Saturday 16 June 2012

ہائے ری بیجاری ہاکی اور کپتان کی ٹیم



ہمار ا قومی کھیل ہے ایک مرتبہ پھِرآئی سی یو وارڈ میں داخل کر لیا گیا ہے  سُننے میں آرہا ہے کہ زرداردی صاحب وزارتِ کھیل کی بجائے ہاکی  وزارتِ صحت کے حوالے کرنے کا سوچ رہے ہیں اور بہت جلد اِس بارے میں  صدارتی فرمان بھی جاری ہو جانے کی شُنید ہے۔ویسے ہمارے مُلک میں سُننے کو کُچھ بھی مِل  سکتا ہے اور ہونے کو کُچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ہاکی  کی گِرتی ہوئی  صحت پر  ہروہ پاکِستانی پریشان ہوتا ہے  جِسکی یادوں کے آڈیو ریکارڈ  خانے میں وہ آوازیں تواتر کے ساتھ محفوظ ہوتی رہی ہیں"حسن سردار ڈی میں ، ایک کھلاڑی کو ڈاج، دوسرے کو  دیا اور  گیند گول میں"  اور پھِر وہ   دور گیا  اب تو ہاکی کے ہمارے تمام خلیل خان مصنوعی ٹرف پر گو ل کرنے کی بجائے فاختائیں اُڑا تے نظر آتے ہیں۔

ہم تو پِچھلے  پندرہ سالوں سے کوئی پچیس تیس  پلیئرز ہی کو دیکھ رہے ہیں  جو ریٹائرمنٹ  کا اعلان کرتے ہیں اور پھِر  تین چار سال بعد ہری وردی پہنے  ہاکی گراونڈ  میں اللہ اکبر کا نعرہ بُلند کرتے نظر آتے ہیں۔ان پلئرز  کو جب ہاکی میں پیسہ نظرنہ  آیااور نہ کوئی جام شُہرت  نصیب ہوا تو ایجاد کی والدہ سے اُنہوں نے لیا  اِک مشورہ ۔اپنی ہاکیوں کے ہُک کو ایک کُنڈا تصور  کرتے ہوئےیورپی لیگز  میں کُنڈے فِٹ  کرنا شروع کر دئیے  کبھی ڈچ لیگ کبھی جرمن لیگ  ، سپینش لیگ اور اب توایک اور آگئی ہے غیر قانونی  بھارتی لیگ   جِس میں پاکِستان کے پانچ  پلئیرز نے  فیڈریشن  کی اجازت کے بغیر شِرکت کی نتیجتاً  فیڈریشن نے اُن پر پابند ی کا اعلان کردیا ۔ اور نئے لڑکوں  کے ساتھ ٹیم ملائشیا چلی گئی اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سزا یافتگان کی ہوئی واپسی   پھِر، نظر آئیں گے  لندن اولمپکس میں  یہی پلئرزپھِر۔اِس پھِر کی زیر کبھی پیش بن 
کر آن پڑی اوپر تو پھِر۔۔۔۔

پاکِستان  ہاکی سے تو اِن پلئیرز کو کو ئی سروکار  نہیں ہے ۔ گرین شرٹش تو یہ  صِرف  اولمپئینز بننے کے لئے  پہنی رکھتے ہیں ۔ہاکی کے ناقدین کہتے ہیں کہ  گراس روٹ لیول پر ہاکی  پھر سے شُروع کئے بغیر ہاکی میں بہتری کی توقع کرنا   خام خیالی ہے۔ اب بھلا  ان سمجھ داروں کو کون سمجھائے  کہ گراس کو لیول کرنا  کوئی آسان کام نہیں ہے اورپھِر خوامخواہ میں یہ کام کیا کیوں جائے جب گراس پر ہاکی کا دور گُزرے عشرے بیت گئےہیں۔بعض ناقدین کا  کہنا ہے کہ ہاکی کو سیاست کھاگئی ہے ۔یہاں پر بھی سیاست؟؟؟ یہ کلموئی سیاست بھلا دیمک کی کونسی قِسم ہے  کہ جو ہر چیز کو کھاجاتی ہے۔ جِس  اِدارے  کا بھی رُخ کرو پتہ چلتا ہے سیاست کھاگئی  بس ہر طرف ڈھانچے ہی ڈھانچے کھڑے ہیں  اندر سے ہر چیز کھوکھلی ہو چُکی ہے اور سُننے کو یہی مِلتا ہے  کہ سیاست کھاگئی ۔کِسی جرمن پیسٹسائد کمپنی نے بھی اس سیاسی  دیمک  کا  کوئی سپرے   تیار نہیں کیا ، ہاں البتہ ہٹلر  کُچھ دیر اور زِندہ رہتا تو شائد اس طرف کُچھ پیش رفت ہوتی  ۔ میں نے  اہلِ 
دانش سے سُن رکھا ہے کہ جمہوریت کا عِلاج مزید جمہوریت ہوتی ہے ۔ اِس فارمولے کو اگر سیاست پر  اِستعمال کیا جائے تو پھر سیاست کا عِلاج بھی مزید سیاست ہوئی  مطلب مزید سیاسی پارٹیاں مزید نئے چہرے ، مزید  سیاسی نمائندے ،مزید۔۔۔۔۔ میری اِن دیمکانہ باتوں پر اہلِ عِلم لوگ تو لاحول پڑہتے ہیں پر میں بھی کیا کروں مُجھے کِسی پیر صاحب کی بددُعا لگی ہوئی کہ بس اِسی طرح  کی باتیں سوجھتی ہیں۔

