Sunday 29 April 2012

KHATTAY MEETHAY SIYASI CHUTKALAY Dohra Hai



 آخر وزیرِاعظم خط کیوں نہیں لکھتے"۔  "ارے بھئی اُنہوں نے  وہ خط  لِکھنے    والا گیت جو سُن رکھا ہے"۔                                                                                       
پیپل کا یہ پتہ نہیں کاغذ کا یہ ٹُکرا نہیں

اسمیں ہماری جان ہے دِل کے بہت ارمان ہیں
پہنچے وہ خط جانے کہاں جانے بنے کیا داستان
اُسپر رقیبوں کا ہے ڈر  لگ جائے اُن کے ہاتھ گر
کِتنا  بُرا انجام ہو مُلک مُفت میں بدنام ہو
جناب  پیرو مُرشد اِس خط ڈرامے کا اینڈ سین بھی بتانے کی صلاحیت رکھتے ہیں                                                                                                                                                         
اِک دِن وہ خط واپس مِلا اور ڈاک بابو نے کہا      
کِسی بنک، تھانے میں  نہیں سارے زمانے میں نہیں                 
  کوئی  اکاوئنٹ   اس نام کا                                                                                                                       
ہم نے سوئس کو خط لکھاخط میں لِکھا۔                                                                   

                      2
مشہور  تجزیہ نگار اور اینکر پرسن طلعت حُسین  نے وزیر اعظم کو  اپنے ایک کالم میں مشورہ دیا ہے  کہ وہ خود کو تمام اِلزامات سے   بڑے آرام سے کلئیر کروا سکتے ہیں بس وہ  اپنے اور اپنے خاندان کے تمام اثاثے عوام کے سامنے پیش کردیں آج  کے بھی اور آج سے چار سال پہلے کے بھی اور اسطرح دودھ کا دودھ اور سیاست  کی سیاست ہو جائے گی۔ جناب پہلی بات  تو  یہ وزیر اعظم صاحب عمران خان کی  طرح کی بچگانہ سیاست کے قائل نہیں ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ جناب گیلانی صاحب  درویش صفت آدمی ہیں ،وہ خود نُمائی  کو بالکُل بھی پسند نہیں کرتے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے  کہ  پِچھلے چار سالوں میں جو کمایا وہ مِل بانٹ کر کھایا اور مِل بانٹ کر کھانے سے رزق میں کئی گُناہ اضافہ ہوتا ہے۔


                                            ہماری قومی اسمبلی کی سیاست  کا یہ پنچ سالہ دورانیہ بس یوں سمجھیں کہ ٹیسٹ  میچ کے آخری دِن  کے  آخری سیشن تک پہنچ چُکا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ آخری سیشن کی پہلی ہی  بال پر اپوزیشن کو ایک کامیابی نصیب ہو گئی ہے اور اور وہ بھی اوپننگ بیٹسمین اور نائب کپتان کی، یوں اُن کے حوصلے کافی بڑھ گئے ہیں اس وِکٹ کے بعد بس ٹیل ہی باقی بچی ہے۔اس  سے پہلے یہ میچ  بہت حد تک ڈرا ہوتا ہی دِکھائی دے رہا تھا۔حکومت تو  میچ  کھیل ہی ڈرا کرنے  کی  نیت سے رہی ہے۔ جبکہ اپوزیشن بھی اپنی کارکردگی سے  شائقین کو مُتاثر نہیں  کرسکی  ۔ بہت سے کیچ چھوڑے گئے اور اہم  موقعوں پر اپنی وِکٹیں  غیرذمہ دارانہ اندز میں گنوائی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین نے اپوزیشن پر میچ فِکس کرنے کا الزام لگایا ۔ ویسے ہونے  کو تو ہمارے ہاں کُچھ بھی  ہو سکتا ہے۔ قِصہ مُختصر  اپوزیشن کو حکومت پر پریشر بناتے ہوئے  بقیہ وِکٹیں لینے کا بہت قیمتی موقع میسر آیا ہے، اور اُمید بھی کی جارہی ہے کہ  اس مرحلے پر   پوزیشن کی خاطر اپوزیشن میچ جیتنے کی  پوری کوشش کرے گی۔ ویسے گیلانی صاحب   ریویو کا  حق رکھتے ہیں مگر  یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ وہ نااہل ہو چُکے ہیں اِس لئے اُنہیں فارغ کر دینا چاہئے۔  اگر دیکھا جائے تو پاکستانی سیاست کا موجودہ   ڈھانچہ ہی اپنی  اہلیت ثابت کرنے میں مُکمل  ناکام رہا  ہے تو کیا بھلا پھر اُسے بھی ۔۔۔۔۔

4
ہمارے خا دم ِاعلٰی صاحب صرف نا  م ہی سے شہباز نہیں بلکہ  کام کے بھی شہباز ہیں ، وہ اپنی نوک دار اُنگلی سے مُخالفین کی آنکھیں نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ دوران تقریر سب سے زیادہ بار اُنگلی ہِلانے کا ریکارڈ  شہباز شریف صاحب  سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ پِچھلے دِنوں  گنیس بُک کے نمائندے شہباز شریف کی تقریر ریکارڈ کرتے پائے گئے ۔ چند دِنوں بعد یہی لوگ   بغل میں   انعام لئےشہباز صاحب کی کُٹیا  کا دروازہ  کھٹکھٹاتے دیکھے گئے۔ پوچھنے والے نے  پوچھا کہ یہ اُنگلی ہِلانے کا  انعام ہے تو جواب مِلا نہیں بلکہ  دُنیا کا امیر ترین خادم ہونے  کا ۔ جسمیں اُنہوں نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔

4 comments:

  1. بہت دلچسپ

    احمر

    ReplyDelete
  2. ویسے دیکھا جائے تو کرکٹ کھیل کیا بدلا ہر چیز بدل کئی ۔ سیاست ہو یا رفاقت ۔ رقابت ہو یا محبت ۔ سب میں جھُل سب میں فِکسنگ ۔ سب میں بال ٹمپرنگ

    ReplyDelete