Sunday 16 September 2012

گُل خان کے نام


گُل خان ہمارے بڑے صاحب کا سرکاری ڈرائیور ہے۔  وہ اِنتہائی سادہ طبیعت اور خلوص سے بھرا ،کھرا اور پیارا اِنسان ہے۔ وہ خیبر پختونخواہ کے کِسی دور افتادہ گاؤں سے تعلق رکھتا ہے ۔ اِتنا دور کہ بیسوں دفعہ بتائے جانے کے باوجود بھی مُجھے اُس کے گاؤں کا نام یاد نہیں رہتا۔میں اکژ سوچتا ہوں کہ   گُل خان اگر کبھی   برینڈڈ سوٹ  پہنے بازار کا چکر لگائے تو لڑکیاں اُسے بریڈ پِٹ نہیں تو  اُس کا کزن سمجھتے ہوئے آٹو گراف لیتی ہوئی نظر آئیں ۔وہ اپنے کام اوراُس سے جُڑے لوگوں سے اِنتہائی مُخلص ہے۔ میں نے اُسے کبھی بھی کِسی قِسم کی دفتری سیاست کا حِصہ بنتے نہیں دیکھا۔ میرے  آفس کولیگز میں غالباً گُل خان وہ واحد بندہ ہے جِسے میں بے دھڑک اپنے اچھے ساتھیوں یا دوستوں  میں شُمار کر سکتا ہوں۔ فُرصت کے لمحات میں وہ اخبار کا مطالعہ کرتا ہوا پایا جا تا ہے یا پھردُنیا جہاں سے لاتعلق ہوئے کِسی ٹی وی ٹاک شو کا حِصہ بنا ہوا نظر آتا ہے۔ گُل خان جیسے لوگ جہاں بھی ہوں اپنے کِردار کی بُلندی سے ہراِک سے عِزت و احترام پاتے ہیں۔وہ بڑے گہرے سیاسی نظریات رکھتا ہے جِن پر اِسلامی رنگ غالب ہوتا ہے۔   گُل خان کی  سیاست اور حالات حاضرہ پر،  وقت اور حالات کی نز اکت  کو سمجھے بغیر بے لا گ اور طول پکڑتے ہوئے  تبصرے ایک واحد ایسی  عادت ہے جو بسا اوقات  سُننے والے کے لئے سخت کوفت کا باعث  بنتی ہے۔
ابھی کچھ ہی عرصے پہلےگُل خان نے آغا  وقار کی پانی سے گاڑی چلتی دیکھی  تو بس پھِر کیا تھا جناب نے    دو عدد گاڑیاں لیکر کر کرائے پر چلانے کا  خواب بھی دیکھ لیا اور نوکری کو خیر باد کہنے کی پلیننگ بھی کرلی۔  اُس کا کہنا تھا کہ آغا وقار اگر امریکہ میں پیدا ہوتا تو  شائد اب تک نوبل پرائز کا    حق دار ٹھہرتا۔آغا وقار کی مدح سرائی  سے تنگ آکر میں نے نامور کیمیا  دان ،  ڈاکٹر عطا لرحمٰن کی اعلٰی ترین ڈِگریوں اور  اُن کے تحقیقاتی مقالوں    کا رُعب جماتے ہوئے   اُسکی زُبان بندی کی کوشش کی تو  گُل خان نے جواب دیا۔ "صیب اِتنا بڑا کیمیا دان ہوتا تو  ایک محلول  نہ تیار کر لیتا جِس کے غرارے کرنے سے  بندے کی آوازتو مردانہ ہو جاتی " گُل  خان  نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی خاطر  حامد میر  کا سہارا کُچھ اِن الفاظ میں لیا" صیب حامد میر بال کی کھا ل اُتار کر اُسے نچوڑتا ہے  اور پھِر دھوپ میں  سوکنے ڈال دیتا ہے ،   اُس نے  پرویز رشید کے ساتھ بیٹھ کر پانی والی گاڑی خود چلائی ہے   ،پتا نہیں آپ کیا بات کرتا ہے۔"
گُل خان کا کہنا تھا  کہ ہمارے لوگوں میں بہت ٹیلنٹ ہے  جِسکی مثال وہ اپنے ساتھی کے کارنامے سے دیتا ہے جِس نے بقول گُل خان کے گھڑی  اُلٹے رُخ چلا کر اپنی ذہانت و قابلیت  ثابت کی۔ میں نے گُل خان پر اپنی تعلیمی برتری  جتانے کی غرض سے  سوال کیا کہ  گھڑی کلاک وائز چلتی ہے اِس  کے رُخ کو اینٹی کلاک وائز چلانے سے بھلا کیا فائد ہ ہوا؟  گُل خان کا جواب تھا  " صیب آپ کی بات اپنی جگہ ،مگر میرے دوست نے گھڑی کو  دائیاں رُخ دِکھا کر ہماری گھڑی کو اِسلامی  رستے پر چلا دیاہے "۔
پانی گاڑی فیم آغا وقار  کی پولیس کو مطلو ب ہونے کی خبر  جب  سُننے میں آئی تو میں نے  گُل خان کو چھیڑتے ہوئے کہا کہ  یار تمُہارا آغا وقار تو  پولیس کو وانٹڈ رہ چُکا ہے ۔ گُل خان نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں  دو سیکنڈ کی خاموشی اختیار کی اور بولا "مُجھے تو ایک بات معلوم ہے  صیب کہ آغا وقار کو میں وانٹتا ہوں میرے سارے گھر والے وانٹتے ہیں اور پور ا پاکستان وانٹتا ہے"
گُل خان کی انگریزی  میری اور"میرا" کی انگریزی سے شائد ایک دو درجے   ہی کم معیار کی ہوگی لیکن  اُسکے  "اقوال  "اقوال زریں  کے ہم پلہ ہوتے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے بادل چھائے  ہوئے تھے گُل خان باہر سے آیا تو میں نے اُس  سے بارش کے   بارے میں سوال کیا    ۔ اُس کا جواب یہ تھا" صیب بارش تو   پِچھلے دو گھنٹوں سے ہوتا جارہا ہے، کبھی  تیز ہوجاتا ہے کبھی ڈِم ہوجاتاہے۔" گُل خان کے اِس جواب پر سب  خوب قہقہ لگا کر ہنسے۔  اب  میرے ذہن میں پیدا ہونے والے سوال کا جواب تو کوئی  مُفکر ہی دے سکتا ہے کہ دو زبانوں  کے باہم قتل و غارت کا   میدان  جو ہم نے  گرم کر رکھا ہے اِس میں نُقصان بھلا کِس زُبان کا زیادہ ہورہا ہے؟ 