سیاست کے آسمان سے ہمارے کپتان جی کے ستارے کی چمک نے ہم تک پہنچنے میں سولہ سال لگائے۔کپتان جی  میرے مزید سیاست کے فلسفے کی اِک روشن مِثال ہیں۔ مگر کُچھ عرصے سے اُنہوں نے اپنی پارٹی کو  ایک  ہاکی  طرز کی سیاسی لیگ میں بدلنا شُروع کر دیا ہے۔اُنہوں نے اپنی جماعت میں بہت سے ہاکی پلئرز نما سیاست دان اکٹھے  کر لئے ہیں۔ یہ  سب سیاست دان بھی ہاکی پلئرز کی طرح اپنے کُنڈے مُختلف لیگوں میں اٹکائی رکھتے ہیں  کبھی  نون لیگ کبھی  ق لیگ کبھی  فلانی لیگ اور اب عِمران لیگ ۔۔خان صاحب کرکٹ کے بہت  بڑے پلئر رہ چُکے ہیں اور یقیناً   وہ ایک گیند پر تین وکٹیں لینے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ مگر اُن کو  ہاکی کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اِن کے یہ نئے ساتھی سیاست کو ہاکی کی طرح کھیلتے ہیں۔یعنی گیند لیکر ڈربل کرتے ہوئے بھاگنا ، دائیں دِکھا کر بائیں نِکلنا، صرِف خود گول کرنے کی کوشش کرنا، اپنے  ہی پلئیر کو جان بوجھ کر  غلط پاس دینا  ، جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر نا وغیرہ ، وغیرہ۔ اللہ کی پناہ ایسے سیاسی پلئرز سے  یہ تو بھاگتے  بھاگتے کِسی کے پیر میں گیند مار دیتے ہیں اور اگر امپائر کی نظریں کُچھ کمزوری دِکھائے تو  کِسی کے گھُٹنے میں ہاکی دے مارنے سے بھی نہیں چوکتے۔ خُد نخوستہ  اگر امپائر کی نظروں میں یہ حرکت آجائے تو مُڑ کر ایسے  معصومانہ انداز دیکھتے  ہیں جیسےجناب  ابھی ابھی تو بیت ُاللہ کے سات چکر پورے کر کے آئیں ہیں۔بھئی میری  رائے میں تو  اِن سیاسی کھلاڑیوں کو سمجھنے کے لئے  خان صاحب کو ہاکی میں  مہارت چاہئے۔ خان صاحب  کو تاحال ہاکی کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں  ہے مگر  اُن کا یہ نعرہ "نوے دِنوں میں کرپشن ختم کردوں گا " ہاکی بورڈ کی قوم کو دی ہوئیں تسلیوں سے کافی مماثلت رکھتا ہے ۔ جو  ہر گُزرنے والے ٹورنامنٹ پر بس ایک اعلان کر دیتے ہیں کہ  اگلے ٹورنامنٹ میں ہماری ٹیم وِکڑی سٹینڈ پر ضرور پہنچے  گی۔

