1
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے رندھی ہوئ آواز میں کہا میرےعزیز ہم
وطنو میں نے استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا ہے. معصوم چہرےپر چھائے کرب کو ہر دیکھنے
والے نے محسوس کیا. میری والدہ رونے لگیں والد صاحب کا پارا یک دم آسمان کو چھونے
لگا میری آنکھوں میں بھی آنسو تہر رہے تھے. ٹیوی سکرین میں کھبا ہوا ربو مسلی جو
دروازے کے ساتھ لگا کھڑا تھا اس کے چہرے پر خوشی کے تاثرات دیکھے تو میرے جسم میں
تو جیسے آگ لگ گئی. یہ بات انیس سو ترانوے کی ہے. اس وقت میں ووٹ دینے کا اہل نہ تھا
مگر میاں صاحب کے لئے دل میں شدید محبت رکھتا تھا.
آج پھر میاں صاحب تقریر کرنے کو ہیں مگر وہ آج استعفی دے بھی دیں تو مجھے ذرہ برابر بھی افسوس نہ ہو گا. میاں صاحب کے ساتھ آج بھی وہی ماضی والا ظلم ہونے کو ہے مگر آج میں ان کے ساتھ نہیں ہوں اور نہ ہی جمہوریت کے بچھوڑے کا تصور مجھے کھائے جا رہا ہے.
ماضی کے تجربات پر جب میں نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ترانوے میں میاں صاحب ملک اور جمہوریت کےعلمبردار نظر آتےتھے. مگر چھیانوے میں میرا ماتھا ٹھنکا جب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو پنجاب کا مختار کل بنا دیا. آج تو میں لاکھ کوشش بھی کر لوں میاں صاحب کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں کہ پاؤں گا. میں مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو ملوک جمہوریت کا ولی عہد ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھ پاتا.
آج پھر میاں صاحب تقریر کرنے کو ہیں مگر وہ آج استعفی دے بھی دیں تو مجھے ذرہ برابر بھی افسوس نہ ہو گا. میاں صاحب کے ساتھ آج بھی وہی ماضی والا ظلم ہونے کو ہے مگر آج میں ان کے ساتھ نہیں ہوں اور نہ ہی جمہوریت کے بچھوڑے کا تصور مجھے کھائے جا رہا ہے.
ماضی کے تجربات پر جب میں نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ترانوے میں میاں صاحب ملک اور جمہوریت کےعلمبردار نظر آتےتھے. مگر چھیانوے میں میرا ماتھا ٹھنکا جب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو پنجاب کا مختار کل بنا دیا. آج تو میں لاکھ کوشش بھی کر لوں میاں صاحب کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں کہ پاؤں گا. میں مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو ملوک جمہوریت کا ولی عہد ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھ پاتا.
2
جمہوریت کے ساتھ ضیا صاحب نے جو کیا سو کیا مگر
بینظیر بھٹو کی پاکستان آمد نے عوامی جذبہ جنوں پھِر سے بیدار کر دیا۔ وہ سالوں کی
جلاوطنی کے بعد پاکستان آئیں اور جمہوری سیاست میں ایک نئی روح پھونکتے ہوئے مُلک
کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں اُس الیکشن کا ٹرن آؤٹ 43 ٪ رہا تھا۔ عورت کی
حکومت سےاِسلام کو شدید خطرات لاحق ہوگئے دو سالوں میں حکومت گِرا دی گئی اورووٹ ڈالنے فرشتے بھی میدان میں آئے اور ۔ ووٹنگ ٹرن
آؤٹ 44٪ تک چلا گیا۔ اِس کےبعد ترانوے اور ستانوے کے الیکشن میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ
