Saturday 10 March 2012

TREPERTERIA VIRUS by Dohra Hai


 یہ بیسویں ترمیم مُجھے بالکُل بھی ہضم نہیں ہورہی پتا نہیں کیوں اس سے مُجھے کچھ سازش اور ذاتی مُفاد کی بو آتی ہے مگر میں نے جس کِسی سے بھی اپنےخدشات کا ذِکر کیا تو سُننے والے نے میری بات دو  ٹوک رد کی اور اس ترمیم کو تاریخی درجات عطا کرتے ہوءے اس کے  دور رس مُثبت نتائج کی شُنید سُنائی مگر میرا دِل تھا کہ مانتا ہی نہ تھا۔ اِک بدبو سی تھی جو اس حوالے سے میرے دل و دماغ کا گھیراوء کئے ہوئے تھی۔ کل رات گیارہ بجے میں نے آپس کی بات کرنے والے  جوگی بابا کا پروگرام ٹیون کیا تو اِنہیں اس ترمیم کے حق میں دلائل دیتے اور اس کی خوشبووءں کا پُراثر تعارفی سپرے کرتے پایا ۔ بس پھر کیا مُجھے تو یقین ہو چلا کہ میری سونگھنے کی حس کِسی خطرناک بیماری کا شکار ہو چلی ہے۔ یہاں اِک بات بتاتا چلوں کہ میں جوگی بابا کا پروگرام روزانہ لگاتا ہوں مگر یہ میری مجبوری ہے کیونکہ ان کی مہورت ٹی وی پر دیکھ کر ہی میرا تین سالہ بیٹا سہم کر اپنے بسترمیں دُبکتا ہے۔بحر حال اس دِن تو بابا جی نے مُجھے بھی  خوف زدہ کردیا۔  کروٹیں بدل بدل کر رات  گُزاری ۔ اور دِن چڑہتے ہی دفتر کی بجائے ڈاکٹر کی راہ لی۔

قسمت اچھی تھی میری، ڈاکٹر صاحب دُکان کی جھاڑ پونجھ کر کے بس ابھی کُرسی  پر بیٹھے ہی تھے۔ میں نے موقع جانتے ہوءے اپنی ساری کی ساری تکلیف ایک ہی سانس میں اُن سے کہ ڈالی۔ بحرحال ڈاکٹر صاحب نے میرا مسئلہ نہائت تحمل اور صبر سے سُنا ۔ چند سیکنڈ کا توقف کیا اور پھر بڑے پرسکون انداز میں بولے کہ فکر کی کوئی ایسی بات نہیں ہے آپ پر تریپرٹیریا وائرس نے حملہ کیا ہے۔ اتنا جدید اور مُشکل نام جیسے ہی میرے کانوں سے ٹکرایا بس مُجھےتو اپنے پیر  قبرمیں دھنستے ہوءے محسوس ہوءے۔ جسم سے جان باہرکو بھاگنے لگی بڑی مُشکل سے اُسے بدن میں واپس دھکیلا۔ دو چار لمبے لمبے سانس لئے جب یقین ہو چلا کہ زندگی کے آثار ابھی موجود ہیں تو پھر سے گویا ہوا۔"ڈاکٹرصاحب یہ بیماری کتنی خطرناک ہے  کہاں سے آئی ہےاور اس کا علاج کیا ہے۔" تین سوال ایک ساتھ میں نے جڑ دئے۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی پرسکون انداز میں کُرسی سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور اُن کی نظریں مُجھ پر جمی ہوءی تھیں۔ غالبا وہ میری حرکات و سکنات  کو انجوائے کر رہے تھے۔ میرے سوالات سُن کر ہلکی سی مُسکراہٹ اُن کے چہرے پرنمو دار ہوئی اور وہ بولے۔"دیکھیں آپ زیادہ پریشان نہ ہوں یہ کوئِ خطرناک بیماری نہیں ہے۔ البتہ نِئ ضرور ہے تاہم اس کی روک تھام کے لئے ہمارے شاہی خاندانوں نے ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں اور اُمید کی جارہی ہے کہ جلد ہی اس وائیرس پر قابو پا لیا جائے گا اور جہاں تک تعلق ہے کہ یہ وائرس آیا کہاں سے تو اِس بارے میں وثوق سے تو کُچھ نہیں کہا جاسکتا مگر امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاہی اصطبلوں میں اس کی پیدائش ہوئِ ہے کیونکہ بہت سے گھوڑوں میں یہی والے جراثیم پائے گئے ہیں۔مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمارے شاہی خاندانوں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے اپنے اصطبلوں کی دیواریں اُونچی کروا لی ہیں اور چارہ کی مقدار اور کوالٹی بھی بہتر کر دی ہے۔ باہر سے چند مہنگے ترین  خوشبو سپرے منگوا کر ٹی وی والوں کو دے دئے گئے ہیں تاکہ وہ ہر وقت چینلز پر سپرے کی پھُس پھُس کرتے رہیں تاکہ عوام کہیں کوئی بدبو محسوس نہ کریں ، مُطمئن رہیں اور اُن میں مایوسی نہ پھیلے۔

