گُل خان ہمارے
بڑے صاحب کا سرکاری ڈرائیور ہے۔ وہ اِنتہائی
سادہ طبیعت اور خلوص سے بھرا ،کھرا اور پیارا اِنسان ہے۔ وہ خیبر پختونخواہ کے
کِسی دور افتادہ گاؤں سے تعلق رکھتا ہے ۔ اِتنا دور کہ بیسوں دفعہ بتائے جانے کے
باوجود بھی مُجھے اُس کے گاؤں کا نام یاد نہیں رہتا۔میں اکژ سوچتا ہوں کہ گُل خان
اگر کبھی برینڈڈ سوٹ پہنے بازار کا چکر لگائے تو لڑکیاں اُسے بریڈ
پِٹ نہیں تو اُس کا کزن سمجھتے ہوئے آٹو
گراف لیتی ہوئی نظر آئیں ۔وہ اپنے کام اوراُس سے جُڑے لوگوں سے اِنتہائی مُخلص ہے۔
میں نے اُسے کبھی بھی کِسی قِسم کی دفتری سیاست کا حِصہ بنتے نہیں دیکھا۔
میرے آفس کولیگز میں غالباً گُل خان وہ
واحد بندہ ہے جِسے میں بے دھڑک اپنے اچھے ساتھیوں یا دوستوں میں شُمار کر سکتا ہوں۔ فُرصت کے لمحات میں وہ
اخبار کا مطالعہ کرتا ہوا پایا جا تا ہے یا پھردُنیا جہاں سے لاتعلق ہوئے کِسی ٹی
وی ٹاک شو کا حِصہ بنا ہوا نظر آتا ہے۔ گُل خان جیسے لوگ جہاں بھی ہوں اپنے کِردار
کی بُلندی سے ہراِک سے عِزت و احترام پاتے ہیں۔وہ بڑے گہرے سیاسی نظریات رکھتا ہے
جِن پر اِسلامی رنگ غالب ہوتا ہے۔ گُل خان کی
سیاست اور حالات حاضرہ پر، وقت اور حالات کی نز اکت کو سمجھے بغیر بے لا گ اور طول پکڑتے ہوئے تبصرے ایک واحد ایسی عادت ہے جو بسا اوقات سُننے والے کے لئے سخت کوفت کا باعث بنتی ہے۔
ابھی کچھ ہی
عرصے پہلےگُل خان نے آغا وقار کی پانی سے
گاڑی چلتی دیکھی تو بس پھِر کیا تھا جناب
نے دو عدد گاڑیاں لیکر کر کرائے پر
چلانے کا خواب بھی دیکھ لیا اور نوکری کو
خیر باد کہنے کی پلیننگ بھی کرلی۔ اُس کا
کہنا تھا کہ آغا وقار اگر امریکہ میں پیدا ہوتا تو شائد اب تک نوبل پرائز کا حق دار ٹھہرتا۔آغا وقار کی مدح سرائی سے تنگ آکر میں نے نامور کیمیا دان ،
ڈاکٹر عطا لرحمٰن کی اعلٰی ترین ڈِگریوں اور اُن کے تحقیقاتی مقالوں کا
رُعب جماتے ہوئے اُسکی زُبان بندی کی
کوشش کی تو گُل خان نے جواب دیا۔
"صیب اِتنا بڑا کیمیا دان ہوتا تو
ایک محلول نہ تیار کر لیتا جِس کے
غرارے کرنے سے بندے کی آوازتو مردانہ ہو جاتی
" گُل خان نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی خاطر حامد میر
کا سہارا کُچھ اِن الفاظ میں لیا" صیب حامد میر بال کی کھا ل اُتار کر
اُسے نچوڑتا ہے اور پھِر دھوپ میں سوکنے ڈال دیتا ہے ، اُس نے
پرویز رشید کے ساتھ بیٹھ کر پانی والی گاڑی
خود چلائی ہے ،پتا نہیں آپ کیا بات کرتا
ہے۔"
گُل خان کا
کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں میں بہت ٹیلنٹ
ہے جِسکی مثال وہ اپنے ساتھی کے کارنامے
سے دیتا ہے جِس نے بقول گُل خان کے گھڑی اُلٹے رُخ چلا کر اپنی ذہانت و قابلیت ثابت کی۔ میں نے گُل خان پر اپنی تعلیمی برتری جتانے کی غرض سے سوال کیا کہ
گھڑی کلاک وائز چلتی ہے اِس کے رُخ
کو اینٹی کلاک وائز چلانے سے بھلا کیا فائد ہ ہوا؟ گُل خان کا جواب تھا " صیب آپ کی بات اپنی جگہ ،مگر میرے دوست
نے گھڑی کو دائیاں رُخ دِکھا کر ہماری گھڑی
کو اِسلامی رستے پر چلا دیاہے "۔
پانی گاڑی فیم
آغا وقار کی پولیس کو مطلو ب ہونے کی خبر جب سُننے
میں آئی تو میں نے گُل خان کو چھیڑتے ہوئے
کہا کہ یار تمُہارا آغا وقار تو پولیس کو وانٹڈ رہ چُکا ہے ۔ گُل خان نے میری
آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں دو سیکنڈ کی
خاموشی اختیار کی اور بولا "مُجھے تو ایک بات معلوم ہے صیب کہ آغا وقار کو میں وانٹتا ہوں میرے سارے
گھر والے وانٹتے ہیں اور پور ا پاکستان وانٹتا ہے"
گُل خان کی
انگریزی میری اور"میرا" کی
انگریزی سے شائد ایک دو درجے ہی کم معیار
کی ہوگی لیکن اُسکے "اقوال
"اقوال زریں کے ہم پلہ ہوتے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے بادل چھائے ہوئے تھے
گُل خان باہر سے آیا تو میں نے اُس سے
بارش کے بارے میں سوال کیا ۔ اُس کا جواب یہ تھا" صیب بارش تو پِچھلے دو گھنٹوں سے ہوتا جارہا ہے، کبھی تیز ہوجاتا ہے کبھی ڈِم ہوجاتاہے۔" گُل
خان کے اِس جواب پر سب خوب قہقہ لگا کر
ہنسے۔ اب
میرے ذہن میں پیدا ہونے والے سوال کا جواب تو کوئی مُفکر ہی دے سکتا ہے کہ دو زبانوں کے باہم قتل و غارت کا میدان
جو ہم نے گرم کر رکھا ہے اِس میں
نُقصان بھلا کِس زُبان کا زیادہ ہورہا ہے؟