یہ رام کہانی بیان کر نے کا میرا  مقصد  کپتان جی کویہ  باور کروانا ہے کہ اُن کے نئے ساتھیوں میں سے اکژ  چھاوں کے ساتھی  ہیں ،کڑی دھوپ کے ہمسفر بالکل بھی نہیں ہیں۔ یہ لوگ زیادہ    سے زیادہ چاندنی رات تک ساتھ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اندھیرے سے پہلے ہی یہ لوگ غائب ہونے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ کِسی کوٹھڑی کا اندھیرا اور اُس کے اندر موجود مچھر بڑے بڑوں کو ہیجڑہ بنا دیتے ہیں۔ خد ا نہ کرے کہ ہمارے کپتان پر وہ وقت   آئے۔ 

Thursday 7 June 2012

Khalil Jabran Aur Pity the Pak Nation



جبران خلیل  جبران اور پِٹی دی پاک نیشن
جسسٹس آصف سعید کھوسہ انتہائی   پُراثر شخصیت   کے مالک ہیں ۔  گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی اور پھرکوئنز کالج ،یونیورسٹی آف کیمبرج اور لنکنز اِن  جیسے اداروں  نےجسٹس صاحب کی خُدا داد صلاحیتوں کو نکھارنے میں  اہم  کردار ادا کیا ۔تعلیمی میدا ن  میں حاصل کئے ہوئےطلائی تمغے  جناب کو ایک نُمایا ں اور مُنفرد حیثیت عطا کرتے ہیں ۔ کھوسہ صاحب کی ذاتی لائبریری میں  قانون  کی ضخیم کتابوں  کے ساتھ ساتھ ادبی کتابیں بھی اک  تناسب کے ساتھ موجود ہیں۔  جسٹس کھوسہ نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ۔ قانون  کے میدان کو اپنی زِندگی کا بہت  بڑا حصہ دینے کے باوجود  ادب سے اِن کے  تعلق میں کوئی ضُعف نہیں آیا ۔ اپنے پُرانے ہم جماعتی اور آج کے وزیرِاعظم  کے توہینِ عدالت  کے مُقدمےمیں   جسٹس کھوسہ کا اِضافی نوٹ  اس بات کا واضح  ثبوت ہے۔ جِسمیں اُنہوں نے خلیل جبران  کی ایک نظم کو اپنے فِکر ی احساسات کے رنگ میں ڈھالا
قطع نظر اِس کے کہ  کھوسہ صاحب نے  اِضافی نوٹ میں  ادبی حوالہ   دیکر صحیح کیا یا غلط ۔ مُجھے  اُن کا یہ عمل اس طور لائق تحسین ضرور محسوس ہوتا  ہے  کہ اُنہوں نے  کولا ویری ڈی پر تھرکتی  ، سٹار پلس کے  قِسط وار ڈراموں میں غرق  ہو کر اپنی حسِ لطافت کو سیراب کرتی ہوئی  اس قوم کوادب کے ایک بڑے نام   سے مُتعارف  کروایا۔ ہر وہ شخص جِس کی نظریں اخباری خبروں پر کُچھ دیر ٹِکتی ہیں وہ آج خلیل جبران خلیل کی پِٹی دی نیشن کو پڑھ چُکا ہے انٹرنیٹ پر   نوجوان نسل کولا 
ویری ڈی طرز کے گانوں کے ساتھ ساتھ خلیل جبران کے مُتعلق کُچھ پڑہنےکے لئے بھی سرچ اِنجن  کا استعمال کرتی نظر آرہی ہے۔

