Sunday, 22 June 2014

بولتی تصویریں






اس بچی کی عمر لگ بھک پانچ سال ہے میں نے اِسے ایک بڑے چوک میں پنسلیں 


 بیچتے دیکھا. دس روپے کا ایک بال پوائنٹ. ہر آتی جاتی گاڑی والا حیران و پریشان ، اس 

 بچی کی طرف دیکھتا تھاکوئی اِ س سے سوال کرتا تو وہ فورا سے اگلی گاڑی کی طرف بھاگ کھڑی 

 ہوتی ۔ اشارے پر ایک پولیس وین رُکی ,اُس وین میں  بیٹھے 

اِک وردی والے نے بچی کو بڑے پیار سے اپنے پاس بُلا کر پوچھا "کس کتے کے بچے نے 

تمهارے ہاتھ میں بیچنے کویہ پنسلیں پکڑائی ہیں"؟ بچی جواب دینے کی بجائے  فورا ً سےڈر کر   

آگے کو  بھاگ پڑی. پولیس والے کی  دی ہوئی گالی اس رشتےکو پڑی جس کا آج عالمی دن منایا 

جارہا ہے  یعنی "فادرز ڈے"(. 15-06-2014)یا پھر پورے معاشرے کو جس کا حصہ 

میں بھی ہوں. 

آپ ان تصویروں کو  غور سے دیکھئے،   پس منظر میں آپ کو بڑی بڑی کرینیں نظر 

آرہی ہوں گی. یہ ہیوی  مشینری میٹرو بس کے لئے  ایک بهت بڑا فلائی 

اوور بنانے کا کام کررہی ہے.اسلام آباد کی اس میٹروبس  پر چوبیس ارب روپے کی خطیر  رقم 

 خرچ   کی جا رہی ہے۔  یہ  اسلام آباد 

کا مصروف ترین چوک پشاور موڑ ہے چند مہینوں بعد غالبا اِسی چوک میں انقلابی نعرے

سُنے جائیں گےاور فتح کے ہار پہنےاعلی مرتبت  شخصیات   میٹرو  بس دوڑانے  کا فیتہ کاٹیں گے ۔


مگر یہ بچی آپ کو یہاں نظر نہیں  آئے گی بلکہ اپنے باپ کی بےغیرتی(بظاہر )اور معاشرے 

کی بےحِسی کے باعث، ہاتھ میں چند پنسلیں لئے کِسی اور چوک میں گُزرتی گاڑیوں کے شیشے 

کھڑکاتی دس دس روپے کی پنسلیں بیچتی پھِرے گی۔

   میں بھی کُچھ زیادہ  ہی منفی انداز میں سوچنے لگا ہوں  ۔اِس بچی کی زندگی  بہتر رُخ بھی  اختیار 

کرسکتی ہے۔شائد وہ چوک میں پنسلیں بیچنے کی بجائے   کِسی سریہ والےسیمِنٹ والے یا پھر 

کِسی کنٹریکٹر  کے دودھ پیتے بچوں  کے پیمپر بدلنے اور کھلونے سنبھالنے کی مزدوری کرتی نظر 

آئے۔


نوٹ:                    یہ تحریرمیں نےمورخہ 15-06-2014 فیس بُک اکاؤنٹ پر پوسٹ 
کی تھی اور پھر چند سائٹس اور پیجز پر کاپی پیسٹ ہوتے دیکھی۔





1 comment:

  1. معاشرتی اور حفاظتی نقطہ نظر سے چہرے کو دھندلا کرنا ضروری ہے
    از نکتہ ور

    ReplyDelete