باِلترتیب 40٪ اور 36٪ پر آگیا ۔ گویا جمہوریت سے محبت میں عوامی جوش میں کمی آنے
لگی۔ اللہ خوش رکھے مشرف صاحب کو جن کی جمہوریت کے لئے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں
گی جن کی بدولت عوام پھر سے جمہوریت کی اہمیت کو حقیقی معنوں میں جان پائے۔ 2008
میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ 44 پرسنٹ پر پھِر سے آگیا۔
مگر دو ہزار تیرہ میں تبدیلی کا نعرہ سمندری لہروں پر بیٹھا تو جمہوری سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا ووٹنگ ٹرن آؤٹ 55 ٪ سے بھی اوپر چلا گیا۔ جمہوری انقلاب کی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں ۔ یہ گیارہ پرسنٹ ووٹر کہاں سے آیا ؟؟ یقینا یہ فرشتے نہیں تھے یہ لوگ مُلک کی برگری کلاس ہے یا پھِر وہ لوگ جِن کا سیاست سے کوئی لینا دینا ہی کبھی نہیں رہا۔ الیکشن دوہزاز تیرہ میں لائین میں لگے اٹھاون سالہ ووٹر نے مُجھے بتایا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ آج کے دن ووٹ ڈالنے نِکلا ہے۔
ہم لوگ تو دھاندلیوں اور ڈرامے بازیوں کے عادی ہوچُکے ہیں دھاندلی ہوتی ہے اور ہر بار بڑی مہارت سےہوتی ہے۔ مگر ہماری سیاست میں شامل ہوئی یہ نئی کلاس ہی زیادہ مضطرب نظر آتی ہے لمبی لائنوں میں لگے گھنٹوں کی خواری کاٹ کر ووٹ ڈالنے والے آج اپنے ووٹ کا حساب مانگتے ہیں ۔
ہماری سیاست میں میچورٹی ابھی نہیں آئی ہے اور ناں ہی ہمارے سیاست دان اِتنے وثنری ہوئے کہ بدلے ہوئے زمانے کا ادراک کر سکیں ۔ بیسویں ترمیم کرنے والے سینئیر سیاست دانوں نے الیکشن کو قابل قبول بنانے کے لئے اپنے تئیں اچھا قدم اُتھایا مگر میرے خیال میں وہ نیک نیتی پر مبنی نہیں تھا۔ زمانہ بہت آگے چلا گیا ہے آج اٹھارہ سال کابچہ بہت سے سوال کرتا ہے اور فوری جواب مانگتا ہے۔ اُسے جمہوی تسلسل اور ٹرم پوری کرنے کا لالی پاپ دیکر سُلایا نہیں جاسکتا۔جب ان الیکشن میں پہلی بار نادرہ کارڈ اِستعمال کئے گئے اور الیکشن سے پہلے میگنیٹک انک کے ذریعے ہر ووٹ کا ریکارڈ رکھنے کی نوید سُنائی گئی تو مانگنے والے اپنا حساب مانگنے میں حق بجانب ہیں۔ آئین یا قانون کےپیچھے چھُپنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ آئیں اور قانون میں درج بہت کچھ اِس قوم کو نہیں مِل رہا مگر یہی آئین بڑےکرداروں کے لئے جمہوری روایات کی دھجیاں اُڑانے پر مکمل خاموش ۔ ذِمہ دار کون؟؟؟میرے خیال میں تو ہماری سیاست کےوہی تجربہ کار لوگ جو اپنے سوئس اکاؤنٹس کو بچانے کے لئے پانچ سال جنگ لڑتے نظر آئے اور وہ جو تیسری بار خوبصورت شیروانی پہننے کی خاطر دینے دلانے میں بہت آگے تک نِکل گئے۔
مگر دو ہزار تیرہ میں تبدیلی کا نعرہ سمندری لہروں پر بیٹھا تو جمہوری سیاست کا نقشہ ہی بدل گیا ووٹنگ ٹرن آؤٹ 55 ٪ سے بھی اوپر چلا گیا۔ جمہوری انقلاب کی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں ۔ یہ گیارہ پرسنٹ ووٹر کہاں سے آیا ؟؟ یقینا یہ فرشتے نہیں تھے یہ لوگ مُلک کی برگری کلاس ہے یا پھِر وہ لوگ جِن کا سیاست سے کوئی لینا دینا ہی کبھی نہیں رہا۔ الیکشن دوہزاز تیرہ میں لائین میں لگے اٹھاون سالہ ووٹر نے مُجھے بتایا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ آج کے دن ووٹ ڈالنے نِکلا ہے۔
