ہمارا ساتھ والی گلی کی ٹیم کے ساتھ ہوم سٹریٹ میچ چل رہا تھا ۔ ہمیں جیت کے لئے تین گیندوں پرمحظ دو رنز درکار تھے۔ باؤلر نے اپنے رن اپ پر دو
قدم ہی اُٹھائے تھے کہ
امپائر کے اِشارے پر رُک گیا۔ میں جو
بیٹنگ کریز پر پوری یکسوئی کے ساتھ باؤلر پر نظریں جمائے ہوئےتھا۔ امپائر کا باہر
کو نِکلا ہو ا ہاتھ دیکھ کر سیدھا ہوگیا۔
اِک لڑکی ہرنی کی سی چال میں تِرچھے زاویے سے سڑک کراس کرتی ہوئی نظر آئی ۔ میری
تمام تر یکسوئی اِن چند لمحوں میں بِکھر سی گئی بس پھِر کیا تھا ہم میچ ہار گئے اور میں اپنا دِل۔
اُس کی چُنری کا ریشم سے بالوں کی ملائمت پر سے پھِسلنا، نیم جھُکی نظروں میں شرماہٹ
اور اپنائیت کے اچھوتے بلینڈ کا جھلکنا ،
پیلے کُرتے شلوار پر پھُلدار لال دوپٹے کا غضب ڈھانا ۔ جانے کونسی ادا جو کہ میرے دِل میں مُستقل گھر کرگئی۔اِن چند
لمحوں نے میر ی زِندگی ہی بدل ڈالی ۔
اُس کی خوبصورتی کے کیا کہنے ۔یہ آج
کل کی کترینہ کیف میک اپ انڈسٹری کے سمندر میں سات ڈُبکیا ں لیتے ہوئے بن ٹھن کر
نِکلے تب بھی اُس قدرتی حسن اور پاکیزگی کے
عشرِ عشیر کو بھی نہ پہنچ پائے۔ وہ ہماری گلی کے نُکڑ والے گھر میں رہتی تھی، اُس گھر کی اوپر والی منزل پر ہماری گلی کی طرف اُس کا کمرہ تھا۔سورج کی پہلی کِرن اُسی
کے کمرے پر پڑتی تھی۔ ہر صُبح اُس کی
گالوں کو چومتی ، وہ جھٹ سے اُ
ٹھتی ، جھروکےسے جھانکتی اور یوں ساری گلی میں اُجالا ہو جاتا۔ ہم یار
دوست تقریباً ہر شام میاں صاحب کےگھر
کے باہر تھڑے پر بیٹھے گپیں لگاتے تھے ۔کرکٹ
، کالج کے قِصے ، سیاست ، پونڈی اور
فِلمیں ہمارے پسندیدہ موضوعات ہوتے تھے۔ مگر اب میرے لئے ہر
چیز بے معنی سی ہوگئی تھی میرا پورا وجود
بس یہی پکارتا تھا " شامان پئیاں دِل
دے ویڑے توں چانن بن کے آ" اُس کا چند لمحوں کے لئے جھروکے میں آنا۔ گھر سے
کِسی کام یا کالج کے لئے
نکلنا ، اور میرا ایک نظر اُسے دیکھ لینا بس میرے لئے زِندگی اِس کے سِوا کُچھ
نہ رہی تھی۔
وہ بارہویں کلا س کی طالبہ تھی اور میں بھی روزانہ ہاتھ میں دوعدد کِتابیں اُٹھائے کالج کی سیر کو
جاتا تھا ۔ جہاں پہلے ہی پیریڈ میں ہمارے اُستا د
یہ فِقرہ ضرور دہراتے تھے" او
میرے ہیرے پُترو بی اے کی انگریزی آوارہ
کُتوں کی طرح گلیوں میں لور لور پھِرنے سے
کلئیر نہیں ہوتی "۔ہمارے اُستاد بہت فرینڈلی طبیعت کے مالک تھے۔اُنہوں نے ہماری
انگریزی پر خوب محنت ضائع کی۔ ہمیں پریسی لکھنے کےاسلوب سِکھائے اور خوب
