سوہنے رب نے سوہنا دِن بائیس گھنٹوں
کا بھی بنایا ہوتا تو کم نہ تھا ، بس یہ عصر
سے مغرب کا دورانیہ ہے جو ہمیشہ قلیل ہی لگا۔ ہم نے زندگی کی رونقوں کو اپنے جوبن پردِن کے اِسی حِصے میں دیکھا۔ جاگتی
دُنیاؤں کا حسُن مغرب سے عِشا تک بھی ماند نہ پڑتا تھا مگر ہم ہاف ممی ڈیڈی قِسم
کے واقع ہوئے تھے ،اِن محفلوں سے مستفیذ ہونا ہماری قِسمت میں کم کم ہی لِکھا گیا تھا۔ "اولاد کودو سونے کا نِوالہ لیکن دیکھو شیرکی آنکھ سے" اِس ضرب
المثل پر مماں یقین نہ رکھتی تھیں۔ بلکہ اُن کا کہنا تھا کہ اولاد کودیکھو بھلے جِس مرضی آنکھ سے بس محمد علی کے
مُکے سے دبی رکھو۔ مماں کی ڈانٹ تو اپنے ٹامی کو پڑجاتی تو وہ دو دِن گلی میں جھانک کر نہ دیکھتا تھا۔ہم
تو۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں مادری زبان کے طوراُردو نصیب ہوئی اور بڑی سختی سے اِسی زبان پر
کاربند رہنے کا حُکم صادر ہوا ۔ ہمارے پاپا ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے اور ہم اُردو میں جواب دیا
کرتے تھے۔ پنجابی کے ساتھ ہم نے وہی سلوک کیا جو گاؤں کے غریب دیہاتی رشتے داروں
کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ہمیں اُمید ہے کہ
نئی نسل ہماری اُردو کو اپنے ڈرائنگ روم تک لے جانے کی زحمت بھی گوارا نہ کرے گی۔
ِذکر دِن کی اُن حسین گھڑیوں کا چھڑا
ہے جب عصر کی نما ز کے بعد محلے کے بزرگ مُختلف ٹولیوں میں گپیں لگاتے گلیوں میں
نظر آتے اور پھر اپنے اپنے مخصوص کردہ تھڑوں
پر جا بیٹھتے تھے۔ محلے کےچوکوں میں قُلفی
والا، لچھے ملائی والا۔ گولے والا سب ریڑھیاں سجا لیتے تھے۔سردیوں میں اِن کی جگہ
مونگ پھلی اور خُشک میوہ جات لے لیا کرتے تھے۔ چھوٹے بچے بچیاں
بچپن کی معصومیت بھرے کھیل کھیلتے
نظر آتے ۔ کُچھ اٹھکیلیاں کرتے ٹیوشن سنٹروں کو جاتے دِکھتے ۔ لڑکے بالوں کے ٹولے سڑکوں پر مل مارےکوئی کھیل
یا کرکٹ کھیلتے نظر آتے ۔ اِس گیند بلے کے کھیل نے توہمارے ہاں جنگلی شہتوت کی طرح
جڑ پکڑ لی ہے ۔
ہر طرف سے چوکے چھکوں کی آوازیں آتی ہیں۔
اُس دن بھی بعد ازنماز عصرہم لوگوں نے
حسب معمول پیپسی کے دو ڈالے بطور وِکٹیں لگا کر اپنے کھیل کا آغازکیا تھاکہ
گلی میں چوہدری فتح صاحب کی آمد ہوئی ۔اپنی گلی کا موڑ مُڑ کر ساتھ والی گلی میں
آخری مکان اُنہی کا تھا ۔ چوہدری
فتح صاحب ابھی باؤلرز اینڈ کے قریب قریب ہی تھے ۔جب موٹا بلال عرف لڈو
جو وِکٹ کیپری کے سوا بس دُشمن تھا اناج کا ،وائرس کی طرح پھیلا
ہوا بھارتی فِلم "تِری دیو "
کا یہ گانا گانے لگا "تِرچھی ٹوپی
والے ہووووووو/بابو بھولے بھالے " ۔ سِلی مِڈ آن پر کھڑا شاد ہ تو جیسے
چورن کے پھکے مار کر آیا تھا،اِس شیطانی لوری سے جھوم کر پھٹے ہوئے ڈھول کی طرح "اوئے اوئے،اوئے اوو اووااا" کہتا لڈو کا ہمنوا ہوا۔ اب اِس ساری سچوئشن کا چوہدری فتح صاحب کے سر پر رکھی پرہیز گارٹوپی سے رِشتہ کیونکر
