Wednesday, 22 October 2014

مون سون سٹوڈیو

ترتیب کی لڑی میں اِک سلیقےسے پرویا اُنتیس تیس دِنوں بعد آسمان پر جو جلوہ افروز ہوتا ہے وہ مون کہلاتا ہے اور اُس بے اصولے، من موجی، سال بعد آنے والے گھن چکرکو مون سون کہتے ہیں ۔ مئی جون کی تھپیڑے مارتی ہوئی گردن توڑ گرمی سے بے حال اللہ کی مخلوق ہاتھ اُٹھائے رب سے اُسے  ہی مانگتی ہے ۔ ساون کے آغاز پر جنگل کا مور اور اِنسانی دِل ایک ہی سا ناچتے ہیں ۔ مکیش کا  گانا اِسی کی عکاسی کرتاہے ۔
ساون کا مہینہ پون کرے سور
جیا رارا جھومے ایسے
جیسے بن ما (جنگل میں) ناچے مور
موت کے سرد غُبارے میں بھری حرارت کام نام زندگی ہے ۔حیات  حرارت میں ہےاور حرارت حرکت کی مرہون۔ ٹھنڈے سمندر سے ہوائیں زِندگی کی تلاش میں  خُشکی کا رُخ کرتی ہیں۔ ہندوستان کے بادشاہوں کی طرح بحرہند بھی دِل کا شہنشاہ ہوتا ہے  ۔اپنے سینے پر آوارہ پھرتی ،دِل کی  اس رانی  
  کو بہت کُچھ دے دِلا کر رُخصت کرتا ہے۔


بحرِ ہند سے ہوائیں خُشکی کارُخ دوحِصوں میں کرتی  ہے ۔ ایک حِصے کو ویسٹرن آرم اور دوسرے
 کو ایسٹرن آرم کہتے ہیں۔  مغربی گھاٹ کا پہاڑی سلسلہ  کوچی، منگلور پانا جی ، گوا سے  لیکر ممبئی تک کے ساحلی علاقے مون سون کی ہواؤں سے خوب نہاتے ہیں۔ مون سون ہواؤں کا ایسٹرن آرم "گنگا کے جبڑے " (ماوتھ آف گینجز) کے راستے خُشکی  سے ٹکراتا ہے ۔ یہ ماؤتھ آف گینجز بھی قدرت کا کمال کرشمہ ہے۔ گنگا(پدما)  اورآسا  م کی پہاڑیوں سے آتے دریائے برہم پترا(بنگالی جمنا) بنگلہ دیش کے مقام راج باڑی   پر آپس  میں مِلتے ہیں  اوران گِنت ندی نالے بناتے ہوئے پاپیوں کے پاپ  سمند ر کے  حوالے کردیتے ہیں۔


بنگال اوربھارت کے شمال مشرقی عِلاقوں   کے رستے  یہ مون سون ہوائیں ہمالیہ سلسلے سے ٹکراتی ہوئی   پیارے پاکستان کو رُخ کرتی ہیں ۔باقی سب دعوے کرتے ہیں ،حقیقت میں آسمان سے باتیں صِرف ہمالیائی پہاڑ ہی کرتےہیں ۔ یہ  پہاڑ ہماری زِندگیوں میں سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں  ۔پل بھر کو اپنی  دُنیا  اِن پہاڑوں بِنا تصورکیجئے،  خشک گرمیاں  اور پھرِ میٹھے آم ہی نہیں کانوں میں رس گھولتی میٹھی  سرائیکی  زبان بھی سُننے  کو  نصیب نہ ہوتی ۔ پانی کی بوند بوند  کو ترستے گرما کے بعد جب سائبیرئین  ہوائیں  سردیوں میں ملتان کا درجہ حرارت منفی 20 تک لے جاتیں تو کدھر بچتی میٹھی  زبان  بولنے  والی    ملتانی"شریف" مخلوق۔

مون سون سسٹم دُنیا کی ساٹھ فیصد آبادی پر اثر اندازہوتا ہے ۔اِس کے  میکانزم  کو سمجھنے کے لئے  محض سمندر سے خُشکی اور سردیوں میں اِس کے برعکس چلتی ہواؤں کی ٹریڈشنل تھیوری ناکافی ہے ۔زمین کا درجہ حرارت ہرجگہ یکساں نہیں ہوتاہےاور اِسی سبب  ہوا کا دباؤ بھی  متغیر ۔ جِس کے باعث تجارتی ہواؤں کو  تقویت مِلتی ہے۔خط استوا پر سورج کی شُعاعیں سیدھی پڑتی ہیں ۔زمین کے  اِستوائی  خط  پر سور ج کی سالانہ شِفٹ  کی وجہ سے"    اِنٹر کنورجنس زون"(آئی ٹی سی زیڈ)  ( ہوا کے کم دباؤ کی پٹی  جو کہ خط استوا کے ساتھ ساتھ  زمین کو لپیٹے ہوئی  ہے جہاں شمالی کرے اور جنوبی کرے کی تجارتی ہوائیں  آپس میں ملتی ہیں )بھی  سورج کے ساتھ   شمال اور پھِر  جنوب کی طرف حرکت کرتا ہے۔"ڈائنامک تھیوری آف مون سون"   کی رو  سے  آئی ٹی سی زیڈمئی سے جون تک  شمال کی طرف حرکت کرتا ہے ۔آئی ٹی سی زیڈ کی یہ   شِفٹ  مون سون کی شِدت  اور وقت کا تعین کرتی ہے ۔
  