پریکٹس کرنے کی تلقین کی ۔ میں نے بھی اپنی تمام تر توانائیاں اُس پندرہ
صفھے کے خط کو اثر انگیز، محبت سے لبریز اور
پریسائس بنانے میں صر ف کر ڈالیں جو میں
اپنی محبت کی پہلی راتوں میں لِکھ
چُکا تھا ۔ پندرہ صفحوں کو سُکیڑ کی
میں لگ بھگ دو صفحات کے احاطے تک
محدود کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب اِسے مُحبت
کا ضعف کہیں یا اِک بُزدِل کی مُحبت ۔
انگریزی ادب کی وہ شاہکار تحریر آج تک کِسی کے ہاتھ نہیں لگ سکی ۔شائد میرے بعد یا صدیوں بعد دورانِ کھُدائی پولیتھین
کی موٹی پیکنگ میں نہائت سلیقے سے
تہہ شُدہ حالت میں پائی جانے والی تحریر کِسی تاریخ دان کے
ہاتھ لگ جائے۔پھِر دُنیا ڈھونڈتی پھِرے گی اُس سچے مگر ناکام ع ا ش ق کو۔
دِن رات یونہی گُزرتے گئے اور بہار سے موسم جاڑے میں تبدیل ہوگیا۔ دِسمبر کی
چھُٹیوں میں اِک ٹھنڈی سہ پہر میں اپنے
لنگوٹئے یارکے ساتھ میاں صاحب کے تھڑے پر بیٹھا
دِل کا بوجھ ہلکا کر رہا تھا
کہ گُڈو آن پہنچا۔ گُڈو" اُن"
کا بارہ سالہ مُلازم تھا جِسے ہم کرکٹ کھیلتے ہوئے رلو کٹے کے طور پر ساتھ رکھتے تھے۔ اُس نے آتے
ہی پوچھا "بھائی جان آج کرکٹ
نہیں کھیلیں گے ؟"میں
نے اُسے اِگنور کرتے ہوئے نفی
میں سر ہلایا اور اُس سے جان چھُڑانے کے لئے کل کا کہ
دیا۔ وہ
قدرے مایوس انداز میں بولا
"کل، تو مُجھے ٹائم ہی نہیں مِلے گا کل تو مہمانوں نے آنا ہے جی، باجی کی شادی
کی تاریخ رکھنے "۔ یہ کہ کر مایوس گُڈو تو چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا گھر کو ہو لیا۔ مگر اُس کم عقل کی دی ہوئی خبر مُجھ پر ایک دھماکے کی طرح بریک
ہوئی۔میرا لنگوٹیا اور واحد ہمراز مُجھے
سہارا دیکر گھر تک لے آیا۔ چند
ایک تسلیاں دیں اور جاتے ہوئے میری
جیب میں غم بھُلانے کی دوا ڈال گیا جو کہ وہ
تازہ تازہ خرید کرلایا تھا۔ میں
تین دِن تک خود ساختہ قید تنہائی
میں رہا اور غم بھلانے کی دوا ہی میرا
ساتھ دیتی رہی۔ یہ بِناکا گیت مالا کا لیٹسٹ والیم "غم کے آنسو "تھا۔
واہ کیا گانے تھے" میری قِسمت میں تو نہیں شائد کیوں تیرا اِنتظار کرتا ہوں" اِ ن تین دِنوں کی خود
ساختہ قید اور "غم کے آنسو" میری
ری کوری میں بہت معان ثابت ہوئے۔یقیناً تنہائی اِک بہترین مساج ہے اور سوچ بِچار
ایک طاقتور ٹانک ۔
اُس کی جِس جھٹ سے منگنی ہوئی تھی اُسی پٹ سے شادی ہوئی۔ امریکہ
میں تین عدد پٹرول پمپس کے مالک تھے صاحب ۔
بقول رائے دہندگان جناب جھٹ پٹ صاحب بہت
ہینڈ سم اور
اِنتہائی مِلنسار طبیعت کے مالک تھے