Sunday 9 September 2012

کلچ،ایکسیلیٹر اور بریک


میں جب پہلی بار موٹر سائکل کو چلانے کے اِرادے سے اِس پر سوار ہواتو میرے ایک کزن نے چند مِنٹ پر مُحیط ایک لیکچر دیا ۔ جِس کا آغاز کلچ کے تعارف ، اہمیت  اورمقصد سے ہواپھر ایکسیلیٹر کے  مُتعلق بتایا تیسرے نمبر پر گئر کا تعارف و استعمال اورسب سے آخر میں  بریک کی افادیت پر روشنی ڈالی گئی۔ ایک اہم بات یہ بھی بتائی گئی کہ کلچ اور ایکسیلیٹر کے اِستعمال کے لئے ایک خاص قِسم کی مہارت اور توجہ  درکار ہوتی ہے اس بارے میں معمولی سی لغزش کِسی بڑے نُقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اِس  پانچ سات منٹ کے لیکچر کے بعد میں نے اپنی  تمام تر  توانائیاں یکجا کرتے ہوئے  کلچ دبایا   بائک گئر میں ڈالی پھِر ایکسیلیٹر اور کلچ میں موزوں ربط پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ میر ی یہ  عملی  کوشش  موٹربائک   کو باِلکُل پسند نہ آئی اور جوابی کاروائی میں اُس نے مُجھے   یوں نیچے گِرایا جیسے  ایک چالاک اور تجربہ کا رگھوڑا اناڑی سوار کو اپنی پیٹھ سے نیچے  گِرا تا بلکہ پھینکتا ہے۔