بنا ؟اس سوال کا جواب عِلاقے کی ڈیوٹی پر مامور شیطان کے سوا اور کِسی کے پاس نہیں
ہے ۔چوہدری فتح صاحب نے پچ کے درمیان میں پہنچ کر پوزیشن سنبھالی اور پلک جھپکنے
میں مارٹر گولوں کی بوچھاڑ کر ڈالی۔ کوئی جان بچاتے اپنے گھر کو بھاگا ،تو کوئی
گلی میں کھڑی گاڑیوں پیچھے جا دُبکا ۔ میں خود شیخ صاحب کی سفید اٹھاسی کرولا کے بیک بمپر کے نیچے گھُسنے کی
کوشش میں لگا رہا۔ جو"بھاگنے " کا تجربہ رکھتے تھےاُنہوں نے دوسرا سانس
ہی اگلے محلے پہنچ کر لیا۔ رب نے دُنیا
میں کوئی شے بھی بے مقصد نہیں بنائی اِس بات کا عملی تجربہ پہلی بار اُسی
دن ہوا جب ہم نے موٹے بِلال کو ساری "گولیاں" بڑے حوصلے سے اپنے سینے پر
کھاتے اور اپنا دفاع کرتے دیکھا ۔ چوہدری صاحب اور ہماری کرکٹ کا ویر
کوئی نئی بات نہ تھی مگر ہماری آنکھوں نے جو ڈرامہ اُس دن دیکھا وہ تصور سے کہیں بڑا تھا۔
اگلے دِن ہم مجمع بنائے میں ایسے کھڑے تھے کہ جیسے کرکٹ کےقُل کا
اِرادہ باندھا ہو۔اِتنے میں شیخ
صاحب اپنے مخصوص انداز میں چھڑی کوا وپر تک چلاتے ،لمبے ڈگ بھرتے ہوئے گلی میں داخل
ہوئے۔ ہمارے پاس پہنچ کر رُک گئے اور
پوچھنے لگے "او مُنڈیو خیر ہے
اج روڈ تے میلہ نہیں سجیا؟" ہم نے کل
کا سارا قِصہ اُن کو سُنا ڈالا۔ وہ بولے "او جھلیو تتے توے تے بندہ کِنچ نچدا فیر
کل تُسی ویکھ ہی لیا ناں ، اپنا ہائی بلڈ پریشر
نوں تتا توا ہی سمجھو۔ چوہدری تے ویسے وی
ذرا کپتا بندہ اے ۔تسی وِکٹاں
تھوڑیاں اگے کر کے لا لو تے ایک مُنڈا موڑ
تے کھڑا کر چھڈو ۔ باقی دو چار منٹ اگے پِچھے ہوجا نا کیڑھا مُشکل اے"۔ ہم نے میاں صاحب
کی بات پر عمل کیا ۔ اُس واقعے کےبعد بھی
دو چار بار ہمارا چوہدری صاحب سے ٹاکرا ہوا مگر اُس ایک تجربے نے ہمیں خاصا سیانہ کر دیا تھا اور
چوہدری صاحب کا غُصہ بھی سُپیڈو میٹر
کی مقرر کردہ حدود میں ہی رہا۔یہ الگ بات
ہے کہ چوہدری صاحب کو ہم نے پھِر جگا ڈاکو
کے نام سے ہی یاد کیا۔
ہمارے محلوں ، کالونیوں میں تھوڑی بہت اونچ نیچ کے ساتھ کُچھ ایسا ہی
ماحول ہوا کرتا تھا ۔جہاں ایک
چوہدری فتح ہوتا ہے وہاں شیخ صاحب
جیسا کردار بھی موجود۔ ۔ٹین ایج میں داخل
ہونے والوں سے لیکر کر بیس پچیس سال تک کے لڑکے اِک دوسرے کی تربیت کا باعث بنتے تھے۔ بزرگ بھی اپنےتجربات سے ایسے نوازتے جیسے عِلمی عرق
کے بڑے پیار سے چھِٹے مار رہے ۔ پتا
بھی نہ لگ پاتا اور نئی پنیری
کومعصومیت کی کیاری سے بڑے کھیت
میں مُنتقل کر دیا جاتا تھا۔ جہاں وہ دھوپ چھاؤں کی سختیاں جھیلنا سیکھنے لگتی۔
محفلیں جما کرتی تھیں بحث مُباحثے ہوتے تھے ۔ ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ ہر معاملے پر بات ہوا کرتی تھی حتٰی کہ
سیاست پر بھی ۔ جہاں چین کی بنسی بجتی ہے وہاں شیطانی کان بھی دھواں دینے لگتے ہیں۔کبھی کبھار تلخیاں بھی