ہم لوگ تو دھاندلیوں اور ڈرامے بازیوں کے عادی ہوچُکے ہیں دھاندلی ہوتی ہے اور ہر بار بڑی مہارت سےہوتی ہے۔ مگر ہماری سیاست میں شامل ہوئی یہ نئی کلاس ہی زیادہ مضطرب نظر آتی ہے لمبی لائنوں میں لگے گھنٹوں کی خواری کاٹ کر ووٹ ڈالنے والے آج اپنے ووٹ کا حساب مانگتے ہیں ۔
ہماری سیاست میں میچورٹی ابھی نہیں آئی ہے اور ناں ہی ہمارے سیاست دان اِتنے وثنری ہوئے کہ بدلے ہوئے زمانے کا ادراک کر سکیں ۔ بیسویں ترمیم کرنے والے سینئیر سیاست دانوں نے الیکشن کو قابل قبول بنانے کے لئے اپنے تئیں اچھا قدم اُتھایا مگر میرے خیال میں وہ نیک نیتی پر مبنی نہیں تھا۔ زمانہ بہت آگے چلا گیا ہے آج اٹھارہ سال کابچہ بہت سے سوال کرتا ہے اور فوری جواب مانگتا ہے۔ اُسے جمہوی تسلسل اور ٹرم پوری کرنے کا لالی پاپ دیکر سُلایا نہیں جاسکتا۔جب ان الیکشن میں پہلی بار نادرہ کارڈ اِستعمال کئے گئے اور الیکشن سے پہلے میگنیٹک انک کے ذریعے ہر ووٹ کا ریکارڈ رکھنے کی نوید سُنائی گئی تو مانگنے والے اپنا حساب مانگنے میں حق بجانب ہیں۔ آئین یا قانون کےپیچھے چھُپنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ آئیں اور قانون میں درج بہت کچھ اِس قوم کو نہیں مِل رہا مگر یہی آئین بڑےکرداروں کے لئے جمہوری روایات کی دھجیاں اُڑانے پر مکمل خاموش ۔ ذِمہ دار کون؟؟؟میرے خیال میں تو ہماری سیاست کےوہی تجربہ کار لوگ جو اپنے سوئس اکاؤنٹس کو بچانے کے لئے پانچ سال جنگ لڑتے نظر آئے اور وہ جو تیسری بار خوبصورت شیروانی پہننے کی خاطر دینے دلانے میں بہت آگے تک نِکل گئے۔
4
حکمران نیک ہو تو شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی
پیتے ہیں،اگر شریف ہو تو انقلاب اور تبدیلی ایک ساتھ مارچ کرتے ہیں.
5
آج باہر سے آئے ایک مہمان کو ہسپتال لیکر جانا
پڑا پولیو کا قطرہ پلوانے واسطے. اب ایسی ایمبیرسنگ سچویشن کو بندہ کیا کہے؟ قطرہ
قطرہ بنا شرم کا سمندر
6
اس نے کہا بہت خطرہ ہے
میں نے کہا ابے کس کو خطرہ ہے
بولا ہماری جمہوریت کو جی
میں کچھ نہ بولا بس سوچنے لگا وہ جو ہمارے ہاں ہے وہ جمہوریت ہے یا بذات خود ایک خطرہ.
میں نے کہا ابے کس کو خطرہ ہے
بولا ہماری جمہوریت کو جی
میں کچھ نہ بولا بس سوچنے لگا وہ جو ہمارے ہاں ہے وہ جمہوریت ہے یا بذات خود ایک خطرہ.
7
استعفی چیز کیا ہے آپ میری حکومت لیجئے
بس ایک بار آئین کا کہا مان لیجئے
اس ڈی چوک میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجئے
مانا کہ ہم کو تو نہیں جمہوریت کا پاس
لیکن یہ کیا کہ فوج کا احسان لیجئے
استعفی چیز کیا ہے آپ میری حکومت لیجئے
بس ایک بار آئین کا کہا مان لیجئے
میاں محمد نواز شریف
بس ایک بار آئین کا کہا مان لیجئے
اس ڈی چوک میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجئے
مانا کہ ہم کو تو نہیں جمہوریت کا پاس
لیکن یہ کیا کہ فوج کا احسان لیجئے
استعفی چیز کیا ہے آپ میری حکومت لیجئے
بس ایک بار آئین کا کہا مان لیجئے
میاں محمد نواز شریف
آج کا اٹھارہ سال کابچہ بہت سے سوال کرتا ہے اور فوری جواب مانگتا ہے
ReplyDeleteیہی فرق ہے پہلے میں اور اب میں.......شاید کوئی صورت ایسے ہی نکلتی ہو۔۔۔