Thursday, 12 June 2014

مچھر "دانی ستا"۔

ہمیشہ سے ہماری سیاست کی رونق فصلی بٹیروں کے دم سے ہی رہی ہے۔  اِن سیاست دانوں کو "سیزنڈ پالیٹیشئنز " بھی کہا جاسکتا ہے ۔جو سیاست دان ایسے بہت سے اچھےفصلی  سیزن لگا لیتے ہیں وہ بابائے سیاست کہلوائے جانا پسند کرتے ہیں۔ اِنہی سیاسی بابوں کی نئی لاٹ کی بدروح رواں نے نقص امن کو نصیبو لعل کی ڈھال سے روکنے کا تجربہ کیا۔ یہ تجربہ" دو  رس "  نتائج کا حامل ہے ۔ ایک تو گھٹن کی اِس فِضا میں  موسیقی کی محفل  سجی دوسرا  کھرے اورکھوتے کی پہچان بھی سب پر ظاہر ہونے لگی۔  مفاد عامہ کے اس تجربے کو منجھے ہوئے  قومی ادارے واپڈا نے گودلیتے ہوئے، پچھلی کُچھ راتوں سے میوزیکل کانسرٹ کے ٹِکٹ مُفت میں بانٹنے شروع کئے  ہیں۔ وقت ،رات دو سے تین بجے ،مقام اہل محلہ کے اپنے اپنے پلنگ،  مچھروں کی سنگت اور فری کا میوزیکل کنسرٹ ۔ کُچھ نہ پوچھیں   موج  و مستی کی اُس   دُنیا کا حال۔ اِنسانی وجود میں ایسی تھرکتی کتھکتی تحریک کبھی راحت فتح علی  بھی پیدا نہیں کر پایا ۔ میوزیکل کانسرٹ میں پرفارمنس دینے والے مچھروں کی دِن بھر کی ریاضت کا نچوڑ رات کو پکے راگوں  میں ڈھلتا ہے ۔ ویسے تو مچھروں کے بھی بہت سے فِرقے ہیں    جِن میں سے ایک فِرقہ" ڈینگی مچھر " دہشت گردی پر  بھی یقین  رکھتا ہے  مگر اُس کی دہشت گردی امریکی طرز  کی  ہے ۔ امریکہ غیروں کے تیل پر پلتا ہے اور یہ اجنبیوں  کے جمع کردہ  صاف پانی پر۔مچھروں میںمولوی فِرقے کا تاحال کوئی وجود نہیں ہے۔بلا خوف و خطر رات کے آخری پہر میں رقص و سرور کی مخلوط محفلیں ،اِس کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں ۔ہماری طرح مچھر وں کا بھی یہی ایمان   کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔اللہ کی یہ مخلوق ہم سے  ذرا زیادہسیانی  ہے ،  روحوں  کی غذا  رِسانی کے ساتھ ساتھ کولڈ ڈرنک  کے  طور لال شربت کے دور   بھی وقفے وقفے سے چلاتی 
 رہتی ہے ۔

رِنگ رنگ رِنگ آ رِنگ رِنگ رِنگ آ
رِنگ رِنگ رِنگ آ رِنگ  رِنگ آ رِنگ

کھٹئے پے میں پڑی تھی  اور گہر ی نیند بڑی تھی

آگے میں کیا کہوں سکھیو رےےےے

اِک کھٹمل تھا سیانہ،مُجھ پے تھا اُسکا نِشانہ

چُنری میں گھُس گیا دھیرے دھیرےےےے

کچھ نہیں سمجھا وہ بُدھو، کچھ نہیں سوچا

رینگ کر جانے کہاں پہنچا رےےے


سائینس کی رو سے اِنسانی خون وارم بلڈ یعنی گرم خون  ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق بڑی پُرانی ہوچکی ہے  ۔ آج اِنسان سے زیادہ مشین قیمتی ہےاور موجود دور سابقہ ادوار سے یکسر مُختلف ہے ۔عصر حاضر کا   اِنسانی خون  بھی بقا کے اصول کے عین مُطابق وارم سے  کولڈ بلڈ میں تبدیل ہو چُکا ہے۔آج کے انسا ن کو   خون گرم  نہیں بلکہ  ہتھیلی گرم رکھنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔یقین نہیں آتا 

تواِنسانی  خون کی  چُسکیاں لیتے   مچھروں کے قہقہوں  ہی سے اِسکی "ٹھنڈک " کا اندازہ    لگا  لیجئے  ۔


جب سےمیاں شہباز شریف نے ڈینگی مچھر  اور اس  کےنُقصانات و بچاؤ سے آگہی کی زور دار  مہم چلائی ہے ۔ 
مُقابلے کو یہ  سالے مچھر تو لگتا ہے جیسے  آگہی اور ادراک میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لئے گھومنے  لگے  ہیں۔ 


سورج اڑتالیس کی گھنٹی بجا رہا،چرند پرند موت سے لڑتے نظر آرہےپر اِن مچھروں  کے ہاتھ تو جیسے حیاتِ خِزر کا نُسخہ لگ گیا ہو ۔آج کامچھر اِنسان کو صِرف ہیجڑہ ہی نہیں بناتا بلکہ ٹھیک ٹھاک بے وقوف بھی بناتا ہے  مچھر مار دوا سازوں کے گٹھ جوڑ سے۔

2 comments:

  1. ان بے وقوفوں کو یہ نی پتا کہ نصیبو اور ہنس راج ہنس آجکل کے نوجوانوں کی پسند نہیں رہے۔ اگر کنسرٹ ای کرانا تھا تو کسی ریپ سٹار کے ساتھ متھیرا کو بلاتے فیر شائد بات بن ای جاتی :ڈ

    ReplyDelete
  2. آپ نے درست کہا کہ مچھر ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ میں نے گھر کی کھڑکیوں میں باریک جالی لگوائی ہوئی ہے جس پر انہوں نے جم جانا شروع کیا اور اب اس میں سر دے کر زور لگاتے ہوئے اندر داخل ہو جاتے ہیں کمبخت ۔ اور اور آپ کا نادازہ ڈینگی مچھر کے متعلق بھی درست ہے ۔ میں نے اسے 1975ء میں پہلی بار واہ چھاؤنی میں دیکھا تھا ۔ ڈاکتر نے بتایا تھا کہ یہ امریکن مچھر ہے اور بہت خطرناک ہے

    ReplyDelete