اِسکے چند سالوں بعد جب ہماری  مسجد کے قاری صاحب نے  مُجھ سے موٹر سائکل سیکھنے کی   خواہش ظاہر کی  تو میں نے فوراً  حامی بھرتے ہوئے خود کو مِلا ہوا   وہی لیکچر  پاس اون کر دیا ۔ قاری صاحب  جیسےہی اِس لرننگ  مِشن پر نِکلنے لگے تو  اُن کی ہمت بندہانے کے لئے میں بھی ساتھ ہو لیا۔ ہمارے قاری صاحب اعصابی طور پر بہت مضبوط ثابت ہوئے اُنہوں نے بڑے اعتماد  کے  ساتھ بائک کو گئر میں ڈالا  کلچ اور ایکسیلیڑ میں موزوں ربط پیدا کیا  اور پھر  چل سو چل   ،بات    پانچ مِنٹوں میں چوتھے گئر تک جاپہنچی   جبکہ سپیڈ و میٹر پر سوئی ساٹھ کے ہندسے کو چھونے لگی کہ ا اچانک مُجھے ایوب زرعی ترقیاتی اِدارہ فیصل آباد کی بیرونی دیوار اپنے قریب آتی نظر آئی  ۔ میں نے قاری صاحب  سے سپیڈ سلو کرنے کی درخواست کی جِسکا جواب جناب نے ایک سوال کہ صورت میں دیا  "یار سپیڈ آہستہ کیسے کرنی ہے" تب جا کر مُجھے یاد آیا  کہ   ڈرائیونگ بابت دیئے گئے لیکچر  میں بریک  کا  حِصہ تو میں سہوا چھو ڑ ہی گیا تھا۔بس پھر کیا تھا دوزخ کے داروغے ہاتھ پھیلائے مجھے اپنی طرف بُلاتے صاف نظر آنے لگے ۔ اُس دوران یقینا ہمارے قاری صاحب حوروں ک  کا نظارہ کر رہے ہوں گے بس  اِنہی حوروں میں سے کسِی  ایک حور کو دیکھ کر قاری صاحب جذباتی ہوگئے اور  فُل کلچ دبا بیٹھے    یوں صِراط مُسقیم سے تھوڑ ا سا بھٹکےاور موٹر سائکل سڑک سے نیچے  کھُلے گراؤنڈ میں جاپہنچی۔ قُدرت نے ہم پر احسان یہ  کیا   کہ اُس وقت  گراؤنڈ میں گھُٹنے  گھُٹنے  تک بارش کا پانی  جمع تھا۔

اِسی طرح جب ہمارے  والد نے پہلی بارگاڑی خریدی تو  وہ غالباً اُس گاڑی  کا ہمارے گھر میں تیسرا دِن تھا ۔ میں اپنے جذبات کو  بریک نہ لگا سکا  اور اپنے چھوٹے بھائیوں پر کُچھ رعب جمانے کے چکر میں  پورچ میں کھڑی گاڑی کو سٹارٹ کئے گئر میں ڈال بیٹھا ۔ مگر جیسے  ہی میں نے کلچ چھوڑا   تو گاڑی دو عدد جھٹکے کھاتی ہوئی  ادھ کھُلے مین گیٹ میں جا لگی  ۔گاڑی کے بمپر  پر  ایک عدد ڈینٹ پڑا  جو کہ اگلے کئی سال تک میر امُنہ چڑہاتا رہا۔ اِس واقعے کے فوراً  بعد  میرے  والد  نے مجھ پر اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے پر بین لگا دیا۔ یہ سخت ترین   فیصلہ  سُنتے ہی میرے دِماغ نے سے جو توانائی حرارت بن کر  خارج ہو ئی اُسے میں نے بغیر کلچ دبائے ایکسیلٹر دیتے ہوئے زبان کے رستے  اِن الفاظ میں  ہوائی لہروں کے سپرد کیا"ٹھیک ہے اب گاڑی میں تب ہی چلاؤں گا جب وہ میری اپنی ہوگی "۔  اِس بات کو سترہ سال بیت چُکے ہیں  ۔ والد صاحب  کی گاڑی کا کلچ پھِر کبھی دبا یا  نہیں اور اپنی اب تک خرید پایا نہیں۔

