آج چاچا ڈیوڈ بہت دِنوں کے بعد دفتر آیا تھا ۔دِن بھر کی
غیر معمولی مصروفیت کے سبب رسمی سلام دُعا کے عِلاوہ اُس سے کوئی بات نہ ہوئی۔ مگر شام کو پلک کے دو جھپکوں سےپہلے گھر پہنچنے کی تمنا دِل میں لئے میرے قدم حرکت میں آئے تو چاچا ڈیوڈ سے ٹاکر ا
ہوگیا۔ میں نے نظر اُٹھائے بغیر الوداعی سلام کیا ۔جواب میں اُسکی مخصوص دُعا "مولا
تینؤ خوش رکھے پُتر"کانوں سےٹکرائی ۔ میں نے جب سے یہ آفس جوائن کیا ہے اُس
ستر کو پہنچے بزرگ کو یہی دُعا دیتے سُنا ہے۔اپنائیت بھرے انداز میں کہا گیا
یہ دُعائیہ کلمہ بِجلی کی سی تیزی سے کانوں کے رستے دِل پر اثر کرتا جاتا ہے ۔ مگر آج یہ دُعا محض ایک
رسمی سی کاروائی کی طرح بے جان سی محسوس
ہوئی جو پردہ سماعت سے ٹکراتے ہی مُردہ ہوگئی۔میرے قدم اپنی جگہ جم گئے میں نے گردن گھُما کر چاچا کی
طرف دیکھا ۔ ہمیشہ چمکتی آنکھوں میں آج پہلی بار مُجھے خوف اور مایوسی نظر آئی۔وہ جوزف کالونی کے واقعہ کے بعد لاہور چلا گیا اور ایسٹر اپنی بیٹی کے پاس جوزف کالونی ہی میں گُزار کر آیا تھا۔ میں نے حالات کے بارے دریافت کیا تو وہ محتا ط انداز اپنے دِل کی بات کہنے لگا۔ اُسے تسلی
دینے کی خاطرمیں نےمذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے
کے موضوع پر دسویں جماعت میں رٹی
ہوئی تقریر بنا کِسی فُل سٹاپ کے کر ڈالی ۔وہ دیوار پر وزن ڈالے کھڑا ،سر کو معمولی
جُنبش دیتا میر ی تقریر سُنتا رہا اور
پھِر بولا"پُت تیر ی ہر گل بجا
، بے شک سارے وادے کاٹے پورے
ہوجاندے نے۔پر دِلاں تے لگے زخماں دا کی کریئے ؟ ظالم دے گل پیندا پھندا ہی اِناںزخماں
دا مرہم ہونداے۔ ساڈے زخماں تے مرہم خبرے کون رکھے گا تے کدوں رکھے گا؟؟۔ "چاچے
کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی اولاد کو پیٹ
پر پتھر باندھ کر اعلٰی تعلیم دلوائی ۔ اُن کی بہتر تربیت کی ۔ ہمارے گھر اذا ن کی
آواز پر گانا تو دور کی بات ٹی وی بھی بند کر دیا جاتا ہے ۔مگر ہائے رے بد نصیبی کہ آج بھی ہم مشکوک و غیر محفوظ ہیں ۔دلائل میں
رنگی میرے مُنہ سے برآمد ہوتی تسلیاں
مُجھے کمزور محسوس ہونے لگیں تو میں نے
گھر جانے کی اِجازت لی۔.
تیسرے فلور سے نییچے اُترتے وقت سیڑھیوں پر رکھا ہر قدم
مُجھے معاشرتی اِقدار کی تنزلی کا اِشارہ دیتا رہا۔مُجھے سکول
کا اپنا پہلا دِن یاد آنے لگا۔آنٹی مقبول کی اُنگلی پکڑے میں وی آئی پی پروٹوکول
اینجوائے کرتا پورے سکول سے مُتعارف ہوا تھا۔آنٹی مقبول ہمارے ہمسائے میں کرائے کے
مکان میں رہتی تھیں اور اُس سکول کی ہید
مِسٹریس تھیں۔سکول کا پہلے دِن کا یہ بمباسٹک تجربہ میرے حافظے میں جلد ہی دھندلا گیا مگر آنٹی مقبول کے گلے
کا لاکٹ ذہن پر اپنا گہرا نقش چھوڑ گیا۔بہت سالوں بعد صلیب اور صلیب سے جُڑی جنگوں
سے تعارف ہوا تو میں یہ معمہ حل کر پایا کہ آنٹی مقبول کے گھر آنے پر کیوں چائے کے
برتن خصوصی طور پر کلمہ پڑہ کر دُھلائے
جاتے تھے۔
فوارے والی گراونڈ سے میری بچپن کی یاری ہے۔ دس گیارہ سال
کی عُمر سے گرمیوں کی چھُٹیوں کے ساتھ ہی گلی کے بچے صُبح روشنی ہوتے ہی ست ربڑی گیند اور
بلا لئے گراونڈ پہنچ جاتے تھے۔ گراونڈ کے وسط میں لگا فوارہ توہم نے شاذو نادر ہی چلتے دیکھا مگر گراونڈ سے جُڑی
یادیں فوارے کی سی پھوار کی طرح ہمیشہ