میر اگلا سوال اس بیماری کی علامات کے مُتعلق تھا اور ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا کہ ساری وُہی علامات ہیں جو آپ میں اس وقت موجود ہیں مثلاْ تبدیلی کی تڑپ پیدا ہوجانا، موجودہ سیاسی خاندانوں سے بغاوت کا جزبہ بیدار ہونا، خاندانی سیاست اور کاروباری سیاست کو اِک روگ سمجھنے لگنا وغیرہ وغیرہ۔ ڈاکٹر صاحب نے مُجھے اس کی روک تھام کے لئے چند احتیاطی تدابیر سے بھی آگاہ کیا۔ جو درج ذیل ہیں۔

۱۔ کسی بھِی نئے سیاسی چہرے کی بات نہ سُنی جاءے خواہ وہ کِتنا ہی مشہور اور نسبتا بہتر کردار کا ہو۔
۲۔ شاہی جمہوری خاندانوں کی بات کو پورے غور سے سُننا اور ہر بات پر سر تسلیم خم کرنا
۳۔ اس بات کا خود کو قائل کرنا کہ تبدیلی کی ضرورت نہیں کیونکہ تبدیلی تو آچُکی ہے۔
۴۔ جو بندہ جمہوری شاہی پارٹی چھوڑ جائے اُسے لوٹا قرار دینا اور جو باہر کہیں سے آجاءے اُسے جپھیاں ڈالنا
۵۔ خود کو اِس عقیدے پر سختی  قائم رکھنا کہ حکومت صرف تجربہ کار اور پہلے سے آزمائے ہوءے ہی کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی احتیاطی تدابیر سُننے کے دوران اچانک ہی مُجھے گامے قصائی کی بات یاد آگئی ۔ ابھی کل ہی میں گوشت لینے اُس کی ُدکان پرگیا تھا تو وہ بھی کِسی اسی طرح کے نئے وائرس کا ذکر کر رہا تھا اورکِسی مولوی کا حوالہ دیتے ہوئے بتا رہا تھا کہ یہ وائرس یہودیوں نے ہمارے یہاں چھوڑا ہے۔ مُجھ سے رہا نہ گیا اورمیں نے یہ سوال بھی ڈاکٹر صاحب سے کر ڈالا۔ ڈاکٹر صاحب نے دورانِ مُلاقات پہلی بار زور دار قہقہہ لگایا اور بولے کہ یار ہمارے ہاں جِتنی گندگی اور غلاظت ہے یہاں پر بیرونی وائیرسز کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ویسے  بھی باہر کے وائرس اِتنی گندگی میں سروائیو نہیں کر سکتے۔ میرا  ڈاکٹر صاحب سے آخری سوال اس مرض کے نُقصانات کے مُتعلق تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کُچھ اُکتاتے ہوئے سہی مگرجواب سیر حاصل دے ڈالا۔ اُن کا کہنا تھا ۔ پچھلے چونسٹھ سالوں سے ہمارے یہاں کِتنے وائرسز آءے ختم ہو گئے اور اُن کی جگہ نئے وائرسز نے لے لی۔مگر ہم جیسے تھے جہاں تھے وہیں کے وہیں رہے۔ ہماری قوتِ مُدافعت بہت مضبوط ہو چُکی ہے۔ ہمیں بھلا اس وائرس سے کیا نُقصان ہونا ہے , بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس ہم پر کُچھ مُثبت اثرات چھوڑجائے یا پھر ہمارے دماغ اس نئے وایرس کا ڈیٹا بھی اپنے پاس محفوظ کر لیں۔ اصل میں تریپرٹیریا وائرس سے خطرہ جمہوری شاہی خاندانوں کو ہےکیونکہ وہ اِتنے نازک افراد ہوتے ہیں کہ ذدا سی دھول  اُڑتی ہے تو اُن کو ڈسٹ الرجی کا عارضہ ہو جاتا ہےاور وہ اپنی موت کے خوف میں مُبتلا ہو جاتے ہیں

2 comments:

  1. یار تو بہت سیاسی ہوگیا ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. یار میں تو کمبل چھوڑنے کی کوشش کرتا ہوں کمبلمیرے سر سے چِمٹا ہوا ہےچھوڑتا ہی نہیں

      Delete