اپنی ہی زِندگی سے جُڑے کلچ بریک  سے سجے یہ واقعات نہ جانے کیوں سِتمبر کے آغاز  ہی  میں مُجھے یاد آنے لگے۔ ایسا ہی موسم تھا یہی مہینہ اور لگ بھگ یہی تاریخیں مگر اُس وقت کو بیتے پورے سینتالیس سال ہو چلے ہیں جب ہمارے "موروثی دُشمن " نے ہم پر رات کے  اندھیرے  میں حملہ کیا تھا۔
اِس جنگ کے جُڑے کُچھ واقعات بتاتے ہوئے گوہر ایوب  فرماتے ہیں ۔ ہندُستان کے حملے کے جواب میں  ہم نے کھیم کرن کے مقام پر حملے کا ایک  منصوبہ بنایا تھا  جِس کی منظوری جنرل ایوب خان نے خود دی تھی اور وہ اِس  آپریشن بارے میں بہت پُر اُمید تھے۔ کھیم کرن (قصور سے ملحقہ عِلاقہ) کے مُحاظ  پر ہم پیش قدمی کر رہے تھے ۔ایک نہر کے پُل پر سے گزرتے ہوئے ایک ڈرائیور نے کلچ دبا دیااور ٹینک وہیں پھنس گیا ۔ پُل مزید بوجھ برداشت نہ کر سکا اور ٹوٹ گیا  ہمیں پُل مُرمت کرتے ہوئے چھتیس گھنٹے لگ گئے فیلڈ مارشل بار بار  پُل کی مُرمت بارے میں پوچھتے رہے مگر اِس دوران ہندُستان  والوں  نے دریا جِتنی بڑی  مادھو پور نہر کو توڑ کر پورے عِلاقے میں سیلاب کی سی کیفیت پیدا کر دی   ۔ ہم وہا ں بُری طرح پھنس گئے اور یو ں یہ جنگ 11 ستمبر ہی کو ختم ہوگئی۔ الطاف گوہر  نے بھی اپنی کِتاب " فوجی راج کے دس سال "میں  اِ س واقعے کو تفصیل سے بیان کیاہے ۔