خوشگوار احساس پیدا کرتی ہیں۔ سوائے وہ ایک اُداس کردینے والا واقعہ جب ایک گیا رہ
بارہ سالہ بچے سے دوران کھیل مُسلمانی ک
ٹیسٹ پاس کرنے کا مُطالبہ ہوا۔کرکٹ کے خمار میں گِرفتار وہ بچہ مذہب کی دیوار
پھلانگ کر خود کو مُسلمان ظاہر کر تا رہا مگر کلمہ سُنانے کا ٹیسٹ پاس نہ کر
سکا۔شرمندگی اور ذِلت کا احساس سمیٹے سر جھُکائے آہستہ آہستہ میدان چھوڑ کر جاتا
ہوا وہ لڑکا آج تک میں بھول نہیں پایا۔میں بچوں کی ا ِس حرکت کو
معصومیت کے نام پر یقیناً بھول جاتا
مگر چند سالوں بعد 1997نڑ والا روڈ ،فیصل آباد ،پر واقع عیسائیوں کی بستی کو جلا ڈالنے کے جہاد میں اِنہی بچوں کی جوانیاں اپنا حِصہ ڈالتی نظر
آئیں ۔اُس وقت کی شہباز گورنمنٹ کی پولیس
نے دو دِن کے کرفیو اور سخت سکیورٹی کے زور پر معاملات کو کنڑول میں کر لیا تھا۔
وہ ستائسویں رمضان کا دِن تھا جب یونس نے اِسلام قبول کرنے
کا اعلان کیا تھا۔ یونس ہماری گلی کا
خاکروب تھا۔ دو دِن بعد اُس نے عید گا ہ
میں ہمارے ساتھ نماز عید بھی ادا کی تھی ۔ مگر اُسے کِسی نے گلے نہیں لگایا تھا۔
بلکہ دور کھڑے ہوکر محلے کے کُچھ لوگ
اُس کی ہوشیاریوں اور ڈرامے بازیوں
کو یاد کرتے ہوئے اُس کا تمسخر اُڑاتے ،قہقے
لگاتے نظر آئے۔ اپنے اندر کبھی نہ جھانکنے والے دوسروں کے دِلوں کو اخباری سُرخیوں کی طرح پڑھ
ڈالتے ہیں"فٹا فٹ"۔ یوسف کے قبول اِسلام کی جب اخبار میں سُرخی لگی ۔ تو میں نے بہت
سو ں کو مٹھائیاں بانٹتے دیکھا۔ اِقبا ل سٹیڈیم فیصل آباد کی اگلی سیڑھیوں
میں بھی اِنہی شناسا چہروں سے مُلاقات ہوئی تھی
اُس ٹیسٹ میچ میں اِنہی لوگوں سےباونڈری
پر فیلڈنگ کرتےیوسف کو گِرے ہوئے گٹھیا القابات
مِلتے رہے اور وہ تماشایئوں کی حرکتوں کو اِگنور کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ یوسف
باؤنڈری پر آنے سے ٖ کترانے لگا۔میچ کے بعد یوسف نے تماشائیوں کے سلوک پر اعتراض بھی کیا ۔ مگر چند سالوں بعد یوسف مُسلمان ہوگیا ۔ اُس کے دِل میں اِسلام کا چراغ روشن کرنے والے ہم ہی میں سے ہیں مگر ہم سے بِالُکل نہیں ۔ وہ اللہ سے ڈرنے والے اور خلقِ خدا سے محُبت کرنے والے بزرگ تھے جو ہم میں سے
ہونے کے باوجود ہم جیسے نہیں ہیں۔ ہمار ے نبی آخری نبی ہیں اور اُن کا لایا
دین ، دینِ برحق ۔ہمیں اپنے دین پر فخرہے ۔فخر ہے۔ مگر فخر جب غرور بن جائے تو کُچھ
نہیں بچتا ۔ ما سِوائے اِک جڑ کٹا درخت جِسے محض اِک چنگاری سورج کی جنبش سے پہلے ہوا
میں اُڑا دیتی ہے ۔
بہت اچھا ۔۔
ReplyDeleteسچی بات تو یہ ھے کہ ھم بحیثیت قوم ،عوام کا یایک جانوروں نما ریوڑ ھی ھیں
ReplyDeleteاچھے برے حر جگہ ھوں پر ھم میں معاشری کی تربیت والے گٹس ھی نہیں ھیں
کوئی ایک آدھا پیس اچھ انکل آتا ھے تو اسکو کیچڑ میں کھلے کنول سے ھی تشبیہہ دی جا سکتی ھے
ورنہ اس میں قومی مزاج کا کوئی ھاتھ نہیں
مذہب کبھی بھی دلوں کو سخت نہیں کرتا، یہ پتا نہیں کیا چکر ہے کہ ساری قوم اسلام کو اِن چیزوں میں ڈھونڈ رہی۔
ReplyDeleteاللہ تعالیٰ ڈیوڈ صاحب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔
زبردست تحریر جناب
فضل دین نے صحیح کہا ہے کہ مذہب کبھی انسان کے دل کو سخت نہیں کرتا ، اگر ہم لوگ مذہب پر عمل پیرا ہوتے تو کبھی ہمارے دل دوسروں سے ایسے تنگ نہ ہوتے
