Saturday, 8 October 2016

انڈر ایٹین

اس نے سگریٹ سلگا کر پہلا کش لگایا تو مجھے اپنے بدن میں جھرجھری سی محسوس ہونے لگی. میں نے ناپسندیدگی کا اظہار ہاتھ سے سگریٹ کا دھواں  تو جیسے  زور سے پرے دھکیلتے ہوئے کیا اور پھر گھورتے ہوئے اس سے پوچھا. عمر کتنی ہے تمہاری ؟ اُس نے  معصوم سی آنکھیں گھما کر دوسری طرف پھیر لیں۔ بڑے سکون سے نے دوسرا کش لیا.کچھ دیر پھیپھڑوں میں زہر سنبھالے رکھا اور پھر آہستہ آہستہ منہ سے دھویں کے دائرے بناتا ہوا بولا. میری زندگی کوئی شیلا کی جوانی تھوڑا ہے صاحب کہ کتنی گزری ، حساب رکھوں. ہم کو تو بس دنوں کا وزن , چڑہتے سانسوں کی ڈوری میں باندھے اٹھانا ہے.دیہاڑیوں میں جینا اور مرجانا ہے. سگریٹ ختم کرتے ہی ٹرک پر سے مزید ایک بوری اس نے اپنی پیٹھ پر لادی اور چل پڑا میں اسے دور تک سیڑہیوں پرچڑھتادیکھتا رہا.یہ اسکا تیسری منزل پرسیمنٹ کی بوری اٹھائے لیجانے کا گیارہوں چکر تھا جو میں گن سکا .اس عمارت پر اوپر تک نظر دوڑائی مزلیں اسکی بھی گیارہ ہی تھیں .یہ لگژری اپارٹمنٹ ہیں جو ابھی تعمیر ہو رہے ہیں. اگلے چند ماہ میں یہ عمارت اشرافیہ کا مسکن ہوگی .مہنگے سکولوں میں پڑہتے بچے ماں باپ سے چھپ کر یہاں سگریٹ نوشی بھی فرمائیں گے.شیلاؤں کی جوانیوں کے الاؤ کے گرد رقص کرتے بھی دیکھے جائیں گے. اس وقت بھی یہ پندرہ، سولہ سالہ بچہ اپنے کاندھوں پر زندگی کا بوجھ دیہاڑیوں میں بانٹے اٹھا رہا ہوگا.
جسے میں انڈر ایٹین ہونے پر سگریٹ نوشی کا لیکچر دینا چاہ رہا تھا وہ مجھے تلخ حقائق کا سبق پڑہا گیا.