میری اپنی  ایک   تخیلاتی دُنیا ہے جب اِس حقیقی دُنیا میں چاروں سو اندھیرا  پھیل جاتا ہے  ہے تو میں اس  دُنیا کی  دیوار پھلانگ کر اُس تخیلاتی دُنیا میں  پہنچ جاتا ہوں   جو  کہ صرف اور صرف میری ملکیت ہے ۔میری  ا ِس دُنیا  میں داخلے کا اختیار فقط میرے دِل کے پاس ہے  وہ جِسے چاہے ویزہ دے  اورکھینچ لائے ۔کبھی کِسی سیاست دان کو ، کبھی کِسی کھلاڑی کو ،تاریخ کے  کِسی بڑے نام کو یا پھرکوئی چھابڑی والا، کوئی موچی ، کوئی ترکھان  میرا  مہمان بن بیٹھے۔ پِچھلے کُچھ دِن سے  اس تخیلاتی دُنیا میں میری مُلاقات  1883 میں پیدا ہونے والے خلیل جبران خلیل سے ہو رہی ہے۔میری اُس سے بہت اچھی دوستی ہوگئی ہے۔وہ میرے ساتھ اُردو میں بات کرتا ہے مُجھے اپنی زِندگی کی کہانی سُناتا ہے۔ بچپن کے  اِنتہائی  مُشکل حالات میں جبکہ اُس کے باپ کو کرپشن پر سزا ہوتی ہے اور اُسکی کی تمام جائیداد  ضبط ہو جاتی ہے  جبران  کی ماں اپنے بچوں کو بوسٹن[امریکہ] لے جاتی ہے۔ وہاں اپنے بھائی کی مدد سےاپنے بچوں کی پرورش کے لئےلیس بیچنے کا کام شُروع کرتی ہے اور پھِر  ایک چھوٹا سا سٹور بنالیتی ہے ۔  خلیل جبران اپنی زندگی میں آنے والی بہت بڑی تبدیلی  کے مُتعلق بتاتا  ہے جب اُسکی آرٹ ٹیچر  تیرہ سال کے بچے میں موجودٹیلنٹ کو بھانپ کر اُسکی مُلاقا ت اُس دور کے مشہور  آرٹسٹ فریڈ ہالینڈ ڈے سے کرواتی ہے  جو کہ اُس  کے اندر مو جود  ادب  اور فنونِ لطیفہ  کی صلاحیتیں بھانپ جاتا ہے اور  کُچھ ہی عرصے بعد  اُسے  نیچرل جینئس قراددیتا ہے  اور  اُسکی راہنمائی کرتا ہے۔   اپنی علمی پیاس بُجھانے کے لئے جبران بیروت  کا سفر کرتا ہے  جہاں وہ مدرسۃالحکمہ سے عربی ادب  مِیں اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ ۱۹۰۲  میں اُسکی ماں  اور پھر بہن  مہلک بیماری کے باعث جہان ِفانی سے کوچ کر جاتیں ہیں ۔ اُسکی چھوٹی  بہن ماریانہ کپڑے  سی کر  گزُر  بسر کرتی ہے جبران  پھر سے اپنے  گُرو  ہالینڈ  ڈے  کی مدد لیتے  ہوئے  اپنے آرٹ ورک  کا آغاز کرتا ہے۔جبران  ایلیزببیتھ ہیسکل  جو کہ ہیسکل سکول فار گرلز کی مالکہ تھی  کا ذِکر انتہائی عقیدت و احترام سے کرتا ہے  ہیسکل  اپنے کیرئیر کے آخر میں کیمبرج سکو ل کی ہیڈ مسڑس  بنی ۔  وہ   نہ صرف خلیل جبران  کی  مالی معاون  رہی  بلکہ اُسکی  اگلے بیس سال  تک  انگریزی کی اُستادبھی  رہی۔ ہیسکل ہی کی فنڈنگ پر جبران   نے فرانس  جاکر   مُصوری اور ڈرائینگ کی  اعلی تعلیم حاصل کی ۔

جبران مُجھ سے   اپنی فلسفیانہ باتیں بھی کرتا ہے جو کہ مُجھ جیسے کم عقل کو بغیر چھوءے گُزر جاتی ہیں۔جبران بتاتا ہے کہ وہ  سلطنتِ عثمانیہ کی مُخالفت کیوں کرتا تھا۔ اُسکی باتوں سے عرب دُنیا کے لئے  مُحبت کی خوشبو آتی ۔ وہ میرونیٹ چرچ کے  بہت سخت کنٹرول کا  بھی شدید مُخالف تھا۔ خلیل جبران   اپنے لِکھے ہوئے مضامین کہانیوں  نظموں کا بھی ذِکر کرتا ہے جنہیں اہل دانش نے بہت سراہا۔ ہےاُسکی کی  نظم سپرٹ ریبلیس جو کہ ۱۹۰۸ میں شائع ہوئی  جس کے  بعد  خلیل جبران کو ایک ریفارمسٹ  کے طور پر پہچانا جانے لگا تھا۔  خلیل جبران اپنی چھپنے والی کِتابوں   اور زِندگی کےآخری دور کاذکر بھی کرتا ہےجب   جِگر کے  کینسر نے اُس  کی زندگی کا انتہائی بیدردی سے  خاتمہ کرڈالا۔وہ 1931کا سال تھا جب  اس مشہور لِبنانی ادیب اور آرٹسٹ نے  اِس جہانِ فانی کو خیر آباد کہا۔  اُسے تمام  عرب  دُنیا میں عزت کی نگا ہ سے دیکھا  جاتا ہے۔خلیل جبران اپنی روداد سُنا نے کے ساتھ ساتھ مُجھ سے میرے مُلک کے حالات و واقعات،  رہن سہن اور تاریخ کے بارے میں پوچھتا  جاتا ہے  ۔ وہ میرے مُلک کے  سیاسی حالات  کے بابت   بھی بہت سے سوالات کرتا ہے۔ میں  ان سوالات کے تفصیلی جوابات   دیتا ہوں  ۔ وہ  میری  بھرائی   ہوئی آواز کا دُکھ محسوس کرتا ہے اس دوران اُس کی  آنکھوں میں اُمڈ آنے ولاے آنسو میں صاف  دیکھ سکتا ہوں۔ میں خلیل جبران سے "پِٹی دی نیشن"  ترنم کے ساتھ  سُنانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہوں ہو میری خواہش کا احترام کرتا ہے اور اس خوبصورت نظم کو اپنے انداز میں اِس ترنم کے ساتھ پڑہتا ہے کہ  مُجھے  حبیب جالب کی یاد آجاتی ہے۔


