Monday 28 July 2014

آج تو میرا روزہ ہے

تیزی سے رقص کرتی ہوئی اُنگلیاں رُکیں ،ہتھیلیاں کی بورڈ  پر ایسے گِریں جیسے تھک ٹوٹ 

کر جِسم بستر پر گِرتا ہے۔اُس نے کُرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے جسم  کوڈھیلا چھوڑ دیا۔ چند 

سیکنڈز بعد  بند آنکھیں کھولتے ہوئے  اپنی میز کے دائیں کونے کو چھوتے ستون پر لگی گھڑی 

پر نظر ڈالی ۔دونوں سوئیاں اُفقی سیدھ پر،جیسے ہشاش بشاش سپاہی کھڑاک سے سلیوٹ مارنے 

کو ہو۔ شام کے چھے بج گئے ،یہ سوچ کر اُس کے کندھے مزید ڈھلک گئے۔ کرسی کو پیچھے 

دھکیل  کر اُسنے کھڑکی کی بلائنڈز اُٹھائیں مارگلہ کی پہاڑیوں پر نئے نکور سبز کپڑے پہنے  

ہوئے درختوں سے سورج سرگوشی کرتا نظر آیا۔ گیت گاتے رقص کرتے ہوئے یہ 

پیڑبھی  اُس کے لبوں پر مُسکراہٹ نہ لا سکے۔اِس ہوا بند ہا ل  میں درختوں کے  گیتوں 

کے میٹھے بول اندر آ بھی تو نہ سکتے تھے اور پھِر اُسکا تھکا ہوا ذہن کل کی پریزنٹیشن میں گُم تھا 

۔ اُس نے ہال میں نظر دوڑائی تمام ورک سٹیشن خالی تھے ،مگر آخری کُرسی پر بیٹھی شگفتہ پر 

نظر پڑتے ہی اُسکا چہرہ کھِل اُٹھا۔گھریلو سی  لڑکی کی طرح  اپنے بالوں کو  ماتھے  تک دوپٹے 

میں چھُپائے   ،نظریں نیچی جیسے پیر سے ملے پیر  کے بِنا پالش ناخنوں پر جمی  ہوں۔ ایک ہاتھ 

میں موبائل  دوسرے  ہاتھ کی مُٹھی نیم  بند جیسے  اُنگلیوں پر کوئی وظیفہ کر رہی ہو۔ اُسکے 

معصوم چہرے پر بڑی بڑ ی آنکھیں غضب ڈھانے کو  کافی تھیں ۔ "آپ  ابھی گئی نہیں"؟   

یہ سوال سُن کر شگفتہ چونکی  اور گھبراہٹ پر قابو پاتے  ہوئے بولی "جی ابو کا اِنتظار کر رہی 

ہوں  آج کُچھ لیٹ ہوگئے ہیں سات بجے تک  آئیں گے"۔ وہ لمبے ڈگ بھرتا ہوا شگفتہ 

کے  پاس  آپہنچا ۔  پِچھلے تین دِنوں سے وہ    شگفتہ سے بات کرنے کا موقع  ڈھونڈ رہا تھا ۔ 


بہار کی  تازہ کلی  جیسی شگفتہ کو اپنا پہلا آفس جوائین کئےہوئے 

آج تیسرا  دِن ہی توتھا۔ وہ  آفس  میں کھِلی اِس نئی کلی کا ایسے انٹرویو  لینے لگا جیسے  کسی 

میٹری مونیل سائٹ میں اشتہار لگاناہو۔یہ  کام بھی تو ضروری تھا اگلے دن اپنے کولیگز پر رعب 

جھاڑنے کو مال مصالحہ بھی توچاہئے تھا۔دِلپشوری  کے کھیل کا  ایک الگ سا  ہی سواد  ہوتا 

ہے ۔ یہ کھیل بھی ٹیم ورک  سے کھیلا جاتا ہے   ، آپس میں لمبے پاس دیکر بڑی محنت سے 

پوزیشن بنائی جاتی ہے مگر  فتح   کا جشن بس گول   کرنے والا  ہی مناتا ہے  ۔چند  مِنٹو ں 

کے انٹرویو  سے اُسے مخالف  کھلاڑی کی کمزویوں اور خوبیوں کا اچھا خاصا مواد مِل گیا ۔ ایک 

ماہر کھلاڑی  کی طرح مُخالف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالےوہ اپنے کھیل  کے 

جوہر دِکھانے لگا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کا ایم بی اے ، اِسلامک سے ایم ایس اور پھر تین 

 پرومشنز  کے ساتھ آٹھ سالہ   شاندار جاب ایکسپرئنس  ۔ یہ سب کُچھ گِناتے ہوئے اُس 

 نے شگفتہ کو ہر مُمکن تعاون  کی یقین دہانی بھی کرا ڈالی۔اُسکی طرف سے شیریں جملوں 

کے  لچھے دار حملے    اجنبیتکے حفاظتی خو ل  پرہونے لگے ۔لڑکی کا حفاظتی خو ل 

توڑنا ہی  تو اصل کمال ہوتا ہے اور اِس کام میں نعیم کالج لائف سے بڑا فنکار  مانا جاتا تھا۔ اپنے 

 پہلے شو  کی کامیابی کے  احساس سے اُس کے چہرے پر طمانیت نظر آنے لگی۔اِسی دوران 

اُس نے شگفتہکو چائے پکوڑوں کی آفر بھی کر ڈالی ۔مگر اگلے ہی  لمحے وہ سر جھٹکتا ہوا فورا  