ہمارے ہاں جب  مون سون  کی یہ   بدلیاں پہنچتی ہیں تو  پیلائی ہوئی رُت کو ہریالی سے بدل دیتی ہیں ۔  مگر یہ بے لگام مون سون مستی پر اُتر آئے تو ہمارے  دریاؤں کو باغی بنا دیتی ہے اور پھِر   انگریزی کا سیل اور اردو کا آب   مل کر  بنتا ہے سیلاب ۔ پانی کی لوٹ سیل  ہی تو ہے  سیلاب ۔ پانی لُٹاتا ہے  غریب لُٹتا ہے ،اپنے گھر بار ڈھور ڈنگر سے ۔  غریب کے ڈنگر گوبھر کے مول  خریدنے والا کوئی  اور نہیں  عِلاقے کا چوہدری  یا وڈیرہ ہوتا ہے۔ سیلابی پانی نے بھی شائد بڑے زمینداروں کے ساتھ  کوئی  مُک مُکا  کر رکھا ہے ۔ یہ پانی زمین کو سونا اُگلنے کی  شکتی دیتا ہوا واپس ہولیتا  ۔مگر غریب کے گھر کی چوکھٹ سالوں تک سیدھی نہیں ہوپاتی ۔

 کہتے ہیں پانی دولت ہے بہت بڑی دولت، شائد اِسی لئے سیانے انگریز نے دریا کنارے کو بنک آف ریور کا نام  دے رکھا ہے  ۔ اللہ جانے  ہمارے دیس میں نا اِتفاقی کی آگ کِس نے لگائی۔مگر بدبختی  کے عِلاوہ اِسے کیا  نا م دیا جائے کہ  ان دریاؤں کے پانی کو"  بنک آف پنجاب "کا  ٹھپہ لگائے      ہر سال ہم یہ دولت سمندر کی سپردگی میں دئیے جاتے ہیں۔

بچپن میں جب ہم یار دوست  ملکر کوئی شرارت  کیا کرتے تھے تو بڑے  بزرگ ہماری  سرزنش  ان الفاظ میں کرتے  تھے۔"پُتر کیڑہے سکولے پڑہدے او؟؟" یہ  طنزیہ سوال ہمیں  ایسےچُبھتا تھا جیسے سینڈل   کا بکل  ٹخنے میں  ۔  ہمارے سیاست دانوں کی حرکتیں دیکھ    کر وہ سکول والا سوال نہیں بلکہ  جھٹ سے جواب  ذہن میں آتا ہے کہ  یہ لوگ  یقینا ً     کِسی  فِلم سٹوڈیو  سے "تعلیم یافتہ" ہیں۔ اِن مون سون کی بارشوں سے ہی اندازہ لگا لیجئے اِدھر    بارشوں نے  سین بنایا  اُدھر  لمبے لمبے  بوٹ   پہنے سڑکوں پر لوکیشن اور سین کے انتخاب کا آغاز  ہوجاتا ہے ۔  اب  تو بارش کے بعد مینڈکو ں کی ٹر ٹر  کم  ریڈی سٹارٹ ایکشن کی آوازیں زیادہ آتی ہیں۔


لڑکپن کا دور تھا   جب   ایس ٹی این ٹی وی چینل   لانچ ہوا  تو ہمیں پی ٹی وی  کی جبری "قید  بینائی" سے رہائی   مِلی   تھی ۔ایس ٹی این خبریں  نشر  کرنے  کا اختیار تو نہ رکھتا تھا مگر اُن دنوں بانوے کے سیلاب پر بنی  شاہکار فلم  سرکاری  چینل کے ساتھ  ساتھ  ایس ٹی این  پر بھی  اِس  تواتر سے دِکھائی گئی کہ ہر  پاکستانی کو حفظ ہوگئی تھی۔ ڈوبے دیہات میں غریبوں  کے گھروں تک پہنچتا ہوا ، غریب بُڈھے  کو اپنی واسکٹ  پہناتا ہوا  ، بوڑھی عورت سے دُعائیں لیتا  ہواہیرو" ہیرے" کی طرح ہِٹ  ہوا۔   مون سون سٹوڈیو میں بننے والی یہ   فِلم  بلاک بسٹر ثابت ہوئی تھی۔ بڑی سے بڑی ہِٹ فلم  بھی  پلاٹینم جوبلی   کے بعد  شہری سینماؤں سے اُتر کر  چھوٹے  قصبوں دیہاتوں  کے تھکڑ  ،بے چھتے سینماؤں  میں اپنی آخری سانسیں لیتی ہیں۔اب تو  زمانہ بھی  پلٹی کھا چُکا ہے ۔   ہلکی آنچ پر پکائے پکوان کھانے والےپرانے فِلمی ہیرو طرزسیاستدانوں  کو جان  لینا چاہئے کہ    مارشلائی  دور  کے دُکھڑے سنا کر   رام کرنے  کا دور بیت چُکا   ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ  " بلو ٹھمکا لگاذرا لک نوں ہِلا  " کے اِس دور میں جمہویت کے فیض کو ترستی ، ہوا کے گھوڑوں پر سوارنئی نسل ایک"   اینگری ینگ مین" کردار کی طرف  متوجہ نظر آتی ہے۔ 

1 comment:

  1. استاد جی خدا دا خوف کرو کتھے مون سون کتھے سیاہ ست
    :)

    ReplyDelete