے چولہے گرم رکھے ہوئے ہے ۔ اُمید کرتا ہوں  کہ یہ دریا دِلی جلد ہی میری جیب کا رستہ بھی دیکھے گی۔ میری جیب کہ جِس میں آج تک خُشک  کی سالی  غُربت ہی ناچتی رہی ہے۔ مگر اب  دولت کی بہاریں بھی دیکھ پائے گی ۔بس ایک بار۔۔۔۔

  

4 comments:

  1. u've improved ur style ,a lot !!
    my best wishes are with you !!
    may you get satisfaction with your this job and get better chance to express your inner in a more exciting ,attracting way of writing !!

    ReplyDelete
  2. شہباز ریمبو دی ڈینگی کِلر
    بہت اعلی۔
    جناب اگر ہو سکے تو فونٹ ٹھیک کریں۔
    اچھی تحریر کا لطف خراب ہو جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  3. ادھر دمادی کے قصے ادھر انعام پانے کی خواہش
    :)
    ابھی تک کسی شہباز کے ممولے نے آپکا بلاگ وزٹ نہیں کیا
    :)

    ReplyDelete
  4. یہ نہ تھی ہماری قِسمت کہ۔۔۔۔

    ReplyDelete