 Pity the nation that is full of beliefs and empty of religion.
قابل رحم ہے ہو قوم  جِس کے پاس عقیدے تو بہت ہوں مگر پقین سے خالی ہو
Pity the nation that wears a cloth it does not weave,
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو ایسے کپڑے پہنتی ہو جِو اُس نے خود نہ بُنے ہوں
eats a bread it does not harvest,
روٹی وہ کھائے جو کہ اُس نے خود نہ اُگائی
and drinks a wine that flows not from its own wine-press.
دوسروں کی کشیدہ شراب سے لُطف اندوز ہوتی ہو
Pity the nation that acclaims the bully as hero,
قابل رحم ہے وہ قوم جو باتیں بنانے والے کو اپنا سب کُچھ سمجھ لیتی ہو
and that deems the glittering conqueror bountiful.
اور چمکتی ہوئی تلوار سے بنے ٹھنے فاتح کو اپنا سب کُچھ سمجھ لیتی ہو
Pity a nation that despises a passion in its dream,
قابل رحم ہے وہ قوم جو بظاہر خواب کے عالم میں ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہو
yet submits in its awakening.
لیکن عالم بیدااری میں مُفاد پرستی کو اپنا شُعار بنا لیتی ہو
Pity the nation that raises not its voice
قابل رحم ہے وہ قوم جو  نہیں اُٹھاتی  آواز
save when it walks in a funeral,
سوائے اس کے کہ جب وہ کِسی جنازے کے جلوس میں ہو
boasts not except among its ruins,
اور ماضی کی یادوں کے سِوا اُس کے پاس فخر کرنے کو کُچھ نہ ہو
and will rebel not save when its neck is laid
اور اُس وقت تک حالات کےخلاف احتجاج نہیں کرتی
between the sword and the block.
جب تک اُس کی گردن عین تلوار کے نیچے نہیں آجاتی
Pity the nation, whose statesman is a fox,
قابل رحم ہے وہ قوم جِس کے سیاست دان لومڑی کی طرح مکار ہوں
whose philosopher is a juggler,
اور جِس کے فلاسفر محض شعبدہ باز
and whose art is the art of patching and mimicking.
اور جس کا آرٹ مداری کا کرتب ہو
Pity the nation that welcomes its new ruler with trumpeting,
افسوس اُس قوم پر جو اپنے نئے حُکمران کو ڈھول کی تھاپ پر خوش آمدید کہتی ہے
and farewells him with hooting,
اور اُس کے جانے پر آوازے کستی ہے
only to welcome another with trumpeting again.
محظ اس لئے کہ آنے والے حُکمران کا پھر سے پُرتپاک استقبال کر سکیں
Pity the nation whose sages are dumb with years
جِس کے اہل دانش وقت کےساتھ ساتھ گونگے بہرے ہوگئے ہوں
and whose strong men are yet in the cradle.
اور جِس کے مضبوط لوگوں کے ہاتھ بندھے ہوں
Pity the nation divided into fragments,
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو کہ فِرقوں میں بٹی ہو
each fragment deeming itself a nation
اور ہر فِرقہ خود کو ایک الگ قوم تصور کرتا ہو

