میرے تخیل نے جب بھی اُڑان بھرنے کے لئے پر تولے تو اُن کا
وزن چند چھٹانکوں سے زیادہ نہ نِکلا ۔کوشش
در کوشش سے تولے ،ماشوں میں اِضافہ تو ہوا
مگر
تخیل کاشوق ِ پرواز اِنہی ٹوٹے
پھوٹے اور بےوزن پروں میں ہی دم توڑتاگیا ۔
مجبوراً مُجھے یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑا کہ یہ کم بخت میرا تخیل
بھی حقیقی زِندگی کا
آئینہ دار ہے۔۔۔میر ی
حقیقی زِندگی کی مثال اُس سرکاری دفتر کے آفس بوائے کی سی ہے جو کہ صاحب کے روم کے باہر بیٹھا اکثر خوابِ
اخروٹ کے مزے
لیتا دِکھائی دیتا ہے .ایک کپ چائے کے لئے نیند میں خلل آنے پر
مُنہ بسورتا ہوا کِچن کا رُخ کرتا ہے اور ایک عدد سینہ ساڑ قِسم کی کالی چائے کا کپ طلبگار
کی خِدمت میں دے مارتا ہے۔
میں تخیل کے پرواز
کا شوق تو پورا نہ کرپایا مگر اپنا خیالی
انڈےاُبالنے کا شوق ابھی تک پالے ہوئے ہوں۔انڈوں کا یہ خیالی کاروبار کِسی شیخ چلی
کی صحبت کا اثر
نہیں ہے بلکہ یہ انتخاب میں
نے اپنی سہل پسندی کی عادت کے باعث خود ہی فرمایا ہے ۔ایک تو دماغ میں اُبل اُبل کر یہ
انڈے خود ہی پک جاتے ہیں اور میرے تخیل
کو دوام بخشنے کا باعث بنتے ہیں ۔دوسری بات یہ کہ اگر کُچھ کرنے کو دِل نہ چاہے تو بِنا کِسی
جھنجٹ کے توڑ کر پھینکنا بھی آسان کام ہے۔ جہاں تک مُجھے یاد پڑتا ہے خیالی انڈے
اُبالنے کا شوق مُجھے بلوغت کی پیچیدہ
زِندگی میں قدم رکھنے سے پہلے سے ہے۔جب میں
اپنی دادی اماں سے روپیہ دو روپیہ لیکر رگلی میں
بِکتی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں خرید
لاتا تھا اوراُنہیں غُسل خانے میں سیمنٹ
کےبنے بڑے سےباتھ ٹب میں ڈال کر اُن کے
بڑے ہونے کا اِنتظار کر تا تھا۔وہ مچھلیاں چند دِن بعد مرنے سے پہلے
میرے نام
ہزاروں انڈے وصیت کر جاتی تھیں۔ میں آج بھی اُنہی انڈوں کو خیالوں
میں لئے جی رہا ہوں۔
میرے دور کی جینریشن نے وی سی آر کے توسط سے تعلیم تو خیر
حاصل نہ کی مگر تربیت کو خوب
گلے لگایا۔ایک دور تھا جب ایک رات
کے لئے وی سی آر کرائے
پر لایا جاتا اور بغیر کسی بریک کے چار چار فِلمیں ہضم کی
جاتیں۔بعض اوقات چلتے چلتے وی سی آر کے ہیڈ
میں کچرہ آنے سے فِلم سے فِلم بینوں کا رابطہ مُنقطہ ہو جاتا
ایسےمیں ہیڈ صاف کرنے کی ضرورت پڑتی
تھی۔ میری تخیلاتی دُنیا میں بھی انڈے
اُبال قِسم کےخیالات فِلمی انداز میں ہر دم چلتےرہتےہیں۔مگر بعض اوقات ہیڈ میں کچرہ
آجانے
کے باعث ہیڈ کی صفائی نا گزیر ہو جاتی ہے بس اِس صفائی کی خاطر میں قلم