سے اپنی آستینیں چڑہانے لگا ۔ عصر کی  نماز کےچھُٹنے کا سوچ کر چہرے پر طمانیت کی جگہ پشیمانی 

کےتاثراتچھاگئے۔بہت  کم ہوا کہ اُس کی نما ز قضا ہو اور عصر کی نماز تو وہ  ہمیشہ  

وقت پر ہی ادا کرتا تھا ۔ اپنی ٹائی کی ناٹ کھولتے ہوئےاُس نے ندیم کو  زور سے آواز دی۔ ندیم 

فوٹو کاپئر مشین پردھڑادھڑ  سیٹ بناتا   ہوااپنا کام ختم کرنے کی جلدی میں تھا۔  وہ  آیا جی 

نعیم صاحب کہتا ہوا اُس کے پاس پہنچا۔   ندیم  کے ہاتھ میں پیسے پکڑاتے ہوئےوہ بولا 

"یار ندیم  چاچے کرمو کو میں نے  گاڑی پر کپڑا مارنے   نیچےبھیجا ہے تو بھاگتا  جا اور گرما گرم 

تین کپ چائے اور   آدھ کلو پکوڑے لے آ،جا شاباش منٹ مار " ندیم نفی میں سر ہلاتے 

ہوئےجواب دیا"نہیں سر جی آج تو میرا روزہ ہے"جھٹ  سے ندیم کے اِنکار پر اپنی ناگواری  

چھپاتے ہوئے  نعیم بولا "او چھوڑ یار روزےکا کیا ہے توکل پھر رکھ  لینا   ابھی جا چائے 

پکوڑ  ےلیکر آ"۔دوسری بار  ندیم  کا اِنکار قدرےسخت الفاظ میں تھا۔لڑکی کے سامنے 

ایسی خفت     وہ بھی ایک فوٹو کاپئر آپریٹر سے، جِسکی  نعیم    کو ہر گِزتوقع نہ تھی۔حقارت  بھری 

نظروں سے ندیم کی طرف  دیکھتے  اُسے نے طنز یہ انداز میں  بولا"پہلے اپنا قبلہ درست کرلے پھر روزے 

کےبارے میں سوچنا  ، جب ایمان ہی نہ ہو تو روزہ کِس کام کا"۔۔ ندیم جواب دینے کی 

بجائے ہاتھ میں پکڑے پیسے نعیم کے مُنہ پر  پھینکتا ہوا   بڑی تیزی سے باہر  کی طرف نِکل گیا ۔ 

ندیم کو آوازیں دیکر   چاچا کرمو روکتا رہا جو اِس دوران ہال میں پہنچ چُکا تھا۔

 ندیم غُصے میں تیزی سے سیڑہیاں اُتر کر بِلڈنگ سے باہر آگیا۔ اُسکا  دماغ لاوے کی طرح اُبل 

رہا تھا  ۔ باہر سڑک پر آکر اُسمیں چلنے کی ہمت بھی  نہ رہی تھی۔ وہ   کُچھ دیر  بُت 

بنا کھڑا رہا  اورپھِر آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا   ہوااپنے راستے کو ہو لیا ۔غُصے میں دانت دبائے  دائیں 

ہاتھ  سے مُکا بنائے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا جاتا اور نعیم  صاحب کوجی بھر کی  گالیاں  

دئے جا رہا تھا  ۔ ندیم نے پکا فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یہ نوکر ی چھوڑ دے گا۔ وہ   راستے  

میں آتی مسجدکے پاس ہی پہنچا  تھا  اذان کی آواز آنے لگی ۔  وہ سر اُٹھا کر  مسجد کے  اونچے 

مینار پر لگے لاؤڈ سپیکر کی طرف دیکھنے لگا۔پیچھے سے  کِسی نے ندیم کے کندھے پر ہاتھ رکھا  

۔ لمبی سفید داڑھی  نورانی  چہر ہ  ، یہ چاچا کرمو تھے۔ انہوں نے ندیم کو گلے لگایا اور 

بولے۔" پُتر نفس کے گھوڑے کو  ضبط کی لگام پہنانے کا نام  ہی تو روزہ ہے۔ہوس اور 

  دکھاوے   کےجنون نے اِنسان کو اندھا کر دیا ہے۔  جیسے   خوبصورت نظر آتی  نائلون 

کی چادر  پر بارش کا پانی   پھسلتا جا تا ہے   ایسے ہی  برتر  اور بہتر  نظر  آنے 

 کے خبط کا مارا   ،               رب دے سوہنیاں بندیاں دی بات ککھ سمجھ نہیں  پاتا۔ 

میرے چاند سے بچے اللہ تجھے ہر

میدان میں کامیاب کرے میں نماز پڑہ کر تیرے حق میں دُعا کروں گا تو روزہ کھول کر  

سے میرے لئے  دُعا کرنا۔"  چاچا کرمو   ندیم  کا دائیاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں 

دبائے   اُسے تلقین کرتے ہوئے مسجد  کو چل دیئے۔ ندیم  اپنیجگہ کھڑا سوچنے لگا  کہ چا چا 

کرموکِتنے نیک اِنسان ہیں ،میں  اِس   ایسٹر پر چاچا کرمو کے لئےخاص طور پر  دُعا  کروں گا خُدا وند 

ہم  سب کو چاچا کرمو جیسا نیک بنا دے۔ 

2 comments:

  1. کامیاب افسانچہ بہت ہی خوبصورت
    بے شمار داد

    ReplyDelete
  2. از احمر

    بہت خوب

    ReplyDelete