Sunday 8 April 2012

BATAA TERY RAZA KIA HAI by Dohra Hai


 اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی ہی ٹانگوں میں سے گُزار کر کانوںتک پہنچانے کی مشق کا خیال دِل مِیں آتے ہی مُجھ جیسے بہت سے سرکاری میڈیم زدہ لوگ سکول کے کلاس روموں میں گُم ہو جاتے ہیں ۔ہمارے  بزرگوں نے ہمیں اس عمل کا نام مُرغا بننا بتایا ۔اب اس سوال کا جواب کوئی محقق ہی دے سکتا ہے کہ مُرغی کا مُذکرپہلے دُنیا میں آیا یا ۔۔۔۔۔ اس یوگا نُما مشق کا زیادہ استعمال اسکولوں میں بہتر نتائج کے لئے کیا جاتا ہے۔ ہمارے اُردو کےماسٹر جی  بھی  اس ہتھیا ر کا استعمال بڑی مہارت سے کرتےتھے۔ وہ صاحب ذوق شخصیت تھے اکژ اپنا پسندیدہ شعر گُنگُناتے تھے
چار کِتاباں آسمانوں اُتریاں پنجواں اُتریا ڈنڈا
چار کِتاباں کُجھ نہ کیتا ڈنڈا کیتاسیدھا
یہ شعر محض گُنگُنانے کے لئے نہیں تھا بلکہ اس پر مُکمل عمل بھی ہوتا تھا۔ بس یہی تھےوہ حالات جنمیں ہم نے ماسٹر جی سے حضرت عِلامہ اِقبال کو پڑہا بلکہ سمجھا۔ جب کِسی شاگرد کو قریباً بیس منٹ تک مُرغا بنا یا جاتا تو موصوف کے دماغ کی تمام بند الماریوں کے قُفل کھُل جاتے،اور پھر بید کی لچک دار چھڑی بِنا آوازکےپتلی کمریا پر نشان چھوڑتی،تو پورا شعر بمعہ تشریح اُن الماریوں کے خانوںمیں نہایت سلیقے سے فِٹ ہو جاتا تھا نہ ایک سوتر زیادہ نہ کم۔ 
  جب ہم  نے عملی زندگی کو رونق بخشی  تواس ظالم دُنیا نے بھی ہم پر وہی ماسٹر جی والا کُلیہ ہی آزمایا مگرقدرے ہا ئی  ڈوزکے ساتھ۔ فِکرِ مُعاش  کی دوڑ دھوپ میں اقبال ، اُسکا فلسفہ  خودی ، اور فِکرِ اقبال کُچھ ایسی گُم ہوئی جیسے 
سرکاری دفتر میں کوئِ قیمتی فائل گُم ہوجاتی ہے۔

مگر ہماے یہاں ٹیلنٹ کی کمی تھوڑا ہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اقبال کی فِکر اورفلسفے کا بہت باریک بینی کے ساتھ مُطالعہ کیا اور جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اِس میں ترمیم و اضافےبھی کئے۔ جیسے کہ ہمارے سیاستدان ،جِنہوں نے اقبال کے کہے پر من و عن عمل کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری میں" جمہوری تماشہ" کا ذِکر کیا ہے تو ہماری سیاسی اشرافیہ نے نت نئے جمہوری تماشے کر کے دِکھائے اور جمہوریت کا ایسا ماڈل ڈیزائن کیا کہ پوری دُنیا میں کوئی شلوار نہیں ملتی جو ان ننگی ٹانگوں کی ستر پوشی کر سکے ۔ جہاں تک قمیض کا تعلق ہے تو جمہوریت کے تخلیق کُندگان،اہلِ مغرب نےاسے رکھا ہی ٹاپ لیس ہے۔  البتہ جمہوریت کی شلوار سے چھیڑ خانی ہمارے ہاں ہی ہوئی ہے۔
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیا ست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہ افلاک
ہماری ہاں کی اشرافیہ میں بیوروکریٹس کا ایک اہم مقام ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ، ذہین اور فِکری استطاعت کے حامل یہ افراد معاشرے کا سب سے اہم طبقہ ہیں۔ اس طبقے نے اقبال کا خوب باریک بینی سے مُطالعہ کیا، بدلے ہوئے زمانے کے انداز کو بھی ملحوظ خاطر رکھا، نئے راگ کے لئے ساز بھی بدلے اور آواز بھی۔اور یوں اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھا۔ اقبال کی شاعری میں بہتری اور جِدت بھی پیدا کی
خودکوکر بُلند اِتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے      
خلقِ خُدا تُجھ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

پاک سرزمین کے مُحافظ ہماری اشرافیہ کی لِسٹ کو سدا سے لیڈ کررہے ہیں۔ اقبال سےان کی بھی جزباتی وابستگی ہے۔ البتہ کُچھ ردوبدل بوقتِ ضرورت محض سٹریٹیجک پلیننگ کے لئے ناگزیر ہے۔ حضرت اِقبال نے فرمایا:


نہیں تیرا نشیمن قصرِسُلطانی  کے گُنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
عسکری قیادت کی وار سٹریٹیجی میں اس شعر کو مرکزی خیال کی حیثیت حاصل ہے ۔ بس تھوڑی سی سمارٹ نیس دِکھائی گئِ ہے،شائد تنقید کرنے والوں کو وہ کُچھ اوور لگتی ہو۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر شاہین بنا کے بٹھا دئے طا لبانی اور خود کے لئے قصرِ سُلطانی کے ڈرائنگ روم۔آفڑ آل وار میں کیمو فلاج بھی اِک سود مند لائحہ عمل ہے۔  


            

4 comments:

  1. یہ قصر سلطانی کے گنبد والا شعر اقبال کا نہیں ہے
    اور اصل شعر یوں ہے کہ
    نہیں ہے تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
    تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

    ReplyDelete
    Replies
    1. تصحیح کا بہت بہت شُکریہ

      Delete
  2. ہا شاید اقبال کا ہی ہے

    ReplyDelete
  3. بہت ہی خوفناک قسم کی تحریر لکھی ہے جی، اسکو پڑھ کر تو بچے اسکول جانے کا پروغرام ترک کردیں وہ تو اچھا ہے کہ پڑھنے والے وہ ہیں جن کے پروغرام میں مذید اسکول جانا نہیں ہے

    ReplyDelete