اُٹھاتا ہوں اور کُچھ لِکھ ڈالتا ہوں۔
میں نے جب بھی لِکھا خود ہی پڑھا اور کُچھ دِنوں بعد پھاڑ
کر پھینک دیا۔پِچھلے سال فروری میں میرے ایک قریبی دوست کے ہاتھ میر ی ایک تحریر
لگ گئی ۔
جناب میرا وہ قیمتی کاغذ لے اُڑے ۔ اگلے دِن میں اپنی پُرانی سی سکوٹری
پر وہ کاغذ لینے اُن کے گھر جا پہنچا۔
موصوف نے وہ "قیمتی اثاثہ" میرے ہاتھ میں دیتے
ہوئے ایک عدد مشورہ دے
ڈالا۔"یار یہ جوتُم فضول قِسم کی بکواس
لِکھنے میں وقت برباد کرتے ہواِس س کہیں
بہتر ہے کہ اپنی اِس گند ی ہوتی
سکوٹری کو پانی و کپڑا
مار کر صاف
کر لیا کرو"۔ واپسی پر گھر جاتے ہوئے میری پھٹیچری گاڑی نے اِتنا دھواں نہیں
مارا ہوگاجِتنی میرے مُنہ سے اُن کے لئے دھواں دار القابات برآمد ۔
بس پھِر میں نے ضِد
میں آکر اپنا بلاگ بنا ڈالا۔مگر یہ میرے
محترم دوست کا بڑا پن ہے کہ اُس نے
اپنی کہی بات کو انا کا مسئلہ نہ بنایا
بلکہ وہ بلاگ پر تشریف
بھی لاتے ہیں اور مُفید مشورے بھی دیتے ہیں۔ بڑے لوگ ہمیشہ
بڑے دِل والے ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ہر طرف سچ ہی سچ بِکھرا ہوا ہے ہر چینل
اور اخبار سچ کےاصولوں پر قائم اور ہر کوئی
سچ بول رہا ہے اور بیچ رہا ہے ۔ بڑا سخت مُقابلہ ہے
اِس میدان میں ۔اِسی
لئے میں نے جھوٹ کا اِنتخاب کیا اور اپنا
بلاگ جھوٹ سے شُروع کیا ہے
آدھے جھوٹ سے ۔ یہ تجربہ کامیاب رہا تو پورا جھوٹ بولنا بھی
شُروع کیا
جاسکتا ہے۔
میں خصوصی طور شُکریہ ادا کرنا چاہوں گا اپنے دیرینہ دوست جعفر
حُسین کا جِس نے میری بھرپور راہمنائی کی ۔وہ واقعی اُستاد کہلائے جانے کا
حق دار ہے۔
شیخوں کی کنجوسی کے مُتعلق ہزار قِصے مشہور ہیں ۔ مگر میرے
ایک شیخ دوست ہیں ۔ وہ مُجھے بِنا پیکج لمبے لمبےفون کرتے ہیں اور اپنی پریکٹیکل دُنیا
کے قیمتی تجربات مُجھ
حقیر سے شئیر
کرتےہوئے ہمیشہ میری راہنمائی و حوصلہ
افزائی کرتے ہیں۔میں اُن کا شُکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
میں تمام ریڈرز اور ساتھی بلاگرز کا بھی مشکور ہوں جِن کے قیمتی کومنٹس میری تربیت اور فِکری بلوغت کا باعث بن رہے ہیں ۔آپ دوستوں کا ساتھ رہا
تو یہ سِلسلہ چلتا رہے گا۔(اِنشاللہ)
مبروک یا حبیبی۔ پورا جھوٹ لکھ یار۔ بندہ کسے پاسے تے لگّے۔ آر یا پار۔
ReplyDeleteلیں جی ہم سمجھے آپ کسی چینل کے لتے لینے لگے ہیں ہمیں خیال نہ آیا کہ آپ خود آدھا جھوٹ کے نام سے لکھتے ہیں
ReplyDeleteیعنی کہ ہمیں آپ پر اتنا بھروسہ ہے کہ آدھا جھوٹ ہونے کے باوجود سچ لگا ہے