Saturday 1 September 2012

غبی اور کُند ذہن


میں سکول دور سے ہی اِس  قِسم کے القابات کو سینے پر سجائےہوئے ہوں ۔لاکھ کوششوں  کے باوجود اِن  سے چھُٹکاراحاصل نہیں کرپایا ۔ چھُٹکارا بھلا  پاتا بھی  کیسے ۔ یہ فہم و فراست ، تدبر اور بات کی سطح کو پھاڑ کر اِس کی گہرائی میں غوطہ لگانے کی اہلیت میں  خود میں  پیدا کر ہی نہ پایا اور سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بقیہ زِندگی میں اِس کی توقع رکھنا  میری خام خیالی ہی ہو سکتی ہے ۔سادہ سے سادہ بات کو سمجھنے میں مُجھے وقت درکار ہوتا ہے مگر اکثر وقت بیچارا   بھی میری مدد سے قاصر رہتا ہے۔
میں جب بھی بازار سے گُزرتا ہوں اور کِسی نالے والی دیوار پر یہ فِقرہ لِکھا دیکھتا ہوں " وہ دیکھو کُتا پیشاب کر رہا ہے" تو میری آنکھیں ہمیشہ اُس اِنتہائی ٹرینڈ آوارہ کتے کو دیکھنے کے لئے حرکت میں آتی ہیں جوہمیشہ اپنے لئے مخصوص  کی ہوئی اِس جگہ آکر پیشاب کرتا ہے مگر میں آج تک  ایسا آوارہ   ٹرینڈ کُتا دیکھنے میں کامیاب نہیں ہوپایاالبتہ  اپنی طرح کے انسانوں کو ہی۔۔۔۔۔۔۔
اِسی طرح سکول میں اُستاد جی کے سِکھائے ہوئے محاورے بھی مُجھے سمجھ نہیں آتے تھے ۔ اب آپ اِس محاورے ہی کو لیں "اُلٹاچور کوتوال کو ڈانٹے " میرا کمزور ذہن  ہمیشہ اِس بات کو سمجھنے میں ناکام رہا  کہ یہ اُلٹا چور کوتوال کو کیسے ڈانٹتا ہے۔ پھِر میرے ذہن میں بھارتی فِلموں کے سین دوڑنے لگتے جِس میں کوتوال  صاحب ایک چور کو اُلٹا لٹکائے چھِتر پریڈ کرتے ہیں۔ مگر میں آج تک سمجھ نہ پایا کہ یہ  رسیوں سے  بندھا ہوا  اُلٹا لٹکا ہوا  اور  مار کھاتا ہوا  بیچارا چور بھلا  اِس   موٹی توند والے جابر کوتوال کو ڈانٹ کیسے سکتا ہے۔
میں جب آٹھویں کلاس میں تھا تو ہمارے اُستاد نے مُجھ جیسے کمزور بچوں کو تینتس نمبروں کا سنگِ میل عبور کرنے کے لئے ایک ٹیسٹ پیپر تجویز کیا اگر میں غلط نہیں ہوں تو غالباًاُس کا نام درسی  ماڈل ٹیسٹ پیپر تھا۔  بھلا ہو اُس  ٹیسٹ پیپر  کے  "موجد " کا   ، آج بھی اُس کے لئے  دِل سے دعا نِکلتی ہے  ۔ اُس کی انتھک محنت  سے تیا ر ہوا   نُسخہ   کہ جِسے  مُجھ جیسے للو پرساد بھی    رٹ رٹا کر  امتحانی  میدان مار لیتے تھے۔ ہمارے سکو ل  کے نتائج میں پاس ہونے کا تناست  سو فیصدی سے کبھی کم  نہ ہوا تھا ۔ اِس کا سہرا ٹیچروں کی بجائے    اِس  ماڈل ٹیسٹ پیپر  کے سر  ہی جاتا تھا۔ اُس تاریخی  ٹیسٹ پیپر کے بیک پیج پر اِک ہیڈ لائن تھی "نقالوں سےہوشیار" اور اُس کے نیچے لِکھا ہوا تھا "چور بھی کہے چور چور چور" میں آج تک اُس  چور کے چور چور کہنے کی منطق کو بھی نہیں سمجھ پایا۔ چور بھلا کیوں کرے شور شور شور۔
میں آج بھی وہیں کھڑا ہوں عقل سے پید ل  ۔ اب آج کل کی خبروں میں  چوہدری نِثار ہی کو دیکھ لیں  جناب ایک  لِسٹ تیار کئے ہوئے ہیں  اُن صحافیوں کی کہ جِن پر حکومت خصوصی  طور پر مہربان ہے اور اِس مہربانی میں حاتم طائی کی پیروری کرنے  کا پروگرام بنائے ہوئے ہے۔ یہ چوہدری صاحب کا خوامخواہ کا شور میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ میں اپنی کم عقلی  کے باعث  تو بس اِتنا ہی  سمجھ پایا ہوں کہ حکومت اگر  پِچھلے پانچ سالوں میں کوئی ایک عددہی  نیک کام کا اِرادہ  کئے ہوئے ہے تو ہمیں   اِس نیک کام میں حکومت کا  ساتھ دینا چاہئے  اور اِ سی میں ہم سب کی  بھلائی ہے  ہو سکتا ہے کہ کل کلاں یہ نیکی ہم بلاگرز کےگھر تک آن پہنچے۔ اِسے کہتے ہیں کہ نیکی کر اور پھِر اُسکی توقع رکھ ۔
ہمارے ایک بہت پُرانے دوست ہیں  بلاگرز کی دُنیا کا بہت بڑا نام  ، اپنے دِل کا حال اِنتہائی خوبصورتی سے سُناتے ہیں۔ اکژ مُجھ سےکہتے کہ کی " یار تو بہت سیاسی ہوگیا ہے"۔  وہ درست کہتے ہیں مگر میں آج ایک بات کہنا چاہوں گا کہ میں  سیاسی ہونے کے باوجود میں  اِس سیاست سے  آج تک کُچھ سیکھ نا پایا کیونکہ میں ٹھہرا ایک "غبی اور کُند ذہن"۔ ویسے جاتے جاتے میں ایک اور کم عقل  اور نا  سمجھ کا   ذِکر کرتا جاؤں جو کہ ہمارے چیف جسٹس جناب اِفتخار محمد چوہدری کے گھر لگ بھگ چونتیس سال پہلے  پیدا ہوا ۔