جنم لیا کرتی تھیں ۔ ۔ بالی عمر سے گزرتے
بچوں میں فطرتی طور پر جذباتیت کا عنصر زیادہ
ہوتا ہے ۔حالات جب بھی کبھی تناؤ کی طرف جاتے تو بزرگ کِسی کا کندھا دبا کر کِسی کو گلے لگا کر کو ئی لطیفہ یا حکائت سُنا تے اور معاملہ سنبھال لیتے ۔
گلی محلوں کی رونقیں، وہ محفلیں اب دم
توڑتی جارہی ہیں۔ آج کا رونا ہے بس پیٹ پوجا
، بھولا ہر معاملہ دوجا۔گلی محلوں کی سوشل لائف سوشل میڈیا میں سمٹنے لگی ہے ۔نئی نسل جسمانی کسرت کی بجائے
کمپوٹر گیمز سے مغز چٹوانے کی زیادہ شائق ہو گئی ہیں ۔ وہ اپنی اُنگلیوں پرجدید دُنیا دیکھتی
ہے ، سوچتی ہے، اپنے تئیں سمجھتی ہے، موازنہ کرتی ہے، پریشان ہوتی ہے ۔۔۔۔ خیالات میں اِنتشار۔۔۔۔۔مگر اُسکا
کندھا پکڑنے والا ، اُسے گلے لگانے والا کوئی
نہیں ہوتا۔ نتیجہ اِک خلا ، جِسے پورا کرنے کو چلتی ہیں آندھیاں ،تیز آندھیاں پگڑیاں اُچھالتی آندھیاں شلواریں اُڑاتی آندھیاں۔
اِسی ضِمن میں ایک خط نقل کر رہا ہوں
ڈئیر ابوجان
آج میں اپنی زِندگی کا ایک بہت بڑا تجربہ کرنے جارہا ہوں
جِسکا کیا نتیجہ نِکلے گا میں نہیں جانتا ۔مگر مُجھ میں ایسے تجربو ں کی ہمت آپ ہی کی عطا کردہ ہے۔
ابو میں دس سال کا تھا جب میں نے سردیوں کی اِک رات آئسکریم کھانےکی ضِد کی
تھی ،آپ کے سمجھانے اور منع کرنے کے
باوجود میں نے آئسکریم کھا کر ہی دم لیا تھا۔ اگلی صُبح جب آپ نے مُجھے اُٹھایا تو میرا بدن بُخار میں تپ رہا تھا۔ میری حالت دیکھ کر آپ کا چہرہ اُتر گیا، مگر آپ نے ایک بار بھی مُجھے کوسا نہیں، بس آئندہ احتیاط کی تلقین کی ۔میں اپنی نادانی کے سبب ایک ہفتہ شدید بیمارر
ہا ۔آ پ کو دفتر سے چھُٹی بھی لینی پڑی مگر آپ نے مُجھے نہیں جتایا۔ا بو یہ پہلی مثال ہے جسے میراکمزور ذہن محفوظ کر سکا۔ میری زِندگی ایسے بہت سے واقعات سے بھری ہوئی
ہے ۔میرے میٹر ک کے پیپر ہوئے تو میں نے ڈی
وی ڈی پلئر لینے کی ضِد کی تھی ۔ آپ نے امی اور دادا جان کی سخت مُخالفت کے باوجود ڈی وی ڈی پلئر لیکر
دیا ۔ ہمارے شوق کی خاطر آپ ہی ہمیں فِلمیں لاکر دیتے پہلے
خود دیکھتے اور ہمارے معیار وفہم کے
مُطابق حد بندی کرنے کےبعد ہمیں دیکھنے
دیتے ۔ ہر بچے کے لئے اُسکے والدین آئیڈیل
ہوا کرتے ہیں مگر ابو ہمارے کزنز ہمارے گھر میں
کُچھ دِن گُزارنے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں ،ہماری وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے ابو کی وجہ سے ۔ شائد
آپکو اِ س کا اندازہ نہ ہو میں آج آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ کے بھانجے بھتیجے آپ ہی کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں
۔ کیونکہ آپ نئی نسل کے راہنما
سے زیادہ اُن کے ترجمان بنے، دوست بنے اُن کی پسند ناپسند کو فوقیت دینے والے، اُن کے ساتھ ساتھ چلنے والے ساتھی بنے ۔اپنی روایات پر فخر کرنے والے گھرانے میں ہماری نسل کو آگے بڑہنا خود سے فیصلے کرنا ، صرف اور صِرف آپ نے سِکھایا۔