خلیل جبران مُجھ سے جسٹس کھوسہ کے بارے میں بھی سوال کرتا ہے وہ  اُن کے اِضافی  نوٹ کی بھی تعریف کرتا ہےوہ مُجھ سے پاکستان کے حالات سُن کر خاص طور اپنی نظم میں کُچھ اِضافہ کر کے سُناتا ہے۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم  جو دُنیا کی ہر آشائش کو حاصل کرنا  چاہتی ہے مگر  ہر چیزغیروں کی بنی  ہوئی  موبائل سے لیکر گاڑی تک
قابلِ رحم ہے وہ قوم  جس کی اصل طاقت  زراعت ہو  مگر اُس کا کِسان اپنے تن پر اچھے کپڑے پہننے کی بھی  سکت  نہ رکھتا ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم  کہ جِس کا امیر اپنے عالیشان گھر  میں چین کی ٹھنڈی  نیند سوئے اور غریب ،دو وقت کی روٹی کے لئے  مارا مارا پھرے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو    قانون   کو فقط کاغذی کاروائی سے زیادہ کوئی اہمیت نہ دے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے مذہب نے حقیقی معنوں میں دُنیا سے   بُت پرستی  اور شخصیت پرستی  کو ختم کیا ہو مگر وہ قوم   شخصیت پرستی   کے اندھے کنویں میں اوندھی  پڑی ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم    کہ جِس کے مُنصف  اُس وقت انصاف کریں جبکہ وہ بے معنی ہو جائے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو بیوپاریوں کے ہاتھ میں عنان حکومت تھما دے اور اُنہِی رہزنوں کو رھبر جانے
قابل رحم ہے وہ قوم جو لاکھوں انسانوں  کا خون دیکر اپنی سرحدوں کا تعین کرے مگر پھِر چند سو بندوق والوں سے یرغمال بن جائے جوپوری قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے پھِریں
قابل رحم ہے وہ قوم جوعِلم والوں کی عزت نہ کرے،  تعلیمی اداروں میں نقل اور غُنڈہ گردی عام ہو  اِن  اِداروں میں  مذہبی اقدار کی پاسداری پر تو زور  دیا جائے  مگرتعلیمی میدان میں  کوئی مُسلمہ مقام حاصِل کرنا کبھی بھی اِن کی ترجیح نہ رہی ہو۔
قابل رحم ہے وہ قوم جس کے حُکمران   سرعام اپنی ہی  قوم کے افراد کو قتل کرنے والے کرائے کے جاسوس کو عِبرت کا نشان بنانے کی بجائے چھوڑ دیں اور وہ ااٹھارہ کروڑ   اِنسان پھر بھی محض  ہجوم  ہی بنے رہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم  جِس کے حُکمران  محظ پیسوں کی خاطرغیروں کو  اپنے ہی لوگوں پر بم برسانے کا پرمٹ دے دیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو صرف آدھا سچ بولے  اوراُسی آدھے سچ کو کُل حقیقت جانے
اور اختلاف کرنے والوں پر غداری یا کُفر کاٹھپہ  جڑ دے
قابل ِ رحم ہے وہ قوم جو ساٹھ سال میں درجن بھر  تجربے کرنے کے باوجود اِک  واضح سیاسی نظام وضع نہ کرپائے۔
قابلِ رحم ہیں  اُس خطے کے باسی  جہاں ڈاکٹرملک غُلام مُرتضی ، حکیم سعید،مولانا سرفراز نعیمی ،مولانا  اسلم شیخوپوری اور ڈاکٹر فاروق جیسے امن کے داعی  عالموں کو  قتل کردیا جائے اور اِس سازش کا توڑ کرنے کے   لئے پھر بھی وہ لوگ مُتحد نہ ہو۔
آج صُبح  میں اپنی جاگیر سے  ہوتا ہوا اس حقیقی دُنیا میں واپس لوٹا  تو سوچنے لگا کہ  خلیل جبران  نے جو کُچھ بھی پاکِستان کے مُتعلق کہا شائدوہ  میرےدِماغ کی اپنی اختراع ہو۔مگر پھر اِک  معصوم  سی خواہش نے دِل میں  اِک انگڑائی سی  لی  ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خلیل جبران آج کے دور میں ہمارے درمیان موجود  ہوتا  ۔ وہ اپنی   پُر اثرشاعری اور مضامین  کے ذریعے   ہماری کمیوں کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا ہماری فِکری اصلاح   کا  سبب ،،،مگریہ کولا ویری ڈی پر تھرکتی  ، سٹار پلس کے  قِسط وار ڈراموں میں غرق  ہوکر ، اپنی حسِ لطافت کو سیراب کرتی ہوئی  اس قوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