ReplyDeleteآپ کے بلاگ پہ یہ میرا پہلا کمنٹ ہے اور مجہے یہ کہنے میں کوی عار نہیں کہ دوہرا ہے بهائ آپ کا تخیل بہت زرخیز ہے آپ جس طرح معاشرے کی دکهتی رگوں کو چهیڑتے ہیں وہ بہت سوں کے سوے ہوے ضمیر کو جگانے کے لیے کافی ہے اور آپ کی تحریر میں اب نکهار اور روانی بهی آتی جا رہی ہے جو پڑهنے والے کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے الله تعالی آپ کو اور صلاحیت عطا )عطا الحق قاسمی نہیں( کرے آمین
ReplyDeleteبہت اچھی، بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردینے والی تحریر! لکھتے رہیے۔
ReplyDeleteمیں آپ کا دکھ محسوس کر سکتا ہوں اور چاچا ڈیود کی لاچارگی بھی، ۔ مگر یہ مسئلہ نہیں جوزف کالونی کیوں جلائی گئ۔ یہ تو مسئلے کا ایک حصہ ہے ۔ جس کے تحت ایک بے قابو ہجوم نے اس شک کی بناء پہ فاترالعقل شخص کو پولیس سے چھڑا کر سر عام اسلئیے جلا دیا تھا کہ اس نے مبینہ طور پہ قرآن کریم کی بے حرمتی کی تھی۔ یہ دو مثالیں ہیں ان ہزاروں واقعات کیں، جن میں کبھی ۔ کہیں بھی عام لوگوں کو اشتعال دلا کر متشدد کیا جاسکتا ہے۔ اور یوں ہونا پاکستان اور پاکستانی عوام کی سلامی کے لئیے نہائت خطرناک ہے۔
ReplyDeleteضرورت اس امر کی ہے کہ علم کو عام کیا جائے۔ علماء اکرام اور دیگر مذاہب کے رہنماء اپنے ماننے والوں کو مذہبی انتہاء پسندی سے روکیں۔ اور اہل اسلام اپنے دین کے روشن اور برداشت کے پہلو کو اجاگر کریں ۔ اور سب سے بڑھ کر عام عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کو انکے مسائل حل کر کے دور کیا جائے۔ یہ تشدد اور متشددانہ ذہنیت انتہاء کی چھوتی ہوئی مایوسی کی وجہ سے بھی ہے۔
I do agree. ..
ReplyDeleteسچی بات تو یہ ھے کہ ھم بحیثیت قوم ،عوام کا یایک جانوروں نما ریوڑ ھی ھیں
اچھے برے حر جگہ ھوں پر ھم میں معاشری کی تربیت والے گٹس ھی نہیں ھیں
کوئی ایک آدھا پیس اچھ انکل آتا ھے تو اسکو کیچڑ میں کھلے کنول سے ھی تشبیہہ دی جا سکتی ھے
ورنہ اس میں قومی مزاج کا کوئی ھاتھ نہیں
آج صبح دفتر سے پہلے ناشتے کی میز پر یہ تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ناشتا مکمل نا کر سکا کیونکہ لقمے اپنا راستہ بھولنے لگے تھے۔ پہلے تو مجھے ہر اس بات سے اختلاف ہے کہ جس میں ہمیں قوم قرار دیا جائے۔ جو کچھ ہم ہیں کیا قم ایسی ہوتی ہے۔ ہم ایک جھنڈ ہیں جھنڈ گائے بھینسوں کا ایسا ریوڑ جسے اسلام انقلاب اور جہاد کا چارا دکھا کر جدھر دل کرے ہانک کر لے جاؤ۔
ReplyDeleteآذان بارے جو بات آپ نے لکھی میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ اپنے ہمسائے میں اس بات کو میں نے اکثر نوٹ کیا تھا۔ شائد یہی کچھ ہوتا ہے جب ہم ملک میں بسنے والوں کو اچھا مسلمان بنانے کی بجائے لک بن کر ریاست کو کلمہ پڑہانے میں لگ جاتے ہیں۔ اسلام ہے کیا یہ پتا ککھ نہیں ملک اسلامی ہے بس اور ہم نے کرنا ہے دہلی فتح لیکن کرتوت اتنی کے کہ ملک میں بسنے والے 2 فیصد ہندو ہم سے برداشت نہیں ہوتے، ہر تیسرے سال ہم فیصل آباد، گوجرہ ، اور جوزف کالونی جیسے واقعات کر کے اپنے مسلامانی جزبات کو تسکین پہنچاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ہستی کی وجہ سے ہم مسلامان ہیں اسکی تعلیم کیا ہے اسے اس سب کا کتنا دکھ ہوتا ہوگا۔ خدارا اس مغالطے سے نکل آئیں کہ ہم قوم ہیں۔ ہم ریوڑ ہیں بھولی مجوں کا ریوڑ۔