ابو آپ کے ذہن سےدوہزار آٹھ کا وہ دن یقینا محو نہیں ہوا ہوگا جو
میری بیسویں سالگرہ سے دو دن بعد آیا تھا۔ آپ نے مُجھے اُس دِن بڑ ے جوش سے کہا تھا کہ چلو بیٹا
اپنا فرض ادا کرنے چلیں آج اللہ
نے ہمیں ایک بڑے بدمعا ش سے بدلہ لینے کا موقع عطا کیا ہے ۔ ابو یاد ہوگا آپ کو، میں نے گاڑی کے پیچھے ہرا جھنڈا بھی لگایا تھا اُس دِن ۔دو ہزار تیرہ تک آتے آتے اِتنا کُچھ
بدل جائے گا یہ میں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ پانچ
سال بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں چھُپاتے ووٹ ڈالنے جائیں گے ۔ معاملہ اِتنا
سنجیدہ ہو جائے گا کہ ہم آپ سے سیاست پر بات کرنے سے کترائیں ۔ گھر میں اِک ٹینشن کے سے حالات بن جائیں گے۔ امی بتاتی ہیں کہ1985 کو ضیا صاحب
کے ریفرنڈم میں آپ نے بڑے زورو شور سے
حِصہ لیا تھا۔ آپ نے اُس نیک کاز کو ثواب سمجھ کر بہت سے لوگوں کے ووٹ بھی بھگتائے تھے
۔ابو شائد وہ آپ کی زندگی کا ایک تجربہ تھا شائد کُچھ ایسے ہی تجربے سے آج ہم گُزر رہے ہیں
ابو یاد ہے آ پ کو جب آپ ہم بہن بھائیوں کو پُرانی مہران میں سکول و کالج چھوڑنے جایا کرتے تھےتو
کبھی کبھار چوہدری ظہور اِلہی روڈ کے بند
ہونے پر ہمیں لمبا چکر کاٹنا پڑتا تھا ۔
اِس پر آپ کا بلڈ پریشربہت بڑھ جاتا تھا۔ آپ بمشکل خود پر قابو پایا کرتے تھے ۔ابا میں
بچپن سے چچا حمید کے گھر بڑے شوق سے جایا کرتا تھا ۔ میں اور علی شام
کو گلی میں دیگر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا
کرتے تھے۔ ابو مُجھے پِچھلے پانچ سال سے چچا
حمید کے گھر جانے سے وحشت ہونے لگتی ہے اور اسکی وجہ ،گلی کے دونوں طرف
رکاوٹیں اور سخت سکیورٹی ۔ ایسے لگتا ہے جیسے کِسی نے قید کر دیا ہو آزاد لوگوں
کو۔ اب یہ "شرافت "کِس شریف کی ہے آپ جانتے
ہیں۔ا بو آپ نے تو پرویز الہی سے اپنا
بدلہ لے لیا تھا مگر جذبات میرے بھی کُچلے گئے ایک بار نہیں بار بار کُچلے جاتےرہے ہیں۔
ابو میں پِچھلے سال پورا ہفتہ گاؤں اپنے
دیہاتی رشتہ داروں کے ہاں رہ کر
آیا تھا۔ یہ بات آپ کےلئے بھی حیرت کی تھی
،کہاں گاؤں کے نام سے بھی میں دور بھاگتا تھا
اور کہاں پورا ایک ہفتہ گاؤں میں رہ آیا ۔ ابا مُجھے پہلی دفعہ احساس ہوا
کہ یہ لوگ ہر گِز کم تر نہیں ہیں بلکہ ہم سے بہتر زِندگی گُزارنےوالے
اور ہم سے زیادہ سُتھرےلوگ۔ ابو میں پورا
ہفتہ بطور تبدیلی رضا کار گاؤں گاؤں پھِرا میں نے تو یہی نتیجہ اخذ کیا کہ اُنہیں فرسودہ نظام میں جکڑ کر جاہل رکھا گیا ہے ۔ ابو آپ
نے تبدیلی کے نعرے کا ہمیشہ مذاق
اُڑایا ۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا یہ مُثبت تبدیلی نہیں کہ جِس نے مُجھے اور مجھ جیسے بہت