یہ الگ بات ہے کہ وہ مُجھے تو دیکھنے میں
بُش سینئیر کا باڈی گارڈ ہی لگا۔ قِصہ
مُختصر وہ جھٹ پٹ کے ساتھ جھٹ سے امریکہ
کے لئے اُڑ گئی۔۔۔اورمیںاُڑتے جہاز کو دیکھ کر بس یہ گیت دہراتا رہا "برباد
محبت کی دُعا ساتھ لئے جا" اِنسان کی
زِندگی میں کُچھ تعلق ماچس کی تیلی کی مانند ہوتے ہیں جو کُچھ دیر کیلئے اور تھوڑی سی روشنی کرتے ہیں ہے اورکُچھ تکلیف دے کر ہو ا میں اُڑ جاتے ہیں مگر
وہ چند لمحوں
کی روشنی اِنسان کے اندر اِک چراغ جلا جاتی ہے کبھی نہ بجھنے والا روشن
چراغ ۔
میری اگلی منزل اللہ سے لو لگانے کی
تھی۔میں نے چاروں نمازیں با جماعت مسجد
میں پڑہنا شُروع کردیں ۔ چار اس طرح
کہ سردیوں کے یخ موسم میں بِسترمجھے نہیں چھوڑ تا اورگرمیوں کی چھوٹی چھوٹی راتوں میں
بِستر مجھ سے نہیں چھوڑا جاتا
۔ اِسی لئے فجر کی نماز بابت معافی
نامہ میں ہمیشہ سے ہی اپنی جیب میں تیار رکھتا
ہوں ناجانے کب بُلاوا آجائے ، جھٹ سے اللہ
کے حضور پیش کر دوں گا۔اللہ بہت معاف کرنے
والا ہے۔ ہمارے محلے کی مسجد ساتھ والی
گلی میں تھی بس موڑ مُڑو
کُچھ قدموں کی واک اور بندہ مسجد
میں۔ میں جب بھی مسجد جاتا تو راستے میں
اُسی نُکڑ والے گھر کی نیم پلیٹ پر میری نظر چند لمحوں کے لئے احتراماً ٹھہرتی تھی ۔جِس پربڑی نفاست سے لِکھا تھا"سکون
وِلا" ۔ اِس احترام و عقیدت کی وجہ
کچھ اورنہیں ہماری کرکٹ کے رلو کٹے"
گُڈو " کی دی ہوئی خبر تھی جِس کے مُطابق یہ نیم پلیٹ اُس کی باجی نے اپنے ہاتھ سے لِکھی تھی۔ وقت نے کروٹ لی اور تقریباً دو سال بعدمیں اِس گلی ، محلے بلکہ شہر سےدور پھینک دیا گیا۔
بہت عرصے بعد اپنے شہر جانے کا
اِتفاق ہو ا تو اس گلی سے جڑی یادیں اِک
مقناطیس کی طرح مُجھے اپنی طرف کھینچ لائیں۔ سہپہر کے وقت میں کُچھ دیر باقی تھا ، گلی میں بِالکُل
خاموشی تھی۔ یہاں بہت کچھ بدل چُکا تھا ۔کچھ
گھر گِرا کر نئے بنائے جا چُکے تھے۔ جِن میں ہماری سابقہ رہائش گاہ بھی شامل تھی۔
البتہ میاں صاحب کا تھڑا اپنی اصل حالت میں دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہوئی ، میں وہیں بیٹھ گیا۔ پھرِ تو جیسے کِسی نے دماغ کا سرچ بٹن ہی دبادیا ہو لمحوں میں فائلوں کاایک انبار لگتا گیا۔ گولیوں
مچھیوں ، اِمبلی چورن والے چاچا اکرم سے
لیکر میری پہلی شیو بنانے والا دوسہ نائی،
اور نہ جانے کیا کچھ۔ مُجھے تو دماغ کا نیٹ ورک ڈگ مگاتا ہوامحسوس ہوا۔ توجہ بٹانے
کے لئے میں نے سِگریٹ سُلگائی ابھی دو
کش ہی لئے تھے کہ اذان کی آواز میرے کانوں