اللہ کرے جی 100 سال مکمل کرے آپکا بلاگ
ہیپی برتھ ڈے تو یو ڈیئر آدھا جھوٹ بلاگ
ReplyDeleteبرتھ ڈے کی مناسبت سے خوبصورت تحریر لکھی ہے، مزا آیا۔ لکھتے رہیئے جناب، پتا نہیں کب ہم پورا سچ سُن ہی لیں آپ سے
مبارکاں جناب
ReplyDeleteمجھے تو سمجھ نہیں آرہا کہ استاد کو خوش قسمت سمجھوں یا شاگرد کو
بہرحال آپ دونوں استاد شاگرد مبارکباد کے مستحق ہیں
مبارک بادیاں جی،
ReplyDeleteلگا تو تھا کہ شایدآپ آج کسی سیاسی پروگرام پر لکھیں گے مگر خیر اب جس طرح بھی لکھا جائے ہمارے معاشرے پر فٹ بیٹھتا ہے،
شرط صرف ترتیب کی عدم موجودگی ہے،
لکھتے رہئے، آپ کونسا خواص میں سے ہیں، جو حالات بہتر ہوجائیں گے۔
سال مکمل ہونے پر مبارک قبول کریں اور آدھے جھوٹ میں سے آدھا سچ نکال دیں یا آدھے جھوٹ سےتوبہ کرے مگر ہمیں یہ لگتا ہے آپ جھوٹ سے کام ہی نہیں لیتے
ReplyDeleteسال پورا کرنے کی مبارکیں جناب، بس سچ سن سن کے ، دیکھ دیکھ کے اور سہہ سہہ کر عجیب بد مزہ سا ہو گئے ہیں آپ اپنے جھوٹ کے تڑکے سے ساتھ ادھر رہیں منہ کا سواد بدل جاتا ہے- خوش رہیں
ReplyDeleteماشاءاللہ جی بہت خوب۔
ReplyDeleteجعفر استاد جی کا بھی شکریہ
اب دیکھنا یہ ہے کہ آدھا جھوٹ کامیاب ہوتا ہے یا آدھا سچ۔
کیونکہ جہاں آدھا جھوٹ ہے تو وہاں ادھا سچ بھی تو ہے
جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے اور آپ نے اسے بھی آدھا کر دیا۔
ReplyDeleteپھر بھی آپ کے مکسو مکسی حقائق سے مزیدار راءیتہ بنا کرے گا۔
امید اور دعا
ایک دور تھا جب ایک رات کے لئے وی سی آر کرائے
ReplyDeleteپر لایا جاتا اور بغیر کسی بریک کے چار چار فِلمیں ہضم کی جاتی۔۔۔۔۔زبردست
Mashallah aik seal mukamal Hong ki mubarakbad apki mutaqil mizaji ki dad deni parhy GI Allah mazeed taraqi due ta k ap united states of Faisalabad ka nam roshan lar sako.
ReplyDeleteMashallah aik seal mukamal Hong ki mubarakbad apki mutaqil mizaji ki dad deni parhy GI Allah mazeed taraqi due ta k ap united states of Faisalabad ka nam roshan lar sako.
ReplyDeleteBht rawani sy khyalat ko ley k chaltey hein.......dinon ki is ta'adad k mukammal hony pe mubarakbaad.......Allah kry hmein kai baar aisi mubarbadein deny ka mouqa mily
ReplyDeleteآدھے جھوٹ میں کیا قباحت ہوگی،انسان تمام عمر جیتے چلے جانے کے لئے، خود اپنی ذات سے پتہ نہیں کتنے پورے جھوٹ بولتا ہے
ReplyDelete