سے لوگوں کو عام دیہاتی سے جوڑ دیا؟۔ ابو تبدیلی تو ایسی گہری کھائی کا نام ہے کہ جِسمیں جِتنا بھی کُچھ نیا ڈال دو وہ بھرتی نہیں۔ اگر میر ی بات غلط ہے تو آج کے امریکہ میں تبدیلی کانعرہ لگانے والا کبھی بھی کامیاب نہ ہوتا۔
ابو آپ نے ساری عمر بنکنگ کی ہے ۔ مُجھے یاد ہے اپنے بچپن کا وہ دور جب
میں آپ کےبنک آیا کرتا تھا ۔میں نے بنک سے پیسہ نکلوانے آئے لوگوں کے چہروں پر ہمیشہ پریشانی ہی جھلکتی ہی دیکھی۔ پیتل کا ٹوکن لینا چیک پر درست دستخطوں کا خاص خیال رکھنا ۔ بنک عملے
کا کھاتوں میں اینٹریاں کرتے رہنا، بنک سٹیٹ منٹ
کے لئے رجسٹر سے فوٹو کاپیاں کروانا ۔ زِندگی عذاب، بنکر کی بھی تھی اور صارف کی بھی ۔ مگراب تو دُنیا ہی بدل گئی ہے،آج کی نسل کو ایسی کہانیاں
سنائی جائیں تو وہ مذاق اُڑاتی ہے ۔ جِس نسل نے اے ٹی ایم مشینیں اور
چند سیکنڈوں میں گھر بیٹھے بنک
سٹیٹ منٹیں نکالنا ہی دیکھا اُس کے لئے تو پرانا نظام پتھر کے دور کی کہانی
ہی ٹھہرا ۔
اب آپ خود ہی سوچئے کہ آج کا انسان کیونکر پُرانے بوسیدہ طرزالیکشن پر
یقین و ایمان لائے گا۔ ابو آپ نے ہمیشہ یہی کہا کہ لنگڑی لولی جمہوریت کو چلنے
دینا چاہئے ۔ ابو ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر اِس لنگڑی لولی کے ساتھ بھنگی چرسی جمہوریت کو برداشت کرنا مُجھ جیسوں کے لئے شائد مُمکن ہی نہیں ہے۔
ابو مُجھے فیس بُک پر کم عقل، ناسمجھ گردانا جاتا ہے ، جاہل کے نام سے پُکارا جاتا ہے ۔ تاریخ سے
نابلد، ترقی کا مُخالف پُکار کر طعنہ زنی کی جاتی ہے ۔ ابو مُجھے کِسی کی پرواہ
نہیں میں بس آپ کے ساتھ کو ترستا ہوں ۔وہ ساتھ جو بچپن سے لیکر آج تک میری سب سے
بڑی طاقت رہا ہے ۔
.......
اِس خط کےدو پیراگراف ابھی باقی ہیں مگر مزید چھاپنے کی مُجھے اِجازت نہیں
ہے۔ یہ خط فیس
بُک پر فقط فیملی ممبرز کے لئے لکھا گیا تھا۔ میں اپنے فیس بُک فرینڈ کا شُکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اپنی ا ذاتی تحریر ناصرف مجھ سے شئر کی بلکہ اِس پوسٹ میں شامل کرنے کی اجازت دی۔
خود پر بیتے کا آج کے دور سے موازنہ کروں تو بس یہی کہ پاؤں گا کہ بچے لاڈلے بھلے نہ ہوں انوکھے ضرور ہوتے ہیں، کھیلن کو چاند ہی مانگا کرتے ہیں ۔ ہم لوگ
چاند کی جگہ" چاند گاڑی" پر خوش ہوجایا کرتے تھے۔ مگر آج .....
بہترین۔ اور شاید لگتا ہے بچپن ہم سب کا کم و بیش ایک ہی قاعدے سے گزرا ہے۔ خاص طور پر بچوں کے لئے زبان کا چناؤ، جو کہ زیادہ مہذب ہو، ہمارے زمانے میں شاید اردو تھی۔ گو اِس بات کا قلق رہے گا، کہ دوسری زبانے سیکھنے کے ساتھ ساتھ، اپنی سرائیکی بھی خود سے سیکھنی پڑی۔
ReplyDeleteعمدہ اور بہترین
ReplyDeleteصاحب تحریر اچھی ہے البتہ میرے حساب سے(جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے) یہ دو الگ الگ پوسٹ بنتی تھیں۔ اسکے علاوہ کوئی فوٹو شوٹو بھی لگا دینی تھی بھلے کسی " سیاہ سی" جماعت کے پرچم کی ہوتی۔
ReplyDelete