میں گونجی ۔ میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو ابھی پونے چار ہوئے تھے اور نماز میں بہت ٹائم پڑا تھا ۔ میری سِگریٹ
ختم ہوئی مگر یادوں کی لڑی تھمنے میں نہ
آئیں۔ میں کچھ دیر اپنے ماضی میں کھویا رہا ۔ اور اُٹھا چھوٹے چھوٹے قدم لیتا ہوا نُکڑ والے گھر کے سامنے آکھڑا ہوا میری نظر "سکون وِلا " کی مخصوص جگہ پر پڑی مگر۔۔ ۔
گھر کا مین گیٹ کھُلا ہو اتھا ،مجھ پر
سکتہ سا طاری ہوگیا۔ میں بُت بنے کھڑا تھا، گے کہ اِک صاحب نے مجھے بڑی گرمجوشی سے گلے لگایا اورگھسیٹتے ہوئے "سکون وِلا " کے اندر لے گئے۔ میں
اپنے ہوش میں نہیں تھااُن صاحب کی گرم جوشی
سے اندازہ ہو ا کہ ہماری اِ ن سے بہت پُرانی علیک سلیک ہے۔ ۔ اقامت کہی جار ہی تھی۔ میں نےبمشُکل وضو
کِیا اور جماعت کے ساتھ ہو لیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں اپنا ہی نماز ِ جنازہ پڑہ رہا ہوں۔مولانا
صاحب نے سلام پھیرا ، دُعا کی اپنی ناف کو چھوتی ہوئی ریشِ مُبارک میں خلال کیا۔ اور اپنی جگہ سے اُٹھ کر ایک کونے
میں پہلے سے تیار بیٹھے بچوں کو سبق دینے لگے۔ سب نمازی جاچُکے تھے مگر
مُجھ میں اُٹھ کر چلنے کی بھی ہمِت نہ
تھی۔ میری سوچنے کی صلاحیت گُم ہو چلی تھی مگر میری نظریں مولانا
ہی پر جمی ہوئی تھیں۔ کُچھ دیر بعد میں گھِسٹتا ہوا مولانا صاحب کے پاس آبیٹھا اور اُن سے سوال کر نے کی جسارت کر ڈالی کہ ساتھ والی گلی میں محظ چند قدموں پر ایک بہت بڑی اور کشادہ مسجد موجود ہے تو پھِر اِس رہائشی عِلاقے کے اِس
گھر میں مسجد بنانے کی آپ کو کیا ضرورت محسوس ہوئی؟ میر ے لہجے کی تُرشی اور جُملے کی کڑواہٹ کو محسوس کرتے ہوئے ،ہاتھ میں پکٹرے ڈنڈے پر اُن کی گرفت مضبوط ہوتی گئی ۔مولانا کی آنکھوں میں اُترتا ہوا جلا ل دیکھ کر میری آواز
کی تُرشی گلے ہی میں دب کر رہ گئی۔ ۔۔ ۔۔۔
میں تیز تیز قدم اُٹھاتا اِس گلی کو پیچھے چھوڑتا جار ہا تھا میرے ماضی کا قیمتی خزانہ سانس لیتی جیتی جاگتی زِندہ یادیں ہیں ، جوسکون وِلا کو مسجد ماننے سے قطعی اِنکاری تھیں۔ مولانا صاحب کے کہے ہوئے
الفاظ میرے کانوں پر مُسلسل ہتھوڑے کی طرح لگ رہے تھے۔ "
دین کی اصل حالت میں ترویج ہم سب پر فرض
ہے اور اِس پورے ایریا میں ہمارے شِرک و بدعت سے پاک مسلک کی ایک بھی مسجد اور مدرسہ موجود نہیں تھا
۔ہمارا یہ اقدام شریعت کے عین مُطابق ہے ۔
یہ گھر برائے فروخت تھا ہم نے خرید کر
اِسے مسجد و مدرسہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔"